صنعت و تجارت کودرپیش سنگین چیلنجز اور مسائل

جماعت اسلامی کی حقوق کراچی تحریک اور ’’ری بلڈ کراچی کانفرنس‘ کے سلسلے میں شہرکو درپیش سنگین و گھمبیر مسائل کو اُجاگر کرنے، ان کے حل اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کو متوجہ کرنے کے لیے مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال جاری ہے اس کا پہلا پروگرام صحت کے مسائل اور اُن کے حل کے عنوان سے منعقد ہو اتھا اسی تسلسل میںکراچی کے مقامی ہوٹل میں کراچی میں صنعت و تجارت کودرپیش سنگین چیلنجز اور مسائل کے حل کی تجاویزو سفارشات پیش کرنے کے لیےپر صنعت کاروں اور تاجر شخصیات کے ہمراہ پینل ڈسکشن ہوے اس ’’ڈسکشن ‘‘ کی صدارت امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کی ڈسکشن سے خواجہ طارق (جنرل سیکرٹری کراچی میرج ہال لان اینڈ بینکوئٹ)،وقاص عظیم (کنونیئر ایف پی سی سی آئی)، محمد فیضان راوت (جنرل سیکرٹری آل کراچی ریسٹورینٹ ایسوسی ایشن)، سلمان جاوید (سابق
جنرل منیجرپی آئی اے)، ، شکیل بیگ (کنزیومر رائٹس پروٹیکشن کونسل)، عتیق میر (آل کراچی تاجر اتحاد)،، محمد حنیف لاکھانی (وائس پریذیڈنٹ ایف پی سی سی آئی)، شارق وہرہ(صدر کے سی سی آئی) ، سہیل عزیز،کامل ملتانی(صدر پاکستان بزنس فورم)، نوید علی بیگ، پروفیسر ڈاکٹر واسع شاکر، حنیف میمن(سینئر وائس چیئر مین آباد)، حاجی انور ناگوری، آصف مصباح، ظفر الاسلام صدیقی، ملک حنیف، شہاب زبیری، شوکت مختار، ایچ عثمان ناگوری اور دیگر نے اظہار خیال کیا.پروگرام کی نظامت کے فرائض عمران غوری نے انجام دیے ۔امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے پروگرام کی غرض وغائد بتاتے اور کراچی کا مقدمہ پیش کرتے ہوے کہا کہ کراچی کا پورا نظام تباہ ہے اس لیے ہر طبقے اور شعبے کے لوگ سخت پریشان ہیں لیکن سب سے زیادہ متاثر صارف ہوتا ہے جو سب سے آخر میں چیزوں کو استعمال کرنے والا ہوتاہے ۔ ری بلڈ کراچی کا مقصد مثبت سوچ کے ساتھ کراچی کے مسائل کے حل اور اہل کراچی کے جائز اور قانونی حق کے لیے آواز بلند کرنا ہے ،صرف احتجاج ہی نہیں مسائل کے حل اور چیلنجز سے نبٹنے کے لیے لائحہ عمل بھی پیش کررہے ہیں ،مختلف شعبے سے وابستہ لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر تبادلہ خیال کررہے ہیں جو خرابی ہونا تھی وہ ہوگئی اب یہ دیکھنا ہے کہ خرابی کو بہتری کی طرف لے جانے کے لیے کام کو کہاں سے اور کس طرح شروع کرنا ہے ،ری بلڈ کے حوالے سے ہم شعبہ صحت پر تبادلہ خیال کرچکے ہیں اور آج صنعت و تجارت کو درپیش چیلنجز کے لیے اکھٹے ہوئے ہیں۔کراچی پاکستان کی معیشت چلاتا ہے لیکن افسوس کہ اس کو کچھ نہیں دیا جاتا،ان حق تلفی کرنے والوں میں تمام حکومتیں اور حکمران پارٹیاں اور مقتدر حلقے شامل ہیں ۔آج صورتحال یہ ہے کہ نسلہ ٹاور گرانے پر بھی بہت توجہ دی گئی لیکن یہاں کی مردم شماری جو بہت بڑا مسئلہ ہے اس کو حل نہیں کیا جاتا ،کراچی کی انڈسٹری کو ان کی ضروریات فراہم نہیں کی جاتی یہاں تک کہ ان کو پانی تک نہیں ملتا ،گیس کی بندش سے مسائل میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔سندھ حکومت کراچی کو صوبے کا حصہ اس معنی میں نہیں سمجھتی کہ یہاں کے مسائل حل کرنے ہیں بس یہاں سے ٹیکس وصول کرتے ہیں ،پیپلزپارٹی وڈیرہ شاہی سوچ کے ذریعے کراچی کو تباہ کررہی ہے اور کالے قوانین بناکر شہری اداروں پر قبضہ کررہی ہے ، بدقسمتی سے سرکاری سطح پر بھی لسانیت کی سیاست کی جاتی ہے ، ہم لسانیت اور عصبیت کے خلاف ہیں لیکن اہل کراچی کے ساتھ جو ظلم ،ناانصافی اور حق تلفی کی گئی ہے اور یہ عمل جاری ہے اس کے خلاف ہم جدوجہد جاری رکھیں گے ۔وفاقی وصوبائی دونوں حکومتوں نے کراچی کی حق تلفی کی ہے ۔مردم شماری ،کوٹہ سسٹم تو براہ راست وفاق کا معاملہ ہے اور پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کی وفاقی حکومت ہے ۔وائس پریذیڈنٹ ایف پی سی سی آئی حنیف لاکھانی نےاپنی گفتگو میں کہا کراچی ایک میگاسٹی شہر ہے ، کراچی کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی یہ کی گئی کہ اسے کسی بھی حکومت نے اون نہیں کیا،جماعت اسلامی کے سوا تمام سیاسی پارٹیوں نے کراچی کو دودھ دینے والی گائے سمجھ کر کرپشن اور لو ٹ مار کا کام کیاجس سے سے زیادہ نقصان انڈسٹری کو ہوا۔کراچی کی صورتحال اس قدر گھمبیر ہوچکی ہے کہ اب یہاں بڑی انڈسٹری نہیں لگائی جاسکتی لیکن چھوٹی انڈسٹریاں لگانا انتہائی ناگزیر ہیں ،اگر ملازمین کے لیے باقاعدہ ضابطہ اور قانون بنایا جائے توگارمنٹس ،آئی ٹی اور انجینئرنگ انڈسٹریز بہت ہی اچھے طریقے سے چلائی جاسکتی ہیں۔جنرل سیکرٹری کراچی میرج ہال لان اینڈ بینکوئٹ وقاض عظیم نے کہاکہ ریسٹورنٹ انڈسٹری میں 2.5ملین لوگوں کا روزگار وابستہ ہے جسے ابھی تک انڈسٹریز تصور نہیں کیا جاتا، کورونا اور لاک ڈاؤن میں اختیارات کا ناجائز فائد ہ اٹھاکر ریسٹورنٹ انڈسٹری کوشدیدنقصان پہنچا یا گیا ۔ تین کروڑ سے زائد شہریوں کے شہر میں صرف 500 بزنس انڈسٹری رجسٹرڈ ہیں۔ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ اونر شپ کا ہے ، کوئی بھی پارٹی کراچی کو اون کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ،اونر شپ ہوگی تو مسائل اپنے آپ حال ہوتے جائیں گے۔شارق وہرہ نے کہاکہ کراچی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مسلم لیگ ن نے گرین لائن کا علامتی افتتاح کیا اور اب وزیر اعظم عمران خان گرین لائن علامتی افتتاح کریں گے ، افتتاح نالائق حکمران کرتے ہیں ، اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی اب صرف افتتاح ہی ہورہے ہیں عملا کراچی کے شہریوں کو کوئی ٹرانسپورٹ میسر نہیں ہے ، کراچی آج جن مسائل کا شکار ہے اس کے ذمہ دار کراچی کے شہری اور صوبائی حکومت ہے ، کراچی کے شہری مسائل کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے جس کی وجہ سے صوبائی حکومت بدترین طریقے سے کراچی کا حق مارتی ہے۔ تعلیم کے حوالے سے کراچی میں کوئی کام نہیں ہورہا ،پرائیویٹ سیکٹر میں کالجز اور یونیورسٹیز تو بنائی جارہی ہیں لیکن سرکاری سطح پر کوئی کام نہیں کیا جارہا ، کراچی کا شہری پرائیویٹ سیکٹر میں اپنے بچوں کو نہیں پڑھا سکتا۔انہوں نے کہا جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جنہوں نے بنیادی مسائل کے حل کے لیے بھرپور اور مؤثر آواز اٹھائی ہے اور جماعت اسلامی ہی کراچی کو پھر سے روشنیوں کا شہر بناسکتی ہے ۔ آل کراچی تاجر اتحاد کےصدر عتیق میر نے کہاکہ کراچی کو دانستہ طور پر تباہ کیا گیا ہے ،کراچی غریب پرور شہر ہے ، تین کروڑ سے زائد شہر پھر سے روشن اور چمکتا دمکتاشہر بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے ، امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کو کراچی کے مسائل پر آواز اٹھانے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور یہ ضرور کہوں گا کہ کراچی کے شہریوں کی واحد امید سوائے حافظ نعیم الرحمن کے کوئی نہیں ہے ۔کراچی کے لیے 500فائراسٹیشنز کی ضرورت ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ تین کروڑ سے زائد شہریوں کے لیے صرف 25فائر اسٹیشن ہیں۔کراچی جیسے غریب پرورشہر کو کبھی بھی حق نہیں دیا گیا بلکہ حق چھین لیا گیا ہے ،کراچی میں بڑھتے ہوئے مسائل عوام کی خاموشی سے ہی ہیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ متحد و متفق ہوکر کراچی کے حقوق کے لیے جدوجہد کریں ۔کامران خلیلی نے کہاکہ کراچی میں مردہ جانوروں کی قیمتیں بھی لگائی جاتی ہیں اور شہریوں کو مردہ جانوروں کا گوشت کھلایاجاتا ہے ، ٹیکسز پورے لیے جاتے ہیں اور حکومتی نمائندے مردہ جانوروں پر مہر لگاکر مارکیٹ میں بھیجتے ہیں ، کراچی کے علاوہ تمام صوبوں میں گوشت کے حوالے سے بہت ہی مؤثر نظام موجود ہے ۔سلمان جاوید نے کہاکہ جماعت اسلامی کی حقوق کراچی تحریک سے شہریوں میں ایک نئی امید پیدا ہوئی ہے اور کراچی کے شہر ی بیدار ہوئے ہیں ،سندھ حکومت کی جانب سے منظور کردہ بلدیاتی ترمیمی بل کراچی دشمن فیصلہ ہے ،جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ،کراچی میں رہنے والے شہری پاکستان کے تمام صوبوں سے وابستہ ہیں ،کراچی منی پاکستان ہے اور پورے ملک کی نمائندگی کرتا ہے اس کے باوجود مسلسل کراچی کو نظر انداز کیا جارہا ہے ۔’’ری بلڈ کراچی‘‘ جماعت اسلامی کی توانا تحریک ہے جسے ہم قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیںاور مکمل تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہیں۔حنیف میمن نے کہاکہ کراچی پاکستان کا حب ہے ، کراچی پاکستان کو 67فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے ،جماعت اسلامی مبارکباد کی مستحق ہے جس نے اتنے اہم مسئلے پر ڈسکشن کا انعقاد کیا۔کراچی پاکستان کا صنعتی و سیاسی حب ہے ، 95فیصد انڈسٹریز کراچی کی بندرگاہ سے ہی مستفید ہوتی ہیں ،کراچی کا حال کھنڈرات جیسا کردیا گیا ہے ، کاروباری طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے ،حکمران کراچی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کررہی جس کی وجہ سے کراچی کا ہر شہری پریشان حال ہے۔تاجر برادری میں سے کوئی بھی کراچی میں انویسمنٹ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔آباد جماعت اسلامی کی ری بلڈ تحریک کے ساتھ ہے اور ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہیں۔بابر خان نے کہاکہ جماعت اسلامی نے کراچی کے اہم اور دیرینہ مسائل کے حل کے لیے ایک توانا آواز بلند کی ہے ،حکمرانوں کی نااہلی و ناقص کارکردگی کی وجہ سے انڈسٹریز بھی بہت زیادہ متاثر ہوئی ہیں، کراچی کے مسائل پر سوائے جماعت اسلامی کے کسی نے کوئی بات نہیں کی۔انہوں نے کہاکہ کراچی میں انڈسٹری لگانا انتہائی مشکل کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے انڈسٹری مالکان کراچی سے پنجاب منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں۔رانا وحید نے کہا کہ ہمار ے فرنیچر سیکٹر کے لیے بھی آواز اٹھائی جائے ،ہم سرکاری اداروں اور پالیسیوں کی وجہ سے شدید پریشان ہیں اوراحتجاج کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔محمد فیضان راوت نے کہاکہ کراچی کے عوام کا ہر طرح سے استحصال ہورہاہے اور بالائی سطح سے حق تلفی کی جارہی ہے ،مردم شماری اورکوٹہ سسٹم کے ذریعہ ہمارا حق سلب کیا جارہا ہے ۔شہر کو ری بلڈ کرنے کے لیے ماسٹر پلان بنانے کی ضرورت ہے۔شکیل احمد بیگ نے کہاکہ آج صارفین کے لیے کراچی سے کوئی آواز اٹھتی ہے تو وہ صرف حافظ نعیم الرحمن کی ہے اور اسی وجہ سے ہم سب آج یہاں جمع ہیں ،کے الیکٹرک کے حوالے سے ان کی جدوجہد اور کوشش کے ہم سب معترف ہیں او ر آج ری بلڈ کراچی کے حوالے سے ان کی کوششیں بھی قابل قدر اور عوامی مفاد میں ہیں ،کراچی میں پانی تک فروخت کیا جاتا ہے ،عوام کو سستی بجلی تک نہیں ملتی ،اب گیس بھی نہیں مل رہی جب تک شہر کے مسائل اور معاملات کے تمام ادارے ایک اتھارٹی کے تحت نہیں ہوں گے ری بلڈ کراچی ہونا بہت مشکل ہے ۔ہم نے نعمت اللہ خان اور عبد الستار افغانی جیسے لوگوں کو کراچی کی خدمت کرتے دیکھا ہے۔شوکت مختار نے کہاکہ آج کراچی کے اندر حافظ نعیم الرحمن ایک رجحان سازکی صورت میں موجود ہیں اور ہر شعبے اور طبقے کے لوگوں کے مسائل کے لیے کوشش کررہے ہیں ،کراچی ایک میگا سٹی ہے ، ہم اس کی ضرورت پورا کرتے ہیں۔خواجہ طارق نے کہاکہ کراچی میں تقریبا ً 800میرج لان وہال موجود ہیں ،ہماری انڈسٹری کو بھی بے پناہ مسائل کا سامنا ہے اس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے ،اس کی بندش سے پولٹری انڈسٹری بھی متاثر ہوئی ہے اور کروناکے باعث تو ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے ،حکومت نے بلند و بانگ دعوے تو کیے لیکن عملاً ہماری انڈسٹری کو کوئی ریلیف نہیں ملا ،ہم حافظ نعیم الرحمن کے مشکور ہیں کہ انہوں نے مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا ۔ڈاکٹر ظفر الاسلام صدیقی نے کہاکہ ہماری انڈسٹری سے بھی سرمایہ کراچی سے باہر نکل گیاہے ،ہمیں سب سے پہلے قومی مزاج کو ٹھیک کرنا ہوگا ،پولٹری انڈسٹری ملکی معیشت میں ریڑھ کی حیثیت رکھتی ہے ،غیر ضروری چیزوں کے استعمال کو کم کرنا ہوگا جیسے کھانے کا تیل ،پرتعیش چیزوں کو کم کیا جائے ،حکومت اپنی رٹ قائم کرے اور امن و امان کی صورتحال بہتر کرے۔انجینئر صابر احمد نے کہاکہ بد قسمتی سے 1980سے آج تک ملک سے ذہانت کے جانے کا تناسب کراچی میں سے زیادہ ہے ،لوگو ں کا یہاں اپنا مستقبل محفوظ نہیں ہوتا ،آج میڈیکل کے طلبہ کے لیے بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ایک غیر سنجیدہ رویہ اختیار کررکھا ہے اور ہزاروں طلبہ اور والدین شدید پریشانی کا شکار ہیں ری بلڈ کراچی کے لیے شعبہ تعلیم کوبھی بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
جماعت اسلامی کی حقوق کراچی مہم کے تسلسل میں اس طرح کے سیشن یقناجہاں کراچی اور کراچی کے مسائل اور ان کے حل کو سمجھنے میں معاون ثابت ہونگے وہاں جماعت اسلامی نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وہ صرف مسائل پر احتجا ج نہیں کررہی بلک ہ ان کا ھل بھی پیش کررہی ہے اب یہ حکومت وقت کا کام ہے کہ وہ ان نکات کی روشنی میں کراچی کے لوگوں کو ریلیف فراہم کرے ۔