پلاسٹک کی آلودگی ساری دنیا کے لیے ’نئی ایمرجنسی‘

ماحولیاتی تحقیقی ایجنسی (ای آئی اے) نے پلاسٹک کے ہولناک خطرات کو عین آب و ہوا میں تبدیلی سے تعبیر کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اب ہم جو سانس لے رہے ہیں اس میں بھی پلاسٹک ہے۔ سمندری غذا میں پلاسٹک کے باریک ذرات شامل ہورہے ہیں اور سمندروں میں پھینکی گئی ہماری پلاسٹک انٹارکٹک کے ویرانے اور سمندروں کی گہرائیوں تک پہنچ رہی ہے۔ حال ہی میں تھائی لینڈ میں بھوک سے بے تاب 20 ہاتھی کوڑے دان سے کھانے کے بعد ہلاک ہوئے ہیں، کیونکہ اس کھانے میں پلاسٹک شامل تھی۔ افریقہ سے خبر یہ ہے کہ زرخیز مٹی میں باریک پلاسٹک کھیتی باڑی کو تباہ کررہی ہے۔ اسی بنا پر ای آئی اے سے وابستہ ٹام گیمج کہتے ہیں کہ پلاسٹک کا ٹک ٹک کرتا بم کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے، اور اسی بنا پر عالمی اقوام کو پلاسٹک کی تیاری اور استعمال ترک کرنے کا پابند بنانا ضروری ہے۔ دوسری جانب امریکی صدر جوبائیڈن بھی پلاسٹک کی تیاری اور استعمال کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن کوئی نہیں جانتا کہ کانگریس اسے مانے گی یا نہیں، کیونکہ پلاسٹک کی اکثریت تیل اور گیس سے بنائی جاتی ہے۔ دوسری جانب چین اور خلیجی ممالک بھی اس پر خاموش ہیں۔ ای آئی اے کی تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اب بھی پلاسٹک کے تباہ کن اثرات پر مزید تحقیق کرنا باقی ہے۔ پلاسٹک کی ایک تھیلی پانچ منٹ استعمال ہوتی ہے اور ایک ہزار سال تک ختم نہیں ہوتی۔ سمندروں میں جاکر یہ حساس مخلوق کی خوراک بنتی ہے اور موت کی وجہ بھی بن رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں پلاسٹک سازی تمام حدود پار کرچکی ہے اور صارفین پلاسٹک سے جان نہیں چھڑانا چاہتے۔ پھر پلاسٹک کی بازیافت (ری سائیکل) کی شرح بھی کم ہے جو مزید تشویش ناک ہے۔