توکل علی اللہ کا یہ مفہوم قطعاً نہیں ہے کہ انسان ذرائع و اسباب سے کام لینا چھوڑ دے۔ بلکہ صحیح توکل یہ ہے کہ انسان اپنے کام کے لیے مناسب تدابیر اور تمام ممکنہ اسباب و ذرائع اختیار کرے۔ اللہ تعالیٰ نے سبب اور مسبب، عمل اور نتیجے میں ربط کو ظاہر فرمایا ہے۔ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ اسباب و ذرائع کو اپنائے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو مکلف قرار دیا ہے اس کا فطری تقاضا ہے کہ انسان اسباب و ذرائع کا محتاج ہے۔ اسباب کو ترک کرنا، فطرت کے خلاف چلنا ہے اور امر الٰہی کی صریح مخالفت ہے۔ قرآن مجید میں جابجا اسباب کو اپنانے پر زور دیا گیا ہے۔ یہاں چند آیات بطور مثال پیش کی جاتی ہیں:
’’تم زمین کی راہوں پر چلو، اور خدا کا دیا ہوا رزق کھائو۔‘‘(الملک:15)
’’جہاد کے لیے ہتھیار لے لیا کرو، پھر یا تو جماعت جماعت ہوکر نکلا کرو یا سب اکٹھے کوچ کیا کرو۔‘‘(النساء:71)
’’اور جہاں تک ہوسکے فوج کی جمعیت کے زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے مقابلے کے لیے مستعد رہو۔‘‘(الانفال:60)
’’اور زادِ راہ لے لیا کرو اور بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے۔‘‘(البقرۃ:197)
اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو مخاطب کرکے مندرجہ ذیل حکم دیا تاکہ وہ اپنے ساتھیوں کو بچا سکیں، تاکہ وہ عذابِ الٰہی سے نجات پائیں:
’’تم کچھ رات رہے اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو۔‘‘ (ہود:81)
اسی قسم کے موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا:
’’میرے بندوں کو راتوں رات لے کر چلے جائو اور فرعونی ضرور تمہارا تعاقب کریں گے۔‘‘ (الدخان:23)
قصہ یوسف علیہ السلام میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی یہ نصیحت نقل فرمائی ہے:
’’بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا، نہیں تو وہ تمہارے خلاف ضرور کوئی فریب کی چال چلیں گے۔‘‘ (یوسف:5)
اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کا ہی ایک اور قول نقل کیا ہے:
’’اے میرے بیٹو! ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ جدا جدا دروازوں سے داخل ہونا۔‘‘ (یوسف:67)
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے علاج معالجہ کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:
’’اے لوگو! دوا کیا کرو۔ اللہ نے ایسی کوئی بیماری نہیں پیدا کی جس کی شفا نہ بنادی ہو (یعنی ہر مرض کی دوا اور شفا بنائی ہے)‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باوجودیکہ سید المتوکلین تھے، پھر بھی آپؐ ہر کام کی مکمل تیاری کرتے تھے۔ دشمن سے مقابلے کے لیے مقدور بھر تیاری فرماتے، فتح و ظفر کے لیے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لاتے، خود محنت اور کوشش فرماتے، دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ آپؐ نے کبھی بھی مقصدِ پیش نظر کے لیے ضروری اسباب کو ترک نہیں فرمایا۔ اس لیے کہ ترکِ اسباب، اُس نظام سے بے رخی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے زندگی کے لیے وضع فرمایا ہے، اور نظامِ حیات سے بے توجہی کرکے کبھی کوئی کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ ایک شخص بارگاہِ رسالت مآبؐ میں حاضر ہوا، اس نے ارادہ کیا کہ وہ اپنی اونٹنی کو مسجد کے دروازے کے پاس باندھے بغیر یوں ہی چھوڑ دے۔ اس نے آپؐ کی خدمت میں عرض کیا:
’’اے اللہ کے رسولؐ! میں اونٹنی کو باندھ کر توکل کروں یا اسے کھلا چھوڑ کر توکل کروں؟ آپؐ نے فرمایا: اسے باندھ اور پھر اللہ پر توکل کر‘‘۔
(ترمذی نے حسن سے اور طبرانی و بیہقی نے عمرو بن ابیہ الضمری سے روایت کی ہے)
توکل تو اسی صورت میں درست ہوسکتا ہے کہ انسان اسباب اختیار کرے، اللہ تعالیٰ کے قوانین و احکام کی پیروی کرے۔ پھر اللہ پر اعتماد کرے، اپنا معاملہ اس کو سونپ دے اور پھر نتائج اسی کے حوالے کردے۔ ارشادِ الٰہی ہے:
’’اور آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کا علم خدا ہی کو ہے اور تمام امور اسی کی طرف لوٹتے ہیں، تو اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ رکھو‘‘۔(ہود:123)
حضرت عمرؓ نے کچھ لوگوں کو دیکھا جنہیں یہ غلط فہمی تھی کہ توکل ترک ِاسباب کا نام ہے۔ ان لوگوں نے کام کاج چھوڑ رکھا تھا، عجز اور بے عملی کا شکار تھے۔ حضرت عمرؓ نے ان سے دریافت فرمایا:
’’تم کون ہو؟ انھوں نے جواب دیا: ہم متوکل ہیں۔ فرمایا: تم جھوٹ کہتے ہو۔ تم متوکل نہیں ہو۔ توکل تو یہ ہے کہ ایک شخص زمین میں دانہ بوئے پھر اللہ پر توکل کرے۔‘‘
(حاکم، ابن ابی الدنیا، عسکری اور دینوری نے معاویہ بن قرہ سے روایت کی ہے)
اپنے مقصد کے حصول کی خاطر، ترکِ عمل کرنے والا اس شخص کی مانند ہے، جو
فضا میں بغیر پروں کے اڑنا چاہے ۔ یا
شادی کے بغیر اولاد کا آرزو مند ہو۔یا
ایندھن کے بغیر مشینوں کو متحرک کرنا چاہے۔ یا
محنت کے بغیر زمین سے فصل اگوانا چاہے۔
ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
(ترجمہ)تم نجات کی امید لگائے بیٹھے ہو مگر تم نجات کی راہوں پر نہیں چلے، کشتی کبھی خشکی پر نہیں چلا کرتی۔