بلدیاتی قانون کے خلاف دھرنے کا پس منظر اور پیش منظر امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کی زبانی
پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کہلانے والا کراچی، اور کراچی کے مظلوم عوام تاریخی طور پر مشکلات اور تکالیف کا شکار ہیں۔ یہ شہر مسائل کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ اس شہر اور اس میں رہنے والوں کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ حکمرانوں نے اس شہر کو لاوارث اور تنہا کیا ہوا ہے، اور یہاں روزانہ ایک نیا تماشا ہوتا ہے۔
اس وقت کراچی بدحال ہے، اور پیپلز پارٹی کراچی کے تمام اداروں اور وسائل پر قبضہ کرنے کے ایجنڈے پر گامزن ہے، اور اس نے اسی ہدف کے مطابق بلدیاتی قانون میں ترامیم کے بعد جو بل سندھ اسمبلی سے منظور کرایا ہے، اُس میں بلدیاتی اداروں کے کئی محکمے اپنے ماتحت کرلیے، جس کے خلاف جماعت اسلامی نے بھرپور احتجاج کیا اور سندھ اسمبلی کے سامنے 29دن دھرنا دیا، اور بالآخر سندھ حکومت نے مذاکرات کیے اور جماعت اسلامی کے مطالبات کو تسلیم کیا۔
طویل مذاکرات کے بعد دونوں کے درمیان ایک تفصیلی تحریری معاہدہ ہوا۔ ہم نے اس معاہدے کے پس منظر میں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن سے تفصیلی گفتگو کی ہے جس میں کئی اہم باتیں ہیں جو یقیناً قارئین کے لیے دلچسپ اور معلومات افزا ہوگی۔
سوال: کراچی میں جماعت اسلامی کی پہلی طویل پُرامن مزاحمت کا تجربہ کیسا رہا؟
حافظ نعیم الرحمٰن:۔ میرا خیال ہے بہت ہی زبردست تجربہ رہا اور بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا، اور یہ معلوم ہوا کہ جماعت اسلامی میں کتنا پوٹینشل موجود ہے، اور ہمارے کارکن بخوبی اور زبردست صلاحیت کے ساتھ لوگوں کی امید بن سکتے ہیں۔
سوال: آخر کراچی کی کیا اہمیت ہے جس کے لیے جماعت اسلامی جدوجہد کررہی ہے؟
حافظ نعیم الرحمٰن: کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی، تجارتی اور اقتصادی مرکز ہے۔ کراچی کا شمار دنیا کے چند بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس کی آبادی تین اور ساڑھے تین کروڑ کے درمیان ہے۔ اس لحاظ سے کراچی ٹوکیو اور دہلی کے بعد دنیا کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ شہر دنیا کے دو سو میں سے ڈیڑھ سو ممالک سے بھی بڑا ہے۔
اس شہر میں دو بندرگاہیں بھی ہیں۔ کراچی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی کُل برآمدات میں صرف کراچی شہر کا حصہ 50فیصد ہے، جبکہ یہ شہر پاکستان کے کُل ریونیو کا 56 فیصد اور صوبہ سندھ کے کُل ریونیو کا 96 فیصد جمع کرکے دیتا ہے۔ کراچی میں پاکستان کے ہر علاقے، زبان، قومیت اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد رہتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی کُل آبادی کا 15فیصد کراچی میں رہتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کراچی پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے جس کی ترقی اور خوشحالی میں پورے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی پنہاں ہے۔ تاہم ایک لمبے عرصے سے کراچی کے ساتھ اس کی اہمیت کے مطابق سلوک نہیں کیا جارہا۔
کراچی میں بے شمار مسائل ہیں جن میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر، سیوریج کا ناقص نظام، پانی کی عدم فراہمی، بجلی اور گیس کے مسائل، ناقص سڑکیں، مہنگی تعلیم، صحت کی ناکافی سہولیات، ہائوسنگ اور ٹرانسپورٹ کے مسائل سرفہرست ہیں۔ ہم ان مسائل کے حل کے لیے انتھک جدوجہد کرتے رہے ہیں، ہر سطح اور ہر فورم پر بڑی بے جگری سے کراچی کا مقدمہ پیش کیا ہے اور اس کی پیروی کی ہے۔
سوال: آپ کے مطالبات میں سے کتنے منظور ہوئے اور مزید مطالبات کے منظور ہونے کے کیا امکانات ہیں، اور اس کی کیا تفصیلات ہیں؟
حافظ نعیم الرحمٰن: جی، یہ ایک طویل جدوجہد اور مزاحمت تھی۔ کراچی اپنے اصل کی طرف لوٹ رہا ہے۔ 29روزہ دھرنے، پُرامن جدوجہد، مستقل مزاجی، نظم و ضبط اور مرد و خواتین، بچوں، بوڑھوں، نوجوانوں… ہر شعبہ زندگی اور مختلف طبقات سے وابستہ افراد اور عوام کی بھرپور شرکت نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اور کراچی کے مایوس لوگوں کو امید کا پیغام دیا ہے۔
26 نومبر 2021ء کو جب سندھ حکومت نے اسمبلی سے لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل 2021 منظور کرایا اور کراچی کے بچے کھچے اختیارات صوبائی حکومت نے اپنے ہاتھ میں لیے تو اس کے خلاف ہم نے آواز اٹھائی اور اس کالے قانون کو منسوخ کرانے کے لیے سندھ اسمبلی کے باہر دھرنا دینے کا اعلان کیا، اور 31 دسمبر کو کراچی کے شہریوں کی بڑی تعداد کے ساتھ سندھ اسمبلی کے باہر جاکر بیٹھ گئے۔
اس دوران شدید سردی، موسلا دھار بارش اور طوفانی ہوائیں بھی لوگوں کے عزم و حوصلے کو نہیں جھکا سکیں۔ پورے پاکستان نے دیکھا کہ جماعت اسلامی کی کال پر کراچی کے شہری پُرامن طور پر سندھ اسمبلی کے باہر بیٹھے رہے۔ بالآخر طویل، صبر آزما اور کئی راؤنڈ کے مذاکرات کے بعد 28 جنوری 2022ء کو جماعت اسلامی اور سندھ حکومت کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوئے اور سندھ کے وزیر بلدیات اپنی ٹیم کے ساتھ دھرنے کے مقام پر آئے اور خود جماعت اسلامی کے بیشتر مطالبات ماننے کا اعلان کیا اور بقیہ مطالبات کے لیے گفتگو جاری رکھنے کا وعدہ بھی کیا۔
سوال: جماعت اسلامی نے کیا حاصل کیا اور اس کی کامیابی کی کیا تفصیلات ہیں؟
حافظ نعیم الرحمٰن: جماعت اسلامی نے اس دھرنے سے بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ سندھ حکومت سے جماعت اسلامی نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 اور بلدیاتی ترمیمی بل 2021 میں ترمیم کے لیے مذاکرات کیے۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں شہر کراچی کو ایسے کئی حقوق ملے ہیں جو اس سے پہلے کراچی کے پاس نہیں تھے۔ سب سے اہم بات اور اہم چیز کراچی کی ترقی کے لیے مالی وسائل فراہم کرنا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی نے مذاکرات میں سب سے زیادہ زور کراچی کو مالی وسائل فراہم کرنے پر دیا۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 140-A صوبوں کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ قومی مالیاتی کمیشن (NFC) سے فنڈ کی وصولی کے ساتھ اپنے شہروں اور اضلاع کے لیے صوبائی مالیاتی کمیشن (PFC) کی تشکیل کریں گے اور اس کے ایوارڈ کے ذریعے تمام شہروں اور اضلاع تک فنڈز کی تقسیم کو یقینی بنائیں گے۔
تاہم 2010ء کے بعد سندھ، قومی مالیاتی کمیشن کے ذریعے اپنا فنڈ اور حصہ تو حاصل کرتا رہا مگر صوبائی مالیاتی کمیشن کی تشکیل نہ کرکے فنڈ کی شہروں اور اضلاع تک تقسیم کے راستے میں رکاوٹ ڈالتا رہا۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا اور کراچی کو PFC کے ذریعے اس کا فنڈ ملتا رہتا تو آج کراچی کچرے کے ڈھیر کا نقشہ پیش نہ کررہا ہوتا۔
ایک اندازے کے مطابق PFC کی تقسیم سے کراچی کا حصہ موجودہ 38 ارب روپے سے 300 ارب سالانہ ہوجائے گا۔ اس دوران یعنی 2010ء کے بعد سے ایم کیو ایم مسلسل پیپلزپارٹی کی اتحادی اور سندھ حکومت میں شریک رہی ہے۔ اس دوران پانچ سال تک ان کا میئر بھی رہا۔ دوسری طرف پی ٹی آئی بھی پچھلے ساڑھے تین سال سے کراچی کے ووٹرز کا مینڈیٹ دبائے بیٹھی ہے، ان دونوں جماعتوں نے آج تک اس معاملے میں اپنی زبان بند رکھی ہوئی ہے۔
جماعت اسلامی نے سندھ حکومت پر دباؤ ڈال کر اور اس کے ساتھ معاہدہ کرکے پہلی مرتبہ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کو پابند کیا ہے کہ وہ مقامی حکومت کے قیام کے 30 دنوں کے اندر صوبائی مالیاتی کمیشن کی تشکیل کرے گی اور ایوارڈ کا اعلان کرے گی، اور اس طرح کراچی کو اس کا مالی حق دے گی، اور منتخب میئر اور چیئرمین اس کمیشن کے رکن ہوں گے۔ کراچی کے لیے مالی وسائل کی اہمیت اور اس کی فراہمی کے تناظر میں یہ کراچی شہر کے لیے ایک تاریخی کامیابی ہے۔
مگر جماعت اسلامی سے بغض و عداوت اور کراچی دشمنی میں ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی متحد ہوچکی ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ جس طرح ایم کیو ایم 2010ء سے اس اہم ترین معاملے پر خاموش بیٹھی تھی اسی طرح جماعت اسلامی بھی اس معاملے میں کچھ نہ کہے، اور خدانخواستہ کراچی اسی طرح تباہ و برباد ہوتا رہے۔ اسی طرح جنرل سیلزٹیکس کا معاملہ ہے۔
نوازشریف حکومت نے 1999ء میں پورے پاکستان میں آکٹرائے ضلع ٹیکس کو ختم کرکے GST کا نفاذ کیا تھا۔ اُس وقت یہ طے کیا گیا تھا کہ کراچی کو اس کی تاریخی حصے داری (Historical Share) کے مطابق جنرل سیلز ٹیکس میں سے حصہ دیا جائے گا۔ 2001ء میں جب نعمت اللہ خان صاحب کراچی کے میئر تھے تو اس دوران جنرل سیلزٹیکس میں سے کراچی کو 76فیصد حصہ ملتا تھا جو 2008ء تک ملتا رہا۔
پھر 2008ء کے بعد سے بتدریج اس حصے میں کمی ہوتی گئی، یہاں تک کہ 2021ء میں یہ 27فیصد پر آگیا تھا۔ آکٹرائے ٹیکس کی جگہ جنرل سیلز ٹیکس کی رقم کراچی کی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اب جماعت اسلامی نے سندھ حکومت سے موجودہ کیے گئے معاہدے میں یہ طے کروایا ہے کہ Historical Share جو 1999ء میں طے کیا گیا تھا اس کے مطابق کراچی کو جنرل سیلز ٹیکس میں سے حصہ ملے گا۔ اس سے امید کی جارہی ہے کہ اس مد میں کراچی کے حصے میں تین گنا اضافہ ہوجائے گا۔
یہاں پھر وہی بات ہے کہ جب کراچی کا حصہ مستقل کم کیا جاتا رہا تھا اُس وقت ایم کیو ایم وزارتوں کے مزے لیتی رہی اور کراچی کی دولت لوٹنے والوں کی اتحادی بنی رہی۔ اب جب جماعت اسلامی اور سندھ حکومت کے درمیان معاہدے کے نتیجے میں یہ بڑا فنڈ کراچی کو ملنے لگا ہے تو وہ کراچی دشمنی میں جماعت پر بازاری زبان کے ذریعے حملہ آور ہوچکی ہے۔
پھر کراچی کی مقامی حکومت کو موٹر وہیکل ٹیکس میں آج تک حصہ نہیں ملا۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ جماعت اسلامی نے سندھ حکومت کے ساتھ اپنے معاہدے میں یہ بات شامل کروائی ہے کہ موٹر وہیکل ٹیکس کی جمع شدہ رقم میں سے مقامی حکومتوں کو حصہ ملے گا۔ چونکہ موٹر وہیکل ٹیکس میں سے کراچی کی مقامی حکومت کو آج تک حصہ نہیں ملا اور کراچی کے لیے پہلی مرتبہ اس حصے کی یقین دہائی حاصل کی گئی ہے اس لحاظ سے یہ بھی ایک بہت بڑا اور تاریخی فیصلہ ہے جس کی ہر کراچی دوست فرد کو بھرپور حمایت کرنی چاہیے۔
یہ بھی طے ہوا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس بھی کراچی کو ملے گا۔ پراپرٹی ٹیکس مقامی حکومتوں کو دینے کے حوالے سے سندھ کی صوبائی حکومت نے ازخود قدم اٹھایا ہے۔ پراپرٹی ٹیکس بھی کراچی کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے۔ اس لحاظ سے یہ بھی خوش آئند فیصلہ ہے۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے میئر عبدالستار افغانی صاحب نے 1983ء میں قائم کیا تھا اور وہی اس کے پہلے چیئرمین بھی تھے۔
کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کراچی کے شہریوں کی خدمت کے لیے بنایا گیا ایک ایسا ادارہ ہے جو کراچی کے شہریوں کو پینے کے پانی کی فراہمی، ترسیل اور تقسیم کا ذمے دار ہے۔ مزید یہ کہ حفظانِ صحت کے ماحول کو یقینی بنانے کے لیے شہر کے اندر سیوریج کے نظام کا انتظام اور اس میں موجود خرابی کو دور کرنا بھی اس ادارے کے فرائض میں شامل ہے۔
میئر عبدالستار افغانی کی بلدیہ کے دور کے بعد واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو کمشنر کراچی کے ماتحت کردیا گیا۔ جب 2001ء میں نعمت اللہ خان صاحب ناظمِ کراچی بنے تو ان کی انتھک کوششوں سے سال 2003ء میں واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو دوبارہ ناظم کراچی کے ماتحت کیا گیا۔ تاہم 2009ء میں اسے صوبائی حکومت کے ماتحت کرکے وزیر بلدیات کو واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا چیئرمین بنادیا گیا۔
سوال: کراچی کو پانی کی تقسیم اور سیوریج کی نکاسی انتہائی حساس اور اہم معاملہ ہے، اس حوالے سے آپ لوگوں کے درمیان کیا طے پایا؟
حافظ نعیم الرحمٰن: واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے کراچی کی مقامی حکومت کے ماتحت نہ ہونے سے کراچی کے شہری بے شمار مسائل کا شکار ہیں۔ سالہاسال سے کراچی کی آبادی جس تیز رفتاری سے بڑھی ہے اُس رفتار سے شہریوں کو پانی کی تقسیم کا نظام بہتر نہیں ہوسکا، جس کے نتیجے میں کراچی کی آدھی آبادی تک پانی کی تقسیم کا نظام ہی قائم نہیں ہے۔ پانی کے تقسیم کے نظام میں موجود خرابی ٹینکر مافیا کو شہر میں قدم جمانے کا موقع دیتی ہے۔
اسی طرح سیوریج کا نظام بھی انتہائی پرانا اور بوسیدہ ہوچکا ہے، جس کے نتیجے میں شہر کی اکثر آبادی میں سیوریج کا گندا پانی سڑکوں پر بہہ رہا ہوتا ہے، جس نے نہ صرف یہ کہ شہریوں کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے بلکہ ان کی صحت کے متعلق سنجیدہ مسائل بھی کھڑے کردیئے ہیں۔ 28 دنوں کے طویل دھرنے کے بعد جماعت اسلامی نے سندھ حکومت کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے اُس کے مطابق کراچی کا میئر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا چیئرمین ہوگا۔
شہریوں کی پریشانیوں کے تناظر میں یہ بہت اہم فیصلہ ہے جس کے کراچی پر انتہائی مثبت نتائج ظاہر ہوں گے۔ 2009ء میں ایم کیو ایم پیپلزپارٹی کے ساتھ صوبائی اور مرکزی دونوں حکومتوں میں شامل تھی۔ اسی دوران صوبائی حکومت نے کراچی کو اس کے اختیارات سے محروم کیا مگر ایم کیو ایم نے اُس وقت اس کے خلاف ایک لفظ تک نہیں کہا اور بدستور حکومت میں شامل رہی۔
2009ء کے بعد اب جماعت اسلامی نے پہلی مرتبہ سندھ حکومت سے معاہدے کے تحت میئر کراچی کو واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا چیئرمین بنانے کا تاریخی فیصلہ کروایا ہے۔ اس کے کراچی کے شہریوں پر دوررس مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
سوال: کراچی میں کچرا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کے اختیارات سندھ حکومت کے پاس ہیں، اس پس منظر میں یہ بتائیں کہ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کراچی ریجن کی سربراہی پر معاہدے میں کچھ لکھا گیا؟
حافظ نعیم الرحمٰن: سالڈ ویسٹ مینجمنٹ شہر میں صفائی کرنے، کچرا اٹھانے اور اسے ٹھکانے لگانے کا ذمے دار ادارہ ہے۔ اس وقت حال یہ ہے کہ کراچی کچرے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ سالانہ 12000 ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے جس میں سے صرف آدھا اٹھایا جاتا ہے اور آدھا شہر میں ہی پڑا رہنے دیا جاتا ہے، جس نے کراچی کا حسن تو تباہ کیا ہی ہے، ساتھ ہی صحت کے بھی بے شمار مسائل پیدا کردیئے ہیں۔
جماعت اسلامی نے سندھ حکومت سے طویل مذاکرات کے بعد جو معاہدہ طے کیا ہے اس کے تحت سندھ سالڈ ویسٹ منیجمنٹ میں کراچی ریجن کا چیئرمین کراچی کا منتخب میئر ہوگا۔ اس فیصلے سے کراچی میں صفائی کی صورت حال بہتر ہونے کی نئی امید پیدا ہوچکی ہے۔
سوال: کے ڈی اے، ایل ڈی اے، ایم ڈی اے، ماسٹر پلان اور بلڈنگ کنٹرول میں منتخب میئر کا کیا کردار ہوگا؟
حافظ نعیم الرحمٰن: کراچی میں ٹاؤن پلاننگ، تعمیر و ترقی اور اس حوالے سے سہولیات کی فراہمی سے متعلق کئی ترقیاتی ادارے ہیں جن میں کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے)، ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) اور لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے)، ماسٹر پلان اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی شامل ہیں۔
نعمت اللہ صاحب کے دور میں یہ ادارے ناظمِ کراچی کے ماتحت ہوا کرتے تھے، تاہم 2009ء کے بعد سے کے ڈی اے سمیت ان میں سے کسی بھی ترقیاتی ادارے میں کراچی کی کوئی نمائندگی نہیں تھی۔ 2010ء میں سندھ حکومت نے مقامی حکومتوں سے ترقیاتی اداروں کی نمائندگی کا اختیار چھین کر اسے مکمل طور پر صوبائی حکومت کے ماتحت کردیا تھا۔ ٹاؤن پلاننگ، ہاؤسنگ، بلڈنگ کنٹرول اور ترقیاتی اداروں میں کوئی کردار نہ ہونے سے تعمیرات کے شعبے میں کراچی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔
اب جماعت اسلامی نے سندھ حکومت سے اپنے معاہدے میں یہ بات منوائی ہے کہ کے ڈی اے، ایل ڈی اے، ایم ڈی اے، ماسٹر پلان اور بلڈنگ کنٹرول وغیرہ کے نظام اور ایڈمنسٹریشن میں نہ صرف کراچی کے میئر کی نمائندگی ہوگی بلکہ ان تمام محکموں میں میئر کا فعال اور موثر کردار ہوگا۔
سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق سندھ حکومت صوبے میں اضلاع کے ماسٹر پلان کی اتھارٹی بنائے گی۔ ماسٹر پلان کی اس اتھارٹی میں میئر کراچی کی اہم اور مؤثر حیثیت سے نمائندگی ہوگی۔ میئر کا تمام ترقیاتی اداروں، بلڈنگ کنٹرول اور ماسٹر پلان میں مؤثر کردار ادا کرنے کا فیصلہ بھی کراچی کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا۔
سوال: پبلک سیفٹی کمیشن میں کراچی کی نمائندگی کی کیا تفصیلات ہیں؟
حافظ نعیم الرحمٰن: سندھ پبلک سیفٹی کمیشن کا قیام 2003ء میں عمل میں آیا تھا۔ اس کے مقاصد میں سٹیزن پولیس لیاژان کمیٹی کی تشکیل، ماس میڈیا عوامی آگاہی مہمات اور شہریوں کی پولیس کے خلاف شکایات اور ان پر سزاؤں کا موثر طریقہ کار وضع کرنا ہے۔ جماعت اسلامی اور سندھ حکومت کے درمیان مذاکرات میں طے کیا گیا ہے کہ صوبے میں پبلک سیفٹی کمیشن کو فعال کیا جائے گا اور میئر کراچی اس کمیشن کے ممبر ہوں گے۔
سوال: تعلیم کراچی سے متعلق ایک اہم شعبہ ہے۔ کراچی میں چار ہزار سے زائد سرکاری اسکول ہیں جن میں لگ بھگ دس لاکھ بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ جماعت اسلامی اور سندھ حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے میں اس سے متعلق، اور اسپتالوں کی بلدیہ کراچی کو واپسی کے حوالے سے کیا طے کیا گیا ہے؟
حافظ نعیم الرحمٰن: جماعت اسلامی اور سندھ حکومت میں ہونے والے معاہدے میں طے کیا گیا ہے کہ تعلیم سے متعلق سہولیات اور اختیارات جو بلدیاتی حکومتوں سے ترمیمی بل کے ذریعے صوبائی حکومت میں لے لیے گئے تھے انہیں دوبارہ بلدیاتی حکومت کے سپرد کردیا جائے گا۔ کراچی میں بلدیہ کے تحت کئی سرکاری اسپتال خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ان میں عباسی شہید اسپتال، کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج، سوبھراج اسپتال، اسپنسرز آئی اسپتال، لپروسی اسپتال اور سرفراز رفیقی شہید اسپتال وغیرہ شامل ہیں۔ جماعت اسلامی کے سندھ حکومت سے معاہدے میں یہ طے ہوا ہے کہ صحت سے متعلق سہولیات، اختیارات اور ادارے جو بلدیاتی حکومتوں سے سندھ حکومت کے ترمیمی بل کے ذریعے صوبائی حکومت میں لے لیے گئے تھے جن میں اوپر بیان کردہ تمام اسپتال اور ادارے شامل ہیں، انہیں دوبارہ بلدیہ کراچی کو واپس کردیا جائے گا۔
سوال: آبادی کے تناسب سے ترقیاتی فنڈ کی فراہمی پر بھی آپ لوگوں نے بہت بات کی ہے، اس کی کیا تفصیلات ہیں؟
حافظ نعیم الرحمٰن: جماعت اسلامی کا شروع دنوں سے یہ مطالبہ تھا کہ یوسیز کی تشکیل آبادی کے مطابق کی جائے۔ دیہی علاقوں میں 20000-15000 اور شہری علاقوں میں 65000-50000 کی آبادی پر یوسی کی تشکیل ناانصافی ہے۔ بڑی آبادی کے مسائل زیادہ ہوتے ہیں، تاہم تمام یوسیز کو ایک جیسے فنڈز ملنے کی وجہ سے بڑی یوسی میں کام ادھورا رہ جاتا ہے۔
مذاکرات میں اس مسئلے کا یہ حل نکالا گیا ہے کہ تمام یوسیز میں ترقیاتی فنڈز کی تقسیم برابر برابر نہیں کی جائے گی، بلکہ ہر یوسی کو اُس کی آبادی کے تناسب سے فنڈ دیا جائے گا۔ پہلے تمام یوسیز کو یکساں فنڈ ملا کرتا تھا جس سے کراچی جیسے گنجان شہر کی یوسیز کی حق تلفی ہوا کرتی تھی، تاہم اب معاہدے میں یہ طے کیا گیا ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے یوسیز کو ترقیاتی اخراجات کے لیے فنڈز کی فراہمی آبادی کی بنیاد پر ہوگی۔ یہ فیصلہ بھی کراچی کو مناسب فنڈز کی فراہمی کے تناظر میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔
سوال: کراچی کو پانی بھی نہیں مل رہا اور دن بدن یہ مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے؟
حافظ نعیم الرحمٰن: کراچی کو پانی کی عدم فراہمی اب خطرناک صورت اختیار کرچکی ہے۔ اس وقت کراچی کو اس کی ضرورت کا صرف 44فیصد پانی مل رہا ہے جس نے شہریوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ پانی سے متعلق بیماریاں بھی عام یوچکی ہیں۔ کراچی کے ساتھ ظلم یہ ہوا کہ پچھلے 16 سال میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کراچی کو ایک بوند پانی نہیں دیا جبکہ اس دوران اس کی آبادی میں 50فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ کراچی میں پانی کی فراہمی کا آخری پروجیکٹ K3 تھا جو اُس وقت کے ناظمِ کراچی نعمت اللہ خان صاحب نے 2002ء میں شروع کروایا تھا جو 2006ء میں مکمل ہوا۔
نعمت اللہ صاحب کو شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں کراچی کی پانی کی ضرورت کا بخوبی احساس تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے K3 کے آغاز کے فوراً بعد 2004ء میں پانی کے K4 پروجیکٹ کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو لائحہ عمل بھی پیش کیا۔ K4 منصوبے کے تحت کراچی کو کینجھر جھیل سے اضافی 650 ملین گیلن پانی فی دن ملنا تھا۔ اگر K4 پروجیکٹ مکمل ہوجاتا تو کراچی کی پانی کی ضرورت پوری ہوجاتی۔ مگر نعمت اللہ خان صاحب کی مدت ختم ہونے کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے K4 منصوبے پر کوئی پیش رفت نہیں کی۔ ایم کیو ایم اس دوران مسلسل حکومتوں میں شریک رہی مگر اُس نے کراچی کو پانی کی فراہمی کے لیے کبھی کوئی آواز بلند نہیں کی۔
اب پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت نے عوامی دباؤ پر پروجیکٹ تو شروع کردیا ہے مگر اُس نے کراچی کے ساتھ ایک اور ظلم یہ کیا ہے کہ K4 منصوبے کے تحت 650 ملین گیلن پانی کو 260 ملین گیلن میں تبدیل کردیا ہے جو کراچی کے پانی پر بہت بڑا ڈاکا ہے۔ مزید یہ کہ دریائے سندھ سے کینجھر جھیل پانی سپلائی یعنی KB نہر کی اپ گریڈیشن نہ ہونے اور شہر کے اندر پانی کی تقسیم کے نظام میں کیپیسٹی نہ ہونے کی وجہ سے مستقبل قریب میں بھی کراچی کے شہریوں کو پانی ملنے کی امید نظر نہیں آرہی ہے۔
جماعت اسلامی اور سندھ حکومت کے درمیان معاہدے میں یہ بات طے ہوئی ہے کہ سندھ حکومت KB نہر کی اَپ گریڈیشن کرے گی تاکہ پانی کو دریائے سندھ سے کینجھر جھیل پہنچایا جاسکے، تاکہ پھر یہ پانی K4 پروجیکٹ کے ذریعے کینجھر سے کراچی آسکے۔ دوسری طرف حب کینال سے کراچی کو 100 ملین گیلن پانی ملنا تھا، مگر لائن اور تقسیم کے نظام کے فرسودہ ہوجانے کی وجہ سے اس وقت حب ڈیم سے کراچی کو صرف 40 ملین گیلن فی دن پانی مل رہا ہے۔
جماعت اسلامی سے معاہدے میں سندھ حکومت نے حب ڈیم سے کراچی آنے والی لائن کی اَپ گریڈیشن کا وعدہ کیا ہے جس کے نتیجے میں حب ڈیم سے کراچی کو روزآنہ پورا 100 ملین گیلن پانی ملنے لگے گا۔ پانی کے حوالے سے اس معاہدے میں مزید یہ طے ہوا ہے کہ سندھ حکومت کراچی کے لیے کینجھر جھیل سے 65MGD اضافی پانی کی فراہمی کے منصوبے پر جلد از جلد کام مکمل کرے گی۔
سوال: اس منصوبے کا تعلق تو وفاق سے بنتا ہے؟
حافظ نعیم الرحمٰن: جی، اگر سندھ حکومت اپنے معاہدے کو پورا کرتی ہے تو پھر پانی کے حوالے سے اب صرف بنیادی مسئلہ باقی رہ جائے گا جس کا تعلق وفاقی حکومت سے ہے۔ یعنی کراچی کو K4 پروجیکٹ کے تحت 260 کے بجائے پورا 650 ملین گیلن پانی دیا جائے جس کے بارے میں وزیراعظم بار بار وعدہ کرچکے ہیں، تاہم کراچی کو اہمیت نہ دینے کی پی ٹی آئی کی پالیسی کے نتیجے میں
پی ٹی آئی کی حکومت نے انتہائی بے رحمی سے کراچی کے لیے 650 ملین گیلن پانی کو 260 ملین گیلن میں تبدیل کردیا ہے۔ جماعت اسلامی اس حوالے سے وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھائے گی۔ سندھ حکومت نے اس ضمن میں جماعت اسلامی سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ K4 منصوبے کی پوری 650 ملین گیلن پانی کی ایک ساتھ تکمیل کے لیے وفاقی حکومت پر اپنا مکمل اثر رسوخ استعمال کرے گی۔
سوال: آپ لوگوں کی تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کی بحالی، کراچی میڈیکل اور ڈینٹل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے پر بھی بات ہوئی ہے، اس کی کیا تفصیلات ہیں؟
حافظ نعیم الرحمٰن: صحت مند تعلیمی فضا کو پروان چڑھانے اور طلبہ میں غیرنصابی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے طلبہ یونین کا کردار مسلمہ ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا جماعت اسلامی نے سندھ حکومت کے ساتھ اپنے معاہدے میں یہ بات طے کروائی ہے کہ سندھ حکومت تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کی بحالی اور ان کے انتخابات کا فوری اہتمام کرے گی، اور اس کے لیے ضروری قانون سازی کرے گی۔
اسی طرح جماعت اسلامی اور سندھ حکومت کے درمیان معاہدے میں طے ہوا ہے کہ کراچی میڈیکل اور ڈینٹل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کے لیے سندھ حکومت مقامی حکومت کی مدد کے لیے فوری اور ضروری اقدامات کرے گی۔
سوال: بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر کیا بات ہوئی ہے؟
حافظ نعیم الرحمٰن:کراچی سمیت تمام اضلاع کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ بلدیاتی انتخابات ہر 4 سال بعد تسلسل سے بغیر رکے ہوتے رہیں۔ ابھی حال یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتیں بلدیاتی انتخابات کرانا نہیں چاہتیں، اس لیے وہ اس معاملے میں ٹال مٹول سے کام لیتی ہیں اور عدالتوں کے احکامات پر بادلِ ناخواستہ بلدیاتی انتخابات کرواتی ہیں۔ جماعت اسلامی نے اس حوالے سے سندھ حکومت کو آمادہ کیا ہے کہ سندھ میں بلدیاتی اداروں کی مدت کے اختتام سے 90 دن قبل آئندہ ہونے والے انتخابات کا اعلان کردیا جائے گا۔ اس کے لیے ایکٹ میں ضروری ترمیم لائی جائے گی۔
سوال: مزید مطالبات کے منظور ہونے کے کیا امکانات ہیں، اور غیر متفق نکات پر کیا ہوگا؟
حافظ نعیم الرحمٰن: یہ بات بھی طے کی گئی ہے کہ جماعت اسلامی کی جانب سے وزیراعلیٰ سندھ جناب مراد علی شاہ کو بھیجے گئے خط میں درج جن تجاویز پر اتفاق ہوگیا ہے اُن پر عمل درآمد، اور جن نکات پر حکومتِ سندھ نے اتفاق نہیں کیا ان کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے مذاکراتی کمیٹی اپنا کام جاری رکھے گی۔ سندھ حکومت 2013ء کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں صوبائی اسمبلی میں ترمیم پیش کرکے قانونی شکل دے گی، نیز جن امور پر رولز بنانے یا نوٹیفکیشن جاری کرنے کی ضرورت ہے دو ہفتوں میں سندھ حکومت یہ کام بھی سرانجام دے گی۔
اہم بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی سندھ حکومت سے امید رکھتی ہے کہ وہ جماعت اسلامی سے کیے گئے معاہدے کے مطابق 15 دنوں میں تمام نکات اور معاملات کو قانونی شکل دے دے گی۔ واضح رہے کہ اس معاہدے کے مطابق دھرنا ختم ہوا ہے، جماعت اسلامی کی جدوجہد ختم نہیں ہوئی۔ ابھی ہم کو اس معاہدے پر عمل درآمد پر بھی نظر رکھنی ہے اور اس کو یقینی بنانے کی جدوجہد کرنی ہے۔
سوال: ایم کیو ایم نے وزیراعلیٰ ہاوس کے باہر جو کچھ کیا یہ جماعت اسلامی کے دھرنے اور اس کی عوامی ساخت پر اثرانداز ہونے کی کوشش تھی؟
حافظ نعیم الرحمٰن: جماعت اسلامی کے 29روزہ دھرنے کی کامیابی اور اہلِ کراچی کے حقوق کے حصول کی جانب پیش رفت پر ایم کیو ایم کی قیادت کے کانوں سے دھواں نکل رہا ہے اور پی ٹی آئی والے بھی ساڑھے تین سال میں کراچی کے لیے عملاً کچھ نہ کرنے پر اپنی نااہلی اور ناقص کارکردگی کو چھپانے کے لیے جماعت اسلامی کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ جماعت اسلامی نے سندھ حکومت سے کراچی کے وہ محکمے اور بلدیاتی اختیارات و وسائل بھی واپس لیے ہیں جو ایم کیو ایم نے کراچی سے چھین کر پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کو دے دیئے تھے۔
سوال:سندھ حکومت سے مطالبات منوا لیے، وفاق سے متعلق کیا ایجنڈا ہے؟
حافظ نعیم الرحمٰن: کراچی کو تو وفاق اور صوبہ کوئی بھی اون نہیں کرتا۔ موجودہ وفاقی حکومت نے 3سال کے عرصے میں کراچی کو مسلسل نظرانداز کیا ہے، حکومتی رویّے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کراچی کو پاکستان کا حصہ نہیں سمجھتی۔ کراچی کے بہت سارے مسائل وفاق سے متعلق ہیں، اور ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کئی کام کرکے کراچی کو مہلک دھچکا لگا رہی ہیں، جس میں کراچی کی مردم شماری کو اصل ہیڈ آبادی سے نصف دکھاکر بوگس مردم شماری کی منظوری دینا،کے الیکٹرک کی زیادتیوں کی سرپرستی کرنا، سرکلر ریلوے پر صرف باتیں بنانا اور کوئی عملی کام نہ کرنا، کوٹہ سسٹم کو غیر معینہ مدت تک توسیع دینا، 1100 ارب روپے کے کراچی پیکیج کا لالی پاپ، وفاقی حکومت کی سطح پر ”بااختیار شہری حکومتوں“ کے بارے میں کوئی قانون سازی نہ کرنا شامل ہے۔
اسی طرح جیسا کہ میں نے ذکر بھی کیا کہ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت نے 3 سال سے زیادہ عرصے میں K4 پانی کی فراہمی کے منصوبے پر کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا اور بالآخر اسے اصل 650MGD سے کم کرکے 260MGD کردیا جو کراچی کے پانی پر ڈاکا ہے۔ وفاق میں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم دونوں اتحادی ہیں جو کراچی کے ووٹ اور مینڈیٹ لینے کا دعویٰ تو کرتی ہیں مگر اس کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کوئی عملی قدم اٹھانے کو تیار نہیں ہیں۔ جماعت اسلامی کی ”حق دو کراچی“ مہم ان تمام مسائل کے حل تک اِن شاءاللہ جاری رہے گی۔
سوال: آپ کے خیال میں دھرنے کو کتنی عوامی پذیرائی ملی ہے؟
حافظ نعیم الرحمٰن: میرا خیال ہے کہ یہ تاریخی نوعیت کا پروگرام تھا، ہر گزرتے دن کے ساتھ عوامی پذیرائی بڑھتی گئی۔ ہمارے لیے یہ بڑا چیلنج بن گیا تھا کہ اس کا اختتام ایسا ہونا چاہیے جس کے نتیجے میں لوگوں کی جو توقعات بندھی ہیں ان پر ہم پورا اتر سکیں۔ حالانکہ یہ دھرنا خود ایسی جدوجہد ہے کہ اگر نتائج آپ کو فیصلوں کی صورت میں نہ بھی ملیں تو یہ پُرامن عوام کی موبلائزیشن ہوتی ہے، جدوجہد ہوتی ہے، یہ خود ایک بہت بڑا کام ہوتا ہے جس کے نیتجے میں آپ اپنے مقاصد کی طرف پیش رفت کرتے ہیں تو رائے عامہ ہموار ہوتی ہے اگر آپ مخلص ہیں اور لوگوں کی رائے ہو کہ آپ سنجیدہ ہیں۔
لیکن اس میں ہمارے پیش نظر یہی تھا کہ ہم یہیں سے کچھ لے کر اٹھیں اور اپنی تحریک کو آگے بڑھائیں۔ تو میرا خیال یہ ہے کہ ہم نے نہ صرف یہ کہ اپنے ذاتی مشاہدے میں دیکھا ہے، بلکہ ہم نے ایک سائنٹفکٹ سروے بھی رائے عامہ کو ناپنے کے لیے اسی دوران کروایا، جس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ بہت بڑے پیمانے پر اس دھرنے کا پیغام عوام تک گیا ہے اور اُن دائروں میں گیا ہے جہاں پہلے لوگ جماعت اسلامی کو ٹھیک سے شناخت بھی نہیں کرتے تھے، پہچانتے بھی نہیں تھے۔ توالحمدللہ اس جدوجہد نے بڑی پذیرائی حاصل کی ہے۔
سوال: پیپلزپارٹی نے مطالبات ماننے میں اتنی دیر کیوں لگائی؟
حافظ نعیم الرحمٰن: شروع میں شاید وہ سمجھ رہے تھے کہ جس طرح اور پروگرام چل رہے ہیں، احتجاج چل رہے ہیں، یہ اسی نوعیت کا ایک دن کا پروگرام ہے۔ اسی لیے انتظامیہ کی طرف سے بار بار پوچھا جارہا تھا کہ کتنے بجے تک کریں گے؟ مغرب تک کریں گے؟ دس بجے تک، بارہ بجے تک کریں گے؟ وہ 31 دسمبر بھی تھا، سال ختم ہورہا تھا، لیکن جب ہم بیٹھ گئے تو شاید انہوں نے سوچا کہ جمعہ کا دن ہے، اتوار تک رکیں گے۔ پھرجب اتوار گزر گیا تو اُن کو اندازہ ہوا کہ یہ سنجیدہ ہیں۔
ظاہر ہے پھر ہم نے اپنا دباو بڑھایا، خواتین دھرنے میں شریک ہونے لگیں، مجموعی طور پر حاضری بڑھنے لگی، میڈیا میں بھی کچھ چیزیں آنے لگیں، پھر ان کو فکر ہونے لگی۔ یہ لوگ آئے بھی، پھر بھی سمجھ رہے تھے کہ ہم آگئے، بات کرلی اور ان کی فیس سیونگ ہوجائے گی۔ ہم نے ان پر واضح کردیا کہ ہم فیس سیونگ کے لیے نہیں بیٹھے، ہم چلے جاتے اگر ہمیں یہی کرنا تھا۔ ہم نے ان
پر واضح کردیا کہ آپ کو یہ مطالبات ماننا پڑیں گے، سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے اور عملی طور پر کچھ چیزیں طے کرنی ہوں گی۔ پھر تعطل آتا رہا، سمجھ لیں ایک اعصابی جنگ شروع ہوگئی، اور انہوں نے چاہا کہ ہمیں تھکادیں پھر بات کریں، اور ہم تھوڑی بہت چیزوں پر مان جائیں گے۔ لیکن ہم اپنے مطالبات پر ڈٹے رہے اور بالآخر یہ معاہدہ ہوا جس میں ہم نے کافی کچھ لیا۔2021
ءکا قانون تو عملاً کالعدم ہو جائے گا، اور 2013ءکا بھی جو قانون ہے اس میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی اتحادی تھے اور وہ اتحاد میں رہ کرہی کراچی کے ساتھ ہمیشہ یہ سلوک کرتے رہے ہیں، تو اس میں سے بھی ہم نے کافی کچھ نکال لیا ہے اور باقی سے دست بردار نہیں ہوئے۔ کمیٹی کا کام بھی جاری رہے گا، مذاکرات بھی ہوتے رہیں گے، احتجاج بھی جاری رہے گا، اور سارے مطالبات کے لیے ہم اسٹینڈ کرتے ہیں، تو الحمدللہ اس طرح یہ سارا عمل پورا ہوا۔