’’دنیا ایک میدانِ کارزار ہے اور جس چیز کو تم عمل کہتے ہو دراصل یہ ایک حریفانہ کشمکش اور مقابلہ ہے۔ پس جس طرح جنگ میں رہنے والے سپاہیوں کو فتح و شکست سے چارہ نہیں، وہ کبھی زخمی کرتے ہیں اور کبھی خود زخمی ہوتے ہیں، اسی طرح دنیا میں بھی جو مخلوق بستی ہے اُسے کامیابی اور ناکامی، فیروزمندی و نامرادی سے چارہ نہیں۔ کیا ضروری ہے کہ ہمیشہ ہماری ہی تلوار اور دشمن کی گردن ہو؟ کیوں نا ہم اپنے سرد سینے میں بھی زخم کے نشان پائیں؟ بستر پر آرام کرنے والوں کو رونا چاہیے کہ پائوں میں کانٹا چبھ گیا، لیکن سپاہی کو زخموں پر زخم کھاکر بھی اُف نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اس کی جگہ بستر نہیں، میدانِ جنگ ہے۔ شکست و زخم کا خوف ہے تو میدانِ جنگ میں قدم ہی نہ رکھو، اور تلووں کو بچانا چاہتے ہو تو تمہارے لیے بہتر جگہ پھولوں کی سیج ہے۔ چلوگے تو ٹھوکر کھائوگے اور لڑوگے تو زخم سے چارہ نہیں۔ پس اگر ٹھوکر لگی ہے تو آنکھیں کھولو اور بیٹھ کر رونے کی جگہ تیزی سے چلو، کیونکہ جتنی دیر بیٹھ کر تم نے اپنا گھٹنا سہلایا اتنی دیر میں قافلہ اور دور نکل گیا۔ پھر اگر دشمن کی کاٹ نے زخمی کیا ہے تو بھاگتے کیوں ہو؟ مایوسی خودکشی ہے اور امید زندگی، اور زیادہ چابک دستی سے پیکارو جنگ کے لیے تیار ہوجائو کیونکہ جب تک دوسروں کو زخمی کرتے تھے زیادہ ہمت مطلوب نہ تھی، لیکن زخم کھاکر تم نے معلوم کرلیا کہ دشمن توقع سے زیادہ قوی ہے اور اب پہلے سے زیادہ صحت اور مستعدی مطلوب ہے‘‘۔
(ابوالکلام آزاد)