فیصل آباد :چنار شوگر مل کے عملے اور کاشت کاروں میں تصادم ،شراب کے جعلی پرمٹ جاری کرنے کا انکشاف

فیصل آباد میں محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن حکام کی جانب سے مبینہ طور پر تین ہزار سے زائد بوگس اور جعلی شراب پرمٹ بنائے جانے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔ جعلی اور بوگس شراب پرمٹ پر جاری ہونے والی امپورٹڈ کوالٹی کی شراب منشیات فروشوں کی جانب سے کھلے عام فروخت کی جانے لگی ہے۔ باآسانی شراب میسر آنے کی وجہ سے نو جوان نسل بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ رہی ہے، جبکہ محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن حکام جعلی اور بوگس شراب پرمٹ کی منسوخی کے لیے اقدامات کرنے اور شراب کی مارکیٹوں میں ترسیل روکنے کے بجائے مبینہ طور پر ’’نذرانے‘‘ وصول کرتے ہوئے خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق شراب پرمٹ کے حصول کے لیے قانون کے مطابق درخواست دہندہ کا خود موقع پر موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ شراب پرمٹ حاصل کرنے کے خواہش مند افراد کا غیر مسلم ہونا لازمی ہے، اور اس کے غیر مسلم ہونے سے متعلق اس کے مذہب کے پیشوا کا بیانِ حلفی بھی درکار ہوتا ہے۔ شناختی کارڈ سمیت دیگر تمام مطلوبہ دستاویزات کے حامل غیر مسلم افراد کی انکوائری کے بعد اُن کا شراب پرمٹ جاری کیا جاتا ہے، لیکن ذرائع سے اس بات کا انکشاف سامنے آیا ہے کہ محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے افسران اور ملازمین کی جانب سے مبینہ طور پر ان تمام قانونی دستاویزات کو پسِ پشت رکھتے ہوئے بھاری نذرانے وصول کرکے شراب پرمٹ جاری کردیے جاتے ہیں۔ ذرائع سے اس بات کا انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ درجنوں وفات پا جانے والے افراد کے نام پر بھی شراب پرمٹ جاری کیے گئے ہیں۔ صورتِ حال سے متعلق حساس اداروں کی جانب سے بھی متعدد بار رپورٹیں تیار کرکے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے اعلیٰ حکام کو ارسال کی گئیں، لیکن متعلقہ افسران اور ملازمین کارروائی عمل میں لانے کے بجائے ٹال مٹول میں مصروف ہیں۔
دوسری طرف واسا مین ہول میں گر کر جاں بحق ہونے والے آٹھ سالہ طالب علم کے معاملے پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر واسا سمیت تین ملازمین کو معطل کرکے انکوائری شروع کردی گئی ہے۔ چیف سیکرٹری پنجاب نے صوبے بھر کے ایم ڈیز واسا اور چیف افسران کو مراسلہ جاری کردیا: باعثِ شرم ہے کہ بچے کھلے مین ہولز کی وجہ سے مر رہے ہیں، کچھ افسران اپنی بنیادی ذمے داریاں ادا نہیں کررہے، اگر کسی مین ہول کا ڈھکن غائب پایا گیا تو واسا کے ایم ڈیز اور لوکل گورنمنٹ کے چیف آفیسرز ذمے دار ہوں گے، فرائض میں کوتاہی برتنے پر متعلقہ افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی، کوئی بھی شخص مین ہول کے ڈھکن چوری کرتا، بیچتا یا خریدتا پایا گیا تو اس کے خلاف اقدامِ قتل کا مقدمہ درج ہوگا۔
دراصل ان واقعات کی وجہ واسا، ایف ڈی اے، ویسٹ مینجمنٹ کمپنی جیسے اداروں میں غیر منتخب سیاسی افراد کی تعیناتی ہے۔ پی ٹی آئی نے اپنے اُن کارکنوں کو جو انتخابات میں شکست سے دوچار ہوئے تھے ان اداروں کا انتظامی سربراہ بنادیا ہے، جو نہ تو ان اداروں کو چلانے کے اہل ہیں اور نہ ہی انہیں ان کاموں کا سابقہ کوئی تجربہ ہے، وہ محض خبروں میں زندہ رہنے کے لیے اخباری بیان بازیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ ان اداروں کو ملازمین کی کمی کا سامنا ہے، کیونکہ فنڈز میں کمی کی وجہ سے سیکڑوں ایڈہاک ملازمین کو فارغ کردیا گیا ہے، جبکہ ریگولر ملازمین صرف یونین بازی میں مصروف ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ برساتی نالوں کی صفائی کا بھی ہے۔ برساتی پانی کی نکاسی کے لیے شہر میں سڑکوں کے اطراف میں 450 کلومیٹر لمبے نالے بنائے گئے تھے جو بارش کا پانی سیوریج لائنوں تک لے جاتے ہیں، برساتی نالے کس کی ذمے داری ہیں؟ 30 سال بعد بھی معاملہ حل نہ ہوسکا۔ واسا کے مطابق ان نالوں کی صفائی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کی ذمے داری ہے، مگر میٹروپولیٹن کارپوریشن کی جانب سے ان کی صفائی اور دیکھ بھال نہیں کی جارہی۔ ان نالوں کی مرمت کا بھی کوئی ذمے دار نہیں۔ واسا نے جزوی طور پر نالوں کی صفائی کی، مگر سلیب نہ لگائی گئی۔ ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کے اخراجات کون اٹھائے؟ واسا اور میٹرو پولیٹن کارپوریشن ہاتھ کھینچنے لگے۔ معاملہ حل نہ ہوا تو مون سون میں شہریوں کوشدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ڈجکوٹ روڈ، سمندری روڈ، جھنگ روڈ، اسٹیشن چوک، نوابانوالہ روڈ، جڑانوالہ روڈ کے برساتی نالوں کی صفائی نہ ہوسکی جس سے سیوریج کے مسائل قابو میں نہیں آرہے۔ ڈی گراؤنڈ، نڑ والا روڈ، ملت چوک، شیخوپورہ روڈ، جھمرہ روڈ، ستیانہ روڈ، ملت روڈ سمیت شہر کے متعدد نالے بھی صفائی کے منتظر ہیں۔ بیشتر نالوں کے سلیب بھی ٹوٹ گئے ہیں۔
ایک طرف تو کسان ملک بھر میں کھاد کی قلت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، دوسری طرف چنار شوگر مل کے عملے اورکاشت کاروں میں خوفناک تصادم کے نتیجے میں درجن سے زائد افراد شدید زخمی ہوگئے۔ زخمی کاشت کاروں میں عظمت شاہ، عبید شاہ، عمر عثمان، سجاد حسین، محمد یوسف، صابر حسین، عمر حیات، آصف اور اللہ رکھا شامل ہیں۔ واقعہ گنے کے کاشت کاروں کے مل کے سامنے ٹرالیاں خالی نہ کرنے پر احتجاج کے دوران پیش آیا، تصادم میں زخمیوں کو طبی امداد کے لیے ٹی ایچ کیو ہسپتال منتقل کردیا گیا۔ فائرنگ سے 2 زخمیوں کو تشویش ناک حالت کے پیش نظر فیصل آباد ریفر کردیا گیا۔ متاثرہ کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ مل عملے کی طرف سے کاشت کاروں پر اندھادھند فائرنگ کی گئی جس سے 2کاشت کار زخمی ہوئے۔ متاثرہ کاشت کاروں کی ٹرالیاں 3روز تک کھڑی رہیں لیکن مل انتظامیہ کی طرف سے جان بوجھ کر خالی نہیں کی گئیں۔ متاثرہ کاشت کار مل انتظامیہ سے مذاکرات کرنا چاہ رہے تھے لیکن مل کے عملے نے دھاوا بول دیا۔ مل انتظامیہ نے احتجاج کرنے والے کاشت کاروں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا، عملے نے کاشت کاروں کی 6گاڑیوں اور ٹریکٹروں کوبھی شدید نقصان پہنچایا۔ متاثرہ کاشت کاروں نے آئی جی اور وزیراعلیٰ پنجاب سے مل کے خلاف نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔
تاندلیانوالہ کے نواح میں ڈکیتی کی واردات کے دوران خاندان سمیت اغوا کے بعد اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون نے سی پی او فیصل آباد مبشر میکن سے ملاقات کے بعد چوبیس گھنٹوں بعد ہی زیادتی کا الزام واپس لے لیا، اور زیادتی کی بات کا مطلب بدسلوکی اور ڈکیتی میں مالی نقصان کو قرار دے دیا۔ تاہم متاثرہ خاتون، اس کے شوہر اور سی پی او کی واقعے سے متعلق گفتگو میں تضاد بھی سامنے آیا۔ یہ انسانیت سوز واقعہ گزشتہ سال 17 ستمبر کی رات گیارہ بجے پیش آیا۔ متاثرہ خاتون کے خاوند ابرار کی مدعیت میں صرف ڈکیتی کا مقدمہ درج ہوا۔ پولیس ذرائع اور ایس ایچ او نے صرف کار، زیور، موبائل فونز اور رقم لوٹنے کا ذکر کیا۔ جڑانوالہ کا رہائشی ابرار بیوی، بچوں اور بھائی کے ساتھ کار میں جارہا تھا۔ پولیس ذرائع کے مطابق چک 343 کے قریب سڑک پر ناکہ لگائے ڈاکوؤں نے گاڑی روک لی، سفید کار میں بٹھاکر آنکھوں پر پٹیاں اور رسیوں سے ہاتھ باندھ دیئے۔ گڑھ میں ڈیرے پر ابرار، تین کمسن بچوں اور بھائی کو الگ کمرے میں بند کیا۔ ڈاکو رات بھر 25 سالہ خاتون کو مبینہ اجتماعی زیادتی کا نشانہ بناتے رہے۔ علی الصبح ڈاکو متاثرہ خاندان کو شیرازہ پل کے نیچے چھوڑ گئے۔ خاتون کی نشاندہی پر ڈیرے پر چھاپہ مارا گیا جہاں سے زیادتی کے پانچ ملزم پکڑے گئے۔ گرفتار ڈاکوؤں نے درجنوں وارداتوں کا انکشاف کیا۔ سی پی او مبشر میکن نے پریس کانفرنس میں کہا کہ تاندلیانوالہ میں ڈکیتی کی واردات کے دوران خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعے کے بعد وہ خود خاتون اور متاثرہ خاندان کے گھر گئے جہاں انہوں نے خود انکوائری کی جس میں خاتون نے جنسی زیادتی سے انکار کیا۔ گرفتار ملزموں سے مکمل تفتیش کی گئی۔ ڈکیتی ہوئی لیکن زیادتی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔