ایک مرتبہ مشہور فاتح سلطان احمد شاہ ابدالی نے عید کی نماز مسجد وزیر خان لاہور میں ادا کی۔ یہ لاہور کی قدیم ترین مسجد ہے اور آج بھی موجود ہے۔ مولوی محمد رمضان نے نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد خطبے میں مولوی محمد رمضان نے احمد شاہ ابدالی کو امامِ عادل کہا اور انگلی سے اس کی جانب اشارہ بھی کیا۔ مسجد کے ایک کونے میں مولوی محمد شہریار بیٹھے ہوئے تھے، جو مولوی محمد رمضان کے استاد بھی تھے، وہ کھڑے ہوگئے اور مولوی رمضان سے کہنے لگے کہ جس شخص کی وجہ سے لاہور اور دہلی کے درمیان ہزاروں خاندان تباہ و برباد ہوگئے، عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوگئے، مکانات مسمار کردیے گئے، تم اس کو امام عادل کہتے ہو! کل قیامت کے دن خدا کو کیا منہ دکھاؤ گے؟ خطاب استاد کا شاگرد سے تھا، مگر اس کی زد براہِ راست احمد شاہ ابدالی پر پڑرہی تھی۔ یہ گفتگو سن کر بادشاہ مولوی محمد شہریار سے مخاطب ہوا: ”کیا آپ جانتے ہیں میں کون ہوں؟“ مولوی صاحب نے جواب دیا: ”آپ احمد شاہ ابدالی ہیں“، اور پھر نہایت شان کے ساتھ فرمایا: ”میں نے بچپن میں چار باتوں کی اللہ سے دعا مانگی تھی: حفظِ قرآن مجید، تحصیل علمِ دین، حجِ بیت اللہ اور شہادت فی سبیل اللہ۔ ان میں سے تین اللہ کے فضل سے حاصل کرچکا ہوں۔ شاید آج چوتھی سعادت کے حصول کا دن ہے“۔ بادشاہ یہ دلیرانہ گفتگو سن کر دم بخود رہ گیا اور ان کو قتل کرنے کے بجائے جالندھر کی طرف جلاوطن کرنے پر اکتفا کیا۔
(پروفیسر سید محمد سلیم۔ ”مسلمان مثالی اساتذہ، مثالی طلبہ“۔ ص49)