پاکستان کیوں ٹوٹا؟

تحریک پاکستان کی دل دہلا دینے والی تفصیلات

سقوطِ ڈھاکا سے ایک دن پہلے تک یہ بات ہر باشعور پاکستانی کے ’’سیاسی عقیدے‘‘ کا حصہ تھی کہ پاکستان ہمیشہ قائم رہنے کے لیے بنا ہے۔ یہ عقیدہ خیالی پلائو نہیں تھا۔ پاکستان ایک نظریاتی اور سیاسی معجزہ تھا۔ اُس وقت دنیا کی واحد سپر پاور سلطنتِ برطانیہ تھی اور بھارت کی ہندو اکثریت چاہتی تھی کہ پاکستان نہ بنے۔ مگر پاکستان بن کررہا۔ اس کی وجہ پاکستان کا نظریہ اور قائداعظم کی غیر معمولی قیادت تھی۔ پاکستان کا نظریہ اتنا طاقت ور تھا کہ اس نے ناممکن کو ممکن کردکھایا۔ اس نظریے کی قوت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ برصغیر کے مسلمان ایک بھیڑ تھے مگر پاکستان کے نظریے یعنی اسلام نے انہیں ایک قوم بناکر کھڑا کردیا۔ محمد علی جناح جب تک کانگریس میں تھے صرف محمد علی جناح تھے، مگر پاکستان کے نظریے نے انہیں قائداعظم بنادیا۔ جناح پہلے صرف افراد کے وکیل تھے، مگر پاکستان کے نظریے نے انہیں ایک مذہب، ایک تہذیب، ایک تاریخ اور ایک قوم کا وکیل بناکر کھڑا کردیا۔ اس تناظر میں جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان ہمیشہ قائم رہنے کے لیے بنا ہے، وہ شیخ چلی کی طرح خیالی پلائو نہیں پکاتے تھے۔ مگر 16 دسمبر 1971ء کو سقوطِ ڈھاکا ہوگیا، پاکستان ٹوٹ گیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کا بننا بھی عجیب تھا اور اس کا دولخت ہونا بھی عجیب تھا۔ کہنے کو تو ہم اب بھی کہتے ہیں کہ پاکستان ہمیشہ قائم رہے گا، مگر اب اس یقین میں وہ قوت نہیں جو 16 دسمبر 1971ء سے پہلے تھی۔ اب ہم صرف ایک نعرہ لگاتے ہیں مگر اس نعرے کی جڑیں ہمارے ایقان میں نہیں ہوتیں، یہ بات صرف ہمارے ہونٹوں پر ہوتی ہے۔ یہ سب باتیں اہم ہیں، مگر یہاں سوال تو یہ ہے کہ پاکستان کیوں ٹوٹا؟ سقوطِ ڈھاکا کیوں ہوا؟
اس سوال کا جواب ایک فقرے میں دینا ہو تو کہا جائے گا کہ پاکستان اس لیے ٹوٹا کہ پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے پاکستان کے نظریے سے غداری کی۔ قائداعظم نے اسلام کی بنیاد پر بھیڑ کو بھی ایک قوم بنادیا تھا، مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے قومی اتحاد اور وحدت کے سلسلے میں اسلام کو رتی برابر اہمیت نہ دی، چنانچہ جو بھیڑ 1940ء سے 1947ء تک ایک قوم کی طرح عمل کررہی تھی وہ قائداعظم کی وفات اور لیاقت علی خان کے قتل کے بعد 16 دسمبر 1971ء تک دوبارہ ایک بھیڑ میں تبدیل ہوگئی۔ پاکستان میں یہ خیال بہت عام ہے کہ پاکستان کو بھارت، شیخ مجیب اور بھٹو نے توڑا۔ مگر اس تجزیے میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ شاعر نے کہا ہے:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
پاکستان ایک طویل جدوجہد کا حاصل تھا، اور اس کی تخریب بھی چار دن میں نہیں ہوئی بلکہ اس میں بھی 23 سال کا عرصہ لگا۔ اس تخریب کی تفصیلات دل دہلا دینے والی ہیں۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ بنگالی پاکستان کی آبادی کا 56 فیصد تھے۔ وہ اکثریت تھے اور تحریکِ پاکستان میں بنگالیوں کا کردار پنجاب، سندھ، بلوچستان اور کے پی کے کے لوگوں سے کہیں زیادہ تھا۔ بنگالی سیاسی طور پر باشعور تھے۔ ان پر جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں اور جرنیلوں کا غلبہ نہیں تھا۔ بنگالیوں کے سیاسی شعور کی علامت یہ ہے کہ 1906ء میں مسلم لیگ لاہور، پشاور، کوئٹہ یا کراچی میں قائم نہیں ہوئی، بلکہ ڈھاکا میں قائم ہوئی۔ تحریکِ پاکستان شروع ہوئی تو بنگالی اس کا ہراول دستہ تھے۔ شیخ مجیب الرحمٰن تحریکِ پاکستان کا ایک متحرک کارکن تھا۔ 1940ء میں قراردادِ لاہور مولوی فضل حق نے پیش کی، اور وہ بنگالی تھے۔ بنگالیوں کی پاکستان سے محبت کا یہ عالم تھا کہ اُن کی آبادی 56 فیصد تھی مگر اُن سے کہا گیا کہ برابری یا Parity کے اصول کے تحت آپ اپنی آبادی کو صرف 50 فیصد تصور کریں۔ یہ مطالبہ نہ اسلام سے ہم آہنگ تھا، نہ یہ مساوات کا حقیقی تصور تھا، نہ اس میں کوئی انصاف تھا، مگر بنگالیوں نے ملک کی وحدت اور یگانگت کو ممکن بنانے کے لیے برابری کا اصول تسلیم کرلیا۔ بنگالی اگر پاکستان کے ساتھ نہ رہنا چاہتے اور انہیں ملک سے محبت نہ ہوتی تو وہ کبھی برابری کے اصول کو تسلیم نہ کرتے۔ کیا آج پنجاب یہ مان سکتا ہے کہ اس کی آبادی ملک کی آبادی کا 60 فیصد نہیں، 50 فیصد ہے؟ لیکن بنگالیوں نے برابری کے اصول کو تسلیم کرلیا اور وہ ملکی وسائل پر اپنے جائز حصے سے دست بردار ہوگئے۔ بنگالی قیادت کے لیے یہ کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ بیگم شائستہ اکرام اللہ نے اپنی تصنیف ’’پردے سے پارلیمنٹ تک‘‘ میں لکھا ہے کہ برابری کے اصول کو تسلیم کرانے کے عمل میں حسین شہید سہروردی نے اپنی عوامی مقبولیت کو دائو پر لگادیا، مگر بدقسمتی سے کبھی اُن کے اس کردار کا مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے کھلے دل سے اعتراف نہیں کیا۔ بدقسمتی سے برابری کے اصول پر بھی ایمان داری سے عمل درآمد نہ ہوا۔ حسن ظہیر نے اپنی کتاب ’’مشرقی پاکستان کی علیحدگی‘‘ میں بنگالی رہنمائوں کی وہ تقریریں پیش کی ہیں جو انہوں نے1954ء میں مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں کیں۔ ان تقاریر میں بنگالی رہنما چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ مشرقی پاکستان کو اس کے حصے کے وسائل مہیا نہیں کیے جارہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ صورتِ حال یہی رہی تو پاکستان کی وحدت پارہ پارہ ہوجائے گی۔ مگر مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے کوئی بات سن کر نہ دی۔ یہ حقیقت بھی راز نہیں کہ پاکستان میں ون یونٹ کا سیاسی تجربہ بھی بنگالیوں کی اکثریت سے بچنے کے لیے ہی کیا گیا تھا۔ یہ بات بھی ایک سامنے کی حقیقت ہے کہ پاکستان میں 1947ء سے 1970ء تک بالغ حقِ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات ہی نہیں ہونے دیئے گئے۔ اس بنیاد پر انتخابات ہوتے تو بنگالی اکثریت میں آتے اور اقتدار کے تمام مراکز مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان منتقل ہوجاتے۔ 1970ء میں یہی ہوا۔ بنگالیوں کی نمائندہ جماعت عوامی لیگ اکثریتی پارٹی بن کر ابھری اور مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے اُس کی اکثریت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اس حکمران طبقے نے ملک کا ٹوٹنا گوارا کیا مگر اقتدار شیخ مجیب کو منتقل کرنا گوارا نہ کیا۔ بھٹو صاحب نے اِدھر ہم اُدھر تم کا نعرہ لگا دیا اور مغربی پاکستان کے منتخب نمائندوں کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے ڈھاکا میں طلب کیے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی تو ان کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ بلاشبہ یہ بھٹو صاحب ہی کا مؤقف تھا، مگر جنرل یحییٰ بھی یہی چاہتے تھے۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ ڈھاکا میں قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد کراتے۔ اُس وقت تک بھٹو صرف ایک سیاسی رہنما تھے۔ وہ جنرل یحییٰ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے تھے۔ مگر چونکہ جنرل یحییٰ بھی وہی چاہتے تھے جو بھٹو کی تمنا تھی، اس لیے ڈھاکا میں قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد نہ ہوسکا۔ جہاں تک بھٹو صاحب کا تعلق ہے تو وہ تو 1977ء میں وزیراعظم کی حیثیت سے بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ طاقتور نہیں تھے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے جب چاہا انہیں اقتدار سے محروم کردیا، اور نہ صرف یہ، بلکہ انہیں پھانسی پر لٹکا دیا۔ بھٹو، ان کی جماعت اور ان کی پشت پر کھڑے ہوئے عوام اسٹیبلشمنٹ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔ چنانچہ 1971ء میں بھی اگر جنرل یحییٰ چاہتے تو اقتدار شیخ مجیب کو منتقل ہوسکتا تھا۔ مگر ایسا نہ ہوا، اور پاکستان ٹوٹ گیا۔
مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے بنگالیوں کے ساتھ جو ناانصافیاں کیں اُن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ بنگالی آبادی کا 56 فیصد تھے مگر 1947ء سے 1960ء تک انہیں فوج میں ہی نہ لیا گیا۔ اس سلسلے میں مارشل ریس کا نظریہ گھڑا گیا اور کہا گیا کہ بنگالی پستہ قد ہوتے ہیں، اور وہ فوج میں شامل ہونے کے قابل نہیں ہوتے۔ 1960ء کے بعد بنگالیوں کو طوعاً و کرہاً فوج میں لینے کا سلسلہ شروع ہوا، مگر 1971ء تک فوج میں بنگالیوں کی موجودگی صرف 7 سے 10 فیصد تھی۔ صدیق سالک نے اپنی کتاب ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ وہ 1971ء کے بحران میں فوج کے ایک بنگالی یونٹ میں گئے تو ایک بنگالی افسر نے کہا کہ تمہارا صدر کیا کہہ رہا ہے! وہ کہہ رہا ہے کہ ہم فوج میں بنگالیوں کی شمولیت 100 فیصد بڑھادیں گے۔ اس بنگالی افسر نے کہاکہ اگر جنرل یحییٰ کے اس اعلان پر عمل ہو بھی گیا تو فوج میں بنگالیوں کی موجودگی بیس پچیس فیصد ہوجائے گی حالانکہ ہم آبادی کا 56 فیصد ہیں۔ سول سروس میں بھی بنگالیوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی حالانکہ بنگالی، آبادی کا 56 فیصد تھے۔ ہمارے ایک دوست نے بیس سال پہلے ہمیں بتایا تھا کہ وہ سقوطِ ڈھاکا سے پہلے مشرقی پاکستان میں ہی تھے۔ ان کے بقول مشرقی پاکستان میں اُس وقت 54 تھانے تھے۔ ان 54 تھانوں میں سے 50 تھانوں کے انچارج یا تو پنجابی تھے یا پٹھان یا مہاجر۔ صرف چار تھانوں کے انچارج بنگالی تھے۔ بنگالی آبادی کا 56 فیصد تھے اور پولیس میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ یہ کھلا ظلم اور ناانصافی تھی، اور بنگالی 1947ء سے اس ظلم اور ناانصافی کو جھیل رہے تھے۔
بنگالی آبادی کا 56 فیصد تھے اور ان کی ’عزت‘ کا حال یہ تھا کہ انہیں حرام زادے کہا جاتا تھا۔ صدیق سالک نے ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ وہ 1969ء میں ڈھاکا پہنچے تو ایک فوجی انہیں ہوائی اڈے پر لینے کے لیے آیا۔ صدیق سالک کے مطابق ان کا سامان ایک بنگالی قلی نے اٹھا کر ان کی گاڑی میں رکھا۔ صدیق سالک کے بقول انہوں نے بنگالی قلی کو کچھ پیسے دینے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ان کو لینے کے لیے آئے ہوئے فوجی نے ان سے کہا کے اِن حرام زادوں کا دماغ خراب نہ کریں۔ بنگالی پاکستان بنانے والے تھے۔ وہ آبادی کا 56 فیصد تھے، مگر انہیں سرِعام حرام زادے کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا۔ ہمارے حکمران طبقے کا ’’تصورِ بنگالی‘‘ کیا تھا، اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جنرل نیازی مشرقی پاکستان کے حالات کو قابو کرنے کے کام پر مامور کیے گئے تو انہوں نے اعلان کیا کہ بنگالیوں کی نسل بدل دیں گے۔ یعنی بنگالی عورتوں کو اس بڑے پیمانے پر ریپ کیا جائے گا کہ ان کے یہاں پنجابی، پٹھان یا مہاجر بچے پیدا ہوں گے۔ بدقسمتی سے 1970ء کے بحران میں بنگالی عورتوں کو ریپ کیا گیا۔ میجر صدیق سالک نے ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں اس کی تصدیق کی ہے۔ تاہم اس بحران میں کتنی بنگالی عورتیں ریپ ہوئیں یہ معلوم نہ ہوسکا۔ اس سلسلے میں میجر صدیق سالک نے اچھی بات لکھی ہے، انہوں نے کہا کہ اگر ایک بنگالی عورت بھی ریپ ہوئی تو کیوں ہوئی؟ سقوطِ ڈھاکا سے پہلے بنگالی پاکستانی تھے اور اسلام اپنی قوم کی عورتوں کو کیا دشمن کی عورتوں کو بھی ریپ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ متحدہ پاکستان میں غربت تھی مگر مشرقی پاکستان میں غربت انتہائوں کو چھو رہی تھی۔ میجر صدیق سالک نے ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ وہ ایک روز گھر پہنچے تو ان کی بیگم نے انہیں بتایا کہ انہوں نے دو گھریلو ملازم رکھ لیے ہیں۔ صدیق سالک نے اپنی بیوی سے کہا کہ ہماری آمدنی میں دو ملازم رکھنے کی گنجائش نہیں۔ ان کی بیوی نے کہا: آپ فکر نہ کریں، ہم راولپنڈی میں جتنی تنخواہ ایک ملازم کو دیتے تھے اتنی ہی تنخواہ میں ہمیں یہاں دوملازم مل گئے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے نے مشرقی پاکستان کی اس غربت پر توجہ نہ دی، اور بنگالی بجا طور پر محسوس کرتے رہے کہ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان ایک ملک نہیں دو دنیائیں ہیں۔ ان میں سے ایک دنیا نسبتاً خوشحال ہے اور دوسری دنیا غربت میں مبتلا ہے۔
سقوطِ ڈھاکا تو 16 دسمبر 1971ء کو ہوا، مگر پاکستان کا حکمران طبقہ بہت پہلے سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لیے تیار تھا، اور مشرقی پاکستان میں تعینات فوجیوں کے اندر یہ خیال بہت پہلے سے موجود تھا کہ مشرقی پاکستان کسی وقت بھی پاکستان سے الگ ہوسکتا ہے۔ اس کا ایک ٹھوس ثبوت میجر صدیق سالک کی کتاب ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں موجود ہے۔ صدیق سالک نے لکھا ہے کہ وہ 1969ء میں تعیناتی کے لیے ڈھاکا پہنچے تو انہوں نے اپنے فوجی دوستوں سے کہا کہ مجھے کسی بینک میں اکائونٹ کھولنا ہے۔ ان کے فوجی دوستوں نے انہیں مشورہ دیا کہ اکائونٹ کھولنا تو کسی فوجی چھائونی کے بینک میں کھولنا۔ صدیق سالک نے اس کی وجہ پوچھی تو ان کے فوجی دوستوں نے کہا کہ معلوم نہیں یہاں سے کب بھاگنا پڑ جائے۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ یہ تجزیہ 1970ء یا 1971ء میں نہیں کیا جارہا، 1969ء میں کیا جارہا ہے، اور تجزیہ کرنے والے بھی عام لوگ نہیں بلکہ فوجی ہیں جو مشرقی پاکستان سے کسی بھی وقت بھاگنے کے لیے تیار تھے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا حکمران طبقہ مشرقی پاکستان کے دفاع کے سلسلے میں کبھی بھی سنجیدہ نہیں تھا۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جرنیلوں نے مشرقی پاکستان کے دفاع کے سلسلے میں یہ نظریہ گھڑا ہوا تھا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کیا جائے گا، لیکن 1971ء کے حالات میں بھی نہ ہوا۔ ہمارے 90 ہزار فوجیوں میں سے پانچ سات ہزار فوجی تو ایسے ہونے ہی چاہیے تھے جو کہتے: آج ہمارا ملک ٹوٹ رہا ہے، ہم ہرگز بھی ہتھیار ڈالنے کے حکم کو تسلیم نہیں کریں گے اور آخری گولی تک لڑیں گے۔ کیا اس کا سبب یہ تھا کہ پاکستان کے جرنیل مشرقی پاکستان کا دفاع نہیں کرنا چاہتے تھے اور مغربی پاکستان کا حکمران طبقہ مشرقی پاکستان کی اکثریت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جان چھڑانا چاہتا تھا؟ یہ خیال ہمیں اس لیے آیا کہ متحدہ پاکستان میں آئی ایس پی آر کے سابق ڈائریکٹر جنرل بر یگیڈئیر صدیقی نے جیو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ایک عجیب واقعے کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ جنرل یحییٰ مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی کے ساتھ رابطے میں تھے، مولانا بھاشانی کی جماعت مشرقی پاکستان کے دیہی علاقوں میں مقبول تھی، جنرل یحییٰ چاہتے تھے کہ مولانا بھاشانی شیخ مجیب کا راستہ روکیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے مولانا بھاشانی کو خطیر رقم دینے کا وعدہ کیا تھا، مگر یہ رقم مولانا بھاشانی کو نہ دی جا سکی۔ انٹرویو کرنے والے نے بریگیڈئیر صدیقی سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ شاید جنرل یحییٰ پاکستان توڑنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔
زندہ قومیں اپنے بڑے سانحات کو کبھی فراموش نہیں کرتیں۔ جاپان میں ایٹمی حملے کی یاد میں آج بھی پروگرام ہوتے ہیں، لیکن پاکستان کے حکمران طبقے اور دانش وروں نے سقوطِ ڈھاکا کو بہت جلد بھلا دیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کبھی اس طرح ہمارے نصاب کا حصہ نہ بن سکی جس طرح اسے بننا چاہیے تھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحے پر ہمارے یہاں نہ شاعری ہوئی، نہ ناول لکھے گئے، نہ ڈرامے تخلیق ہوئے، نہ فلمیں بنیں۔ ڈاکٹر طاہر مسعود نے فیض احمد فیض سے انٹرویو میں اس حوالے سے سوال پوچھا تو انہوں نے عرض کیا کہ اس سلسلے میں ادب تو مشرقی پاکستان کے لوگوں کو تخلیق کرنا چاہیے تھا، ہمارے لیے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اہم نہ تھی۔ پاکستان کے ایک اور ممتاز شاعر ن۔ م۔ راشد نے سقوطِ ڈھاکا کے بعد فرمایا کہ جب تک مشرقی پاکستان پاکستان کا حصہ تھا پاکستان بدآہنگ تھا۔ اب مشرقی پاکستان الگ ہوگیا ہے تو پاکستان ’’آہنگ‘‘ میں آگیا ہے۔ ممتاز افسانہ نگار انتظار حسین نے ن۔ م۔ راشد کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ راشد نظم کے شاعر تھے، انہیں آہنگ یاد بھی آیا تو کہاں جاکر! مغربی پاکستان کے لوگوں کی یہ روش مشرقی پاکستان کے سلسلے میں مغربی پاکستان کی مجرمانہ ذہنیت کی عکاس ہے۔ ایک عام اخلاقی اور نفسیاتی اصول ہے: جب کوئی بڑا واقعہ یا سانحہ ہوتا ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ اس کا فائدہ کس کو ہوا؟ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حوالے سے بھی یہ ایک بنیادی سوال ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا فائدہ کس کو ہوا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس کا فائدہ پنجابیوں کو ہوا، پشتونوں کو ہوا، سندھیوں کو ہوا، مہاجروں کو ہوا۔ ان سب کو بنگالیوں کی اکثریت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات مل گئی اور بچے کھچے پاکستان میں ان کے وارے نیارے ہوگئے۔ چنانچہ پاکستان کے ٹوٹنے کے ذمے دار بھی یہی لوگ ہیں۔