ہمارے زوال کا کون ذمہ دار ہے؟

سچ تو یہ ہے کہ اپنے زوال کے ذمہ دار ہم خود ہیں، مگر ہم سے مراد صرف عوام نہیں (جو سب سے کم قصور وار ہیں) بلکہ پاکستان کے ادارے، سیاست دان، انتظامیہ، نظام قانون، ہمارے زمیندار، جاگیر دار، صنعت کار اور سارا کاروباری طبقہ ہے۔ ہمارا پسماندہ اور جاگیردارانہ کلچر، ذات برادری کا غیر مناسب لحاظ (ہمارے دوسرے گورنر جنرل ملک غلام محمد کے ایک سراسر غیر آئینی فیصلے کی سپریم کورٹ نے توثیق کی۔ چیف جسٹس اور گورنر جنرل کا تعلق ایک ہی برادری سے تھا)، جمہوری روایات کا فقدان، سول سوسائٹی کا نابالغ، غیر مؤثر اور غیر فعال ہونا، قانون کے بجائے شخصی حکمرانی کی روایت، شروع دن سے حکمران طبقے کی امریکہ کی غلامی جو ہمیں فلاحی مملکت کے بجائے سیکورٹی اسٹیٹ کی طرف دھکیلتی گئی، متوسط طبقے کی1970ء تک عدم موجودگی، تعلیم اور سیاسی شعور کی کمی، بھارت کی غیر دوستانہ ہمسائیگی، عوامی حقوق کی خاطر لڑنے والوں کو غدار سمجھنے کی روش، ہمارے وکیل، ہمارے اساتذہ، ہمارے ڈاکٹر۔ 74 سال کے بعد مڑ کر دیکھیں تو آنکھوں سے جھڑی لگ جاتی ہے اور دل خون کے آنسو روتا ہے۔
قائداعظم کی قیام پاکستان کے بعد خرابیِ صحت اور ایک سال کے بعد وفات کو صرف تین سال گزرے کہ پہلے وزیراعظم اور سب سے قدآور سیاست دان لیاقت علی خان کو گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا؟ ہمیں آج تک پتا نہیں چل سکا۔ تفتیش کرنے والے سب افسران بھی یکے بعد دیگرے مار ڈالے گئے۔ وثوق سے مجرموں کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی مگر انگریزی قانونِ شہادت کے ایک اصول (Circumstantial Evidence) کے تحت ہم اُس وقت کے صاحبانِ اختیارِو اقتدار کے کردار کو بغور دیکھیں تو شک و شبہ کی گرفت میں کون کون آتا ہے؟ پنجاب پولیس کے دو افسران (ایس پی نجف خان اور آئی جی قربان علی خان) اور نواب مشتاق گورمانی اور ملک غلام محمد۔ قائداعظم کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین دوسرے گورنر جنرل بنے تھے۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اُنہیں ترقی دے کر سربراہِ مملکت کے عہدے سے ہٹا کر وزیراعظم بنادیا گیا اور Accounts Service کا ایک عام افسر ایک بڑی چھلانگ لگا کر خواجہ صاحب کی جگہ گورنر جنرل بن بیٹھا۔
یہ فیصلے کس نے کیے؟ کیا یہ اہم فیصلے کرنے والوں کے پاس اختیار تھا؟ اُنہیں یہ اختیار کس نے دیا تھا؟کابینہ نے یا قومی اسمبلی نے؟ کیا ہم کابینہ اور اسمبلی کی کارروائی کے Minutes اور Proceedings پڑھ سکتے ہیں؟ کالم نگار کے علم کے مطابق کابینہ نے صرف انگوٹھے لگائے۔ قومی اسمبلی کو اسے ان کی توثیق کرنے کی زحمت نہ دی گئی اور نہ اسمبلی کے اراکین نے کابینہ کی من مانی اور غالباً غیر آئینی کارروائی پر کوئی بازپرس یا سرزنش کی۔ جب ملک غلام محمد پر فالج کا حملہ ہوا تو انہوں نے ایک امریکی خاتون کو اپنا سیکرٹری اور ترجمان بناکر بہت عرصہ مملکت خدادادِ پاکستان کے امور بطورِ سربراہ چلائے۔ ملک صاحب نے وفات پائی تو ان کا عہدِ اقتدار ختم ہوا۔ ان کی جگہ وزیر داخلہ جنرل اسکندر میرزا نے لی تو پہلے سے بھی بدتر آمر مطلق ہمارے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا۔ سارے سیاست دان پہلے کی طرح بھیگی بلی بنے رہے۔ آپ کو شاید یقین نہ آئے مگر سچ یہ ہے کہ امریکہ میں پاکستانی سفیر محمد علی بوگرہ کو (امریکی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے) پاکستان بلا کر وزیراعظم نامزد کردیا گیا تو اُسے قومی اسمبلی (جس نے کبھی اُس کی شکل بھی نہ دیکھی تھی) کی اکثریت کی تائید حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ مغربی سامراج سوویت یونین کے خلاف جو دفاعی حصار تعمیر کرتا تھا پاکستان اُن کا پُرجوش رکن بن کر امریکی خیرات (گندم سے لے کر اسلحہ تک) وصول کرنے والوں میں پیش پیش ہوتا تھا۔ کراچی کی سڑکوں پر وہ اونٹ گاڑیاں چلتی نظر آتی تھیں جو امریکی گندم اُس ملک کے کشکول میں ڈالتی تھیں جو محض بیس برس پہلے گندم برآمد کرتا تھا۔ اونٹ کی کوئی کل سیدھی ہو یا نہ ہو مگر وہ بھی اتنے محب وطن اور احسان یاد رکھنے والے تھے کہ اپنے گلے میں ”امریکہ تیرا شکریہ“ کی تختیاں لٹکا کر بار برادری کا فرض ادا کرتے تھے۔ ہمارے سیاست دانوں کو نہ خیرات میں ملنے والی گندم نظر آئی اور نہ اُنہیں بندرگاہوں سے گوداموں تک پہنچانے والے نمک حلال اونٹ۔ ملک غلام محمد کی طرح ہمیں ایک اور حساب کتاب کا ماہر (Accountant) چودھری محمد علی کی صورت میں ورثے میں ملا۔ کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ وزیراعظم نہ بنتے؟ ہمارے سیاست دان جانتے تھے کہ وہ جس زمانے میں برسر اقتدار ہیں، اُس میں پنپنے کی یہی باتیں تھیں، یہی تقاضے تھے،یہی آداب تھے، یہی شرائط تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس اسمبلی کے اوّلین سالوں میں ایک بڑے سیاست دان نے ایوان میں اپنے ساتھیوں پر ایک نظر دوڑائی اور منہ سے ایک مصرع بے ساختہ نکلا:
ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہو گا؟
شعر پڑھنے والے کا نام سردار بہادر خان تھا۔ وہ قائدِ حزبِ اختلاف تھے اور آگے چل کر جنرل اور پھر کمانڈر انچیف اور پھر صدر مملکت بن جانے والے ایوب خان کے بڑے بھائی تھے۔ چودھری محمد علی کو پاکستان کا پہلا آئین بنانے میں نہ زیادہ سر کھپائی کرنی پڑی اور (انگریزی محاورے کے مطابق) نہ آدھی رات کو چراغ روشن رکھنے کے لیے زیادہ تیل خرچ کرنا پڑا۔ انہوں نے 1935ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کا چربہ تیار کرکے قوم کو خوش خبری سنائی کہ مبارک ہو، اب آپ ایک آزاد مملکت کے باشندوں کے رہنمائوں کے ہاتھوں سے بنائے ہوئے آئین کی برکات سے فیض یاب ہوں گے۔ اگر ان کی کارکردگی کا لیاقت علی خان سے موازنہ کیا جائے تو یقیناً یہ ایک بڑا کارنامہ نظر آئے گا، چونکہ اُنہوں نے تو چند سطور پر مشتمل ایک پیراگراف (عنوان تھا قراردادِ مقاصد) ہمارے (انگریز کے بنائے ہوئے) آئین کا حصہ بنادیا۔ اگر مذکورہ قرارداد کی ذرا بھی ضرورت پڑتی تو کیا قائداعظم جیسا ذہین و فطین اور زیرک شخص خود اس کا اضافہ نہ کرتا (کم از کم ذکر تو کرتا)۔ اُس اسمبلی کے بنگالی اراکین قابلِ تعریف ہیں کہ اُنہوں نے اس قرارداد کی پرُ زور مخالفت کی، مگر ان کی صدائے احتجاج نقار خانے میں طوطی کی آواز بن کر اور دب کر رہ گئی۔ کئی سال گزر گئے (اندازاً 30 برس) تو جنرل ضیا الحق کو قرارداد مقاصد کی بنیاد پر اسلامی نظام کی عمارت تعمیر کرنے کا جواز مل گیا۔
سرکاری اعلان کیا گیا کہ 1958ء میں (قیام پاکستان کے گیارہ برس بعد) پہلے عام انتخابات ہوں گے۔ پختون خوا کے مردِ آہن خان عبدالقیوم خان نے جی ٹی روڈ پر میلوں لمبا جلوس نکالا تو بظاہر صدر مملکت (دراصل آمر مطلق) جنرل اسکندر مرزا نے برُی بھلی جمہوریت کی صف لپیٹ دی اور مارشل لا نافذ کردیا۔ ملک بھر میں اس کا کیا عوامی ردعمل ہوا؟ میری عمر کے لوگ اس کے چشم دید گواہ ہیں۔ نہ کوئی آنکھ پُرنم ہوئی اور نہ مذمت یا احتجاج کی ایک بھی آواز بلند ہوئی۔ ایک روایت کے مطابق کئی شہروں میں مٹھائی بانٹی گئی۔ اس سے دوسرے شریکِ جرم شخص کا حوصلہ اتنا بڑھا کہ وہ اپنے سرپرست اور محسن کو اُس کے عہدے سے ہٹا کر اور برطانیہ جانے والی پہلی پرواز پر سوار کرکے خود صدر مملکت بن گیا اور بغیر کسی مزاحمت کے دس برس ہماری زخموں سے چُور پیٹھ پر سوار ہوکر ہمیں چابک مار کر ہانکتا رہا۔ اپنے امریکی آقائوں کو خوش کرنے کے لیے اُس نے اہل کشمیر (جن کے حقِ آزادی کی حمایت میں ہم سب سے آگے ہیں) کی ملکیت تین دریا بھارت کے ہاتھ فروخت کردیے۔ نہ عوام بولے اور نہ ان کے سیاسی رہنما۔ بے چارے عوام تو قابل ِمعافی ہیں کہ وہ بقول اقبال: یا مال مست ہیں یا حال مست۔ مگر سیاست دان اندھے، گونگے او ربہرے کیوں بن گئے؟ کیا اسے سیاسی قیادت کہتے ہیں؟ اگر وہ عوام کے ترجمان نہ ہوں گے تو اور کون ہوگا؟ اگر وہ قومی مفاد کی حفاظت نہ کریں تو اور کون کرے گا؟
(نسیم احمد باجوہ،دنیا،11جنوری2022ء)