حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور پر تقریباً چھ صدیاں گزر چکی ہیں۔ معمورۂ عالم خدا کے پیغمبروں کی معرفت حاصل کی ہوئی صداقتِ حق کو فراموش کرچکا ہے۔ تمام نوعِ انسانی خدا کے بجائے مظاہر پرستی میں مبتلا ہے۔ ہر قوم اور ملک میں نوعِ انسان سے لے کر نوعِ جمادات تک پرستش سرمایہ نازش بنی ہوئی ہے۔ کوئی انسان کو اوتار (خدا) کہہ رہا ہے تو کوئی بیٹا۔ اگر ایک گروہ مادہ پرست ہے تو دوسرا خود اپنی آتما (روح) کو ہی خدا سمجھ رہا ہے۔ سورج کی پوجا ہے۔ چاند اور ستاروں کی پرستش ہے۔ حیوانوں، درختوں اور پتھروں کی عبادت ہے۔ آگ، پانی، ہوا اور مٹی کے سامنے ناصیہ فرسائی ہے۔ غرض کائنات کی ہر شے پرستش اور پوجا کے لائق ہے، اور نہیں ہے تو ذاتِ واحد قابلِ پرستش نہیں ہے ،نہ اس کی احدیت کا تصور خالص ہے اور نہ صمدیت کا۔ اگر اس کو مانا بھی جاتا ہے تو دوسروں کی پرستش اور عبادت کے ذریعے۔ وہ اگر خالقِ موجودات ہے بھی تو انسان، درخت پتھر کے بل بوتے پر۔ غرض ساری دنیا میں اصل کارفرمائی مظاہر کی ہے اور ذاتِ حق میں صرف نام کے لیے۔ حقیقت سے چشم پوشی تھی، مگر مجاز کی عبادت گزاری شعار عام تھا۔ اور ہر طرف مَانَعْبُدُهُمْ اِلَّالِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللّٰهِ زُلْفَى(الزمر:3)
ہم ان کو نہیں پوجتے مگر اس کے لیے تاکہ وہ خدا کی جانب ہماری قربت کا ذریعہ بن جائیں ،کا مظاہرہ نظر آتا تھا۔
یہی وہ تاریک دور تھا جس میں سنتہ اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے قانونِ ہدایت نے پھر ماضی کی تاریخ کو دہرایا اور غیرتِ حق نے فطرت کے قانونِ ردعمل کو حرکت دی۔ یعنی آفتابِ ہدایت، برجِ سعادت سے نمودار ہوا اور چہار جانب چھائی ہوئی شرک و جہالت اور رسم و رواج کی تاریکیوں کو فنا کرکے عالمِ ہست و بود کو علم و یقین کی روشنی سے منور کردیا۔
9ربیع الاول مطابق 20 اپریل 571ء (جدید تحقیق کے مطابق 17 جون 569ء، دوشنبہ) کی صبح وہ صبح سعادت تھی جب مدنیت و حضارت سے محروم، بن کھیتی کی سرزمین مکے کے ایک معزز قبیلے (بنی ہاشم) میں عبداللہ بن عبدالمطلب کے یہاں آمنہ بنت ِ وہب کے مشکوئے معلی سے آفتابِ محمد مصطفیؐ نے ظہور کیا۔
خدایا وہ صبح کیسی سعادت افروز تھی جس نے کائناتِ ارضی کو رشد و ہدایت کے طلوع کا مژدئہ جاں فزا سنایا، تو وہ ساعت کیسی مبارک و محمود تھی جو معمورۂ عالم کے لیے پیغام ِبشارت بنی۔ عالم کا ذرہ ذرہ زبانِ حال سے نغمے گا رہا تھا کہ وقت آپہنچا کہ اب دنیائے ہست وبود کی شقاوت دور اور سعادتِ مجسم سے عالم معمور ہوا، ظلمت ِشرک و کفر کا پردہ چاک اور آفتاب ِہدایت روشن اور تاب ناک ہوا۔ مظاہر پرستی باطل ٹھیرے اور خدائے واحد کی توحید حیات قرار پائے!
(مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی،تعمیر افکار، کراچی، مارچ 2010ء)
مجلس اقبال
ضمیر لالہ میں روشن چراغِ آرزو کردے
چمن کے ذرے ذرے کو ’’شہید جستجو‘‘ کردے
نظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ کے اس شعر میں علامہ مسلمانوں کے لیے دعا کرتے ہیں کہ یہ جو مُردہ دل ہوچکے ہیں اور ان کے دل میں کسی قسم کی تمنائیں اور آرزوئیں جنم نہیں لیتیں تُو ان کے دلوں میں امید و آرزو کے چراغ روشن کر، اور انہیں زندگی کا وہ شعور دے کہ یہ مقاصد کے حصول کے لیے جستجو اور جدوجہد کرسکیں، یعنی زندگی تو ہے ہی یہی کہ انسانوں کے دل زندہ ہوں، ان میں امیدیں اور آرزوئیں جنم لیتی ہوں اور ان کے حصول کے لیے بھرپور جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے۔