وطنِ عزیز میں واویلا مچا ہوا ہے کہ ’’مِنی بجٹ‘‘ آگیا۔ ہر گھر کا ’’بجٹ‘‘ درہم برہم ہوگیا ہے۔ ایک یارِ عزیز اِسے ’’مُنّی بجٹ‘‘ پڑھنے پر مصر تھے۔ اُن سے عرض کیا کہ آپ کا اصرار سر آنکھوں پر، مگر ایسی صورت میں ہمیں ’’مُنّی بجٹ‘‘ آگئی کہنا پڑے گا۔ اور اندیشہ ہے کہ اِس بجٹ سے آپ کا اتنا پیار دیکھ کر لوگ کہیں آپ کو سنگسار کرنے نہ اُٹھ کھڑے ہوں۔ بات سمجھ میں آگئی۔ ڈر کربولے کہ پھر ہم اُردو میں اسے کیا کہیں؟ عرض کیا ڈریے نہیں، بجٹ کے لیے اُردو میں ایک خوش آواز لفظ ’’میزانیہ‘‘ موجود ہے۔ آپ اِسے ’’مختصر میزانیہ‘‘ کہہ کر انتظار فرمائیے کہ کب نیا مالی سال شروع ہو اور کب ہم پر مفصل میزانیہ مسلّط ہو۔
گھریلو اخراجات کا رو، رو کر حساب کرتے ہوئے جب اہلِ گریہ مختلف مدوں میں اُٹھنے والے اخراجات کی رقم جمع کرتے ہیں تو حاصلِ جمع کو ’میزان‘ کہا جاتا ہے۔ مگر جب کسی خاص مدّت کے لیے کسی خاص ادارے یا کسی خاص قوم کی آمدنی اور خرچ کا تخمینہ لگایا جاتا ہے، نفع نقصان کا اندازہ کیا جاتا ہے اور مصارف کی منصوبہ بندی ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں جو گوشوارہ حاصل ہوتا ہے اُسے ’میزانیہ‘ کہتے ہیں۔ میزانیہ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ جو ہنگامہ خیز تقریر فرماتے ہیں، اُسے ’میزانیہ تقریر‘ کہا جاتا ہے۔ ’ہنگامہ خیز تقریر‘ ہماری پارلیمانی روایت بن چکی ہے۔ اِس روایت کے مطابق تقریر وزیر خزانہ کرتے ہیں اور ہنگامہ حزبِ اختلاف کرتی ہے۔
میزان کا مصدر ’وَزْن‘ ہے۔ اس لفظ کا درست تلفظ ادا کرنے کے لیے ’ز‘ پر جزم لگانا لازم ہے۔ یہاں ’ز‘ ساکن ہے۔ مگر لوگوں کو سکون کہاں؟ اکثر لوگ ’ز‘ پر زبر ڈال کر اور اِسے ’وَزَن‘ کہہ کر توازُن بگاڑ دیتے ہیں۔ توازُن کا مطلب ہے وَزْن برابر رکھنا، ہم وزن یا متناسب ہونا۔ بہرکیف، ’میزانیہ‘ خواہ مختصر آئے یا مفصل، سب کا توازُن بگاڑ دیتا ہے۔ معاشی توازُن ہی نہیں، اس کی زد میں آنے والوں کا، ذہنی توازُن بھی بگڑ جاتا ہے۔ لوگ بگڑ بگڑ کر حکومت کے لیے غیر مُتوازِن زبان استعمال کرنے لگتے ہیں۔
’وَزن‘ کسی چیز کے بوجھ کو کہتے ہیں۔ بوجھل چیزیں ’وزنی‘ کہی جاتی ہیں۔ علمِ طبیعات کی رُو سے کششِ ثقل کسی چیز کو جتنی قوت سے اپنی طرف کھینچتی ہے، اس قوت کی پیمائش کو وزن کہتے ہیں۔ ’ثقل‘ بھی بوجھ ہی کو کہتے ہیں۔ جس چیز کی کمیت (یعنی اُس چیز میں موجود مادّے کی مقدار) جتنی زیادہ ہوگی کشش ثقل کو اتنی ہی زیادہ قوت لگانی پڑے گی۔ لہٰذا اس کا وزن اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ کسی چیز کو تولنا اُس کے وزن کا اندازہ لگانا ہے۔ تولنے کو ’وزن کرنا‘ بھی کہتے ہیں۔ وزن کو مجازاً ’وقعت‘ کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی حقیقت و مجاز یکجا بھی ہوجاتے ہیں۔ مثلاً حضرت مولانا فضل الرحمٰن حفظہ اللہ قومی سیاست میں خاصا وزن رکھتے ہیں۔
’وزن کرنے‘ کے لیے کوئی نہ کوئی ترازو استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر قسم کے ترازو کو ’میزان‘ کہتے ہیں۔ میزان کا کام نصف وزن ایک طرف اور نصف وزن دوسری طرف کرکے دونوں طرف کا وزن برابر، برابر کردینا ہے۔ اسی نصفا نصفی کو ’انصاف‘ کہا جاتا ہے۔ ضمناً بتاتے چلیں کہ عدل اور انصاف میں فرق ہے۔ انصاف کا مطلب ہے برابر، برابر کردینا۔ عدل یہ ہے کہ ہر حق دار کو اُس کے حق کے مطابق دیا جائے۔ کسی معاملے میں کسی کا حق کم اور کسی کا حق زیادہ ہوسکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر معاملے میں ہر شخص کا حق مساوی ہو۔
میزان کا مطلب توازن برقرار رکھنا ہے۔ یہ توازن ترازُو ہی میں نہیں، زندگی میں بھی برقرار رکھنا چاہیے۔ فطرت کا یہی تقاضا ہے۔ دینِ فطرت کا بھی یہی حکم ہے۔ سورۂ رحمٰن کی آیات 7 تا 9 میں لگاتار تین مرتبہ ’میزان‘ کا ذکر آیا ہے:
’’آسمان کو اُس نے بلند کیا اور میزان قائم کردی، تاکہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو۔ انصاف کے ساتھ وزن قائم کرو اور میزان میں ڈنڈی نہ مارو‘‘۔
اقبالؔ کہتے ہیں کہ مردِ مسلمان کو دنیا اور آخرت دونوں جگہ میزان کا کردار ادا کرنا ہے۔ اپنی مشہور نظم ’مردِ مسلمان‘ میں (جس کا پہلا مصرع ہے: ’ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن‘) اقبالؔ فرماتے ہیں:
قدرت کے مقاصد کا عِیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان
’عِیار‘ (ع پر زیر، ’ی‘ تشدید کے بغیر) کا مطلب ہے ’کسوٹی‘۔ معیار یا پیمانہ۔ توازن برقرار رکھنے ہی کے اظہار کے لیے عدالتوں کا نشانِ امتیاز میزان یا ترازوہوتا ہے۔ لیکن اگر توازن برقرار نہ رہے تو سبطِ علی صباؔ کو اپنی مشہور غزل میں (’دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی‘) یہ شکوہ کرنا پڑتا ہے:
میزانِ عدل! تیرا جھکاؤ ہے جس طرف
اُس سمت سے دلوں نے بڑے زخم کھا لیے
جب ہم دو اشیا کے باہمی وزن کا اندازہ لگاتے ہیں، انھیں تولتے ہیں، جانچتے ہیں یا ان کی قدر و قیمت کا مقابلہ کرتے ہیں تو اس عمل کو ’مُوازَنہ‘ کہاجاتا ہے۔’وِزر‘ بھی وزن یا بوجھ کو کہتے ہیں۔ جوشخص ’وِزر‘ اُٹھا لیتا ہے اُس کو وزیر کہتے ہیں۔ جو سارا خزانہ ہی اُٹھالے جائے اُسے ’وزیرِ خزانہ‘ کہہ لیجیے۔ جس آلے سے کوئی ’وِزر‘ اُٹھانے میں مددلی جاتی ہے اُسے ’اوزار‘ کہا جاتا ہے۔ بعض اوزار ہمارے کام کا بوجھ بھی خود ہی اُٹھا لیتے ہیں۔ وِزر کی جمع بھی ’اوزار‘ ہی ہے۔سورۃ الانعام کی آیت نمبر 164میں آیا ہے کہ قیامت کے دن کوئی بوجھ اُٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا۔ وَلَا تَزِرُوَازِرَۃٌ وِّزْرَاُخْریٰ۔
اوزار کا ذکر آیا تو ایک خط یاد آگیا۔گلشنِ حدید، بن قاسم ٹاؤن، کراچی کے اُفق سے جناب آفاق اللہ خان لکھتے ہیں:’’3 دسمبر 2021ء شمارہ 49 کے حوالے سے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ قصّۂ شیریں فرہاد کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے مرزا غالبؔ کا شعر لکھا ہے :
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسدؔ
سر گشتۂ خُمارِ رسوم و قیود تھا
آپ نے اس ضمن میں تیشے کی جگہ لفظ ’’بسولا‘‘ استعمال کیا ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے بسولا اُس اوزار کو کہتے ہیں جو بڑھئی حضرات لکڑی چھیلنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ اوزار زمین کھودنے کے کام نہیں آتا۔ زمین اور وہ بھی پتھریلی زمین صرف تیشے سے کھودی جاسکتی ہے۔ تیشہ ہی زمین کھودنے کا اصل اوزار ہے‘‘۔
عرض یہ ہے کہ اب شیریں فرہاد تو رہے نہیں۔ قصہ ختم ہوا۔ لاوارث پاکر فرہاد کا بسولا بڑھئی لے اُڑے۔ پہاڑ کاٹنے اور نہر کھودنے کے بجائے، تیشے کا سائز اپنی سہولت کے مطابق کرکے، اس سے لکڑی چھیلنے کا کام لینے لگے۔ آپ کی نشان دہی پر مولوی نورالحسن نیر مرحوم کی ’نوراللغات‘ اور شان الحق حقی مرحوم کی ’فرہنگِ تلفظ‘ دونوں سے ہم رجوع لائے۔ دونوں میں ’تیشہ‘ کا مطلب ’بسولا‘ ہی لکھا ہوا ہے۔ بلکہ وارث سرہندی ایم اے کی ’علمی اُردو لغت‘ میں بھی تیشہ کا مطلب ہے: ’پتھر وغیرہ چھیلنے گھڑنے کا آلہ، بسولا‘۔ جس اوزار کو ہمارے محنت کش اور معمار ’کُدال‘ کہتے ہیں، وہ بھی تیشہ ہے اور جسے آپ ’بسولا‘ کہہ رہے ہیں، وہ بھی تیشہ ہی ہے۔ آپ نے بعض ناخواندہ مزدوروں کو اسے ’’تیسی‘‘ کہتے سنا ہوگا۔ انھیں بھی خواندہ ہی جانیے۔ محترم مصطفی کمال صاحب جب کراچی کے میئر تھے تو اُنھوں نے بھی فرہاد بن کر بیک وقت پورا شہر ہی کُھدوا ڈالا تھا۔ حال یہ تھا کہ شہر میں جس طرف نکل جائیے آپ کو ہر سڑک کُھدی ہوئی ملے گی۔ اُس موقعے پرستم ظریف شہریوں نے پیار سے اُن کا نام ہی ’مصطفی کدال‘ رکھ چھوڑا تھا۔