ـ80 لاکھ کشمیری عوام گھروں میں بند ہیں،9لاکھ بھارتی فوج ہر گھر کی نگرانی پر مامور ہے
یوم یک جہتی کشمیر، قومی دن کے طور پر منائے جانے کو تین عشرے بیت چکے، اور اب چوتھا عشرہ شروع ہوچکا ہے، لیکن کشمیر کی آزادی کا سورج ابھی تک عالمی سامراج کے بادلوں میں چھپا ہوا ہے۔ کشمیر ہماری خارجہ پالیسی کا اہم اور بنیادی نکتہ ہے، مگر عمل کی میزان اب قومی سلامتی پالیسی کی فائلوں کے ذریعے سامنے آئی ہے، اور فیصلہ ہوا ہے کہ ہم اپنا گھر پہلے صاف کریں گے، معیشت مضبوط بنائی جائے گی، آبادی میں کنٹرول لایا جائے گا اور اس کے بعد پھر سوچا جائے گا کہ کیا کرنا ہے۔ قومی سلامتی پالیسی میں کشمیر کا ذکر نہیں ملتا۔ بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں گزشتہ 910 روز سے فوجی محاصرہ جاری ہے اور پاکستان کا محاصرہ آبی منصوبوں سے بھی کیا جارہا ہے۔ مقبوضہ وادی میں مظلوم کشمیریوں پر عرصۂ حیات جیسے تنگ ہوچکا ہے۔ اس کی دنیا میں اگر کوئی دوسری مثال پیش کی جاسکتی ہے تو وہ فلسطین ہے جہاں صہیونیوں کی ناجائز ریاست نہتے فلسطینیوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھنے کے لیے ہر ہتھکنڈا آزماتی ہے، اور عالمی برادری اس حوالے سے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کا معاملہ بھی ایسا ہے کہ وہاں بھارتی غاصب سیکورٹی فورسز کی طرف سے وادی کے مختلف علاقوں میں کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ 5 اگست 2019ء کے اقدامات کے باعث انسانی المیہ بدترین شکل اختیار کرچکا ہے۔ ڈیڑھ سال سے کشمیریوں کو سخت پابندیوں کا سامنا ہے۔ تاریخ میں اس قدر طویل عرصے تک کبھی کرفیو نافذ نہیں کیا گیا۔ انسانی حقوق کی پامالی پہلے بھی کم نہیں تھی، لیکن بھارت تو اس کی حدیں عبور کرچکا ہے، اور اس سلسلے میں بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں کی طرف سے زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ بھی نہیں کیا جاتا۔ عالمی برادری کے اسی رویّے کی وجہ سے بھارت کو ہلہ شیری ملتی ہے اور وہ گزرتے وقت کے ساتھ کشمیریوں پر مظالم ڈھانے کے نت نئے طریقے اختیار کرتا ہے۔ 5 اگست 2019ء کو بھارتی آئین کی شق 370 اور 35 اے کو منسوخ کرتے ہوئے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنا بھی ایسے ہی اقدامات میں سے ایک تھا۔ پاکستان کے عوام اپنے کشمیری بھائیوں کو حقِ خودارادیت کے حصول کی مسلسل جدوجہد پر بھرپور خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
بھارت نے 5 اگست2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی عالمی تسلیم شدہ متنازع حیثیت تبدیل کرنے اور مقبوضہ کشمیر کے آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی غرض سے یک طرفہ اور غیر قانونی اقدامات کیے۔ حقِ خودارادیت، اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے تمام بڑے معاہدوں میں موجود بنیادی حقوق میں سے ایک ہے، اور یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک پرانا تصفیہ طلب مسئلہ ہے جس کی بھارت نے بے توقیری کی ہے، اور بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث یہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوسکا ہے۔ وہاں غیر انسانی محاصرے، ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گنوں کے بے دریغ استعمال، اور اجتماعی سزائوں کے اطلاق سے نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے اورعالمی برادری نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ دنیا کا انسانی حقوق کے حوالے سے دہرا معیار ہے۔ کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی کی جارہی ہے اور وہاں 90 لاکھ لوگوں کو بھارت نے کھلی جیل میں قیدی بنایا ہوا ہے، عالمی برادری ان دونوں معاملات پر دہرا معیار اپنا رہی ہے۔ گزشتہ پون صدی سے بھارتی مظالم کا سلسلہ جاری ہے، مختلف کالے قوانین کے تحت غاصب سیکورٹی فورسز کشمیریوں کو اُن کے گھروں سے اٹھا لیتی ہیں اور پھر انہیں عقوبت خانوں میں ڈال کر مسلسل اذیت دی جاتی ہے۔ اب ظلم اس قدر بڑھ گیا ہے کہ مقبوضہ وادی میں آواز اٹھائی جارہی ہے۔ اسی نوعیت کے ایک مقدمے میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے تین افراد کی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظربندی کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ جسٹس سنجے دھر پر مشتمل ہائی کورٹ کے ایک بینچ نے محمد اسلم شیخ، عادل منظور میر، اور احتشام الحق بٹ کی نظربندی کو چیلنج کرنے والی درخواستوںکی سماعت کرتے ہوئے حکام کو ہدایت دی کہ وہ انہیں فوری طور پر رہا کریں۔ بھارت کے کُل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنما ایڈووکیٹ دیویندر سنگھ بہل نے کہا کہ نریندر مودی کی فسطائی حکومت نے مقبوضہ وادی اور بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا جینا دوبھر کررکھا ہے، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے حمایت اور تربیت یافتہ نریندر مودی بھارت کو ہندو ریاست بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ 2014ء میں نریندر مودی کے بھارت کا وزیراعظم بننے کے بعد وہاں انتہا پسند ہندو افراد اور تنظیموں کو کھلی چھوٹ مل گئی ہے، اور وہ ملک بھر میں اقلیتوںبالخصوص مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار ملک نے پون صدی سے کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق غصب کررکھے ہیں، اور ان حقوق کی بحالی کے لیے اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کی قراردادیں بھی موجود ہیں لیکن عالمی برادری کے بھارت کے لیے نرم رویّے کی وجہ سے ان قراردادوں پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری قوت کے حامل ممالک ہیں، لہٰذا بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کبھی حقیقت میں نہیں ڈھل سکتے، لیکن ان کی وجہ سے خطے میں امن و امان کا قیام ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کراکے خطے میں حالات کی بہتری کے لیے کردار ادا کرے۔ وہاں غیر قانونی اقدامات اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں عالمی امن کے ضامنوں کے لیے ایک بڑا امتحان اور چیلنج ہیں، اور اس سے بڑا امتحان یہ ہے کہ بھارت اب وہاں آبادی کے تناسب کو بھی بدل رہا ہے، اور اس نے جموں میں پانچ حلقوں اور وادی میں ایک انتخابی حلقہ بنانے کی منصوبہ بندی کررکھی ہے تاکہ ہندو اکثریت کی بنیاد پر وہ ریاستی اسمبلی میں مستقبل کے لیے دہلی سرکار کے حق میں کوئی فیصلہ لے سکے۔ بھارت کی سیکولرازم کی پالیسی ختم ہوچکی ہے، اب سارا زور مسلمانوں کے خلاف اقدامات پر ہے۔ کشمیر میں چالیس لاکھ غیر مقامی لوگوں کو ڈومیسائل تقسیم کیے جاچکے ہیں، پانچ اگست کے اقدام کے بعد اب وہاں پر حلقہ بندیاں کی جارہی ہیں اور چھے انتخابی حلقوں میں تقسیم کیا جارہا ہے جس میں جموں کو پانچ اور وادی کو ایک حلقہ ملے گا، اس کے بعد بھارت سرکار جس کو چاہے گی اسمبلی کا رکن منتخب کرائے گی۔ بھارتی حکومت کے اقدام کے باعث اب وہاں کوئی بھی غیر کشمیری اراضی خرید سکتا ہے۔ غالباً عمران حکومت پاکستان میں بھی ایسی کوئی حکمت عملی اور فیصلہ لینا چاہتی ہے کہ گلگت اور آزاد کشمیر میں کوئی بھی غیر ریاستی باشندہ اراضی خرید سکتا ہے۔ ابھی تک پاکستان اور پاکستان کے عوام کا مؤقف یہ ہے کہ کشمیر ایک متازع اور تصفیہ طلب معاملہ ہے، کشمیری عوام کو حقِ خودارادیت ملنے تک پاکستان اُن کی سفارتی، اخلاقی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گا۔ یہ قومی عزم پاکستان کے عوام کی حد تک ابھی تک موجود ہے، تاہم پانچ اگست کے بھارتی اقدام کے خلاف عمران خان حکومت کی ایک منٹ کی خاموشی اب مسلسل خاموشی میں بدل گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ خاموشی اس لیے ہے کہ مودی سرکار نے جو کیا اس پر تحریک انصاف کی حکومت خاموش رہے گی؟ اس میں آج کے ٹیپو سلطان کی مرضی شامل تھی؟ اگر مرضی شامل نہیں ہے تو پھر خاموشی کیسی؟ ہماری سفارت کاری کی ذہانت اور صلاحیت کشمیری عوام کے کب کام آئے گی؟ پانچ فروری کو یوم یک جہتی کشمیر کے طور پر منانا ایک علامت تھی کہ حکمران اس مسئلے پر خاموشی اختیار کرنے کے بجائے ملک کے اندر اور بیرونِ ملک متحرک ہوجائیں، لیکن پیپلزپارٹی کے دور میں راجیو گاندھی کی آمد پر کشمیر کے بورڈ ہی اتار دیے گئے، نوازشریف دور میں کشمیری مہاجرین کے کیمپ اکھاڑ دیے گئے، اور پرویزمشرف دور میں لائن آف کنٹرول پر باڑھ لگا دی گئی۔ یہ سب کچھ کیا ہے؟ یہ سب اس لیے ہوا کہ ہم نے کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہٹ کر بات کرنے کی راہ اپنائی، یہ راہ دکھانے والے پاکستان کے عوام نہیں بلکہ حکمران تھے۔ کشمیری عوام کے ساتھ آج پوری قوم اور دنیا بھر میں موجود پاکستانی یک جہتی کا مظاہرہ کرنے باہر نکلے ہیں، یہ سب کچھ جماعت اسلامی پاکستان کے مرحوم امیر قاضی حسین احمد کے فیصلے کانتیجہ ہے، انہوں نے کشمیر کا آئینی مقدمہ لڑنے والے ممتاز کشمیری رہنما جناب پروفیسر الیف الدین ترابی کی تجویز پر آج سے بتیس سال قبل پانچ فروری کو یوم یک جہتی کشمیر منانے کا اعلان کیا تھا۔ اُس وقت ملک میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی جبکہ پنجاب میں آئی جے آئی کے اتحاد کی حکومت تھی، قاضی حسین احمد کا یہ فیصلہ اور عزم اس قدر زور دار تھا کہ وفاق میں پیپلزپارٹی اور پنجاب میں آئی جے آئی کی حکومت کے سربراہ کو قاضی حسین احمد کے فیصلے کے سامنے جھکنا پڑا اور پانچ فروری کو ایک قومی دن کے طور پر منانے کا اعلان کرنا پڑا۔ اس وقت وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف تھے۔
مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار آج جو کچھ بھی کررہی ہے وہ آج کے ’’ٹیپو سلطان‘‘ کی وجہ سے کررہی ہے۔ عمران خان کے بیانات آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ مودی اگر انتخاب جیت گئے تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ یہ مسئلہ اس طرح حل ہوا کہ مودی سرکار اب وہاں مسلمانوں کی آبادی کم کررہی ہے، ہندوئوں کی آبادی بڑھائی جارہی ہے، وہاں ڈومیسائل بناکر دیے جارہے ہیں، اور پراپرٹی رولز تبدیل کیے جارہے ہیں، ارودو زبان کی حیثیت تبدیل کی جارہی ہے، اکثریت کو اقلیت میں بدلا جارہا ہے۔ اس کام کے لیے آر ایس ایس پوری طرح متحرک ہے۔ بھارت کا باطن پوری طرح ظاہر ہوچکا ہے، یہ سب کچھ کرنے کے بعد وہاں انتخابات کرائے جائیں گے اور مرضی کے نتائج لے کر وہاں ایک نیا سیاسی نظام لانے کی کوشش کی جائے گی۔ مگر شاید تب تک آج کا ٹیپو سلطان خاموش رہے۔
بھارت نے 5 اگست 2019ء کے بعد سے اب تک وہاں سب کچھ اپنی مرضی کے مطابق کرنے کی کھلی کوشش کی ہے، اور عالمی برادری یا انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو وہاں جانے کی اجازت تک نہیں ہے۔ بھارت سب کچھ چھپا رہا ہے اور حکومتِ پاکستان کی خاموشی بھی بڑھ رہی ہے۔ حکومت نے اپنے لب سی رکھے ہیں اور آنکھیں بند کی ہوئی ہیں، مگر زبانی دعوے بہت کیے جارہے ہیں۔ دوسری جانب جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہورہی ہے اور دنیا بھر میں ہمارے سفارت خانوں میں کشمیر سے متعلق فائلیں میز کی درازوں میں بند پڑی ہیں۔ آج مقبوضہ کشمیر کی صورت حال یہ ہے کہ 80 لاکھ کشمیری عوام گھروں میں بند ہیں، 9 لاکھ بھارتی فوج ہر گھر کی نگرانی پر مامور ہے، خواتین کی بے حرمتی کے واقعات بڑھ رہے ہیں، پوری عالمی برادری بھارت سے ڈریکولائی قانون ختم نہیں کرا سکی۔ کہا جاتا ہے یہ معاشی مفادات کا دور ہے، اس لیے مسلم ممالک بھی بھارت کے ساتھ اپنے معاشی تعلقات ختم نہیں کرنا چاہتے۔ جب حقائق یہ ہیں کہ جنوب ایشیا میں امن کے لیے بھارت سب سے بڑا خطرہ ہے، اگر جنوب ایشیا میں امن نہ رہا تو اس خطے میں موجود مسلم ممالک بنگلہ دیش، ایران، افغانستان سمیت کوئی بھی پُرامن معاشی ترقی نہیں کرسکتا۔
ہندوستان کی انسداد دہشت گردی کی تحقیقاتی ایجنسی نے حال ہی میں چھاپے مارے ہیں اور مقبوضہ جموں و کشمیر سے ’دہشت گردی کی فنڈنگ‘ کے معاملے میں کچھ گرفتاریاں کی ہیں۔ این آئی اے کولیشن آف سول سوسائٹی کشمیری مسلمانوں کے لیے بہت کام کررہی ہے۔ ورلڈ آرگنائزیشن اگینسٹ ٹارچر دو سو سے زیادہ این جی اوز کا ایک عالمی نیٹ ورک ہے، جو انسانی حقوق کے لیے کام کررہا ہے۔ اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ برائے انسانی حقوق میری لاولر نے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کی غیر قانونی گرفتاری کی مذمت کی ہے، مگر پاکستان سے حکومتی سطح پر کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔ ورلڈ آرگنائزیشن اگینسٹ ٹارچر جنیوا میں قائم ایک اہم ادارہ ہے جو انسانی حقوق کے لیے لڑنے والے دنیا بھر کے گروہوں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ اس ادارے کے مطابق گرفتاریاں تشویش کا باعث ہیں کہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کو بھی دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔ ڈیوڈ کائے، اقوام متحدہ کے سابق خصوصی نمائندے ہیں، وہ بھی ان گرفتاریوں پر چیخ اٹھے ہیں کہ دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتاری کشمیر میں بڑی زیادتی ہے، بھارتی قابض افواج کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کرنے والا دہشت گرد قرار پارہا ہے، بھارتی پولیس نے گزشتہ سال نومبر میں ایک سرچ آپریشن کے دوران معصوم شہریوں کو ’ہیومن شیلڈز‘کے طور پر استعمال کیا۔ اس واقعے کو ہندوستانی قابض افواج کی طرف سے معصوم شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے والے جنگی جرم کے طور پر دیکھا گیا۔ یہ تو وادی میں روز کا معمول ہے،کشمیری مجاہدین کئی دہائیوں سے دس لاکھ بھارتی فوجیوں سے لڑ رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگ خطے کی آزادی یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے جائز مطالبات کو دبانے کے لیے ہندوستانی قابض افواج کے ہاتھوں دسیوں ہزار افراد، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے، بے دردی سے مارے گئے ہیں۔ یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ کشمیر میں ہندوئوں اور دیگر اقلیتوں پر عسکریت پسندوں کے حملے بھارتی ریاست کے حق میں کام کرتے ہیں، کیونکہ اس کے بعد وہ خطے پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنے اور خود کو اقلیتوں کے نجات دہندہ کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ بھارتی افواج کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں مزید ڈھٹائی سے ہوتی جارہی ہیں، انہیں نہ صرف قانونی بلکہ اخلاقی اور سیاسی استثنیٰ بھی حاصل ہے جو زیادہ خطرناک ہے۔
یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور قیادت نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی طرف سے مکمل طور پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز مستقبل میں ہولوکاسٹ سے بچنے کے لیے صورت حال کا جائزہ لیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان ہمالیہ سے نکلنے والے دریائوں کے پانی کی تقسیم کا معاملہ اتنا حساس ہے کہ یہ پاکستان کی معاشی سلامتی کا معاملہ بن گیا ہے، دونوں ملکوں کے مابین کراچی میں سندھ طاس معاہدے پر دستخط ہوئے جس کی رو سے تین مشرقی دریائوں بیاس، راوی اور ستلج پر بھارت، جبکہ تین مغربی دریائوں سندھ، چناب اور جہلم پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا۔ یہ معاہدہ عالمی بینک کی ضمانت سے ہوا، اس پر عمل درآمد کی ذمہ داری بھی اسی کی ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ جس طرح امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک کا جھکائو بھارت کی طرف بڑھتا چلا گیا اُسی طرح عالمی بینک کی ہمدردیاں بھی بھارت کے لیے وقف ہوگئیں اور اسے پاکستان کے آبی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کھلی چھوٹ مل گئی۔ اس سلسلے کا ایک مظہر رتل اور کشن گنگا ہائیڈرو پاور پروجیکٹ ہیں۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 850میگا واٹ کے رتل ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر تعمیراتی سرگرمیاں تیز کردی ہیں اور ساتھ ہی 330 میگا واٹ کے قابلِ اعتراض ڈیزاین والے کشن گنگا ڈیم کو مکمل طور پر فعال کردیا ہے۔ پاکستان نے اپنے حصے کے دریائوں پر بننے والے ان دو آبی منصوبوں کے بارے میں بھی عالمی بینک کو 2016ء میں آگاہ کیا تھا اور اپنے اعتراضات داخل کیے تھے۔ پاکستان نے اپنی درخواست میں تجویز دی تھی کہ کشن گنگا پروجیکٹ پر ثالثی عدالت قائم کی جائے۔ اسی طرح کا معاملہ رتل پروجیکٹ کے ساتھ بھی تھا۔ کشن گنگا ڈیم دریائے جہلم اور رتل ڈیم دریائے چناب پر بنایا جارہا ہے جو دونوں پاکستان کے حصے کے دریا ہیں۔ بھارت نے بھی پاکستان کے اعتراضات کو یکسر رد نہیں کیا اور معاملے کے حل کے لیے ماہرین مقرر کرنے کی تجویز دی۔ لیکن عالمی بینک نے درخواستوں پر کارروائی کے بجائے خاموشی اختیار کرلی۔ اس معاملے کو اب چھے سال گزرنے والے ہیں۔ عالمی بینک کا مؤقف ہے کہ ان پر عملی اقدامات سے سندھ طاس معاہدے کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ بینک کے اس عذرلنگ اور معنی خیز خاموشی سے بھارت نے فائدہ اٹھایا اور رتل پروجیکٹ پر کام کو تیز، جبکہ کشن گنگا کو فعال کردیا، لیکن امریکہ اور اس کی اتحادی مغربی طاقتوں کوکشمیر کے مسئلے پر سانپ سونگھ جاتا ہے۔