یادوں کے شہسوار… مولانا محمد اسحاق بھٹیؒ

برصغیر میں اسلامی تاریخ و تہذیب سے وابستہ علوم و فنون اور آثار و اخبار کی تلاش و جستجو کے بعض نقوشِ اوّلیں سے لے کر عصرِ حاضر تک علمی تحقیقات کا تذکرہ جب بھی مرتب کیا جائے گا اس میں مولانا محمد اسحاق بھٹی کا نام بہت نمایاں دکھائی دے گا۔ وہ بیک وقت ایک بلند پایہ محقق، ادیب، مؤرخ، تذکرہ نویس، مصنف، مترجم، سوانح نگار اور خاکہ نگار، نیز ایک مدیر اور صحافی کی حیثیت سے ممتاز اور منفرد خصوصیات کی حامل شخصیت تھے۔ متنوع موضوعات پر ان کی اکثر تصانیف کا مطالعہ کرتے ہوئے جو وصف ایک قاری کو سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے، وہ ان کی قدرتِ بیان اور اسلوبِ نگارش ہے، جس کے باعث وہ ہمارے عہد کے صاحبِ طرز ادیب ہیں۔ محترم اسحاق بھٹی کے معجز نگار قلم نے جن جواہر پاروں کو تخلیقی کرشمے کی شکل دی ہے، اس کا سب سے نمایاں اظہار خاکہ نگاری میں ہوا ہے۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی کی شخصیت و خدمات کا تعارف پروفیسر عبدالجبار شاکر نے ان کی معروف تصنیف ’’ہفت اقلیم‘‘ میں پیش کیا ہے۔
مولانا محمد اسحاق بھٹی 15 مارچ 1925ء کوٹ کپورہ (فرید کوٹ) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام میاں عبدالمجید بھٹی اور دادا کا اسم گرامی میاں محمد تھا۔ میاں محمد نہایت نیک صفت انسان تھے۔ دین داری، تقویٰ، صالحیت کے زیور سے آراستہ تھے۔ ان کے قلب و ذہن پر اسلامی تعلیمات کے گہرے نقوش ثبت تھے۔ وہ اپنے دل میں اسلام کی سچی محبت اور جذبہ رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے اس پوتے محمد اسحاق کو شروع سے علم و عمل کی راہ پر ڈال دیا تھا اور اسلامی تقاضوں کے مطابق اس کی تربیت کرنا شروع کردی تھی۔ نماز کے لیے وہ انہیں ساتھ لے کر مسجد جاتے۔ آٹھ سال کے تھے کہ دادا نے گھر میں ہی ان کو قرآن مجید پڑھانا شروع کردیا۔ تیسویں پارے کی دس بارہ سورتیں حفظ کروائیں اور اردو کی چند کتب بھی پڑھا دیں۔
1934ء میں مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب چوتھی جماعت کے طالب علم تھے تو ایک دن ان کے دادا محترم انہیں لے کر مولانا عطاء اللہ حنیفؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ازراہِ کرم اسے قرآن مجید ترجمہ اور تاریخِ اسلام کے علاوہ اس کے فہم کے مطابق دینی مسائل کی کتب پڑھا دیا کریں۔ مولانا عطاء اللہ حنیفؒ اُس وقت کوٹ کپورہ کی جامع مسجد کے خطیب تھے اور انہوں نے یہیں درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا تھا۔ چنانچہ مولانا محمد اسحاق بھٹی، مولانا عطاء اللہ حنیفؒ سے ترجمۃ القرآن، اور قاضی محمد سلیمان منصور پوری کی شہرۂ آفاق کتاب ’’رحمۃ اللعالمین‘‘ پڑھنے لگے۔ ڈھائی تین ماہ میں رحمۃ اللعالمین کو مکمل پڑھ لیا۔ آپ ذہین طباع طالب علم تھے، حافظہ قوی تھا، جو سبق پڑھتے مستحضر ہوجاتا۔ ان کے استاذِ گرامی مولانا عطاء اللہ حنیف اپنے اس ہونہار اور لائق شاگرد سے بہت خوش تھے۔ مولانا عطاء اللہ حنیفؒ کی خدمت میں بھٹی صاحب نے مروجہ علوم و فنون اور تفاسیر کی کتب پڑھیں اور درسِ نظامی کی تکمیل کی۔ 1940ء میں مولانا عطاء اللہ حنیفؒ کے حکم پر گوجرانوالہ کا رخ کیا اور دو سال مولانا حافظ محمد گوندلویؒ اور مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ کی خدمت میں رہ کر صحیح بخاری، صحیح مسلم اور بعض دوسری کتب پڑھ کر سندِ فراغت حاصل کی۔
مولانا محمد اسحاق بھٹی کو ایک منفرد اعزاز حاصل تھا، وہ جماعت اسلامی کے تاسیسی اجلاس منعقدہ 25 تا 26 اگست 1941ء میں شریک ہوئے۔ وہ اگرچہ جماعت اسلامی میں باقاعدہ شامل نہیں ہوئے، مگر اس کے اوّلین ہمدرد تھے۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی ؒ اُس وقت سولہ برس کے نوجوان تھے، تاسیسی اجلاس کی کارروائی اور یادیں آخر وقت تک مکمل طور پر ان کے دماغ میں محفوظ تھیں۔ یہ یادداشتیں مولانا محمد اسحاق بھٹی قلم و قرطاس پر لاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’تمام شرکائے مجلس کمرے کے اندر چاروں طرف دری پر بیٹھے تھے۔ تشکیل ہونے والی جماعت کا لائحہ عمل، نصب العین، اغراض و مقاصد، اس میں شامل ہونے والوں کے مدارج (ہمدرد، متفق ، رکن)، ان کا دائرۂ کار اور ان کے فرائض وغیرہ تمام امور کی تفصیل جو مطبوعہ شکل میں تھی، مولانا نے پڑھنا شروع کی اور حاضرینِ اجتماع انتہائی توجہ اور انہماک سے سننے لگے۔ سب کی نظریں مولانا کے چہرے پر گڑی ہوئی تھیں اور مولانا بڑے وقار، اطمینان اور پُراعتماد لہجے میں آہستہ آہستہ پڑھتے جارہے تھے۔ تمام الفاظ آسانی سے فہم کی گرفت میں آرہے تھے، مولانا مودودیؒ یہ تحریر پڑھ چکے تو اس پر کچھ بحث ہوئی اور بعض حضرات نے اس میں حصہ لیا۔ فیصلہ کیا گیا کہ آج سے ایک جماعت قائم کی جاتی ہے، جس کا نام ’’جماعت اسلامی‘‘ ہے، اور اس کے امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ہوں گے۔ مولانا نے فرمایا کہ کسی اور عالمِ دین یا مجھ سے زیادہ مؤثر شخصیت کو امیر مقرر کیا جائے، لیکن بحث و تمحیص کے بعد انھی کو امیر مقرر کیا گیا۔ پھر مولانا مودودیؒ نے فرمایا کہ مجلس میں جو حضرات موجود ہیں ’’تجدیدِ ایمان‘‘ کریں اور کلمۂ شہادت پڑھیں، نیز یہ اعلان کریں کہ وہ اس جماعت کے کس درجے میں شامل ہوں گے۔ ہمدرد ہوں گے، متفق ہوں گے یا رکن… ہر درجے کے لیے کچھ شرائط مقرر کی گئی تھیں۔ رکن کی شرائط بہت سخت تھیں۔
سب سے پہلے مولانا مودودیؒ نے کلمہ ٔ شہادت پڑھا اور تجدیدِ ایمان کی۔ اس کے بعد سب حضرات باری باری کھڑے ہوکر کلمۂ شہادت پڑھ رہے تھے اور تجدیدِ ایمان کررہے تھے۔ کوئی ہمدرد ہونے کا اعلان کررہا تھا، کوئی متفق ہونے کا، اور کوئی خوش نصیب دائرۂ رکنیت میں شامل ہورہا تھا۔
سب لوگ تجدیدِ ایمان کر چکے اور کلمۂ شہادت پڑھ چکے تو مولانا مودودیؒ نے مختصر سی تقریر کی، مولانا نے تقریر میں یہ بھی فرمایا کہ سب حضرات کو جماعت اسلامی سے متعلق لٹریچر بھیجا جائے گا۔ تمام حضرات اپنے اپنے حلقے میں لٹریچر پھیلائیں اور جماعت اسلامی کے نصب العین اور اغراض و مقاصد کی تبلیغ کریں۔
مولانا نے اس مجلس میں اپنی بعض تصانیف جماعت کو دینے اور بعض اپنے لیے رکھنے کا اعلان کیا، البتہ رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کے بارے میں یاد ہے کہ اسے مولانا مودودیؒ نے اپنے لیے خاص کرلیا تھا۔ مولانا مودودیؒ نے جس فراخ دلی کے ساتھ اپنی تصنیفات جماعت کے حوالے کیں ان کی بہت زیادہ مانگ تھی، یہ بہت بڑی قربانی تھی۔ اللہ قبول فرمائے اور انہیں اجر جزیل سے نوازے۔ آمین
تمام مراحل طے ہوچکے تو مولانا مودودیؒ نے مولانا منظور نعمانی سے دعا کی درخواست کی۔ انہوں نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو سب نے ہاتھ اٹھا لیے۔ دعا کا منظر انتہائی رقت آمیز تھا۔ مولانا نعمانی اللہ کے حضور انتہائی عاجزی سے رو رو کر دعا مانگ رہے تھے۔
جماعت اسلامی بڑی باقاعدہ اور جدید انداز کی منظم جماعت ہے۔ زندہ اور بااصول اور منظم جماعت اپنا ابتدائی ریکارڈ ہر قیمت پر محفوظ رکھتی ہے اور جماعت اسلامی اس ملک میں ایک بااصول تنظیم ہونے کی دعوے دار ہے، اس اعتبار سے میں جماعت اسلامی کے ’’سابقون الاولون‘‘ میں سے ہوں۔
بلاشبہ مولانا مودودیؒ نے (اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے) جماعت اسلامی کی بہت خدمت کی، مولانا مودودیؒ بے شک بڑے آدمی تھے۔ میں ان سے جب بھی ملا، خندہ پیشانی سے ملے۔ ادارہ ثقافتِ اسلامیہ کی طرف سے ان کی زندگی میں میری جو کتابیں چھپیں، وہ ان کی خدمت میں پیش کی گئیں۔ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں ان پر تبصرے بھی ہوئے۔ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں جس اچھے انداز سے میری کتابوں پر تبصرے ہوئے، وہ میرے لیے بڑے حوصلہ افزا تھے، عبدالحمید صدیقی مرحوم نے کئی مرتبہ بتایا کہ مولانا تمہاری کتابیں پڑھ کر خوش ہوتے ہیں، صدیقی صاحب نے یہ بھی کہا کہ مولانا مودودیؒ بڑے اچھے الفاظ میں تمہارا تذکرہ فرماتے ہیں۔ بے شک یہ مولانا کی ذرہ نوازی تھی۔
مولانا مودودیؒ نے تصنیف و تالیف میں بڑی شہرت پائی، اور سیاسی و اسلامی اعتبار سے بہت زبردست زندگی بسر کی۔ ان کا اندازِ تحریر اور اسلوبِ بیان مؤثر اور عام فہم تھا، اس لیے ان کی تصنیفات نے بے حد وسعت اختیار کی اور کئی زبانوں میں ان کے ترجمے ہوئے۔ نوجوان طبقے کو ان تحریروں نے بالخصوص متاثر کیا۔
مولانا مودودیؒ عصرِ حاضر کی صاحبِ عزیمت اور متحرک شخصیت تھے۔ ان کا اصلی موضوع پاکستان میں اسلامی نظامِ حیات کا احیا اور نفاذ تھا۔ اس کے لیے انہوں نے بے پناہ تگ و تاز کی اور اپنے مخاطبین کو ایک خاص ذہن و اسلوب عطا کیا۔
وہ مختلف دینی و مذہبی جماعتوں کے اُن 31 علمائے کرام میں بھی شامل تھے جنہوں نے جنوری 1951ء میں ملک میں اسلامی دستور کے نفاذ کے لیے 22 نکات مرتب کیے تھے۔ اس کا ڈرافٹ بھی مولانا مودودیؒ نے تیار کیا تھا اور یہ اُس دور کی بہت بڑی اسلامی خدمت تھی۔‘‘ (بحوالہ ہفت اقلیم)
1948ء میں محمد اسحاق بھٹی صاحب لاہور میں مولانا دائود غزنوی کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور انہوں نے ان کو مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے دفتر کا ناظم بنادیا۔ پھر اس کے بعد ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کے معاون مدیر اور پھر مدیر بنے، اور تقریباً سولہ سال تک ادارتی فرائض انجام دیتے رہے۔
1965ء میں ادارہ ثقافتِ اسلامیہ سے منسلک ہوگئے، تصانیف و ترامیم کا سلسلہ شروع کردیا جو دور تک پھیلا دکھائی دیتا ہے۔ بھٹی صاحب مرحوم نے یہاں جو تحریری کام کیا اگر اسے کتابی صورت میں منتقل کیا جائے تو چالیس ہزار سے زائد صفحات بن جائیں گے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر چونتیس پینتیس سالہ تقاریر کے بے شمار صفحات اس کے علاوہ ہوں گے۔ یہ بہت علمی تحریری خدمت تھی جو بھٹی صاحب نے انجام دی۔ ان کی کتب اہلِ علم اور تحقیقی ذوق رکھنے والوں کے ہاں سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی کے لیے جمع و تدوین قرآن، فضائل قرآن، مضامین قرآن، واقعات قصص القرآن اور اعجاز القرآن کے نام سے مفصل مقالات لکھے اور دیگر موضوعات پر بھی کئی ایک مقالات لکھے جو تمام کے تمام اردو ادارہ معارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی کی مختلف جلدوں میں شائع ہوئے۔
بھٹی صاحب نے نام ور شخصی خاکہ نگاری بھی کی اور ان کے منفرد اندازِ تحریر کو بڑی پذیرائی ملی۔ چند اصحابِ قلم کی رائے درج ذیل ہے۔
نوائے وقت کے معروف کالم نگار صاحبزادہ خورشید گیلانی مرحوم لکھتے ہیں: ’’نقوش عظمتِ رفتہ اوربزم ارجمنداں دراصل مولانا محمد اسحاق بھٹی کی شگفتہ، شائستہ اور ان کے منفرد اسلوبِ نگارش کی نمائندہ کتابیں ہیں، جنہیں پڑھتے ہوئے نہ دماغ تھکتا ہے اور نہ دل بھرتا ہے۔ سبک لہجہ اور رواں اسلوب۔‘‘ ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہاں پوری اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ’’بھٹی صاحب کے قلم اور زبان، دونوں سے لطائف کے پھول جھڑتے ہیں۔ وہ تحریر میں افکار کے موتی پروتے ہیں، ان کی تحریرات متن کے حسن اور اسلوبِ نگارش رنگینی سے آراستہ ہوتی ہیں۔ افکار و معنی کا طلسم قاری کے احساسات پر چھا جاتا ہے۔ ان کے گلشن زار الفاظ و مضامین کا زائر و سائر ایک بار جو دیکھتا ہے دو بارہ دیکھنے کی ہوس کا نعرہ لگاتا ہے اور اس کے سحر و جلال سے باہر نہیں نکل سکتا، وہ مختصر و مفصل دونوں طرح کی تحریریں لکھنے پر قادر ہیں۔‘‘
پروفیسر عبدالجبار شاکر مرحوم اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
’’اسحاق بھٹی صاحب نے تنِ تنہا تحقیق کے جو ہفت خواں طے کیے یہ ان کی شخصیت کے جوہر کو نمایاں کرتے ہیں، قدرت نے انہیں ایسا اسلوب عطا کیا ہے جو اردو زبان و ادب کے اسالیب میں ایک انفرادیت کا حامل ہے۔ انہوں نے… نصف صدی تک جو علمی جواہر پیدا کیے ہیں، ان میں ابوالکلام کی نشری بلاغت، شبلی کی مؤرخانہ بصیرت، سید سلیمان ندوی کا اسلوبِ تحقیق، مولانا مودودی کا دعوتی انداز، رشید احمد صدیقی کی شگفتہ نگاری، مولوی عبدالحق کی سادہ بیانی، مولانا ثناء اللہ امرتسری کی جامعیت، مولانا محمد حنیف ندوی کا حکیمانہ اسلوب، ان کے مختلف صفحات پر نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔‘‘
مولانا محمد اسحاق بھٹی نے اپنی زندگی کے 91 برس بھر پور طریقے سے گزارے۔ ان کی صحت بہت اچھی تھی۔ ان کا قلم بڑی تیزی سے چلتا تھا اور زندگی کے آخری ایام تک علمی کام کرتے رہے۔ 22 دسمبر 2015ء کو انتقال کر گئے۔ ناصر باغ لاہور میں ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی اور اپنے آبائی گائوں میں سپردِ خاک ہوئے۔
مولانا اسحاق بھٹی اب ہم میں نہیں رہے، مگر وہ اپنی علمی خدمات کی بدولت علمی و ادبی حلقوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو شرفِ قبولیت بخشے، صدقۂ جاریہ بنائے اور مغفرت فرمائے، اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، آمین ثم آمین!