کتاب
:
اُسوۂ حسنہ
چند اصولی اور فکری پہلوئوں کا جائزہ
مصنف
ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی
صفحات
:
208 قیمت:350 روپے
ناشر
:
ادارہ معارفِ اسلامی، منصورہ ملتان روڈ، لاہور 54790
فون
:
042-35252475-76
042-35419520-24
ای میل
:
imislami1979@gmail.com
تقسیم کنندہ
:
مکتبہ معارفِ اسلامی، منصورہ ملتان روڈ، لاہور
فون
:
042-35252419
سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، رحمت اور سعادت کا بحرِ بے کراں ہے، جس سے صراطِ مستقیم کی نور کی ندیاں رواں ہیں، ہر آنے والا دن سیرتِ نبویؐ کے انوار کو بیان کرنے والی کسی نہ کسی تصنیف کی نوید لاتا ہے۔ زیر نظر ’’اُسوۂ حسنہ… چند اصولی اور فکری پہلوئوں کا جائزہ‘‘ ایک قابلِ تعریف کتاب ہے جو سیرتِ نبویؐ کے مختلف پہلوئوں کو واضح کرتی ہے۔
ڈاکٹر حافظ ساجد انور ڈائریکٹر ادارہ معارفِ اسلامی لاہور تحریر فرماتے ہیں:
’’سیرتِ مطہرہ ایک لامتناہی علم کا نام ہے، ایک ایسا سمندر جس کی لہروں میں تلاطم ہے اور جس کی گہرائیاں وسعت رکھتی ہیں۔ یہ معطر اور خوب صورت پھولوں کا مجموعہ ہے، جس کی رعنائیوں کے تصور کے ساتھ ساتھ اس کی خوش بو چار سو پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں ہر ذوق اور طبیعت کے لوگ اپنی طبیعت اور مزاج کے مطابق استفادہ کرتے ہیں۔
سیرت النبیؐ صرف ایک نبی کے حالات و واقعات کے مجموعے کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ تاریخ کا وہ روشن ترین حصہ ہے جس کے گرد سارے زمانے طواف کرتے نظر آتے ہیں۔ آپؐ کی سیرت کی بدولت آپؐ کی ولادت باسعادت سے قبل کے حالات بھی روشن و محفوظ ہیں اور آپؐ کے طفیل رہتی دنیا تک کے لیے بہترین اسوہ ملا ہے۔
آپؐ کی بعثت مبارکہ کو اللہ تعالیٰ نے امت کے لیے احسانِ عظیم قرار دیا۔ آپؐ کی محبت کو محبتوں کی معراج اور اطاعت کو ایمان کی تکمیل کی نشانی قرار دیا گیا۔ آپؐ کا اعلیٰ و ارفع مقام و مرتبہ اظہر من الشمس ہے۔ اس بات کا ادراک و اعتراف مغربی مستشرقین نے بھی کیا اور غیر مسلموں نے بھی آپؐ کی نعتیں لکھیں، آپؐ کی شخصیت کے مختلف گوشوں کو واضح کیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے:
’’درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخرت کا امیدوار ہو، اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔‘‘
(الاحزاب 21:33)
آپؐ کی سیرتِ مطہرہ کو بیان کرنے کا اصل مقصود آپؐ کی اتباع ہونا چاہیے۔ یہی بنیادی فرق مسلمانوں اور غیر مسلموں میں ہے کہ وہ آپؐ کو ایک بڑی اور عظیم شخصیت کے طور پر تو ڈسکس کرتے ہیں، لیکن آپؐ کی نبوت کو تسلیم کرنے اور آپؐ کی اتباع کا کوئی داعیہ ان کے اندر پیدا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اس حقیقت کو بیان فرماتے ہیں کہ آپؐ کی حیاتِ طیبہ یعنی اسوۂ حسنہ اُن لوگوں کے لیے ہے جو اللہ پر ایمان اور آخرت کا بنیادی عقیدہ رکھتے ہوں اور اللہ کو یاد کرنے والے ہوں۔ یہ آیت ایک طرف سیرت کے حوالے سے مسلمانوں کی امتیازی خصوصیت بیان کررہی ہے تو دوسری طرف اس میں ہمارے لیے ایک وعید اور تنبیہ بھی ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کو اپنائیں۔
زیر نظر کتاب ’’اسوۂ حسنہ: چند اصولی اور فکری پہلوئوں کا جائزہ‘‘ معروف محقق ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی کی تصنیف ہے۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے روایتی طریقے سے ہٹ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے چند اہم پہلوئوں کو اجاگر کیا ہے اور اس میں ہمارے لیے رہنمائی کے جو پہلو ہیں انہیں واضح کیا ہے۔
اس کتاب میں تعلیمی، دعوتی اور انتظامی منہج کا مطالعہ، امتِ واحدہ کی تشکیل، منصوبہ بندی، مقاصد کا تعین، اصولِ مشاورت، اصولِ تفسیر، اصولِ احتساب، تفقہ و اجتہاد اور منہج عدل و قضا کے نام سے ابواب ترتیب دیئے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر یوسف فاروقی کو جزائے خیر عطا فرمائے، ان کے علم کو نافع بنائے‘‘۔
ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی تحریر فرماتے ہیں:
’’انسانی فکر، رویّے، عادات و اطوار، مزاج اور اعمال کو راہِ راست پر رکھنے کے لیے ہمیشہ تعلیم و تربیت اور اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔ تعلیم و تربیت اور اصلاح کا عمل اُس وقت تک ممکن نہیں ہوتا جب تک اس کے لیے مناسب ماحول میسر نہ ہو۔ ایک عمدہ، صحت مند، مہذب و پاکیزہ ماحول ہمیشہ اعلیٰ کردار و صفات کی حامل شخصیات کی صحبت میں میسر ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ انبیا علیہم السلام کو وسیع علم، راسخ ایمان اور اعلیٰ کردار کے ساتھ اس لیے مبعوث فرماتا ہے تاکہ وہ لوگوں کے درمیان رہ کر انہیں اپنی صحبت میں وہ ماحول مہیا کردیں جس میں اہلِ ایمان صرف کسبی علم تک محدود نہیں رہتے بلکہ تعلیمِ وحی اور تزکیہ نفس کی وجہ سے ان کے قلوب و دماغ علوم و فنون کا چشمۂ جاریہ بن جاتے ہیں، وہ یقین و کردار کے اس بلند درجے پر فائز ہوتے ہیں کہ ان کی صحبت اور ماحول کی اثر آفرینی معاشرے میں اعلیٰ تہذیب و تمدن کو فروغ دینے کا ذریعہ بن جاتی ہے، اس لیے کہ ان کے فراہم کردہ ماحول میں خیر کی قوتیں خوب پھلتی اور پھولتی ہیں۔
جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حیات رہے آپؐ نے اپنے صحابہ کرامؓ کو بھرپور موقع فراہم کیا کہ وہ آپؐ کی حیاتِ طیبہ کے ہر ہر گوشے اور ہر ہر پہلو کا مشاہدہ کریں۔ سفر و حضر، عبادات و معاملات، حتیٰ کہ عادات کی تفصیلات کا بھی گہرا مطالعہ کریں اور پھر اپنی عملی زندگی کو اپنے رسول کی زندگی کے مطابق ڈھال لیں۔
صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ کو بڑے جذبے اور ذوق و شوق کے ساتھ محفوظ کیا اور حیاتِ طیبہ کی ساری تفصیلات کو پوری احتیاط اور احساسِ ذمے داری کے ساتھ اگلی نسل کو منتقل کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کی پوری تاریخ اور وہ ماحول جس میں انسانیت کی معراج تکمیل پارہی تھی، آنے والی نسلوں کے لیے اس طرح محفوظ کردیا کہ آج ہم جب سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم بھی اسی پاکیزہ ماحول میں داخل ہوکر صحبتِ رسولؐ سے اسی طرح منتفع ہورہے ہیں، جس طرح خیرالقرون کے لوگ منتفع ہوکر معراجِ انسانیت کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کررہے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو پوری وسعت اور جامعیت کے ساتھ محفوظ کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ بعد میں آنے والے ہر دور اور ہر زمانے کے اہلِ علم اپنے اپنے زمانے میں پیدا ہونے والے مسائل اور مشکلات کا حل سیرتِ طیبہ کی روشنی میں نکال سکتے ہیں۔ اسوۂ حسنہ میں جو اصولی رہنمائی ملتی ہے اس سے استدلال و استنباط کرکے پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلے کو حل کرسکتے ہیں۔ انسانیت کی رہنمائی کا مواد تو تمام تر سیرت میں محفوظ ہے۔ علما اور فقہا نے بوقتِ ضرورت ان سے استدلال کرکے ہر مشکل وقت میں انسانیت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔
زیر نظر کتاب 9 ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں علم کی وسعت، اہمیت و ضرورت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہجِ تعلیم پر بحث کی گئی ہے۔ عہدِ رسالت میں تعلیم و تعلم کو عبادت سمجھا جاتا تھا، آج یہ صنعت و تجارت بن گئی ہے۔ عہدِ رسالت میں علم ہر فرد کا بنیادی حق تھا، آج صرف دولت و ثروت رکھنے والوں کا حق ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک بہت بڑا طبقہ علم سے محروم ہوگیا، جس کا نقصان آج پوری امت بھگت رہی ہے۔
باب اول: اسوۂ حسنہ ]تعلیمی، دعوتی اور انتظامی منہج کا مطالعہ[
اسلامی معاشرے کے تین بنیادی ستون علم، علمِ وحی، علمِ قطعی ہیں۔ علمِ ظنی یا علم الحواس، ایمان، مکارمِ اخلاق، تعلیم و تربیت کا منہج، مقاصد کا تعین، تدریج، ترجیحات، علم ِنجوم و املاک، دفاع اور حربی حکمت ِعملی، سہولت اور مصلحت ِعامہ، محاسبۂ نفس و اعمال، مشاورت۔
دوسرے باب میں امتِ مسلمہ کی وحدت کو دین کے ایک بنیادی اصول کے طور پر اجاگر کیا گیا ہے، اور اس میں اصول کی وضاحت و تشریح سیرت ِطیبہ کی روشنی میں کی گئی ہے۔
باب دوم: امتِ واحدہ کی تشکیل ]قرآن حکیم اور سنتِ نبویؐ کی روشنی میں[
آنحضورؐ کا طرزِ عمل، امت ِواحدہ: قرآن کی روشنی میں، اخلاقی اقدار کی اہمیت، مواخاۃ کا عمل، مسلمانوں میں باہمی ولایت، وحدتِ امت: احادیثِ نبویؐ کی روشنی میں، امن و سلامتی کا قیام، علم، ایمان، اخلاقِ حسنہ، افتراق و انتشار کی روک تھام
تیسرا باب منصوبہ بندی پر مشتمل ہے۔ اس باب میں ہم نے کوشش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں کے پس منظر میں اُس منصوبہ بندی کے اصول کی وضاحت کرسکیں جو آپؐ کے پیش نظر رہتی تھی، اسے ایک اصول کے طور پر ہی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
باب سوم: منصوبہ بندی (اسوۂ حسنہ سے ماخوذ ایک اصول کا جائزہ)
منصوبہ بندی کا مفہوم، حکمت اور تدبیر الٰہی، کلامِ الٰہی کی حفاظت کا اہتمام، کلام اللہ کی حفاظت کے لیے ایک لطیف تدبیر، ہجرت ِحبشہ کے لیے منصوبہ بندی، ہجرت ِمدینہ کے لیے منصوبہ بندی، عقبہ کے مقام پر معاہدات، ہجرت کے مقاصد
چوتھے باب میں مقاصد کے تعین اور اعمال و قوانین اور فیصلوں کی کامیاب تکمیل کے لیے مقاصد کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔
باب چہارم: مقاصد کا تعین، مقاصد کا نیت اور ارادے سے تعلق، مقاصد کو طے کرنا ایک فن، مقاصد کے تعین اور وضاحت کے فوائد، خیر کی قوتوں کا استحکام
پانچویں باب میں اصولِ شوریٰ پر بحث کی گئی ہے، سیرتِ طیبہ میں خصوصاً امت کے اجتماعی فیصلوں میں شوریٰ کی کیا حیثیت رہی ہے۔ نیز اس باب میں شوریٰ کے طریقِ کار، شرائط اور شورائی فیصلوں کی دستوری حیثیت پر بھی بحث کی گئی ہے۔
باب پنجم: مشاورت ]اسوۂ حسنہ سے ماخوذ ایک اصول[
مشورے کا مفہوم، شوریٰ کے بارے میں فرمانِ رسولؐ، اسوۂ حسنہ سے شوریٰ کی مثالیں، جہاد اور دفاعی امور پر مشاورت، اجتماعی امور میں مشاورت، امورِ عبادات کے نظم میں مشاورت، شوریٰ کے بارے میں قرآنی احکام، خلافتِ راشدہ کے عہد میں شوریٰ، عہدِ رسالت اور عہدِ خلافت ِراشدہ میں ارکانِ شوریٰ
چھٹے باب میں اصولِ تیسیر کی وضاحت کی گئی ہے۔ یہ اصول شریعت کے اُن مقاصد کی طرف رہنمائی کرتا ہے جن کے تحت مفادِ عامہ، لوگوں کی مصلحت اور ان کے لیے سہولیات کی فراہمی کا خیال رکھنا لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ اس اصول کی وضاحت بھی اسوۂ حسنہ کی روشنی میں کی گئی ہے۔
باب ششم: اصولِ تیسیر اور اسوۂ حسنہ
اصولِ تیسیر کا مکارمِ اخلاق سے تعلق، حضرت عکرمہؓ کا قبولِ اسلام، عبداللہ بن ابی کا واقعہ، فتحِ مکہ اور آنحضورؐ کا حسنِ اخلاق، تیسیر کے دو پہلو، عبادات میں سہولت، انتظامی عہدے داروں کے لیے ہدایات، اقوالِ رسولؐ، غلو اور شدت پسندی کی ممانعت، توسط اور اعتدال کا حکم، قرآنِ حکیم کی ہدایات۔ خلفائے راشدین کا طرزِ عمل
ساتویں باب میں احتساب کے موضوع پر گفتگو کی گئی ہے۔ انسانی معاشرے کی تہذیب و ترقی کے لیے احتساب ایک ضروری عمل ہے۔ ہر انسان کو اپنی ذات سے لے کر اپنے تمام اعمال، کردار اور افکار کا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے۔ انفرادی طور پر محاسبۂ نفس سے لے کر اجتماعی محاسبہ تک سیرتِ طیبہ سے پوری طرح رہنمائی ملتی ہے۔
باب ہفتم: اصولِ احتساب ]اسوۂ حسنہ کی روشنی میں[
فرد کی اصلاح، تزکیۂ قلب، احسان اور تزکیۂ اعمال، محاسبۂ اعمال، صحابہ کرامؓ کا طرزِ عمل دانش مندی کا مفہوم، خوداحتسابی کے لیے علم و عقل کی اہمیت، خیر کے کاموں میں مسابقت، آخرت میں اعمال کا حساب و کتاب، صوفیائے کرام کا تصورِ مراقبہ، اجتماعی محاسبہ، عدالتی محاسبہ، سرکاری عمال کا احتساب، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا طرزِ عمل، الدین النصیحۃ کا مفہوم
آٹھویں باب میں ہم نے فقہ و اجتہاد کے موضوع پر اصولی بحث کی ہے۔ اس میں ہم نے فقہ کا صحیح مفہوم سمجھنے کی کوشش کی ہے، اور پھر فقہ کے دائرے میں رہتے ہوئے اجتہاد کی وسعت، جامعیت اور ہمہ گیری کا جائزہ لیا ہے۔ یہ ساری بحث ہم نے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں کی ہے۔
باب ہشتم: تفقہ، فقہ اور اجتہاد، فقہ کا مفہوم، علم و حکمت کے ساتھ فقہ کا تعلق، فقہ کی وضاحت کے لیے نبوی تمثیل، اجتہاد کا مفہوم: آغاز و ارتقا، علم کی تقسیم، اجتہاد اور مقاصدِ شرعیہ، رسولؐ اللہ کے بعض اجتہادات پر نظر، حضرت عمرؓ کی ہدایات، مسئلہ ارض سواد کا جائزہ، شاہ اسماعیل شہید کا نقطہ نظر، ماوردی کے نزدیک اجتہاد کا مفہوم، جہاد اجتہاد کے بغیر ممکن نہیں، تعمیری کام کے لیے قوت کا حصول
نویں باب میں منہج عدل و قضا پر بحث کی گئی ہے۔ عدل کا قیام دراصل دین کا بنیادی اصول ہے۔ انسانی معاشرے میں عدل کے قیام کے لیے شریعت مختلف جہتوں اور مختلف اطوار سے ہماری رہنمائی کرتی ہے، اس باب میں ہم نے اُن تمام جہتوں کی وضاحت کی ہے جو قیام ِعدل کے لیے ضروری ہیں۔
باب نہم: منہج عدل و قضا
عدل اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، عدل ایک اخلاقی اصول ہے، قیامِ عدل کے لیے تہذیب کا استحکام ضروری ہے، ہنگامی حالات میں عدل کو قائم رکھنا، منصبِ عدالت کی نزاکت اور ذمہ داری، قضا کے لیے تربیت کا اہتمام، نظمِ قضا اور اجتہادی بصیرت، نظمِ قضا میں مشاورت، قیام ِعدل کے لیے حقوق و فرائض کا تعین، حقوق کی بحث اور مقاصد الشریعہ، الحوائج الاصلیہ، فقہی اصول و کلیات، حاصلِ بحث
ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی حفظہ اللہ رقم طراز ہیں:
’’جو قومیں نوزائیدہ مسائل کو معمولی نوعیت کا سمجھ کر نظرانداز کردیتی ہیں، یا درپیش تحدیات (چیلنجز) کا مقابلہ کرنے کے لیے فکری اور عملی جدوجہد کے لیے اپنے آپ کو تیار نہیں کرپاتیں وہ مسلسل زوال کا شکار رہتی ہیں۔ فطرتِ الٰہی قوموں کو یک لخت صفحۂ ہستی سے نہیں مٹاتی، بلکہ انہیں سنبھلنے کے مواقع فراہم کرتی رہتی ہے۔ اگر وہ فطرت کی طرف سے دی گئی مہلت اور مواقع سے فائدہ اٹھائیں یا قدرتِ الٰہی کی جانب سے آنے والی تنبیہات سے سبق حاصل کرکے سنبھل جائیں اور اپنی اصلاح کا عزم کرلیں تو اللہ تعالیٰ ان کی ضرور مدد فرماتے ہیں، پستی میں گرنے کے باوجود
انہیں عروج و ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے کا موقع فراہم کردیتے ہیں۔ لیکن جو قوم غفلت کا شکار رہے اور اس کی عقل پر دبیز پردے پڑے رہیں، اور وہ فطرت کی جانب سے متنبہ کرنے والے جھٹکوں سے بھی بیدار نہ ہو تو پھر تباہی و بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ فطرتِ الٰہی کے اس اصول کو قرآن حکیم نے سورہ انفال کی آیت نمبر 53، اور سورہ رعد کی آیت نمبر 11 میں بیان کیا ہے۔
عملی اقدامات کے لیے علم، عزم و یقین اور جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کتاب میں ایک طالب علمانہ کوشش کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی سے اُن اصولوں کی وضاحت کردی جائے جن کی بنیاد پر آپؐ نے اپنے زمانے میں تاریخ ساز فیصلے فرمائے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ان اصولوں کی وضاحت آپؐ ہی کے فیصلوں کے ذریعے کردی جائے۔‘‘
تحریکِ اسلامی کے ہر کارکن کو بالخصوص اور ہر مسلمان کو بالعموم اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔