لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 133 میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں جہاں نئے مشاہدات سامنے آئے ہیں، وہیں ان انتخابات نے سوچنے سمجھنے والوں کے لیے بہت سے سوالات بھی کھڑے کیے ہیں۔ یہ انتخاب سیاسی ابتری اور بدحالی کا منہ بولتا ثبوت دیا ہے۔ جس میں بیشتر سیاسی جماعتوں نے سیاسی یتیمی کا مظاہرہ کیا۔ یہ نشست مسلم لیگ (ن) کے پرویز ملک کے انتقال سے خالی ہوئی تھی جو ایک جم میں ورزش کے دوران دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تھے۔ ان کے بیٹے علی بھی قومی اسمبلی کے رکن ہیں اور اُن کی اہلیہ شائستہ ملک مخصوص نشستوں پر قومی اسمبلی کی رکن تھیں۔ پرویز ملک مسلم لیگ ن سے لاہور کے صدر رہے۔ تین بار مختلف حلقوں سے قومی اسمبلی کے رکن اور وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔ ان کی ایک بہن پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی رکن رہ چکی ہیں۔ میاں حافی کی طرح مسلم لیگ ن کی سیاسی یتیمی اس بار بھی نمایاں تھی۔ انہیں پرویز ملک کے خاندان کے سوا کوئی دوسرا امیدوار نہ مل سکا تھا۔ شاید اس لیے کہ شریف خاندان میں کوئی امیدوار اس وقت دستیاب نہیں ہے۔ دوسری جانب پرویز ملک کے خاندان کی سیاسی بے بسی ملاحظہ ہو کہ انہیں اپنے ہی سیاسی خاندان سے مرحوم کی اہلیہ کے سوا کوئی امیدوار نہ مل سکا، جو مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کی رکن تھیں۔ دوسری جانب اس حلقے سے 2018ء کے انتخاب میں تحریک انصاف کے امیدوار اعجاز چودھری نے جو اس وقت سینیٹ کے رکن ہیں نے 77 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے لیکن تحریک انصاف نے ان کی جگہ ایک رئیس امیدوار جناب جمشید چیمہ کو میدان میں اتارا، جو اس سے قبل ہر انتخاب ہار چکے ہیں۔ اور اس وقت وزیراعظم کے معاون خصوصی اور ان کی اہلیہ مسرت چیمہ رکن پنجاب اسمبلی اور صوبائی کابینہ کا حصہ ہیں۔ جمشید چیمہ کو محض اس لیے ٹکٹ دی گئی تھی کہ وہ کھلے دل سے انتخابی اخراجات کرنے کی شہرت رکھتے ہیں لیکن وہ بھی ہوشیار آدمی ہیں۔ انہوں نے ٹکٹ ملنے کے بعد اپنے کاغذات کی ایسے لوگوں سے تصدیق اور تائید کروائی جو اس حلقے کے رہائشی نہیں ہیں۔ چنانچہ ان کے کاغذات باآسانی مسترد ہوگئے۔ انہوں نے دوسرے کوئی کاغذات بھی جمع نہیں کرائے تھے۔ اس لیے نہایت ہوشیاری اور آسانی سے میدان سے باہر ہوگئے۔ اس طرح یہ انتخاب مسلم لیگ ن کی امیدوار شائستہ پرویز خٹک کے لیے بہت آسان بلکہ تر نوالہ بن گیا۔ تاہم پیپلز پارٹی نے جانتے بوجھتے مقابلہ کا فیصلہ کیا، جو یقینا اس فضا میں ایک اچھا سیاسی فیصلہ تھا اور 2018ء میں اپنے امیدوار چودھری اسلم گل کو میدان میں اتارا۔ جنہوں نے ساڑھے پانچ ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔ اس حلقے میں سیاسی انداز میں انتخابی مہم صرف پیپلز پارٹی نے چلائی۔ راجہ پرویز اشرف اور چودھری منظور کی قیادت میں وہ اپنے حمایتیوں اور ووٹرز کو متحرک کرنے میں کامیاب رہے۔ چنانچہ اسلم گل نے عام انتخاب کے مقابلے اس ضمنی انتخاب میں 32313 ووٹ حاصل کرلیے جو پہلے سے چھ گناہ زیادہ تھے۔ اس کے مقابلے میں شائستہ پرویز ملک 46811 ووٹ لے کر کامیاب تو ہوگئیں لیکن ان کے ووٹ ان کے شوہر کے حاصل کردہ ووٹ سے نصف تھے۔
یہ بات درست ہے کہ ضمنی انتخابات میں ٹرن آئوٹ کم ہوتا ہے لیکن یہاں توقع سے بھی کم یعنی صرف 15 فیصد تھا جو 2018ء میں 51 فیصد سے زائد تھا۔ اس حلقے میں تحریک انصاف نے اپنے حامیوں اور ووٹرز کو لاتعلق رہنے کا مشورہ دیا تھا جس کا کوئی زیادہ اثر نہیں ہوا۔ بلکہ سیاسی حلقوںکا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار کو معقول تعداد میں اور تحریک انصاف کے
ووٹر نے مسلم لیگ ن کی دشمنی میں ڈالے۔ یہاں جماعت اسلامی سمیت دیگر کئی جماعتوں کا کوئی امیدوار نہیں تھا۔ خصوصاً تحریک لبیک جو لاہور کے ہر حلقے میں 15 سے 20 ہزار ووٹر رکھتی ہے اس کے امیدوار کا نہ ہونا سیاسی حلقوں میں زیر بحث رہا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مقدمات کے دبائو سے معاملات کو طے کرنے کی خواہش کے باعث انہوں نے یہاں اپنا امیدوار نہیں اتارا کچھ کا خیال ہے کہ شاید مقتدر حلقوں کے مشورے پر انہوں نے ایسا کیا ہو۔ لیکن اگر ان کا امیدوار یہاں ہوتا تو اس حلقے میں سیاسی گرما گرمی بڑھ جاتی۔ بعض حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ اندرون خانہ تحریک انصاف اور تحریک لبیک میں سیاسی مفاہمت کے بعد انتخابی مفاہمت کی باتیں ہورہی ہیں اور مستقبل کی سیاسی مفاہمت کی جانب ہاتھ بڑھایا ہے۔ سیاسی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر اگلے انتخابات میں ان دونوں جماعتوں کی سیاسی ایڈجسٹمنٹ ہوجاتی ہے تو یہ مسلم لیگ ن کے لیے بہت بڑا سیاسی صدمہ ہوگا۔ دوسری جانب یہ قیاس آرائیاں بھی جاری ہیں کہ اگر اس حلقے کی طرح پنجاب کے دیگر علاقوں میں بھی پیپلز پارٹی کا اس انداز میں سیاسی کم بیک ہوتا ہے تو اس سے پنجاب کا موجودہ انتخابی نقشہ اتھل پتھل ہو کر رہ جائے گا۔ بہرحال ان انتخابات نے لاہور کی روایتی سیاسی گہما گہمی اور شور شرابے کا ریکارڈ خراب کیا ہے۔