ترکی جو میں نے دیکھا

کتاب
:
ترکی جو میں نے دیکھا
(سفر نامہ)
مصنف
:
ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم
ضخامت
:
192 صفحات قیمت:500 روپے
پبلشر
:
مثال پبلشرز، رحیم سینٹر۔ پریس مارکیٹ، امین پور بازار۔ فیصل آباد
رابطہ
:
041-2615359
0300-6668284
برقی پتا
:
misaalpb@gmail.com

’’ترکی جو میں نے دیکھا‘‘ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے مصنف کے ترکی کے سفر کی روداد ہے۔ یہ کتابی صورت میں سامنے آنے سے قبل روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں قسط وار شائع ہوچکی ہے، تاہم 19 صفحات پر محیط جامع اور سیر حاصل ابتدائیہ جسے مصنف نے ’’حدیث الروح‘‘ (دل کی بات) کے نام سے تحریر کیا ہے، کتاب ہی کے لیے تحریر کیا گیا ہے جو ’’جسارت‘‘ میں سفرنامے کا مطالعہ کرچکنے والوں کے لیے بھی نئی اور خاصے کی چیز ہے، جس میں وہ صورتِ احوالِ واقعی یا شاید اظہارِانکسار کے طور پر رقم طراز ہیں:
’’میں عادی مسافر ہوں نہ پیشہ ور سفرنامہ نگار، نہ مصنف، نہ ادیب، نہ مؤرخ، نہ عالم، نہ دانش ور… سفر سے گھبراتا اور بھاگتا ہوں۔ اس سفر پر بھی دھکیلا گیا۔ لہٰذا اس سفرنامے کو ایک پختہ قلم کار اور کہنہ مشق ادیب کے پیمانے اور معیار کے ترازو میں نہ پرکھیے، تولیے گا۔ یہ ایک ’’جبری مسافر‘‘ کا سیدھا سادا سا، آسان لفظوں میں بیان کیا جانے والا، سطحی اور عام معلومات پر مشتمل سفرنامہ یا رودادِ سفر ہے۔ ایک عام مسافر کا عام سا سفرنامہ، ایک خوب صورت، مہذب، محفوظ، ترقی یافتہ، عظمت ِ رفتہ کے شاہد و امین اور جدید عصری تقاضوں کا ادراک رکھنے والے ملک و قوم کے مطالعے و مشاہدے کی مختصر داستان ہے۔ یہ ایسے ملک و قوم سے آگہی کی داستان ہے جہاں وقار، اخلاق، کردار، قانون پسندی، امن و سکون، باہمی تعاون، ایک متحد و منظم قوم کے تاثر ہر سو پھیلے ہوئے اور ہر عکس و خیال پر مرتسم و نمایاں ہیں۔ جہاں نہ سیاسی ہلڑ پن ہے، نہ مذہبی تنفر و تشدد، نہ گھیرائو جلائو، نہ دشمنی کی حد کو پہنچا ہوا سیاسی و مذہبی اختلاف، نہ کسی کے لباس سے دین کو مسئلہ، نہ چال ڈھال سے ایمان شکنی کے اندیشے، نہ ملک کو کوئی خطرہ، نہ سیاست کو کوئی اندیشہ، نہ قومی و ملّی سلامتی کو قدم قدم پر تحفظ کی ضرورت، نہ عقیدہ و عمل کی سلامتی اور نہ رواداری کو غیر معمولی تحفظ کی ضرورت۔ ہر شخص کی ساری انگلیاں دوسروں کی اصلاح و تنقید و تہذیب کے بجائے اپنی اصلاح و سلامتی کی طرف اٹھتی ہوئی۔ بلاشبہ جہاں کسی کو نہ جسم و جاں کا ڈر ہے، نہ معاشی و معاشرتی الجھنوں کا سامنا، نہ کردار پر کسی کی انگلی کا خوف۔ ایسے معصوم مسافر اور سیاح جو اپنے اردگرد کے سیاسی، سماجی، معاشی اور مذہبی تشدد اور نفرت سے گھبرائے ہوئے ہوں، گوشۂ عافیت کے متلاشی اور سکون و راحت ِ جسم و جاں اور روح کی طراوت کے متمنی ہوں، جو اپنی عصمت، آبرو، اخلاق و کردار کے حوالے سے بہت محتاط ہوں، سلامتیِ فکر و عمل کے بارے میں فکرمند ہوں اور محدود وسائل کے مالک۔ قدامت و جدت کے حسین امتزاج کے طلبگار ہوں، آباء و اجداد کے کارناموں پر فخر محسوس کرتے ہوں اور اپنے عہدِ زریں، تابناک ماضی سے مربوط رہنے کے خواہاں ہوں، وہ پورے اعتماد اور سکون کے ساتھ ’’ترکی‘‘ کے سفر پر روانہ ہوجائیں۔ یہ سفرنامہ ان ہی معصوم خواہشات رکھنے والوں کے لیے ضرور انگیخت کا کام دے گا۔ مجھے اس سفرنامے میں نہ ادبی چاشنی کا دعویٰ ہے، نہ معلوماتِ کاملہ اور تاریخ عابرہ پر مکمل گرفت کا، نہ ان کی گہرائی و یک جائی اور مکمل احاطے اور بغور مطالعے اور مشاہدے اور تجزیے کی صلاحیت و قدرت کا۔ مگر یہ ضرور ہے کہ میں نے اپنی صلاحیت، استطاعت اور بصیرت و بصارت کے مطابق ہر منظر، مقام اور ماحول کو اپنی ہی نظر سے دیکھا، محسوس کیا، لطف اٹھایا اور مطالعہ و مشاہدہ کیا ہے۔‘‘
کتاب کا انتساب مصنف نے اپنی شریکِ حیات پروفیسر فاخرہ اعجاز جو اُن کی شریکِ سفر بھی تھیں، فرزندِ ارجمند انس اعجاز، اور عظیم الشان ترک مساجد بالخصوص آیا صوفیہ کے نام کیا ہے، جنہیں وہ عظمت و سطوتِ اسلام کی شاندار دلیلِ نو تصور کرتے ہیں۔ آغازِ سفر سے تکمیلِ سفر اور مشاہداتی تجزیے سمیت کتاب کو 25 ابواب میں،اور ہر باب کو مختصر مختصر ذیلی عنوانات کے تحت تقسیم کرکے قاری کی دلچسپی برقرار رکھنے کا سامان کیا گیا ہے۔ سفرنامہ محض تفریح اور تفننِ طبع ہی کا سامان نہیں بلکہ معلومات کا خاصا ذخیرہ بھی اپنے قارئین کو فراہم کرتا ہے۔ استبول کے ہوائی مستقر پر اپنے مشاہدات بیان کرنے کے بعد وہ اپنے قاری کو آگاہ کرتے ہیں کہ: ’’استنبول میں ایک اور ایئرپورٹ اتاترک ایئرپورٹ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ جدید ایئرپورٹ 12 ارب ڈالر کی لاگت سے 2011ء میں شروع ہوکر اکتوبر 2018ء میں پایۂ تکمیل تک پہنچا۔ جدید ترکی کی 95 ویں سالگرہ پر صدر طیب اردوان نے اس کا افتتاح کیا۔ انتہائی جدید سہولیات اور سسٹم سے آراستہ و پیراستہ اس ایئرپورٹ پر سالانہ 20 کروڑ مسافروں کی گنجائش ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 2028ء تک یہ دنیا کا سب سے بڑا اور مصروف ترین ایئرپورٹ شمار ہوگا۔ یہاں 9 ہزار سی سی ٹی وی کیمرے اور فائبر آپٹک سنسر کے ساتھ ہر 720 میٹر پر تھرمل کیمرے نصب ہیں، جب کہ ان کے علاوہ بھی مخصوص طرز اور فوائد کے حامل کیمرے ہر 260 میٹر کے بعد موجود ہیں۔ گرائونڈ راڈارزبھی بڑی تعداد میں کام کرتے ہیں۔ سیکورٹی کے لیے 3500 افراد کے علاوہ 850 پولیس آفیسرز بھی تعینات ہیں۔ سیکورٹی، صفائی، راہنمائی، فنی معاونت اور متعدد کائونٹرز پر لاتعداد عملہ اس پر مستزاد ہے۔‘‘ چند سطور آگے چل کر وہ وطن عزیز سے متعلق اپنے احساسِ محرومی کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’اس ایئرپورٹ پر دنیا کی ہر ایئرلائن بشمول انڈیا و اسرائیل کی ہزاروں پروازیں آتی جاتی ہیں۔ کئی جہازوں کے بیک وقت لینڈنگ اور ٹیک آف کے مناظر واقعی ششدر کردیتے ہیں۔ گزشتہ سال یعنی 2020ء کی پہلی شش ماہی میں یہاں چھیانوے ہزار سے زائد پروازیں آپریٹ کی گئیں اور لگ بھگ ساڑھے بارہ ملین مسافروں نے سفر کیا۔ اس کے رن ویز پر بیک وقت 500 جہازوں کے کھڑے ہونے کی گنجائش ہے۔ ہائے! ان پانچ سو جہازوں میں نہیں تھا تو کوئی پاکستانی جہاز نہیں تھا، ہماری نظریں اسے تلاش کرتی رہیں۔ باقیوں سے ہمارا نہ کچھ لینا تھا، نہ دینا۔‘‘’’ترکی جو میں نے دیکھا‘‘ میں ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم نے ترک تاریخ کے بیمار، مفلوج اور دل فگار پہلوئوں کے ساتھ ساتھ جدید ترکی کے نقوش و آثار بھی بخوبی نمایاں کیے ہیں اور اپنی بات کو اس مصرعے پر ختم کیا ہے کہ ’’ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ‘‘… کتاب کے آخری باب ’’ترکی۔ مشاہداتی تجزیہ‘‘ میں انہوں نے مختصراً سلطنتِ عثمانیہ کے عروج و زوال، اتاترک کی مسلط کردہ جدت و لادینیت، فکرِ اسلامی کی بقا و احیاء کی ستّر سالہ خفیہ و اعلانیہ جدوجہد، اس میں نجم الدین اربکان اور ان کے ساتھیوں کے کردار، حکمت عملی اور صبر و ثبات کے مختلف مراحل اور رجب طیب اردوان کی زیر قیادت آج کے ترکی میں تعمیر و ترقی کی سرگرمیوں اور اسلامی شعائر کی جانب ٹھوس پیش رفت کا مدبرانہ جائزہ لیا ہے اور توقع ظاہر کی ہے کہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی پیشگوئی اور علامہ اقبالؒ کی نوید کے مطابق ترکی سے طلوع ہونے والے سورج کی روشنی چہار دانگ عالم میں پھیلے گی اور سارا جہاں نغمۂ توحید سے ضرور معمور ہوگا، اِن شاء اللہ۔
کتاب کا کاغذ، طباعت و اشاعت اور حروف خوانی کا معیار نہایت اعلیٰ ہے، رنگین سرورق مضبوط جلد کے ساتھ گرد پوش سے آراستہ ہے، قیمت بھی گرانی کے موجودہ دور میں بہت معقول رکھی گئی ہے، تاہم خوبیوں کے مرقع اس سفرنامے کو اگر جدید ترکی کے تاریخی اور قابلِ دید مقامات کی تصاویر سے مرصّع کردیا جاتا تو اس کی افادیت دوچند ہوجاتی۔ اگرچہ کتاب کے سرورق اور پس ورق پر مصنف کی مختلف مقامات پر تین درجن کے قریب رنگین تصاویر موجود ہیں، مگر یہ اتنی مختصر ہیں کہ قاری کی تشفی نہیں ہوتی اور لفظی تصاویر کا چشم تصور سے احاطہ کرتے ہوئے عکسی تصاویر کی ضرورت کا احساس شدت اختیار کرجاتا ہے۔