جنوبی پنجاب کے عوام کی مایوسی جماعت اسلامی حقیقی حزب اختلاف ہے

جماعت اسلامی ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، حکومتی نااہلی، کرپشن، لوٹ مار کے خلاف ملک بھر میں عوام کو منظم اور متحدکرنے کے لیے رابطۂ عوام مہم چلا رہی ہے۔ جلسے، جلوسوں، مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ جبکہ نام نہاد اپوزیشن اپنی کرپشن چھپانے، لوٹ مار کو ہضم کرنے اور ’اسٹیٹس کو‘ برقرار رکھنے کے لیے حکومت کے ساتھ ایک پیج پر ہے، اس نے ہر مشکل گھڑی میں حکومت کا ساتھ دیا ہے۔ اس کا شور شرابا عوام کو بے وقوف بنانے اور اسٹیبلشمنٹ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ہے۔ عوام خوب جانتے ہیں کہ ملک وقوم کو درپیش مشکلات و مسائل ان ہی لوگوں کے پیدا کردہ ہیں۔ حقیقی اپوزیشن صرف جماعت اسلامی ہے جو پاکستانیوں کی امیدوں کا مرکز بنتی جارہی ہے۔ عام آدمی حکومتی اور دیگر پارٹیاں چھوڑ کر جماعت اسلامی کی طرف رجوع کررہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ووٹوں کے اعتبار سے جماعت اسلامی ایک بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ امیرجماعت اسلامی صوبہ کے پی کے مشتاق احمد خان کا کہنا ہے کہ یہ وہ اضلاع ہیں جہاں ہم تنظیمی اعتبار سے کمزور تھے، الحمدللہ اب ہمارے قدم آگے بڑھے ہیں، دوسرے مرحلے کے انتخابات میں اس سے بھی بہتر نتائج ہوں گے، اِن شاء اللہ۔ کے پی کے میں نمبر ون پر آنے والی پارٹی کو پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی حمایت حاصل تھی، جبکہ جماعت اسلامی نے تنہا انتخابات میں حصہ لیا، یہی صورت حال جنوبی پنجاب میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ملتان کے ایک صوبائی حلقے میں ہونے والے عوامی استقبالیہ میں پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں اپنی اپنی پارٹیوں کو خیرباد کہہ کر جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ موجودہ حکومت سمیت سابقہ حکومتوں نے یہاں کے عوام کو نظرانداز کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ عوامی استقبالیہ شمولیتی جلسے میں بدل گیا۔ امیرجماعت اسلامی سراج الحق نے جماعت اسلامی میں شامل ہونے والے نئے افراد کا خیرمقدم کیا۔
جنوبی پنجاب کی صورت حال بھی انتہائی ابتر ہے۔ یہاں کے باسیوں نے عمران خان کے دعووں اور وعدوں پر اعتبار کرکے جھولیاں بھربھر کر ووٹ دیئے، مگر اب جھولیاں اٹھا اٹھا کر بددعائیں دے رہے ہیں۔ یوٹرن کے بادشاہ کی نااہل حکومت نے اس خطے کے لوگوں کو بھی مایوس کردیا۔ سو دنوں میں صوبہ جنوبی پنجاب بنانے کے دعوے دار حکمران صوبہ تو دور کی بات ڈھنگ کا ایک سیکرٹریٹ نہیں بنا سکے۔ چند بے اختیار سیکرٹریز کو یہاں بٹھاکر یہاں کے سیدھے سادے عوام کو بے وقوف بنایا گیا۔ اب بھی تمام سرکاری کام تختِ لاہور سے ہی ہوتے ہیں۔ سرکاری ملازمین کو اپنے کاموں کے لیے لاہور کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔ حکمران تو ابھی تک یہ فیصلہ بھی نہیں کرسکے کہ صوبائی سیکرٹریٹ ملتان ہوگا یا بہاولپور؟ چند سیکرٹریز کوملتان اور چند کو بہاولپور میں بٹھایا ہوا ہے۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی بھی جنوبی پنجاب صوبہ بنانے میں مخلص نہیں۔ اگر ہوتیں تو اپنے دورِ اقتدار میں صوبہ بنادیتیں۔ پنجاب اسمبلی متفقہ طور پر نئے صوبے کے قیام کی قرارداد پاس کرچکی تھی، مگر مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے آئین میں ترمیم کے لیے قومی اسمبلی میں بل پیش کرنے کے بجائے سو سے زائد افراد پر مشتمل کمیٹی بناکر اس معاملے کو اندھے کنویں کی نذر کردیا۔ مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنے دورِ اقتدار میں صوبے کے لیے کوئی پیش رفت نہ کی، جبکہ جماعت اسلامی کے ایم پی اے ڈاکٹر سید وسیم اختر مرحوم نے پنجاب اسمبلی میں باربار اس طرف حکمرانوں کو توجہ دلائی۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ والے جنوبی پنجاب صوبے کو دفن کرکے اقتدار کے مزے لوٹنے میں مگن ہیں، اسی طرح پیپلزپارٹی کے رہنما نے گورنری کے بدلے بحالی صوبہ بہاولپور تحریک کو دفنادیا۔ انہوں نے اس کو اپنے اقتدار کے لیے سیڑھی کے طور پر استعمال کیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس خطے کی غربت، پسماندگی اور جہالت کے ذمے دار ہیں۔ ان سے چھٹکارا حاصل کیے بغیر ترقی وخوشحالی ممکن نہیں۔
ان حالات کی وجہ سے عوام میں مایوسی اور غصہ پایا جاتا ہے، وہ ایک مسیحا کی تلاش میں ہیں جو ان کے دکھوں کا مداوا کرسکے۔ یہ مسیحا سراج الحق کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ وہ دیانت دار، باصلاحیت اور عوام میں سے ہیں۔ وہ خود غریب ہیں، اس لیے غریبوں کے دکھوں اور ان کے مسائل و مشکلات کو بہتر جانتے ہیں۔ سینیٹ کی جاری کردہ لسٹ کے مطابق وہ غریب ترین سینیٹر تھے، جس کے بارے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر آئین کی دفعہ 62۔63 پر عمل ہوا تو ایوان میں سراج الحق ہی بچے گا۔ جو اسٹیٹس کو اور ظلم کے نظام کا خاتمہ کرکے قرآن وسنت کا عادلانہ نظام لانا چاہتے ہیں۔ یہی حقیقی ریاستِ مدینہ ہوگی۔
nn