پاکستانی ذرائع ابلاغ یا پورس کے ہاتھی؟

انسانی زندگی بالخصوص ایک مسلمان کی زندگی میں لفظ کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ خدا ایسا خلّاق ہے کہ وہ جس طرح چاہتا کائنات کو پیدا کرتا۔ مگر اس نے ’’کُن‘‘ کہا اور کائنات خلق ہوگئی۔ اس لیے ہم نے اپنے ایک شعر میں عرض کیا ہے:
اک لفظ کُن سے خلق ہوئی ساری کائنات
ہر شے سے ایک لفظ کی حرمت زیادہ ہے
ابلاغ کا سارا عمل لفظ پر کھڑا ہوا ہے، چنانچہ قوموں کی زندگی میں ذرائع ابلاغ یا صحافت کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ صحافت کا لفظ صحیفہ سے نکلا ہے، اور صحیفہ آسمان سے نازل ہونے والا پیغام ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں ذرائع ابلاغ پورس کے ہاتھی بن گئے ہیں جنہوں نے اپنی ہی فوج کو کچل ڈالا تھا۔ پورس کے ہاتھیوں کی طرح پاکستانی ذرائع ابلاغ اپنی ہی قوم کو کچل رہے ہیں، اپنی ہی صفوں کو پامال کررہے ہیں۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ صحافت اور قوم کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ تخلیقِ پاکستان جیسا معرکہ سر کررہی تھی۔ اس سلسلے میں مسلم صحافت کا کردار بے مثال تھا۔ وہ برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کی آرزوئوں اور تمنائوں کی ترجمان تھی۔ وہ دشمن کے لیے شمشیرِ برہنہ بنی ہوئی تھی۔ وہ رہنمائی کا فرض تندہی سے ادا کررہی تھی۔ مگر آج ہماری صحافت قوم کے زوال کے اسباب میں سے ایک ہے۔
پوری دنیا کی تاریخ ہمارے سامنے ہے، اور یہ تاریخ بتاتی ہے کہ جہاں جہاں ریاست نظریاتی تھی وہاں وہاں صحافت بھی نظریاتی تھی۔ آج بھی جہاں جہاں نظریہ موجود ہے، صحافت اس نظریے کے فروغ اور استحکام کے لیے کام کررہی ہے۔ ایک وقت تھا کہ سوویت یونین وقت کی دو سپرپاورز میں سے ایک تھا۔ سوویت یونین کا نظریہ سوشلزم تھا، چنانچہ سوویت یونین کی صحافت 70 سال تک مارکسزم کی ترجمان بنی رہی۔ وہ سوشلزم کا درس دیتی رہی۔ وہ سوشلسٹ مثالیوں یا Ideals کو آگے بڑھاتی رہی۔ وہ سوشلزم کے بنیادی تصورات کا دفاع کرتی رہی، اور روس کے سوشلسٹ انقلاب کی ترجمانی کا فرض ادا کرتی رہی۔ چین آج بھی سوشلسٹ ریاست ہے اور اس کی صحافت آج بھی مارکسزم یا سوشلزم کی ترجمان ہے۔
امریکہ اور یورپ کا نظریہ لبرل ازم ہے، سیکولرازم ہے۔ اور لبرل ازم کا ایک بنیادی عقیدہ فرد کی آزادی ہے، دوسرا عقیدہ جمہوریت ہے، تیسرا عقیدہ مساوات ہے، چوتھا عقیدہ آزاد منڈی کی تجارت ہے، پانچواں عقیدہ ہر نظریے پر لبرل ازم یا سیکولرازم کی فوقیت ثابت کرنا ہے۔ چنانچہ امریکہ اور یورپ کے ذرائع ابلاغ ڈیڑھ سو سال سے لبرل ازم کے بنیادی عقاید کے ترجمان بھی ہیں اور پاسبان بھی۔ وہ آزادی، جمہوریت اور آزاد منڈی کی تجارت کے خلاف نہ کچھ شائع یا نشر کرتے ہیں، نہ کسی کو ایسا کرنے دیتے ہیں۔
ہندوستان میں گزشتہ پندرہ بیس سال سے ہندوتوا ہندوستان کا نظریہ بن کر ابھرا ہے۔ چنانچہ ہندوستان کے 99 فیصد ذرائع ابلاغ اسی رنگ میں رنگ گئے ہیں۔ وہ ہندوازم اور ہندوئوں کی عظمت بیان کرتے ہیں، ہندوازم کے ترجمانوں کو آگے بڑھاتے ہیں۔ بی جے پی ہندوتوا کی ترجمان ہے، چنانچہ وہ اگر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کچھ کہتی یا کرتی ہے تو بھارت کے ذرائع ابلاغ اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ بی جے پی مسلمانوں پر Love Jihad کا الزم لگاتی ہے تو ذرائع ابلاغ Love Jihad کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ بی جے پی اگر مسلمانوں پر کورونا جہاد کا الزام لگاتی ہے تو بھارت کے ذرائع ابلاغ مسلمانوں کو کورونا جہاد کا مرتکب قرار دینے لگتے ہیں۔ یہ بھارت کے مسلمانوں کے حوالے سے انتہائی افسوس ناک صورتِ حال ہے، مگر بہرحال بھارتی ذرائع ابلاغ اپنے نظریے کے ترجمان اور اس کو فروغ دینے والے بنے ہوئے ہیں۔ جب تک ہندوستان ’’گاندھی واد‘‘ یا نہرو کے سیکولر آئیڈیل کے زیراثر تھا بھارت کے ذرائع ابلاغ گاندھی واد اور نہرو کے سیکولر نظریے کے علَم بردار تھے۔
اسرائیل کو نظریاتی ریاست قرار دینا نظریے کی توہین ہے۔ اسرائیل ایک بین الاقوامی سازش کا حاصل اور ایک ناجائز ریاست ہے۔ اسرائیل صہیونیت اور یہودیت دونوں کو اپنا نظریۂ حیات قراردیتا ہے۔ چنانچہ اسرائیل کے ذرائع ابلاغ پر کہیں صہیونیت غالب ہے اور کہیں یہودیت چھائی ہوئی ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں پر کیسا ہی ظلم کرلے، اسرائیل کے دوچار صحافیوں کے سوا اس پر کوئی احتجاج نہیں کرتا۔ کوئی اخبار اس کے خلاف خبر شائع کرتا ہے نہ اداریہ سپردِ قلم کرتا ہے۔
پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے، اس کا نظریہ اسلام ہے۔ اسلام پاکستان کا خالق بھی ہے اور اس کا محافظ بھی۔ مگر پاکستان کے ذرائع ابلاغ کا کوئی نظریہ ہی نہیں۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ نہ اسلام کے تصورِ انسان کو آگے بڑھا رہے ہیں، نہ اسلام کے تصورِ زندگی کو Ideal بنا کر پیش کررہے ہیں۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کو اس بات کی فکر ہی نہیں کہ پاکستانی معاشرہ اسلامی بن رہا ہے یا سیکولر مرکز ہورہا ہے۔ وہ نہ سود کے خلاف مہم چلاتے ہیں، نہ ملک کے نظام انصاف کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے کو قومی مقصد باور کراتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے ہیروز علماء تھے، شاعر تھے، ادیب تھے، فاتحین تھے۔ ایک وقت یہ ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ اداکاروں، گلوکاروں، کھلاڑیوں اور ماڈل گرلز کو معاشرے کا ہیرو بناکر پیش کررہے ہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کے لیے عریانی و فحاشی سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ میں اسلام کے بنیادی تصورات کو مسخ کرکے پیش کیا جارہا ہے اور سیکولر اور لبرل خیالات کو عام کیا جارہا ہے۔ ملک کے معروف کالم نگار اور مبصر حسن نثار نے جیو کے ایک پروگرام میں کھل کر کہا کہ پردہ صرف امہات المومنین کے لیے تھا۔ عام مسلمان عورتوں پر پردے کا اطلاق نہیں ہوتا۔ حسن نثار نے اپنے ایک کالم میں لکھا کہ جو غالب ہوتا ہے وہی تقویٰ کے قریب ہوتا ہے۔ انگریزی اخبارات تو اور بھی غضب ہیں۔ وہ قائداعظم کو سیکولر بناکر پیش کرتے رہتے ہیں۔ انہیں اسلام میں انتہا پسندی اوردہشت گردی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ روزنامہ ڈان میں آئے دن ایسے کارٹون شائع ہوتے رہتے ہیں جن میں طالبان کو وحشی اور درندہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ ہمیں ڈان پڑھتے ہوئے چالیس سال ہوگئے، ہم نے آج تک ڈان میں سیکولر مغرب کی وحشت اور درندگی کو رپورٹ ہوتے یا زیربحث آتے نہیں دیکھا۔ اردو اخبارات نے اپنی اسلامیت کو اس بات تک محدود کیا ہوا ہے کہ وہ ہفتے میں ایک اسلامی صفحہ شائع کردیتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے ذرائع ابلاغ پاکستان کے نظریاتی انہدام کے لیے کام کرنے والی قوت نظر آتے ہیں۔
ایک وقت تھا کہ ہماری صحافت ایک مشن تھی، مگر اب وہ صرف کاروبار بن کر رہ گئی ہے۔ وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو تو مشن اور کاروبار کی بحث بھی اضافی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ کچھ لوگ کاروبار کو بھی مشن بنا لیتے ہیں۔ ہندوستان میں ابتداً اسلام تاجروں نے پھیلایا۔ دنیا کے کئی اور خطوں میں بھی اسلام تاجروں کے ذریعے پہنچا۔ اس کے برعکس کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مشن کو بھی مشن نہیں رہنے دیتے، اسے کاروبار بنا لیتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ہماری صحافت پر مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، حسرت موہانی، مولانا مودودی اور ظفر علی خان جیسی شخصیات چھائی ہوئی تھیں۔ ان کے لیے صحافت ایک مشن تھا، ایک عبادت تھی۔ وہ اپنے مذہب، تہذیب، تاریخ، امت، ملّت اور قوم کے ترجمان تھے، اس کا مقدمہ لڑنے والے تھے۔ مگر اب یہ صورتِ حال ہے کہ میر شکیل الرحمٰن نے صاف کہا ہے کہ ان کے لیے صحافت ایک کاروبار ہے۔ اس سلسلے میں میر شکیل الرحمٰن کو سچ بولنے کی داد ضرور دینی چاہیے، اس لیے کہ صحافت صرف میر شکیل کے لیے نہیں، بلکہ تمام ٹی وی چینلوں اور اخبارات کے مالکان کے لیے کاروبار ہے۔ صحافت لفظ کی حرمت کی پاسبان ہے۔ معاشرے میں جب لفظ کی حرمت پامال ہوجاتی ہے تو انسان، انسان اور معاشرہ، معاشرہ نہیں رہتا۔ طوائف صرف جسم بیچتی ہے، مگر جو لفظ اور رائے فروخت کرتا ہے وہ اپنی روح اور اپنا ضمیر بیچتا ہے، جو جسم بیچنے سے زیادہ بدترین بات ہے۔
صحافت اور ذرائع ابلاغ کی توقیر ان کی آزادی میں ہے۔ جو اخبار، جو چینل اور جو صحافی آزاد نہیں، وہ بدترین ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ذرائع ابلاغ نہ آزاد ہیں، نہ وہ آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ کی آزادی کے لیے سب سے بڑا چیلنج فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ اپنے سوا کسی کو آزاد نہیں دیکھنا چاہتی۔ اس کے لیے ’’شعور‘‘ ایک بہت بڑا خطرہ ہے، اور وہ ذرائع ابلاغ کو شعور عام کرتے نہیں دیکھنا چاہتی۔ بدقسمتی سے ذرائع ابلاغ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مزاحمت ہی نہیں کرتے۔ مولانا محمد علی جوہر اور حسرت موہانی دنیا کی واحد سپرپاور برطانیہ کی مزاحمت کرتے تھے، مگر ہمارے ذرائع ابلاغ کے مالکان اور صحافی اسٹیبلشمنٹ تک کی مزاحمت نہیں کرپاتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے لیے آزادی کوئی ’’قدر‘‘ نہیں ہے۔ ذرائع ابلاغ کے لیے دوسرا سینسر وقت کی سیاسی حکومت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ذرائع ابلاغ کی اکثریت سیاسی حکومت کی بھی مزاحمت نہیں کرپاتی، اس لیے کہ حکومت کے پاس ’’اشتہارات‘‘ ہوتے ہیں۔ لیکن ذرائع ابلاغ کے لیے سب سے بڑا سینسر خود ذرائع ابلاغ کے مالکان کا تجارتی مفاد یا Corporate Interest ہے۔ اس تجارتی مفاد کی ایک بدترین مثال یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے بحریہ ٹائون کے سربراہ ملک ریاض پر 460 ارب روپے کا جرمانہ کیا۔ یہ اتنی بڑی خبر تھی کہ اسے ہر چینل اور ہر اخبار میں سب سے بڑی خبر کے طور پر رپورٹ ہونا چاہیے تھا۔ مگر پاکستان کے پانچ اخبارات جنگ، دی نیوز، ایکسپریس، دنیا اور 92 نیوز میں یہ خبر سرے سے رپورٹ ہی نہیں ہوئی۔ صرف دو اخبارات جسارت اور ڈان نے ملک ریاض پر 460 ارب روپے کے جرمانے کی خبر کو رپورٹ کیا۔ اس واقعے سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ذرائع ابلاغ آزادی آزادی تو بہت کرتے ہیں مگر بعض اوقات وہ خود اپنی آزادی کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔
زندگی ’’جامعیت‘‘ کا نام ہے۔ اس میں تھوڑا سا فلسفہ ہوتا ہے، تھوڑی سی عمرانیات اور نفسیات ہوتی ہے، تھوڑا سا ادب ہوتا ہے، تھوڑی سی تاریخ ہوتی ہے، تھوڑی سی معیشت اور معاشیات ہوتی ہے، تھوڑی سی سیاست ہوتی ہے۔ چونکہ صحافت زندگی کا عکس ہے اس لیے صحافت بھی اپنی اصل میں ’’جامع‘‘ ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں صحافت مغرب سے آئی ہے، اور مغربی صحافت میں آج بھی جامعیت کے نمونے مل جاتے ہیں، مگر بدقسمتی سے ہماری صحافت صرف ’’سیاسی‘‘ ہوکر رہ گئی ہے۔ ہماری صحافت میں نہ فلسفہ ہے، نہ عمرانیات ہے، نہ ادب ہے، نہ نفسیات ہے، نہ تاریخ ہے۔ ہماری صحافت اگر کچھ ہے تو سیاست اور مزید سیاست ہے۔ چنانچہ ہمارے اخبارات کی 90 فیصد خبریں سیاسی ہوتی ہیں۔ ہمارے 90 فیصد کالم سیاسی موضوعات پرلکھے گئے ہوتے ہیں۔ ہمارے 90 فیصد ٹاک شوز سیاسی موضوعات کے حامل ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ذرائع ابلاغ سیاست کو بھی گہرائی سے رپورٹ نہیں کرتے۔ وہ سیاست پر کوئی علمی اور نظریاتی بحث نہیں کرتے۔ وہ صرف سیاست دانوں اور صحافیوں کو مرغوں کی طرح لڑاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اکثر کالم اور ٹاک شوز ناقابلِ برداشت ہوتے ہیں۔ ان میں اتنی سطحیت ہوتی ہے کہ جو شخص سطحیت کا عادی ہوجائے گا وہ کوئی سنجیدہ بات سننے کے قابل ہی نہیں رہے گا۔ اس طرح ہمارے ذرائع ابلاغ پوری قوم کے مزاج کو غیر سنجیدہ اور غیر علمی بنانے کے جرم کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ میں تفتیشی اور تجزیاتی مواد نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ہماری پوری صحافت اپنی اصل میں بیاناتی صحافت ہے۔ آرمی چیف نے یہ فرما دیا، وزیراعظم نے یہ کہہ دیا، نوازشریف نے یہ ارشاد فرمایا۔
صحافت کا اصل تصور یہ ہے کہ اسے غیر جانب دار ہونا چاہیے۔ ایک وقت تھا کہ روزنامہ جسارت اور روزنامہ مساوات کو ’’پارٹی پریس‘‘کہا جاتا تھا۔ مگر اب سارے اخبارات اور سارے ٹی وی چینلز ہی ’’پارٹی پریس‘‘ ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ہمارے تمام چینلز اور تمام اخبارات فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ترجمان ہیں۔ پوری قوم کو معلوم ہے کہ جنگ اور جیو نوازشریف اور نواز لیگ کو نمایاں کرتے ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اے آر وائی اسٹیبلشمنٹ کا ترجمان ہے۔ پارٹی پریس ہونا کوئی بری بات نہیں، مگر پارٹی کا کوئی نظریہ بھی تو ہو۔ جس پارٹی کا کوئی نظریہ ہی نہیں اُس کی ترجمانی ایک فضول کام ہے، خواہ وہ پارٹی فوجی اسٹیبلشمنٹ ہی کیوں نہ ہو۔
صحافت کو علمی ہونا چاہیے، مگر ہماری صحافت فلمی بنی ہوئی ہے۔ اسلام عورت کے وقار اور اس کے تحفظ کو بڑی اہمیت دیتا ہے، مگر ہمارے ذرائع ابلاغ عورت کو صرف ’’جنسی شے‘‘ یا Sex Symbol بنا کر پیش کررہے ہیں۔ وہ عورت کا جسم فروخت کررہے ہیں، اس کا چہرہ فروخت کررہے ہیں، اس کی ادائیں فروخت کررہے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سوا جتنے اخبارات ہیں اُن کے سنڈے میگزین کے ٹائٹل پر ہر ہفتے کسی نہ کسی عورت کی تصویر شائع ہوتی ہے۔ اندر کے صفحات میں ایک یا دو صفحات اس عورت کے ’’جلووں‘‘ کے لیے وقف ہوتے ہیں۔ ٹیلی وژن چینلز کے اشتہارات میں عورت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ کریم فروخت کررہی ہے تو عورت۔ گھر فروخت کررہی ہے تو عورت۔ گاڑی فروخت کررہی ہے تو عورت۔ معاشرہ ویسے تو عورت کی خرید و فروخت کو برا خیال کرتا ہے، مگر اشتہارات میں عورت کے حسن کی فروخت پر معاشرے کے کسی طبقے کو کوئی اعتراض نہیں۔ علما اور مذہبی جماعتوں تک کو نہیں۔ اس دائرے میں ذرائع ابلاغ اسلام، اسلامی اقدار، اسلامی تہذیب اور اسلامی معاشرے کے لیے بھی پورس کے ہاتھیوں کا کردار ادا کررہے ہیں۔