پاکستان، امریکہ تعلقات میں سرد مہری

امریکہ کی شکل میں74 سال سے پاکستان کو ایک عالمی آکاس بیل چمٹی ہوئی ہے، پاک امریکہ تعلقات ایک ایسی گنجلک ہے جس کا کوئی سرا بھی آج تک ہمارے ہاتھ نہیں آسکا۔ اگر ہم گزرے ہوئے سات عشروں کا حساب کتاب لگائیں تو امریکہ ہر عشرے میں ایک نئی شکل کے ساتھ ہمارے سامنے آیا ہے، اس کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان کا دوست ہے اور اس نے دفاع سمیت ہر شعبے میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ ہمیں یقین ہے اس کی امداد ہماری نظریاتی پہچان پر کاری وار ہے، اس کے باوجود ہماری حکمران اشرافیہ اس کے پروں کے نیچے اپنے لیے پناہ تلاش کرتی رہتی ہے۔ حالیہ برسوں کی بات کرلیتے ہیں، افغانستان کے معاملے پر امریکہ جنرل پرویزمشرف کے کندھوں پر بیٹھ کر کابل پہنچا تھا، مگر ذلت آمیز واپسی کے وقت وہ ہماری گردن پر پائوں رکھنے کا خواہش مند تھا۔ گزشتہ سات عشروں سے اس کا یہی وتیرہ رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات ہمیشہ سرد اور گرم رہے ہیں۔ امریکہ ہمیںکبھی جھک کر سلام کرتا ہے اور کبھی پیٹھ پھیر لیتا ہے۔ آج کل بھی دونوں ملکوں کے مابین ایک سردمہری ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے امریکہ میں ہونے والی ڈیموکریسی کانفرنس میں شریک ہونے سے انکار کردیا ہے، سفارتی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان نے یہ فیصلہ چین کے کہنے پر کیا ہے، روس کی بھی یہی خواہش تھی۔ مگر معاملہ صرف یہاں تک محدود نہیں ہے، اگر یہ دلیل تسلیم کرلی جائے تو پھر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی آزاد نہیں ہے، بلکہ ہم بڑی قوتوں کی خواہش کے مطابق چلتے ہیں۔ پاکستان میں عمومی تاثر یہ ہے کہ امریکہ اپنے اہداف و مقاصد کے لیے پاکستان کی خدمات سے بھرپور استفادہ تو کرتا چلا آرہا ہے لیکن مشکل نکل جائے تو پھر پیٹھ پھیر لیتا ہے، پچھلے 4عشروں میں تو کم از کم ایسی ہی صورت حال رہی ہے اور وہ اس خطے میں بھارت کے بے جا ناز اٹھا رہا ہے، اور اسی کے ساتھ سول ایٹمی ٹیکنالوجی جیسے معاہدے بھی کیے ہیں، اس کے باوجود پاکستان چاہتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب نہ ہوں۔ حال ہی میں امریکی سینیٹ کی سلیکٹ کمیٹی برائے انٹیلی جنس کے اراکین کے وفد نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اس وفد میں سینیٹر اینگس کنگ، رچرڈبر، جان کورنین اور بینجمن سیس شامل تھے۔ وفد نے وزیراعظم عمران خان اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے الگ الگ ملاقات کی اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید وسعت دینے کی خواہش کا اعادہ کیا۔ ایوانِ وزیراعظم سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم نے امریکی سینیٹروں کو افغانستان کے عوام کی فوری مدد کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کی ضرورت سے آگاہ کیا تاکہ انسانی بحران اور معاشی تباہی سے بچایا جا سکے۔ اُنہوں نے صراحت کی کہ خطے میں دہشت گردی سمیت دیگر سیکورٹی خطرات سے نمٹنے کے لیے پاک امریکہ قریبی تعاون نہایت اہم ہے، پاکستان نے کھل کر کہا کہ اگر بھارت کی جانب سے سازگار ماحول پیدا کیا جائے تو ہم تمام مطلوبہ اقدامات کرنے کو تیار ہیں۔ امریکی سینیٹروں نے وسط اگست کے بعد افغانستان سے امریکی اور دیگر ممالک کے شہریوں کے انخلا میں مدد پر پاکستان کے کردار کو سراہا اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات میں افغانستان کی سیکورٹی کی صورت حال اور مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔
ایک خاص حلقے کی رائے یہ ہے کہ چونکہ چین کو نہیں بلایا گیا اور تائیوان کو بلایا گیا ہے لہٰذا پاکستان نے انکار کردیا ہے۔ یہ تجزیہ درست معلوم نہیں ہوتا۔ پاکستان نے باقاعدہ پیغام بھیجا کہ ’’اسلام آباد جمہوریت کے معاملے پر ’مستقبل میں ایک مناسب وقت‘ پر واشنگٹن کے ساتھ بات چیت کرنا چاہے گا‘‘۔ بہرحال برسوں سے دونوں ملکوں کے مابین تعلقات اتار چڑھائو کا شکار رہے ہیں۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ، عالمی بینک، آئی ایم ایف اور امریکہ سے ملنے والی امداد یا قرض کے بدلے ہماری حکومتیں ملکی معاشرے کو ترقی یافتہ نہیں بنا سکی ہیں، اس کی وجہ خراب حکمرانی (Bad governence)ہے، اسی کے باعث ملک کی 88فیصد دیہی آبادی اسپتالوں اور ڈسپنسریوں، 90 فیصد سیوریج اور نکاسی آب، 26فیصد گھروں میں ٹوائلٹ، 91فیصد پختہ گلیوں جیسی بنیادی سہولتیں ہی فراہم نہیں کرسکی ہے۔ ہماری ملکی معیشت غیر ملکی قرضوں کی مرہون منت ہے۔ ابھی حال ہی میں ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان میں سماجی تحفظ پروگرام کی توسیع اور استحکام کے لیے 60کروڑ 30لاکھ ڈالر قرض منظور کیا ہے، یہ رقم احساس پروگرام کے تحت چلنے والے منصوبوں قومی سماجی تحفظ اور غربت کے خاتمے یا کمی سے متعلق مہیا کی گئی ہے، تاہم ترجیح تعلیم ہے، مگر اولین ترجیح لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک پاکستان کوکووڈ 19سے بچائو کی ویکسین کے خریداری پروگرام میں بھی 50کروڑ ڈالر کی امداد دے چکا ہے، آئندہ پانچ سال کے دوران معاشی بحالی کے عمل میں معاونت کے لیے 10 ارب ڈالر دے گا۔ اگرچہ یہ رقم دیہی آبادی کے لیے ہے مگر اس کا استعمال ایک بڑا سوال ہے۔ ماضی میں بھی ہماری حکومتیں ایسے پروگراموں کے لیے قرض یا امداد حاصل کرتی رہی ہیں، یہ رقم کہاں اور کتنی خرچ ہوئی اور اس کے نتائج یا اثرات کیا ہیں؟ یہ تمام سوال ابھی تک جواب طلب ہیں۔ پاکستان کی معیشت بہت کمزور ہے، اور یہ کوئی راز کی بات بھی نہیں، البتہ تجزیہ یہ ہونا چاہیے کہ ملکی معیشت غیر ملکی قرضوں سے کب اور کیسے نجات حاصل کرے گی؟ معیشت کے استحکام کے لیے بنیادی پتھر روزگار کے مواقع، امن وامان، عدل کا مستحکم نظام اور حکومتوں کی ترجیحات ہوتا ہے، جس ملک میں بھی ایسی سازگار فضا ہوگی وہی ملک معاشی لحاظ سے مضبوط اور مستحکم بھی ہوگا۔ ہماری معیشت غیر ملکی قرضوں اور حکومتوں کی خراب حکمرانی کے باعث شدید دبائو میں ہے۔ بنگلہ دیش کی معیشت ہم سے بہتر اور مضبوط ہے، وہاں معاشی پالیسی کے کچھ بنیادی اصول طے کرلیے گئے ہیں اور قانون سازی بھی ایسی کہ آجر اور اجیر دونوں مطمئن ہیں، لہٰذا اس کی معیشت فروغ پارہی ہے۔ نیپال جیسا چھوٹا ملک اپنی برآمدات ایک بلین ڈالر تک بڑھا چکا ہے۔ ہماری معیشت کا حجم اُس سے کئی گنا بڑا ہے مگر ہماری برآمدات اس نسبت سے بہت کم ہیں۔ سروسز کا شعبہ عالمی جی ڈی پی کا 50 فیصد ہے، پاکستان میں جی ڈی پی میں خدمات کا حصہ بڑھ کر 62 فیصد ہوگیا ہے، ہماری سروسز کی کُل برآمدات سالانہ پانچ سے چھ بلین ڈالر ہیں، مگر روزگار کی فراہمی کا تناسب بہت کم ہے، اور ملکی معیشت پر روزگار کی فراہمی کا دبائو مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ہماری حکومتوں کو نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے خدمات کے شعبے کی جذب کرنے کی صلاحیت کو افرادی قوت میں سالانہ اضافے کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ یہ کسی بھی حکومت کی ترجیح نظر نہیں آئی، اس لیے بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے ملک گیر سطح پر بدعنوانی کے خاتمے کا دن منایا گیا، نیب نے بھی اپنی کارکردگی سے متعلق ایک آگاہی مہم چلائی، مگر اسی نیب میں بائیس گریڈ کے ریٹائرڈ افسر کو نیب کا ڈائریکٹر جنرل لگایا گیا اور فیصلہ وزیراعظم عمران خان نے نیب کے چیئرمین جاوید اقبال کی سفارش پر کیا۔ اس ضمن میں وزیراعظم کو تین ریٹائرڈ افسروں جمیل احمد، الطاف باوانی اور مجاہد اکبر بلوچ کے نام بھیجے گئے تھے۔ یہ وہی نیب ہے جو قواعد و ضوابط میں نرمی کرکے بھرتیوں کے متعدد کیسز کی تحقیقات کررہا ہے اور اپنا عمل یہ کہ ڈائریکٹر جنرل کے منصب پر من پسند افسر تعینات کیا گیا۔ اسے ایک سال کے لیے کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا، جس کے لیے قواعد میں نرمی کی گئی، اور نیب کا مؤقف ہے کہ یہ تقرری نیب کے مفاد میں کی گئی ہے، جب کہ سپریم کورٹ ماضی میں اپنے روبرو پیش کیے گئے متعدد مقدمات میں واضح فیصلہ جاری کرچکی ہے۔ ان فیصلوں کی پابندی لازمی ہے، مگر پسند اور ناپسند کے سامنے سب کچھ بے معنی ہوجاتا ہے۔ ایسی خراب حکمرانی میں ملکی معیشت کیا ترقی کرے گی؟ چیئرمین نیب نے سمری میں لکھا ہے کہ ’’بھرتی کے لیے قواعد میں نرمی کرنا ہوگی، لہٰذا وزیراعظم کی منظوری درکار ہے تاکہ جمیل احمد کو نیب میں ڈی جی کے عہدے پر ایک سال کے کنٹریکٹ پر بھرتی کرنے کے معاملے میں اسامی مشتہر کرنے کی شرط پر استثنیٰ مل سکے، قانونی استثنیٰ بھی دیا جائے‘‘۔
وفاقی حکومت نے ٹیکس قوانین کے چوتھے ترمیمی بل 2021کے مسودے کو حتمی شکل دے دی ہے جس میں تقریباً 100 ٹیکسوں پر چھوٹ ختم کردی گئی ہے۔ حکومت اب تک 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ بیشتر اشیاء سے چھوٹ واپس لینے کے لیے پارلیمنٹ میں ایک منی بجٹ پیش کرنے کو تیار ہے، تاہم ایک اہم نکتہ ابھی تک جواب طلب ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات پر 17فیصد جی ایس ٹی شرح نافذ ہوگی یا نہیں؟ یہ بات طے ہے کہ اگر جی ایس ٹی کی پوری شرح اور پیٹرولیم لیوی کو 30روپے فی لیٹر تک لایا گیا تو ملک میں مہنگائی کا سونامی انتہائوںکو چھو سکتا ہے۔ اس وقت حکومت پیٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی کی کم از کم رقم وصول کررہی ہے لیکن آئی ایم ایف کے ساتھ 350ارب روپے کی جی ایس ٹی چھوٹ ختم کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے، لہٰذا معیشت کے کچھ فیصلے تبدیل ہونے والے ہیں، جیسا کہ بتایا جارہا ہے کہ مالیاتی ادارے کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ جی ایس ٹی نظام میں اصلاحات کا عمل یکساں ٹیکس کی بنیاد پر اور آئین کی حدود میں آگے بڑھایا جائے گا۔ حکومت نے برآمدی اور کیپٹل مشینری کے سامان کے سوا ٹیکس سے مستثنیٰ تمام اشیا کو معیاری سیلز ٹیکس کی شرح پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آٹھ شیڈول کے تحت کم کیے گئے نرخوں کو ختم کرکے ان تمام اشیا کو معیاری سیلز ٹیکس کی شرح پر لایا جائے گا۔ ان میں خوراک، ادویہ، انسانی استعمال کے لیے زندہ جانور، تعلیم اور صحت سے متعلق اشیا شامل نہیں۔ ذرائع کے مطابق ان اصلاحات سے سالانہ بنیادوں پر جی ڈی پی کا تخمینہ اعشاریہ سات فیصد حاصل ہونے کی امید ہے۔ بیک وقت ساڑھے تین سو ارب کی ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ اور بیشتر ضروریاتِ زندگی پر جو اَب تک جی ایس ٹی سے مستثنیٰ تھیں، 17فیصد ٹیکس کا نفاذ بظاہر ملک میں مہنگائی کے ایک نئے طوفان بلکہ سونامی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا دکھائی دیتا ہے، لیکن حکومت کی موجودہ معاشی حکمت کار ٹیم کے سربراہ مشیر خزانہ شوکت ترین نے تسلی دی ہے کہ کھانے پینے کی اشیا مہنگی نہیں ہوں گی، انہوں نے یہ نوید بھی سنائی ہے کہ آئندہ ہفتوں میں پاکستان میں پیٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کی جائے گی۔ وہ خود کہہ رہے ہیں کہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت آئندہ ہفتے منی بجٹ لا رہی ہے، تاہم اس میں کھانے پینے کی اشیا پر دی جانے والی ٹیکس چھوٹ ختم نہیں ہوگی۔ یوں اشیائے خور و نوش مہنگی نہیں ہوں گی۔ منی بجٹ میں درآمدی میک اپ کا سامان، کپڑے، جوتے اور پرفیوم سمیت دیگر درآمدی آسائشی سامان اور اشیائے تعیش پر کسٹم ڈیوٹی بڑھائی جائے گی اور مقامی طور پر تیار ہونے والی متعدد اشیا پر بھی 5فیصد کی چھوٹ ختم کرکے سیلز ٹیکس کی شرح 12سے بڑھا کر 17فیصد کی جائے گی، نتیجہ یہ ہوگا کہ اشیا مہنگی ہوجائیں گی۔ مشیر خزانہ نے بھی کہا کہ گھبرانا نہیں، مگر جب جی ایس ٹی کی چھوٹ کے خاتمے کے بغیر ہی اشیائے خورو نوش سمیت مہنگائی روز افزوں ہے تو سینکڑوں مزید اشیا پر جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد کھانے پینے کی اشیا بھی مزید مہنگی کیوں نہ ہوں گی؟
حال ہی میںٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان میں کرپشن کے حوالے سے رپورٹ جاری کی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے گزشتہ سال بھی رپورٹ جاری کی تھی۔ اب 2021ء میں جاری رپورٹ میں کرپٹ ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 180 ملکوں میں 120 سے 124 ویں نمبر پر آگیا ہے، یعنی کرپشن میں مزید چار درجے اضافہ ہوا ہے۔ چوروں اور کرپٹ سیاست دانوں کا کڑا احتساب کرنے کے ایجنڈے پر قائم ہونے والی حکومت کے بارے میں 85.9فیصد عوام نے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے، بلکہ اس حکومت میں کرپشن اور بڑھ گئی ہے۔ وفاقی حکومت کی خود احتسابی بھی اطمینان بخش نہیں۔ 66.8 فیصد لوگوں کی رائے میں احتساب یکطرفہ ہے۔ 92.9 فیصد کی رائے میں موجودہ حکومت کے دور میں انہیں بدترین مہنگائی کا سامنا ہے۔ اور 85.9 فیصد کی آمدنی اور قوتِ خرید کم ہوگئی ہے۔کیا حکومت کا عوامی فلاح کے سنہرے خوابوں کا نمائشی و فرضی ماحول صرف انتخابات کا موسم بہتر بنانے کے لیے ہے؟
احساس پروگرام کا تجزیہ بھی بہت ضروری ہے۔ حقائق یہ ہیں کہ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ہے اور اوسط خاندان 6.5 افراد پر مشتمل ہے۔ نیا پاکستان کارڈ 37 لاکھ خاندانوں کے لیے ہے، یہ تعداد 2 کروڑ 22 لاکھ بنتی ہے، باقی لوگ کہاں جائیں؟ ان37 لاکھ خاندانوں کے لیے فی کس 27 لاکھ روپے قرض بینکوں سے دلوایا جائے گا جس پر 8.75فیصد سالانہ شرح سود حکومت کو ادا کرنا ہے۔ قومی بینک 9990 ارب روپے کا قرض کہاں سے فراہم کریں گے؟ جبکہ حکومت کو اس پر سالانہ 870 ارب روپے سود دینا ہوگا۔ ملک میں ترقیاتی پروگرام کم ہوکر 700 ارب روپے کا رہ گیا ہے، حکومت کے پاس وسائل کہاں سے آئیں گے؟37 لاکھ خاندانوں کے لیے فی کس 5لاکھ قرض برائے کاروبار کے لیے بینکوں کو 187ارب روپے قرض فراہم کرنا ہوگا اور اس قرض پر حکومت 211 ارب روپے سود کی مد میں ادا کرے گی۔12.5 ایکڑ تک کے مالک کسانوں (56 لاکھ) کو بینک فی کس 5 لاکھ روپے یعنی کل 2800 ارب روپے قرض دیں گے جس پر حکومت سالانہ 320 ارب روپے ادا کرے گی۔ اسی طرح ہیلتھ کارڈ سب کے لیے ہے۔ 3 کروڑ 38 لاکھ خاندانوں پر کل خرچ 33,800 ارب روپے آئے گا جو حکومت ادا کرے گی۔ دو کروڑ لوگوں کے لیے سستے راشن پر (فی کس 15000 روپے ماہانہ) حکومت 30 فیصد ادا کرے گی جو 1080 ارب روپے بنتے ہیں۔ حکومت جن پروگراموں کا ذکر کررہی ہے ان کے کل اخراجات پاکستان کی مجموعی قومی آمدنی سے بھی بڑھ رہے ہیں۔ یہ عوامی خدمت اور فلاح محض سراب ہے، اور اہم ترین نکتہ یہ کہ جب غربت اور گھریلوآمدنی کے حوالے سے سروے ہوچکے ہیں اور ان چھ احساس پروگراموں کے لیے سافٹ ویئر بھی بن چکے ہیں تو پھر تحریک انصاف کے امیدوار کیوں فارم بھرواتے پھریں گے؟ کیاکارڈزکے بدلے ووٹ خریدے جائیں گے؟