ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں مشکلات اور آسانیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ ایک طرف زندگی کو سو طرح کے سُکھ میسر ہیں اور دوسری طرف دکھ ہیں کہ کم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زندگی دشوار سے دشوار تر ہوتی جارہی ہے۔ یہ سب کچھ ایسی حالت میں ہورہا ہے جب ہر شعبے میں فقیدالمثال پیش رفت ممکن بنائی جاچکی ہے۔ ایسی بہت سی بنیادی سہولتیں آسانی سے میسر ہیں جن کی مدد سے انسان زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بناسکتا ہے۔ ایسا اصلاً اس لیے ہے کہ قناعت پسندی عنقا ہوچکی ہے۔ لوگ بہت کچھ پاکر بھی دُکھی ہی رہتے ہیں۔ دل کو کسی بھی مقام پر سکون نہیں ملتا۔ ایسے میں غیر ضروری اضطراب ناگزیر سی حقیقت ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج کا انسان بہت کچھ پاکر بھی خود کو ادھورا سا محسوس کرتا ہے۔
……٭٭٭……
فی زمانہ کسی بھی فرد، معاشرے یا ریاست کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ہے شدید نوعیت کا ذہنی تناؤ۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دنیا میں بھی ڈپریشن عام ہے، مگر پس ماندہ ممالک میں ڈپریشن کا شکار ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ اِن ممالک میں ڈپریشن کی بہت سی وجوہ ہیں۔ معاشی ناہمواری سب سے بڑا سبب ہے۔ معاشرتی خرابیاں بھی شدید ڈپریشن کا سبب بنتی ہیں۔ ہر عمر کے لوگوں کو ڈپریشن لاحق ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔ پاکستان کا شمار اُن معاشروں میں ہوتا ہے جہاں شدید ذہنی دباؤ اور تناؤ کا شکار ہونے والوں کی تعداد خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ دی اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرن 2021 آن مائی مائنڈ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان جیسے ممالک میں شدید ڈپریشن کا شکار ہونے والوں کی تعداد غیر معمولی ہے۔ بھارت میں 15 سے 24 سال تک کے 41 فیصد نوجوانوں نے بہتر زندگی کے لیے نفسی امور کے ماہرین سے مشاورت کی ضرورت ظاہر کی ہے۔
یہ رپورٹ 21 ممالک کے 20 ہزار بچوں کی آراء کے تجزیے کی روشنی میں مرتب کی گئی ہے۔ اس سروے کے مطابق کم و بیش 83 فیصد بچے اس بات کے حق میں ہیں کہ بہتر ذہنی حالت یقینی بنانے کے لیے متعلقہ امور کے ماہرین سے مشاورت کی جانی چاہیے۔
پل پل بڑھتا ذہنی تناؤ صرف ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ نہیں بلکہ ہماری پوری زندگی کے لیے ایک بڑے بحران کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ یہ ڈپریشن ہی تو ہے جو حد سے گزرے تو انسان کو خودکشی کی چوکھٹ تک لے جاتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اتنے بڑے خطرے کو سامنے پاکر بھی ہم اس حوالے سے کچھ سوچنے اور کرنے کے لیے تیار نہیں۔ خواتین پر اس حوالے سے غیر معمولی دباؤ ہے، کیونکہ وہ بہت سے معاملات میں جذبات کی سطح پر استحصال کا شکار ہیں۔
بیشتر معاشروں میں مرد غالب حیثیت کا حامل ہے اور خواتین کو دوسرے درجے کا انسان تصور کیا جاتا ہے۔ ہمارے اپنے معاشرے میں آج بھی مرد اس بات کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ خواتین کو کسی نہ کسی طور دبائے رکھیں، کسی بھی شعبے میں ابھرنے نہ دیں، اپنے حقوق کا شعور اُن میں پیدا نہ ہونے دیں۔ کیا ہم اس حقیقت کو نظرانداز کرسکتے ہیں کہ ہمارے اپنے معاشرے میں آج بھی خواتین سے صنفی بنیاد پر امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے؟ خواتین کو حقوق تو کیا ملیں گے، اُن کے ساتھ تو پیدائش کے وقت ہی سے امتیازی سلوک روا رکھنے کا چلن عام ہے۔ یہی سلوک آگے چل کر اُن کے لیے شدید ڈپریشن کا باعث بنتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ دیہی معاشرے میں خواتین سے امتیازی سلوک اب بھی عام ہے۔ شہروں میں خواتین قدرے آزاد ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اُن سے امتیاز برتنے کے چلن نے اب بھی دم نہیں توڑا۔ اس چلن ہی کے باعث وہ رفتہ رفتہ ڈپریشن کی دلدل میں دھنستی چلی جاتی ہیں۔
نئی نسل کو ڈپریشن زیادہ تیزی سے اپنے جال میں پھانستا ہے۔ نئی نسل کو بہت سے معاملات میں عمومی سطح پر بھی دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔ کیریئر اور نئی زندگی شروع کرنے کا دباؤ کم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ ایسے میں اُن کی ذہنی حالت متوازن نہیں رہتی اور وہ اپنی صلاحیت و سکت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے میں کامیاب نہیں ہوپاتے۔ ڈپریشن نئی نسل کو زیادہ تیزی سے ڈپریشن کی طرف لے جاتا ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ نہ تو حکومت کو اس صورتِ حال کا کچھ احساس ہے اور نہ ہی معاشرہ اپنا کردار ادا کرنے کی بھرپور کوشش کررہا ہے۔ اگر بہت محتاط اندازہ قائم کیا جائے تب بھی پاکستان میں ڈپریشن کا شکار ہوکر اپنی مرضی اور صلاحیت و سکت کے مطابق زندگی بسر کرنے میں ناکام رہنے والوں کی تعداد کم و بیش 35 فیصد ہے۔ بھارت میں یہ تعداد 28 کروڑ سے زیادہ ہے۔
عالمی بینک کا کہنا ہے کہ آنے والے عشرے میں کسی بھی بیماری کے مقابلے میں ڈپریشن صحت پر زیادہ منفی اثرات مرتب کرے گا اور ریاستوں کو اس حوالے سے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا رہے گا۔ ذہنی صحت کے حوالے سے کام کرنے والی عالمی تنظیم ’’مینٹل ہیلتھ اٹلس‘‘ کا کہنا ہے کہ پس ماندہ ممالک میں دماغی امراض کے ماہرین یعنی سائیکاٹرسٹ کی تعداد خطرناک حد تک کم ہے۔ دماغی امراض میں مبتلا افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جبکہ ماہرین کی تعداد بڑھ نہیں پارہی۔ نفسی امور کے ماہرین یعنی سائیکالوجسٹ بھی بہت کم ہیں۔ بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان جیسے معاشروں میں سائیکاٹرسٹ اور سائیکالوجسٹ دونوں ہی خاصی بڑی تعداد میں درکار ہیں کیونکہ اِن ممالک میں نفسی امور کے ماہرین کا تناسب شرم ناک حد تک کم ہے۔ معاملہ صرف معالجین اور ماہرین تک محدود نہیں، اس حوالے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں اور رضاکاروں کی تعداد بھی پریشان کن حد تک کم ہے۔ صرف بھارت کا جائزہ لیجیے تو انتہائی پریشان کن صورتِ حال سامنے آتی ہے۔ وہاں آج بھی ہر سوا تین لاکھ افراد کے لیے ایک سائیکاٹرسٹ اور ہر 7 لاکھ افراد کے لیے ایک ماہرِ نفسیات دستیاب ہے۔ رضاکار زیادہ ہیں۔ ذہنی صحت کے شعبے سے وابستہ رضاکاروں کی تعداد فی پچاس ہزار ایک ہے۔ خود بھارتی میڈیا بھی اس صورتِ حال کا تمسخر اڑا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عالمی طاقت بننے کی خواہش کا حامل ملک ذہنی صحت کے اعتبار سے کتنا کھوکھلا ہے! مینٹل ہیلتھ اٹلس کے مطابق 2017ء تک پورے بھارت میں بچوں کے حوالے سے خصوصی تربیت کے حامل ماہرینِ نفسیات کی تعداد صرف 49 تھی۔ سوچا جاسکتا ہے کہ حالات کے دباؤ سے گھبرانے والے معصوم ذہنوں کو دوبارہ زندگی کی طرف کون لائے گا، اور وہ کس طور اپنی صلاحیت و سکت کے مطابق زندگی بسر کرسکیں گے۔ ڈپریشن کا معاملہ بھارت میں اس حد تک پریشان کن شکل اختیار کرچکا ہے کہ میڈیا نے حکومت کو لتاڑنا شروع کردیا ہے۔ یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ ڈپریشن سے دوچار نئی نسل کی راہ نمائی اور علاج کا اہتمام نہ کیا گیا تو ملک کا کیا بنے گا؟ ملک بھر میں ذہنی صحت کے مراکز کی شدید کمی ہے، اور جو ہیں اُن کی حالت بھی اطمینان بخش نہیں۔ 2019ء میں پارلیمانی سطح پر کرائے جانے والے ایک سروے سے معلوم ہوا کہ ملک کی 21 ریاستوں (صوبوں) میں ذہنی صحت کے صرف 43 سرکاری اسپتال ہیں۔ اور تب سے اب تک شاید ہی کوئی اور اسپتال قائم ہوا ہو۔ ملک کی ذہنی صحت کا گراف بلند رکھنے کے لیے لازم ہے کہ 2029ء تک ہر سال کم و بیش 2700 اعلیٰ تربیت یافتہ ماہرینِ نفسیات کی خدمات دستیاب ہوں۔ ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ حکومت کی غلط پالیسیاں سیاسی اور معاشرتی خرابیوں کا گراف بلند کرتی جارہی ہیں۔ ملک بھر میں مختلف سطحوں پر شدید نوعیت کی تقسیم پائی جاتی ہے۔ ملک بھر کے لوگوں کو متحد رکھنے کی کوشش کرنے کے بجائے اُنہیں آپس میں لڑانے کی پالیسی پر عمل کیا جارہا ہے۔ اِس کے نتیجے میں مختلف طبقات میں شدید ڈپریشن کا بڑھتے رہنا ناگزیر ہے۔ بھارتی معاشرے میں کہنے کو تو چِنتا (پریشانی) چِتا سمجھی گئی ہے، مگر اِس سے نجات پانے کی کوششیں برائے نام دکھائی دیتی ہیں۔
جو حال بھارت کا ہے وہی پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کا بھی ہے۔ پاکستان میں بھی ذہنی صحت کو اولین ترجیحات میں رکھنے پر اب تک توجہ نہیں دی جارہی۔ سچ تو یہ ہے کہ ڈپریشن کو حقیقی بحران یا چیلنج سمجھا ہی نہیں گیا۔ یہی سبب ہے کہ معاشرتی سطح پر معاملات دن بہ دن پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے جارہے ہیں۔ حالات سے لڑنے کے لیے جو بلند حوصلہ اور عالی نظری درکار ہے وہ خال خال دکھائی دیتی ہے۔ لوگ بات بات پر بھڑک اٹھتے ہیں۔ یہ سب کچھ ڈپریشن ہی کا تو نتیجہ ہے۔ معاشرتی رویوں میں پائی جانے والی کجی روزافزوں ہے۔ فکر و نظر کے معاملے میں لاپروائی عام ہے۔ معاملات کو سمجھنے کی کوشش کرنے والوں کی تعداد کم اور معقول انداز سے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنے والوں کی تعداد اُن سے بھی کم ہے۔
یہ حقیقت بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ڈپریشن کا سامنا صرف اُنہیں نہیں کرنا پڑتا جو کم تر معاشی حیثیت کے حامل یا کم تعلیم یافتہ ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اور کھاتے پیتے گھرانوں میں بھی ڈپریشن مختلف سطحوں پر پایا جاتا ہے۔ ڈپریشن کا تعلق درحقیقت حالات کی خرابی سے لڑنے کی صلاحیت سے ہے۔ یہ صلاحیت کسی بھی سطح پر کم یا زیادہ ہوسکتی ہے۔ بہت سے تعلیم یافتہ گھرانے بھی شدید ڈپریشن کا شکار پائے گئے ہیں، اور غیر معمولی مالی حیثیت کے حامل گھروں میں بھی ڈپریشن نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ عمرانیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ ڈپریشن لازمی طور پر کلینکل بیماری نہیں، یعنی اِس کے علاج کے لیے دواؤں کا استعمال لازم نہیں۔ یہ دماغی سے زیادہ ذہنی معاملہ ہے۔ جنہیں بچپن سے حالات کا سامنا کرنے کے معاملے میں بہتر تربیت فراہم نہ کی گئی ہو وہ تیزی سے ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تعلیم کے حصول کے دوران ڈپریشن تیزی سے سر اٹھا سکتا ہے۔ طلبہ و طالبات پر اچھے مارکس کے ساتھ کامیاب ہونے کے لیے ڈالا جانے والا دباؤ بھی ڈپریشن کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ ہم اپنے ہی معاشرے کو دیکھیں تو بہت سے پڑھے لکھے اور کھاتے پینے گھرانوں میں بھی ڈپریشن عام ہے۔ عمومی رویّوں میں بھی خاصی کجی پائی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ بظاہر اس لیے ہے کہ حالات کے ہاتھوں پیدا ہونے والی ذہنی پیچیدگیوں اور الجھنوں سے نبرد آزما ہونے کی تربیت فراہم نہیں کی گئی۔ اس معاملے میں حکومتی رویہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ ذہنی صحت کے حوالے سے عوام کی راہ نمائی کا اہتمام برائے نام ہے۔ ذہنی صحت کے حوالے سے معیاری اسپتال اور ابتدائی نوعیت کی امداد کے مراکز بھی خال خال ہیں۔ حکومتی سطح پر ایسا کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا جس سے اندازہ ہو کہ ڈپریشن کو ایک بڑے چیلنج کے طور پر قبول کرکے اُس سے نجات پانے کی حکمتِ عملی تیار کی گئی ہے۔
ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ڈپریشن کو عارضہ تسلیم کرنے اور اِس کے تدارک کی فکر کرنے والے خال خال ہیں۔ عمومی سطح پر ڈپریشن کو بیماری قرار دینے سے گریز کی روش عام ہے۔ لوگ دن رات پریشان رہتے ہیں، سوچوں میں گم رہتے ہیں اور اس کا نتیجہ اُن کے فکر و عمل میں کجی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے، مگر وہ اصلاحِ احوال کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ اُن کی نظر میں یہ کوئی بیماری ہے ہی نہیں۔ ڈپریشن کوئی ایسا معاملہ بھی نہیں کہ ایک آدھ گولی کھالی اور سُکون آگیا۔ یہ پورا معاملہ ذہنی ہے، یعنی حالات کی پیدا کردہ خرابیوں کو سمجھنے میں ناکامی کا، اور اس حوالے سے اپنی طرف سے کچھ نہ کرنے کا۔ ایسے میں کوئی بھی گولی کیا کرلے گی، یا کوئی بھی انجیکشن کیا کمال دکھا پائے گا! یہ پورا معاملہ ذہنی درستی اور تربیت کا ہے۔ شدید ڈپریشن میں مبتلا افراد کو سب زیادہ ضرورت اگر کسی چیز کی ہوتی ہے تو وہ ہے مشاورت۔ کوئی مسئلہ ذہن میں اٹک کر خرابیاں پیدا کررہا ہو تو اُس کا حل تلاش کرنے کے بجائے لوگ اُس کے بارے میں محض سوچ سوچ کر پریشان ہوتے رہتے ہیں، اور چند ایک گولیاں کھاکر سمجھتے ہیں کہ معاملہ درست کرلیا۔
جنوبی ایشیا کے ممالک میں ڈپریشن کا شکار ہونے والوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس خطے کے ممالک ایک دوسرے کو دل سے قبول نہیں کررہے۔ اِس کے نتیجے میں سیاسی کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ سیاسی و سفارتی سطح پر بڑھتی ہوئی کشیدگی اِن ممالک کی خارجہ پالیسیوں اور معیشتوں پر بھی اثرانداز ہورہی ہے۔ پاک بھارت کشیدگی سب سے نمایاں عامل ہے۔ پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال سے بھی بھارت کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں اور ہیں۔ ایسے میں پالیسیوں کا بگڑنا معمول کی بات ہے۔ معیشتی خرابیاں بھی اِسی روش پر گامزن رہنے سے پیدا ہو رہی ہیں۔ بھارت میں انتہا پسند عناصر کی حکومت کا قیام رہی سہی کسر پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔
حقیقی المیہ یہ ہے کہ خطے کے ممالک نے ڈپریشن کو اب تک سنجیدگی سے لیا ہی نہیں اور اِس سے نمٹنے کے بارے میں کوئی جامع حکمتِ عملی مرتب ہی نہیں کی۔ حقائق سے رُو گردانی اور لاپروائی پر مبنی رویہ معاملات کو مزید خرابی کی طرف لے جارہا ہے۔ معاملات کی درستی کا راستہ اُس وقت ہموار ہوگا جب ڈپریشن کو ایک بڑے اور حقیقی چیلنج کے طور پر قبول کرکے اُس سے لڑنے کے بارے میں پوری سنجیدگی سے سوچا جائے گا۔ اس حوالے سے محض ہنگامی نہیں بلکہ جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔