کورونا اومیکرون کی نئی لہر

اومیکرون اب پورے پاکستان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا ہے۔ گلی گلی اور محلہ محلہ کورونا پنجے گاڑ رہا ہے، پاکستان کرکٹ بورڈ میں پھیل چکا ہے اور پشاور زلمی کے کپتان وہاب ریاض اور بلے باز حیدر علی کے بھی کورونا وائرس کے ٹیسٹ مثبت آگئے ہیں۔ ان کے علاوہ عُمان میں ہونے والی لیجنڈز لیگ سے واپسی پر کراچی کنگز کے صدر وسیم اکرم کا کورونا ٹیسٹ بھی مثبت آیا ہے۔ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان، اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے بتایا کہ گزشتہ تین سے چار ہفتوں میں پاکستان میں بھی وائرس کی اور نئی قسم کے زیادہ تر کیس، لگ بھگ 60 فیصد، دو بڑے شہروں کراچی اور لاہور میں سامنے آئے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کورونا وائرس کے کیسز میں تشویش ناک اضافہ جاری ہے، جہاں مثبت کیسز کی شرح 22 فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے۔ کراچی میں صورتِ حال سب سے زیادہ خراب ہے۔ سی ایم کورونا ٹاسک فورس کے رکن ڈاکٹر سعید خان کا کہنا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کورونا وائرس کی پانچویں لہر میں شدت ہے، جہاں رجسٹرڈ کیسز سے کہیں زیادہ لوگ متاثر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی رواں لہر میں کراچی میں مثبت کیسز کی شرح 46 فیصد تک ریکارڈ کی جا چکی ہے۔ سی ایم کورونا ٹاسک فورس کے رکن نے امید ظاہر کی کہ فروری کے آغاز سے کراچی میں کورونا کیسز بتدریج کم ہونے کا امکان ہے۔ دوسری جانب پاکستان کورونا مریضوں کے حوالے سے مرتب کی گئی فہرست میں 43 ویں نمبر پر پہنچ چکا ہے، تاہم یہاں کورونا کیسز کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان بھر میں اب تک کورونا وائرس کے 29 ہزار 122 مریض انتقال کر چکے ہیں جبکہ اس موذی وائرس کے کُل مریضوں کی تعداد 13 لاکھ 81 ہزار 152 ہوچکی ہے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے زیادہ متاثرہ علاقوں میں تعلیمی ادارے ایک ہفتے کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کراچی اور حیدرآباد میںاِن ڈور ڈائننگ اور اِن ڈور تقریبات پر پابندی لگا دی گئی ہے۔پابندی 15 فروری تک عائد رہے گی، جب کہ آئوٹ ڈور تقریبات میں ویکسی نیٹڈ 300 افراد کو شرکت کی اجازت ہوگی۔ اسلام آباد کی ضلع کچہری میں کورونا کیسز میں غیر معمولی اضافے کے بعد کورونا کا شکار ججوں کی عدالتیں بند کردی گئیں۔ این سی او سی کا کہنا ہے کہ وفاق کی اکائیاں 12 سال سے زائد عمر کے طلبہ کی ویکسی نیشن کے لیے خصوصی مہم چلائیں اور 100 فیصد ویکسی نیشن یقینی بنائی جائے۔ تعلیمی ادارے ایک ہفتے کے لیے بند کرنے کے معاملے پر محکمہ تعلیم سندھ نے وضاحت جاری کی ہے اور ترجمان محکمہ تعلیم سندھ کا کہنا تھا کہ محکمہ داخلہ سندھ کو این سی او سی کا کوئی نوٹیفکیشن نہیں ملا، نوٹیفکیشن موصول ہونے کے بعد فیصلہ کیا جائے گا، اُس وقت تک سابق فیصلے کے مطابق اسکول کھلے رہیں گے۔ کراچی میں جہاں کیسز میں ہوشربا اضافہ ہورہا ہے وہاں سندھ حکومت کی نااہلی بھی عیاں ہورہی ہے اور تنخواہوں کی عدم فراہمی کے باعث کراچی کے ایکسپو ماس ویکسی نیشن سینٹر میں عملے نے کام بند کردیا ہے اور ملازمین مظاہرہ کررہے ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ یقین دہانیوں کے باوجود 9 ماہ سے تنخواہ نہیں دی جا رہی۔ ویکسی نیشن کے لیے آنے والوں کو واپس بھیجا جارہا ہے۔
وفاق اور سندھ کی لڑائی اور نااہلی اپنی جگہ، لیکن عوام اپنی لاپروائی اور حکومتی بدانتظامی کی وجہ سے کورونا وائرس کا شکار ہورہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وائرس کی یہ نئی قسم اب تک تو اتنی زیادہ مہلک اور جان لیوا ثابت نہیں ہورہی جس کا خطرہ محسوس کیا جارہا تھا، لیکن جس تیز رفتاری سے اس کا پھیلاؤ ہورہا ہے، وہ پریشان کن امر ہے۔ اور اب اومیکرون کی ذیلی قسم بھی دریافت ہوئی ہے جس کو بی اے 2 کا نام دیا گیا ہے، برطانیہ میں طبی حکام نے اومیکرون کی ذیلی قسم کے سیکڑوں کیسز کو شناخت کیا ہے۔ اعداد و شمار سے عندیہ ملا ہے کہ یہ قسم تیزی سے پھیل سکتی ہے، اومیکرون کی اس ذیلی قسم پر تحقیق کی جارہی ہے۔ فرانس کے وبائی امراض کے ماہر انٹونی فلاہوٹ کا کہنا ہے کہ ہمیں جس بات نے حیران کیا وہ یہ ہے کہ اومیکرون کی یہ ذیلی قسم کتنی برق رفتاری سے ایشیا میں پھیلنے کے بعد ڈنمارک تک پہنچ گئی ہے۔ ماہرین نے بی اے 2 کو باعثِ تشویش قسم قرار نہیں دیا مگر انٹونی فلاہوٹ کا کہنا ہے کہ ممالک کو اس نئی پیش رفت کے بارے میں الرٹ رہنا ہوگا۔ یو کے ہیلتھ سیکورٹی ایجنسی (یو کے ایچ ایس اے) نے برطانیہ میں جنوری 2022ء کے اوّلین عشرے میں بی اے 2 سے متاثر 400 سے زیادہ کیسز کو دریافت کیا اور عندیہ دیا کہ وائرس کی نئی قسم 40 دیگر ممالک میں بھی دریافت ہوچکی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہانوم نے عالمی ادارئہ صحت کے اجلاس سے خطاب کے دوران کہا کہ یہ سمجھنا خطرناک ہے کہ اومیکرون آخری ویرینٹ اور کورونا وبا آخری مرحلے میں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کورونا وبا کے نازک موڑ پر ہم سب کو مل کر اس وبا کا مقابلہ کرنا ہے۔
ہمارے یہاں آج بھی کورونا کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا، اور نئے ویرینٹ کو تو لوگ معمولی نزلہ بخار سے زیادہ اہمیت نہیں دے رہے۔ اب تک تحقیق میں اس نئے ویرینٹ سے متعلق جو معلومات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق اومیکرون کسی بھی شخص پر حملہ آور ہوتا ہے تو شروع شروع میں ایسا لگتا ہے کہ متاثرہ فرد کو نزلہ یا زکام ہے، کیوںکہ اس وائرس کے لاحق ہونے کی ابتدائی علامات کچھ ایسی ہی ہیں۔ دیگر عام علامات میں گلے میں خراش، ناک کا بہنا اور سر درد شامل ہیں۔ ڈاکٹر عذرا افضل پیچوہو نے بتایا کہ اب تک یہی دیکھا گیا ہے کہ اومیکرون کی علامات نسبتاً ہلکی اور فلو جیسی ہیں جو کورونا وائرس کی دیگر اقسام سے زیادہ مختلف نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اِن علامات میں ناک کا بہنا، کھانسی اور بخار شامل ہیں۔ جب کہ اس سے قبل کورونا وائرس کی دیگر اقسام میں ایک اہم علامت یہ تھی کہ متاثرہ شخص کی سونگھنے اور چکھنے کی صلاحیت عموماً متاثر ہوجاتی تھی، یعنی نہ تو کسی کھانے کا ذائقہ آتا تھا اور نہ ہی کسی قسم کی خوشبو یا بدبو کا احساس ہوتا تھا۔ یہ ایک اہم نشانی تھی جس سے معلوم ہوجاتا تھا کہ کورونا ہے۔ لیکن اب دیکھنے میں آیا ہے کہ موجودہ لہر میں یہ علامات اس شدت سے ظاہر نہیں ہوتیں۔یہ ویرینٹ گزشتہ وائرس کی نسبت مختلف طریقے سے انسانی جسم پر اثرانداز ہوتا ہے۔ماہرین ان اعداد و شمار کی روشنی میں بتا رہے ہیں کہ کسی کی بھی ناک کا بہنا، سر درد، تھکاوٹ، گلے میں خراش اور چھینکیں آنا کورونا کی علامات میں شامل ہیں۔اگر یہ علامات ظاہر ہوں تو فوری طور پر اپنا ٹیسٹ کروانا چاہیے تاکہ کورونا وائرس کی تشخیص اور تصدیق ہوسکے، جس کے بعد ٹھیک سمت میں علاج ہوسکے۔ کیونکہ علاج کے درست سمت میں ہونے کی صورت میں ہی مستقبل میں بیماری کی پیچیدگی میں اضافے سے بچا جاسکتا ہے۔ اس لیے جہاں عوام کو چاہیے کہ احتیاط کریں اور فوراً کورونا کی ویکیسن لگوائیں، اور جو افراد ویکسین لگوا چکے ہیں وہ بوسٹر لگوائیں، ماسک پہنیں، وہیں حکومت کو چاہیے کہ بڑے پیمانے پر مفت ٹیسٹ کروائے، کیونکہ لوگوں میں اتنی معاشی سکت نہیں رہی کہ وہ تین سے سات ہزار کے ٹیسٹ کرائیں۔ اور پھر ایک گھر میں کوئی کتنے لوگوں کے ٹیسٹ کرواسکتا ہے؟ اسی طرح گھر گھر ویکسین لگانے کے عمل کو اعلان سے ہٹ کر فوری شروع کیا جائے۔ اس پس منظر میں ڈاکٹر حضرات کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنے کلینکس کے اوقات میں اضافہ کریں، اور کم از کم اپنی فیس آدھی کردیں، تاکہ لوگوں میں علاج کرانے کا رجحان بڑھے اور متاثرہ افراد سیلف میڈیکیشن سے بھی بچ سکیں۔ اس ضمن میں بہت سے ڈاکٹر آگاہی کا کام کررہے ہیں اور آن لائن رہنمائی بھی فراہم کررہے ہیں، جو قابلِ تحسین عمل ہے، جسے مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔