ماہرین کہتے رہے ہیں کہ خراب مسوڑھے عارضہ قلب اور دیگر بیماریوں کی وجہ بن سکتے ہیں لیکن اب ایک نئی تحقیق دوسرے کنارے سے عین یہی کہانی سناتی ہے۔ اگر کسی طرح خون کے لوتھڑے بنانے والے پروٹین کو ختم کردیا جائے تو مسوڑھوں کی خرابی بھی دور ہوجاتی ہے۔لیکن واضح رہے کہ ہم یہاں مسوڑھوں کی اس خطرناک کیفیت کا ذکر کررہے ہیں جسم میں وہ اپنی ہڈی سمیت گھلنے لگتے ہیں۔ اسے پیریڈونٹل کا مرض کہتے ہیں۔ اب میری لینڈ میں این آئی ایچ سے وابستہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈینٹل اینڈ کرینیئوفیشل ریسرچ (این آئی ڈی سی آر) کے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ خون میں فائبرن نامی پروٹین بڑھنے سے جسم کا اپنا امنیاتی نظام مسوڑھوں پر حملہ کردیتا ہے۔ اب اس موقع پر فائبرین کو روک کے نہ صرف مسوڑھوں کے مرض بلکہ جوڑوں کی تکلیف اور دیگر امراض کو بھی دور کیا جاسکتا ہے۔سائنسدانوں نے اس ضمن میں چوہوں پر تجربات کئے اور فائبرین پروٹین کو روکا گیا تو ان کے مسوڑھوں کا مرض بھی دور ہونے لگا۔امریکا اور برطانیہ میں مسوڑھوں کی خرابی کا مرض بہت عام ہے جس کی شدید کیفیت میں دانت گرن لگتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ فائبرین کی زیادتی سے خون گاڑھا ہونے لگتا ہے اور اس میں لوتھڑے بننے لگتے ہیں۔ اس طرح فائبرین جیسے پروٹین ساز نظام کو روک کر مسوڑھوں کی بیماری بلکہ خود خون میں لوتھڑے بننے کے عمل کو روکا جاسکتا ہے ۔ یوں فالج ، بلڈ پریشر اور امراضِ قلب سے بھی بچا جاسکتا ہے۔
بچوں سے بات کرتے وقت یہ فقرے ہرگز استعمال نہ کریں
1) تم ٹھیک ہو! ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی بات نہیں!
کھیل کود کے دوران جب بچہ کبھی گر جاتا ہے تو اُسے اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ کچھ نہیں ہوا سب ٹھیک ہے۔ اسی طرح جب بچہ کسی مسئلے کا شکار ہوتا ہے جو بڑوں کو بظاہر معمولی لگ رہا ہوتا ہے، یا کوئی بڑا لڑکا اسے ایسے ویسے جملے بول دیتا ہے جو ہماری نظر میں بےوقعت ہوتے ہیں تو ہم اپنے بچے کو بول دیتے ہیں کہ کوئی بات نہیں یا کچھ نہیں ہوتا۔ ماہرین کے مطابق اس قسم کے فقرے بچے میں غیر اہم ہونے کا احساس جگاتے ہیں یا انہیں لگتا ہے ان کے دکھوں کا کوئی مداوا کرنے والا نہیں۔
2) تم ہمیشہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم کبھی نہیں!
بچوں کو کچھ بتاتے وقت جب اس طرح کے فقرے کہ تم ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہو یا تم کبھی بھی نہیں سدھرو گے تو بچہ اس پر یقین کر بیٹھتا ہے اور یہاں سے مایوسی کی کیفیت جنم لیتی ہے۔ پھر وہ کچھ اچھا کرنے کا سوچتا بھی ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ والدین کو تو مجھ سے کوئی اچھی امید ہے ہی نہیں۔ اور وہ سدھرنے کے بجائے بگڑتا ہی چلا جاتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ غلطی پر ٹوکیں اور جب وہ کچھ اچھا کرے تو خوشی کا ظہار بھی کریں۔
3) جب تم ایسا کرتے ہو تو مجھے خوشی/دکھ/غصہ آتا ہے!
والدین سمجھ رہے ہوتے ہیں ایسا بولنے سے وہ بچے میں ہمدردی کا جذبہ ابھار رہے ہیں لیکن اس کے نتائج یہ ہوتے ہیں کہ بچہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ آپ کی جذباتی کیفیات میں تبدیلیاں اس سے جُڑی ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ ان باتوں کو چھپانے لگ جاتا ہے جس کے بارے میں اسے لگتا ہے کہ اگر آپ کے علم میں آئیں گی تو آپ کو دکھ ہوگا یا غصہ آئے گا۔
4) بدتمیزی نہیں، جاؤ جاکے سوری بولو یا پیار کرو!
بچہ جب اپنی نادانی میں کسی سے بدتمیزی کا مظاہرہ کرتا ہے تو اکثر والدین بچے کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ جاکے سوری بولے یا پیار کرے۔ ایسے وقت میں والدین بچے کی مرضی یا فیصلے میں اس کی نیم خودمختاری کو یکسر بھلا دیتے ہیں اور بچے پر ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے اس کے جذبات کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اسے دوسروں کو خوش کرنے کیلئے ناحق مجبور کیا جارہا ہے۔
5) جھوٹ نہیں بولتے!
کبھی کبھی بچے جذبات (excitement) میں آکر ایسی بات بتاتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور پہلا ردِعمل جو ہمارا ہوتا ہے وہ یہ، ‘یہ سچ نہیں، یا جھوٹ نہیں بولتے’۔ دوسرے لفظوں میں ہم انہیں بتارہے ہوتے ہیں کہ تمہاری باتیں قابلِ بھروسہ نہیں۔ یاد رکھیں کہ ہمارا پہلا کام انہیں غلط قرار دینا نہیں بلکہ ان کی سننا ہے۔ ان کی رہنمائی کرنے کے اور بھی احسن طریقے ہیں۔