بڑھتی ہوئی دہشت گردی ،قومی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے!

پاکستان ایک دفعہ پھر دہشت گردی اور تخریب کاری کی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے، خصوصاً بلوچستان کی سرزمین دشمن کے نشانے پر ہے۔ اسلام آباد، کراچی، پشاور اور لاہور میں دہشت گردی کی وارداتوں کے بعد اب بلوچستان میں پے در پے دہشت گردی اور خصوصاً وطنِ عزیز کی پاک سرزمین کے دفاع پر متعین مسلح افواج کے دستوں پر حملوں کی اطلاعات تسلسل سے منظرعام پر آرہی ہیں۔ گزشتہ دنوں نوشکی اور پنجگور کا واقعہ ملک دشمنوں کے بڑھتے ہوئے حوصلوں کی نشاندہی کررہا ہے۔ اس واقعے میں ایف سی ہیڈ کوارٹرز کو براہِ راست نشانہ بنایا گیا ہے۔ قبل ازیں کیچ میں دہشت گردی کی کارروائی بھی ایسی نہیں تھی کہ جسے آسانی سے نظرانداز کردیا جائے، مگر نوشکی اور پنجگور کے واقعات کا یہ پہلو بھی تشویش ناک ہے کہ ان واقعات میں استعمال کیا جانے والا جدید ترین اسلحہ قبل ازیں پاکستان میں ہونے والی وارداتوں میں کبھی استعمال نہیں ہوا۔ یہ وہی اسلحہ ہے جو امریکی افواج افغانستان میں استعمال کرتی رہی ہیں۔ یہ سوال اہم ہے کہ یہ اسلحہ دہشت گردوں تک کیسے پہنچا؟ ممکن ہے امریکی فوج جاتے ہوئے یہ اسلحہ افغان سرزمین پر چھوڑ گئی ہو، جو دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گیا ہو، اس امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ امریکہ بہادر خود جاتے جاتے یہ ہتھیار پاکستان دشمنوں کو تحفے میں دے گیا ہو۔ ان دونوں امکانات سے بھی زیادہ قرین قیاس بات یہ ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل یہ ہتھیار بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی وساطت سے اُس کے آلۂ کار تخریب کاروں کو فراہم کیے گئے ہوں، کیوں کہ جس مہارت سے تخریب کاروں نے ان ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دہشت گردوں کو ان ہتھیاروں کے استعمال کی اچھی طرح تربیت دی گئی تھی، اور یہ یقین کرنے کے لیے دلائل کی ضرورت نہیں کہ یہ کام ’’را‘‘ اور بھارتی فوج کے سوا کوئی نہیں کرسکتا، کیونکہ افغانستان میں قائم کیے گئے درجنوں بھارتی سفارتی مراکز میں کیا کچھ کیا جاتا تھا یہ اب کوئی راز نہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ ان مراکز میں سفارتی سرگرمیوں کی آڑ میں پاکستان کے خلاف تخریبی کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور تربیت ہی اصل مقصد تھا۔ حکومتِ پاکستان اور ریاستی اداروں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ انتہائی خوفناک حالیہ کارروائیوں میں جدید ترین امریکی اسلحہ کے استعمال کا معاملہ امریکی حکام کے سامنے بھی اٹھائیں اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار بھارت کا منافقانہ کردار اور دہشت گردوں کی تربیت و سرپرستی پر اُس کا حقیقی چہرہ عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری کے سامنے بے نقاب کیا جائے۔
افغانستان سے یک محوری دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کی ذلت آمیز شکست اور اس کی افواج کی ناکام و نامراد واپسی، اور وہاں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ اس جانب سے آنے والے گرم ہوا کے جھونکوں اور لو کے تھپیڑوں سے اہلِ پاکستان کو نجات مل جائے گی اور وہ سکون کا سانس لے سکیں گے، نئی افغان حکومت کے وزراء کی جانب سے ایک سے زائد بار اس امر کا اعادہ کیا گیا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی، اس حکومت کی وساطت سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور پاکستانی حکام کے مابین ایک معاہدہ طے بھی پایا جس کے دوران پاک سرزمین بڑی حد تک دہشت گردانہ کارروائیوں سے محفوظ رہی، مگر بدقسمتی سے فریقین کے مابین اعتماد کی فضا زیادہ عرصے تک قائم نہ رہ سکی اور اس جنگ بندی معاہدے میں توسیع کی نوبت نہ آسکی، یوں پاکستان ایک بار پھر دہشت گردانہ سرگرمیوں کے نرغے میں آچکا ہے۔ اگرچہ ان سرگرمیوں کا مرکز بلوچستان رہا ہے، اور ان کارروائیوں میں زیادہ تر بلوچ قوم پرست تنظیمیں اور علیحدگی پسند عناصر ہی ملوث پائے گئے ہیں جن کو حاصل بھارت کی سرپرستی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، تاہم یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ان سرگرمیوں میں ٹی ٹی پی کا تعاون بھی خارج از امکان نہیں۔ اس ضمن میں ہمیں افغانستان کی طالبان حکومت سے زیادہ توقعات رکھنے اور اس سے گلے شکووں کے بجائے اپنے دفاع کو مضبوط سے مضبوط تر اور اپنی سرحدوں کے تحفظ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے۔ دہشت گردی اندرونِ ملک سہولت کاروں اور مخبروں کی اعانت کے بغیر جاری نہیں رہ سکی۔ قومی سلامتی کے اداروں کو ایسے عناصر پر بھی کڑی نگاہ رکھنا ہوگی اور ان کے قلع قمع اور عبرت ناک سزائوں کو یقینی بنانا ہوگا۔
یہ امر اطمینان بخش ہے کہ پوری قوم پاک سرزمین کو دہشت گردی اور تخریبی سرگرمیوں سے پاک کرنے پر متفق و متحد ہے، ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے خود بلوچستان پہنچ کر ہر صورت خطے کو محفوظ بنانے اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے سامنے بند باندھنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کے عزائم کا اظہار کیا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ان عزائم میں کامیابی سے ہم کنار کرے، تاہم اس ضمن میں بہتر نتائج کے لیے مناسب ہوگا کہ حکومت اور عسکری ادارے ملک کی قومی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینے کا اہتمام بھی کریں۔
(حامد ریاض ڈوگر)