نام تھا مولوی تمیزالدین خان۔ 1889ء میں پیدائش، 1963ء میں وفات پائی۔ بڑے مذہبی گھرانے میں پَل کر بڑے ہوئے۔ والدین نے دینی تعلیم اتنی توجہ سے دلوائی کہ ”مولوی“ ان کے نام کا حصہ بن گیا۔ یہ ان کے نام کا پہلا لفظ تھا اور آخری تھا ”خان“جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اُن کے آباو اجداد افغانوں یا مغلوں کے ابتدائی دور میں افغانستان سے ہجرت کرکے (ہندوستان پر حکومت کرنے والے مسلمان حکمرانوں کی حکمت عملی کے تحت) بنگال میں جاگیر حاصل کرنے والوں میں شامل تھے۔ وہ قیام پاکستان سے پہلے ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی کے رکن تھے۔ پاکستان بنا تو وہ پہلے دن سے پاکستان کی دستور/ قانون ساز اسمبلی کے (اپنی پرانی پوزیشن کی بدولت) رکن اور اس کے دوسرے صدر تھے (پہلے صدر قائداعظم تھے) اور اس اسمبلی کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے اُنہوں نے اتنی بڑی اور تاریخی جنگ لڑی کہ وہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا سنگِ میل بن گئے۔
اُنہوں نے 1913ء میں کلکتہ کے Presidency College سے بی اے کا امتحان اور اگلے ہی برس قانون کی ڈگری لے لی۔ زمانہ طالب علمی میں وہ جس سیاسی شخصیت کو اپنا گرو مانتے تھے وہ چرن موجمدار تھے (جو آگے چل کر کانگریس کے صدر بنے)۔ وہ کچھ عرصے کے لیے مسلم لیگ میں بھی شامل ہوئے لیکن 1921ء میں اُن کا دل (جس میں وطن دوستی کا جذبہ کانگریس نے جگایا تھا) اُن کے دماغ پر غالب آیا اور وہ پھر کانگریس میں شامل ہوگئے۔ وہ خلافت تحریک اور احتجاجی عدم تعاون تحریک کے بھی سرگرم رکن رہے اور عوام میں گھل مل کر سیاسی کام سیکھا، مگر بھاری قیمت یہ ادا کرنا پڑی کہ اُنہیں انگریز مجسٹریٹ کے حکم پر برسر عام کوڑے لگائے گئے اور جیل میں قید کی سزا بھگتی۔ 1926ء میں وہ بنگال کی قانون ساز اسمبلی کے رکن چُنے گئے۔ غالباً فریدپور کے آبائی حلقہ ٔ انتخاب سے۔ اس کے بعد ان کا عروج شروع ہوا۔1937-47ء کے درمیانی دس سالوں میں وہ وزیر رہے اور اُن کے پاس یکے بعد دیگرے چار محکموں کا قلمدان تھا۔ پاکستان بنا تو وہ دستور ساز اسمبلی کے نائب صدر چُنے گئے۔ قائداعظم نے (جو پہلے صدر تھے) وفات پائی تو وہ صدر بنادیے گئے۔ اُن کے دامن پر ایک داغ یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی ایک (چھوٹی سی بھی) اصلاح کی تجویز پیش کرنے یا قائداعظم کے بتائے گئے اُصولوں خصوصاً 11 اگست1947ء کی تقریر میں بتائے گئے کسی ایک اصول کو یاد کرکے نئے ملک کا نیا آئین بنانے کی طرف تھوڑی سی توجہ نہ دی۔ دستور ساز اسمبلی کا صدر بننے کے بعد مولوی صاحب بصد شوق قراردادِ مقاصد کے تحت منظور شدہ اصولوں پر عمل کروانے کی ذمہ دار کمیٹی کے صدر بن گئے۔ اُنہیں اور اُن کے ساتھی اسمبلی اراکین کو ہرگز خیال نہ آیا کہ ہم نے کتنی بڑی قربانیاں دے کر، آگ اور خون کے دریا سے گزر کر ایک نیا ملک بنایا اور اسے مملکتِ خداداد پاکستان کا نام دیا جس کا دوسرا سربراہ کبھی یونین کونسل کا کونسلر بھی نہیں رہا۔ وہ عوامی نمائندہ نہیں بلکہ سابقہ انگریزوں کی حکومت کے محکمہ مالیات کا چھوٹے درجے کا سابق سرکاری افسر تھا جو ملکہ برطانیہ کے ایک فرمان کی رُو سے پاکستان کا گورنر جنرل (اور تاجِ برطانیہ کا نمائندہ) بنادیا گیا۔
وزیراعظم خواجہ ناظم الدین تھے، جنہیں قائداعظم کی وفات کے بعد گورنر جنرل بنایا گیا تھا۔ لیاقت علی خان کو اکتوبر 1951ء میں راولپنڈی کے ایک باغ میں سرکاری افسروں اور طالع آزما سیاست دانوں کی سازش سے قتل کروایا گیا تو ایک اسامی خالی ہوگئی۔ خواجہ صاحب کو حکم ملا (آپ خود سوچیں کہ کس نے دیا ہوگا) کہ آپ سب سے اُونچی کرسی چھوڑ کر ایک قدم نیچے آجائیں اور وزیراعظم بن جائیں تاکہ وزیر خزانہ (فنانس سیکرٹری چار سالوں میں ترقی کرکے وزیر بن چکا تھا) کو گورنر جنرل بنانے کے لیے راستہ ہموار کیا جاسکے۔ سب کچھ اُس Script کے مطابق ہوا جو لیاقت علی خان کو جامِ شہادت پلوانے والوں نے لکھا تھا۔ ان دنوں پاکستان نے امریکہ کی تابع داری اور وفاداری بشرطِ استواری کا حلف اُٹھا لیا تھا، اس لیے ہمارے سب رہنما (بشمول ہمارے مولوی صاحب) چین کی بانسری بجا رہے تھے کہ اکتوبر1954ء میں ایک زلزلہ آگیا۔
مورخین متفق نہیں کہ اس کا سبب کیا تھا؟ ایک قیاس کے مطابق اسمبلی میں نئے آئین کا نیم پختہ نقشِ اوّل (First Draft)پیش ہونے جارہا تھا اور نئے آئین کی منظوری اقتدار کے شہ زور گھوڑے پر سوار کو ہرگز پسند نہ تھی۔ اُس نے آئو دیکھا نہ تائو (کچھ عجب نہیں کہ اُنہیں اس کا اُس وقت کے شریف الدین پیرزادہ یعنی اے کے بروہی نے مشورہ دیا ہو) اور قومی اسمبلی توڑ دی۔ گورنر جنرل نے اپنے خالص لاہوری تھڑے باز ہونے کا یہ ثبوت دیا کہ اپنے چوکیداروں کو شب و روز سندھ ہائی کورٹ کی حفاظت پر مامور کردیا۔ چونکہ اُسے یہ خبر مل چکی تھی کہ اُس کے آمرانہ قدم کے خلاف مولوی صاحب ہائی کورٹ سے رجوع کرکے اسے کالعدم کروائیں گے (یا کوشش کریں گے)۔ داستان گو کہتے ہیں کہ جب مولوی صاحب کو ان حفاظتی اقدامات کی خبر ملی تو اُنہوں نے اپنے ایک دوست کی ملازمہ سے اُس کا برقع مانگا اور وہ اوڑھ کر ہائی کورٹ میں اپنی درخواست پیش کرنے میں کامیاب رہے۔ مولوی صاحب اپنے قانونی مشیر خود ہی تھے۔ اُنہوں نے شاہی فرمان غور سے پڑھا تو اُن پر یہ راز کھلا کہ وہ مبہم ہے۔ اُس میں صاف الفاظ میں یہ نہیں لکھا تھا کہ دستور ساز اسمبلی توڑی جاتی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ (جس کا اُس وقت چیف جسٹس ایک معزز، بااُصول اور باضمیر انگریز تھا) نے مولوی صاحب کے حق میں فیصلہ دیا۔ یہ ایک اور زلزلہ تھا جس نے ایوانِ اقتدار کو لرزہ براندام کردیا۔ گورنر جنرل نے دفاعی عدالت میں اپیل کردی۔ بدقسمتی سے اُس کا سربراہ ملک غلام محمد کی برادری کا ایک فرد تھا جس کا نام تھا محمد منیر۔ (وہ چیف جسٹس کس طرح بنایا گیا، کسی اور کالم میں بیان کیا جائے گا)۔ جسٹس منیر شدید مخمصے میں پھنس گیا۔ ایک طرف آئین، انصاف اور اُن کا علَم بردار مولوی تمیزالدین تھا اور دوسری طرف اُن کا قرابت دار سربراہ مملکت۔ اُس نے وہ کیا جو کسی چیف جسٹس یا جسٹس یا سول جج نے بھی نہ کبھی کیا اور شاید نہ کبھی کرے گا، اور وہ یہ تھا کہ فیصلہ کرنے اور مولوی صاحب کے روزِ روشن کی طرح واضح موقف کو تسلیم کرنے (جس کی سندھ ہائی کورٹ توثیق کر چکی تھی) کے بجائے یہ Rulingدی کہ عدالت کے سامنے جو مقدمہ پیش ہوا اُس میں Issues قانونی نہیں بلکہ سیاسی ہیں اس لیے بہتر ہوگا کہ فریقین آپس میں سمجھوتہ کرلیں اور مولوی صاحب اپنی درخواست واپس لے لیں۔ مولوی صاحب نے سمجھوتے کی ایک ہی شرط پیش کی کہ گورنر جنرل اپنا فرمان واپس لے اور آئین ساز اسمبلی کا اجلاس بلائے جبکہ اسمبلی آئین سازی نہ کرے گی، اور گورنر جنرل مقررہ میعاد کے اندر نئی اسمبلی کے اراکین کا اجلاس بلائیں جو آئین بنائے۔ یہ حیرت کا مقام نہیں کہ یہ شرط ملک غلام محمد کے لیے قابلِ قبول نہ تھی۔ مجبوراً سپریم کورٹ کو مولوی صاحب کے حق میں دیے گئے فیصلے کے خلاف گورنر جنرل کی اپیل سننی پڑی۔ برطانیہ کے عالمی شہرت کے وکیل D.N Prittاپنے خرچ پر پاکستان آئے۔ فیس لیے بغیر مولوی صاحب کا کیس لڑا اور کمال کے دلائل دیے، مگر مارچ 1955ء میں تیسرا زلزلہ آکر رہا اور ہمارے ہاں قانون کی حکمرانی کی کلی بن کھِلے مُرجھا گئی۔ فیڈرل کورٹ کے جج صاحبان کی اکثریت نے اپیل منظور کرلی۔ اس طرح آنے والے چار مارشل لا کا راستہ کھل گیا۔ پہلے ایوب خان کے دور میں ایک لولی لنگڑی قومی اسمبلی (جو دستور ساز بھی تھی) معرضِ وجود میں آئی تو اُس نے مولوی تمیزالدین خان کو اپنا اسپیکر اتفاقِ رائے سے چن کر اُنہیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ افسوس کہ وہ اگلے ہی برس (1963ء) وفات پاگئے۔ (نسیم احمد باجوہ۔روزنامہ دنیا،25جنوری 2022ء)