ایک استفتا اور اس کا جواب

محترم جناب احمد حاطب صدیقی صاحب!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ نے لکھا ہے:
’’تاہم ایک استفتا (خدا نخواستہ بحث اور کٹھ حجتی کی غرض سے نہیں)صرف اپنی لاعلمی دُور کرنے کی غرض سے پیشِ خدمت ہے کہ سورۃ الفاتحہ سے لے کر پورے قرآن میں جا بجا اور احادیثِ نبویﷺ میں بکثرت صرف اللہ سے مدد مانگنے کاحکم ہے،تو کیا نصِ صریح کے باوجود تاویل اور شرائط کے ساتھ حکم عدولی کی گنجائش نکل سکتی ہے؟(فرائیڈے اسپیشل،26نومبر2021ء)‘‘۔
ہم ’’کٹ حجتی‘‘ لکھتے اور بولتے رہے ہیں،ریختہ میں بھی ہم نے دیکھاتو کٹ حجتی ہی ہے، ’’کٹ حجتی‘‘ کے معنی ہیں:’’خواہ مخواہ کی بحث، بحث برائے بحث، اپنی بات پر اڑنا، ضد سے کام لینا، بیجا حُجّت‘‘، لیکن جناب ابونثر نے ’’کٹھ حجتی‘‘ لکھا ہے، آیا یہ زیادہ فصیح ہے یا کاتب کی غلطی ہے۔
گزارش ہے کہ جملہ اہلِ ایمان اوراہلسنّت وجماعت کے نزدیک حقیقی ’’مُسْتَعَان‘‘ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، یعنی جسے مؤثر بالذات مان کر اُس سے مدد مانگی جائے، وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذاتِ عالی صفات ہے، ہم خاتم النبیّٖن سیدنا محمد رسول اللہﷺ کووسیلہ سمجھ کر پکارتے ہیں، اُن کو ’’ مُسْتَعَان بالذّات‘‘نہیں سمجھتے اور رسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے اختیار سے تصرُّف فرماتے ہیں، قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: (۱)’’اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد طلب کرو، (البقرہ:153)‘‘۔ ظاہرہے کہ صبر اور صلوٰۃ دونوں بندے کی صفات ہیں، توجب بندوں کے اعمال کو وسیلہ بنایا جاسکتا ہے، تو جن کے وسیلے سے ہمیں ایمان وعمل کی دولت ملی، انھیں وسیلہ کیوں نہیں بنایاجاسکتا۔
صحیح البخاری:2215میں تین اشخاص کا ذکر ہے جو بارش سے پناہ لینے کے لیے ایک غار میں داخل ہوئے اور بھاری چٹان سرک کر غار کے دہانے پر آگئی،ان کے نکلنے کا راستہ بند ہوگیا اور وہ غار میں پھنس کر رہ گئے،پھر انھوں نے مشورہ کیا کہ ہمیں اپنے کسی ایسے نیک عمل کو جو ہم نے خالصاً لوجہ اللہ کیا ہو، وسیلہ بناکر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہیے،پھر انھوں نے ایسا ہی کیا اور بالآخر اللہ تعالیٰ نے انھیں اس غار سے نَجات عطا فرمادی۔ انبیاء علیہم السلام اور بزرگانِ دین سے براہِ راست مدد طلب کرنے کی اصل یہ احادیث ہیں:
(۱)حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں : رسول اللہﷺنے فرمایا :’’جب تم میں سے کسی شخص کی سواری ویران زمین میں بھاگ جائے تو وہ یہ ندا کرے :اے اللہ کے نیک بندو !اس کو روک لو، اے اللہ کے نیک بندو !اس کو روک لو،کیونکہ زمین میں اللہ عزوجل کے کچھ روکنے والے ہیں جو اس کو روک لیتے ہیں،(مسند ابویعلیٰ:5269،المعجم الکبیر:10518)‘‘۔
(۲):حضرت عتبہ بن غزوان بیان کرتے ہیں : نبی کریمﷺنے فرمایا :
’’إِذَا اَضَلَّ اَحَدُکُمْ شَیْئًا اَوْ اَرَادَ اَحَدُکُمْ عَوْنًا وَہُوَ بِاَرْضٍ لَیْسَ بِہَا اَنِیْسٌ، فَلْیَقُلْ:یَا عِبَادَ اللّٰہِ اَغِیْثُوْنِیْ، یَاعِبَادَ اللّٰہِ! اَغِیثُونِی، فَإِنَّ لِلّٰہِ عِبَادًا لَا نَرَاہُمْ،وَقَدْ جُرِّبَ ذٰلِکَ‘‘۔
ترجمہ:’’جب تم میں سے کوئی شخص کسی چیز کو گم کر دے درآن حالیکہ وہ کسی اجنبی جگہ پر ہو تو اس کو یہ کہنا چاہیے : اے اللہ کے بندو !میری مدد کرو، کیونکہ اللہ کے کچھ ایسے بندے ہیں جن کو ہم نہیں دیکھتے، یہ امر مجرّب ہے،(اَلْمُعْجَمُ الْکَبِیْر:290)‘‘۔
(۳)حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں : رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’إِنَّ لِلّٰہِ مَلَآئِکَۃً فِی الْاَرْضِ سِوَی الْحَفَظَۃِ، یَکْتُبُوْنَ مَا یَسْقُطُ مِنْ وَّرَقِ الشَّجَرِ، فَإِذَا اَصَابَ اَحَدَکُمْ عَرْجَۃٌ بِاَرْضِ فَلَاۃٍ فَلْیُنَادِ:اَعِیْنُوْا عِبَادَ اللّٰہِ‘‘۔
ترجمہ:’’کراما کاتبین کے سوا اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں جو درخت سے گرنے والے پتوں کو لکھ لیتے ہیں، جب تم میں سے کسی شخص کو جنگل کی سرزمین میں کوئی مشکل پیش آئے تو وہ یہ ندا کرے:اے اللہ کے نیک بندو !میری مدد کرو،(مُسْنَدُالْبَزَار:4922)‘‘۔
علامہ نور الدین ہیثمی فرماتے ہیں:رَوَاہُ الْبَزَّارُ، وَرِجَالُہٗ ثِقَاتٌ،اس حدیث کو امام بزار نے (اپنی مسند میں) روایت کیا ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں،(مَجْمَعُ الزَّوَائد،ج:10،ص:132)‘‘۔
علامہ یحییٰ بن شرف نووی شافعی متوفّٰی 676ء لکھتے ہیں:
’’مجھ سے میرے بعض اساتذہ نے بیان کیا جو بہت بڑے عالم تھے کہ ایک مرتبہ ریگستان میں ان کی سواری بھاگ گئی، ان کو اس حدیث کا علم تھا انہوں نے یہ کلمات کہے :(اے اللہ کے بندو!روک لو)،اللہ تعالیٰ نے اس سواری کو اسی وقت روک دیا، (علامہ نووی فرماتے ہیں:)ایک مرتبہ میں ایک جماعت کے ساتھ سفر میں تھا،اس جماعت کی ایک سواری بھاگ گئی،وہ اس کو روکنے سے عاجز آگئے،میں نے یہ کلمات کہے تو بغیر کسی اور سبب کے صرف ان کلمات کی وجہ سے وہ سواری اسی وقت رک گئی، (کِتَابُ الْاَذْکَار، ص:201)‘‘۔علامہ علی بن سلطان قاری ’’ یاعباد اللہ ‘‘کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’اس سے مراد فرشتے ہیں یا مسلمان جن یا اس سے مردانِ غیب مراد ہیں جن کو اَبدال کہتے ہیں (یعنی اولیاء اللہ)،(اَلْحِرْزُ الثمین علی ہامش الدرالغالی،ص:378)‘‘۔
نیز وہ لکھتے ہیں: ’’بعض ثقہ علماء نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے اور مسافروں کو اس کی ضرورت پڑتی ہے اور مشایخ سے روایت ہے: یہ امر مجرب ہے، (الحرز الثمین علی ہامش الدرالغالی، ص:379)‘‘۔
معروف غیر مقلد عالم شیخ شوکانی لکھتے ہیں :’’اس حدیث میں ان لوگوں سے مدد حاصل کرنے پر دلیل ہے جو نظر نہ آتے ہوں جیسے فرشتے اور صالح جنّ اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے، جیسا کہ جب سواری کھسک جائے یا بھاگ جائے تو انسانوں سے مدد حاصل کرنا جائز ہے‘‘۔ (تُحْفَۃُ الذَّاکِرِیْن، ص:155)
عہد صحابہ اور تابعین میں مسلمانوں کا یہ شعار تھا کہ وہ شدائد اور ابتلاء کے وقت ’’یا محمداہ ‘‘کہہ کر رسول اللہﷺ کو ندا کرتے تھے،جنگ یمامہ میں مسیلمہ کذاب اور مسلمانوں کے درمیان گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی،اس کا نقشہ کھینچنے کے بعد علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں:
’’پھر حضرت خالد بن ولید نے (دشمن کو)للکارا اورمخالفین کو دعوت (قتال)دی،پھر مسلمانوں کے معمول کے مطابق ’’یَامُحَمَّدَاہ ‘‘کہہ کر نعرہ لگایا، پھر وہ جس شخص کو بھی للکارتے اس کو قتل کردیتے تھے، (اَلْکَامِلْ فِی التَّارِیْخ، ج: ۲، ص: ۲۴۶ )‘‘۔
حافظ عماد الدین ابن کثیر بھی جنگ کے اس منظر کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
’’پھر حضرت خالدبن ولید نے مسلمانوں کے معمول کے مطابق نعرہ لگایا اور اس زمانے میں ان کا معمول’’ یَا مُحَمَّدَاہ‘‘ کا نعرہ لگانا تھا، (اَلْبِدَایَہ وَالنِّہَایَہ،ج: 6، ص:324 )‘‘۔
حافظ ابن اثیر اور ابن کثیر نے یہ تصریح کی ہے کہ عہد صحابہ اور تابعین میں شدائد اور ابتلاء کے وقت ’’یَا مُحَمَّدَاہ‘‘ کہنے کا معمول تھا، ندائے غائب کے منکرین کے نزدیک حافظ ابن کثیر حجت ہیں اور ان کا یہ لکھنا کہ عہد صحابہ وتابعین میں ’’یَا مُحَمَّدَاہ‘‘ کہنے کا معمول تھا، ان کے خلاف قوی حجت ہے۔
نبی کریمﷺ سے آپ کی ظاہری حیات میں توسل کے جواز پر یہ حدیث اصل ہے:
’’حضرت عثمان بن حُنیف بیان کرتے ہیں:ایک نابینا شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی:اے اللہ کے نبی! اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے نابینا پن کی اس بیماری سے عافیت عطا فرمائے، آپ ﷺ نے فرمایا: اگرتم چاہو تو میں دعا کو مؤخر کردیتا ہوں اور یہ تمہاری آخرت کے لیے افضل ہے (یعنی صبر کرو گے تو اجر پائو گے) اور اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے دعا کردیتا ہوں، اس نے عرض کی: بلکہ میرے لیے دعا فرمائیے، آپ ﷺنے اُسے حکم دیا :وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھواور اس کے بعد یہ دعا مانگو:’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیرے نبی،نبیِ رحمت محمد ﷺ کے وسیلے سے تیری بارگاہ میں متوجہ ہوتا ہوں(اور پھر کہو:)اے محمد ! (صلّی اللہ علیک وسلم!)میں آپ کے وسیلے سے اپنی اس حاجت روائی کے لیے اپنے رب کی بارگاہ میں متوجہ ہوتا ہوں، سو( اے اللہ!) میری حاجت روائی فرمائیے اور( یارسول اللہ! ) آپ اس بارے میں میری شفاعت کیجیے، (مسند احمد:17241)‘‘۔
حضرت عثمان بن حنیف کی یہ حدیث اس بات پر قوی دلیل ہے کہ نبی کریمﷺکے وسیلہ سے دعا کرنا اور آپ سے دعا کی درخواست کرنا جائز اور مستحسن ہے اور چونکہ آپ کی ہدایات قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے حجت ہیں،اس لیے آپ کے وصال کے بعد بھی آپ کے وسیلہ سے دعا کرنا اور آپ سے دعا کی درخواست کرنا جائز ہے اور بالخصوص آپ کے وصال کے بعد آپ کے توسل سے دعا کے جواز پر دلیل یہ ہے : ایک شخص حضرت عثمان بن عفان سے ملاقات کر کے اپنا مُدَّعا پیش کرنے کا متمنی ہے، مگر اُن کی توجہ اُسے نہیں مل رہی تھی،بالآخر حضرت عثمان بن حنیف سے اس کی ملاقات ہوئی اور انہوں نے مشورہ دیا کہ باوضو دو نوافل پڑھ کر مندرجہ بالا دعا مانگے،اس نے ایسا ہی کیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کی مراد کو پورا فرمادیا۔
حافظ زکی الدین عبد العظیم بن عبد القوی منذری متوفی ۶۵۶ ھ نے الترغیب والترہیب (ج:1،ص:474-476) میں اور حافظ الہیثمی نے’’ مَجْمَعُ الزَّوَائِد،ج:2،ص:279‘‘میں مندرجہ بالا حدیث کو بیان کیا ہے، اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے،اس کا خلاصہ ہم نے درج کردیا ہے۔
(۲)حافظ ابن ابی شیبہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
’’حضرت عمر کے وزیر خوراک مالک الدار بیان کرتے ہیں : حضرت عمرکے زمانے میں ایک بارلوگوں پر قحط آگیا،ایک شخص (حضرت بلال بن حارث مزنی )رسول اللہﷺکی قبر مبارک پر گیا اور عرض کی:یا رسول اللہ!اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجیے کیونکہ وہ (قحط سے)ہلاک ہو رہی ہے،نبی کریم ﷺ اس شخص کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا:عمر کے پاس جاؤ، ان کو سلام کہو اور یہ خبر دو کہ تم پر یقینا بارش ہوگی اور ان سے کہو :تم پر سوجھ بوجھ سے کام لینالازم ہے،پھر وہ حضرت عمرکے پاس گئے اور ان کو یہ خبر دی، حضرت عمر رونے لگے اور کہا:اے اللہ !میں صرف اسی چیز کو ترک کرتا ہوں جس میں،مَیں عاجز ہوں‘‘۔
(مصنف ابن ابی شیبہ:ج:12،ص:32 )
مفتی رشید احمد گنگوہی سے رسول اللہ ﷺ کو دورسے مندرجہ ذیل کلمات کے ساتھ پکارنے کی بابت سوال ہواکہ یہ جائز ہے یا نہیں:
یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اُنْظُرْحَالَنَا
یَاحَبِیْبَ اللّٰہِ اِسْمَعْ قَالَنَا
اِنَّنِیْ فِیْ بَحْرِ ھَمٍّ مُّغْرَقٌ
خُذْ یَدِیْ سَھِّلْ لَنَا اَشْکَالَنَا
ترجمہ:’’یارسول اللہ! ہماری حالتِ زار پر توجہ فرمائیے، یا حبیب اللہ! ہماری گزارش کو سن لیجیے، میں غموں کے سمندر میں ڈوبا ہوا ہوں، میرا ہاتھ پکڑ کرہماری مشکل آسان کیجیے‘‘۔
یا محمد مصطفی !فریاد ہے، مددکن بہرِ خدا
حضرت محمد مصطفی!میری تم سے ہرگھڑی فریاد ہے
انھوں نے جواب میں لکھا: ’’یہ خود معلوم ہے آپ کو کہ ندا غیر اللہ تعالیٰ کو دور سے شرکِ حقیقی جب ہوتا ہے کہ اُن کو عالِم، سامع، مُستقل (یعنی بالذات) عقیدہ کرے، ورنہ شرک نہیں، مثلاً: یہ جانے کہ حق تعالیٰ اُن کو مطلع فرمادیوے گا یا باذنہٖ تعالیٰ انکشاف اُن کو ہوجاوے گایا باذنہٖ تعالیٰ ملائکہ پہنچادیویں گے جیساکہ درود کی نسبت وارد ہے یا محض شوقیہ کہتا ہومحبت میںیا عرضِ حال محلِّ تحسُّر وحِرمان میں، ایسے مواقع میں اگرچہ کلمات خطابیہ بولتے ہیں، لیکن ہرگز نہ مقصود اِسماع ہوتا ہے نہ عقیدہ، پس انہی اقسام سے کلماتِ مناجات بہ اشعار بزرگان کے ہوتے ہیں کہ فی حدِّ ذَاتِہٖ نہ شرک ہیں نہ معصیت، مگر ہاں !بوجہ مُوہِم ہونے کے ان کلمات کا مجامع میں کہنا مکروہ ہے کہ عوام کو ضرر ہے اور فی حدِّ ذَاتِہٖ ابہام بھی ہے، لہٰذا نہ ایسے اشعار کا پڑھنا منع ہے اور نہ اس کے مؤلّف پر طعن ہوسکتا ہے، (فتاویٰ رشیدیہ کامل،ص:68)‘‘۔ مفتی رشید احمد گنگوہی کی عبارت کا خلاصہ یہ ہے :’’خطاب کے صیغے کے ساتھ دور سے رسول اللہﷺ کو مخاطَب کرکے پکارنا جائز ہے اور اس کی صورتیں یہ ہیں:(۱) ہم دور سے پکاریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو مطلع فرمادے گا، (۲) ملائکہ آپ کو ہماری فریاد پہنچادیں گے، جیساکہ درود کی نسبت وارد ہے، (۳) اللہ کے اذن سے براہِ راست اور بے حجاب آپ پر ہماری حالت منکشف ہوجائے گی، (۴) کبھی غلبۂ محبت میں بھی انسان دور سے پکارتا ہے، (۵)بعض اوقات انسان کوکوئی دکھ پہنچے تو وہ اُس ہستی کو پکارتا ہے، جس کے بارے میں اُسے یقین ہوتا ہے کہ اگر اُسے علم ہوتا تو میری مدد کو پہنچتی، جیسے انسان کو چوٹ لگ جائے تو بے اختیار پکارتا ہے:’’ہائے ماں!‘‘۔ ہاں ! البتہ اگر ذاتِ پاک رسالت مآب ﷺ کو بالذات فریاد رس اور حاجت برار سمجھ کر پکارے تو یہ بلا اختلاف ناجائز ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عطا اور دیے ہوئے اختیار سے رسول اللہ ﷺ تصرف فرماتے ہیں اور یہ کسی کے نزدیک شرک نہیں ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:(ترجمہ): ’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے، اُسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے، میں تو فقط (انعاماتِ الٰہیہ کو )تقسیم کرنے والا ہوں اور (درحقیقت )اللہ عطا فرماتا ہے، (صحیح البخاری:71)‘‘۔ ہم مفتی رشید احمد گنگوہی صاحب کے اس فتوے سے متفق ہیں، ہمارا اس مسئلے میں اُن سے فقط اتنا اختلاف ہے کہ شرک خَلوت میں بھی شرک ہوتا ہے اور جَلوت میں بھی، توحید خَلوت میں بھی توحید ہوتی ہے اور جَلوت میں بھی، اس میں خَلوت وجَلوت کا کوئی فرق قرآن وحدیث میں نہیں بتایا گیا۔
شیخ رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں :
’’اور اولیاء کی نسبت بھی یہ عقیدہ ایمان ہے کہ حق تعالیٰ جس وقت چاہے ان کو علم و تصرف دیوے اور عین حالت تصرف میں حق تعالیٰ ہی مُتَصَرِّفْ ہے،اولیاء ظاہر میں مُتَصَرِّفْ ہی معلوم ہوتے ہیں،عین حالت کرامت و تصرف میں حق تعالیٰ ہی ان کے واسطے سے کچھ کرتا ہے، (فتاوی رشیدیہ کامل،ص:49)‘‘۔
شیخ محمود الحسن دیوبندی’’ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن ‘‘کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’اس کی ذات پاک کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بالکل ناجائز ہے،ہاں اگر کسی مقبول بندہ کو محض واسطہ رحمت اور غیر مستقل سمجھ کر استعانت ظاہری اس سے کرے تو یہ جائز ہے کہ یہ استعانت درحقیقت حق تعالیٰ ہی سے استعانت ہے،(حاشیۃ القرآن الحکیم، ص:2)‘‘۔
مفتی محمد شفیع دیوبندی لکھتے ہیں :
’’اور حقیقی طور پر اللہ کے سوا کسی کو حاجت روانہ سمجھے اور کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرے،کسی نبی یا ولی وغیرہ کو وسیلہ قرار دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا اس کے منافی نہیں، (معارف القرآن،تفسیرسورۃ الفاتحہ، آیت:4)‘‘۔
عقائدکی بابت علامہ خلیل احمد سہارنپوری کی کتاب ’’ اَلْمُہَنَّدْعَلَی الْمُفَنَّدْ‘‘علمائے دیوبند کے نزدیک مسلّم ہے اور اس پر تقریباً سب کا اجماع ہے،وہ لکھتے ہیں:
’’ہمارے نزدیک اور ہمارے مشایخ کے نزدیک دعاؤں میں انبیاء واولیاء و صدّیقین کا توسّل جائز ہے،ان کی حیات میں یا بعد وفات کے،بایں طور کہے : یا اللہ !میں بوسیلہ فلاں بزرگ کے تجھ سے دعا کی قبولیت اور حاجت برائی چاہتا ہوں،اسی جیسے اور کلمات کہے،چناچہ اس کی تصریح فرمائی ہے ہمارے مولانا محمد اسحاق دہلوی ثم المکی نے،پھر مولانا رشید احمد گنگوہی نے بھی اپنے فتاوی میں اس کو بیان فرمایا ہے جو چھپا ہوا آج کل لوگوں کے ہاتھ میں موجود ہے اور یہ مسئلہ اس کی پہلی جلد کے صفحہ نمبر: ۹۳ پر مذکور ہے،جس کا جی چاہے دیکھ لے،(اَلْمُہَنَّدْعَلَی الْمُفَنَّد،ص:12-13)‘‘۔
ہماری درسیات میں علمِ معانی پڑھایا جاتا ہے، اس میں یہ مسئلہ زیرِ بحث آتا ہے : کبھی فاعل کی طرف فعل کی نسبت حقیقی ہوتی ہے اور کبھی مجازی، اس میں عربی کی یہ مثال درج کی جاتی ہے :’’موسمِ بہار نے سبزہ اگایا‘‘،اگر یہ جملہ مومن کہے تو یہ نسبت مجاز پر محمول ہوگی، کیونکہ اس کا ایمان اس بات کی دلیل ہے کہ اس نے ’’اِنبات‘‘(سبزہ اگانے) کی نسبت موسمِ بہار کی طرف مجازاً کی ہے،جبکہ درحقیقت وہ اگانے والا اللہ ہی کو مانتا ہے،لیکن اگر یہی جملہ کافر کہے تویہ نسبت حقیقی ہوگی،کیونکہ اس کے نزدیک اِنبات (سبزہ اگانے) کی نسبت موسمِ بہار کی طرف حقیقی ہے،اس لیے کہ وہ موسمِ بہار اور بارش ہی کو درحقیقت اگانے والا مانتا ہے، اس لیے حکم لگانے سے پہلے مومن ِ مُوَحِّد اور کافر کے فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے،قرآنِ کریم میں فعل کی فاعل کی طرف اِسنادِ مجازی کی مثالیں بہت مل جائیں گی۔
شیخ عبدالقادر جیلانی کو غوث اعظم کہنا اپنی جگہ،علمائے دیوبند نے اپنے اکابر کو بھی غوث اعظم اور غوث الکاملین قرار دیا ہے، چنانچہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے متعلق شیخ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:
’’اعلیٰ حضرت،فاروقی نسب،حنفی المذہب،حقیقت آگاہ،معرفت دستگاہ،حافظ،سَیِّدُ السَّادَاتِ الْعِظَام،اِفْتِخَارُ الْمَشَایِخِ الْاَعْلَام، مَرْکَزُ الْخَوَاصِّ وَالْعَوَامّ،مَنْبَعُ الْبَرَکَاتِ الْقُدْسِیَّہ،مَظْہَرُ الْفُیُوْضَاتِ الْمَرْضِیَّہ،مَعْدَنِ الْمَعَارِفِ الْاِلٰہِیَّہ،مَخْزَنُ الْحَقَائِقْ،مَجْمَعُ الدَّقَائِقْ،سِرَاجُ اَقْرَانِہٖ، قُدْوَۃُ اَہْلِ زَمَانِہٖ،سُلْطَانُ الْعَارِفِیْن،مَلِکُ التَّارِکِیْن،غَوْثُ الْکَامِلِیْن،غِیَاثُ الطَّالِبِیْن… الخ، (اِمْدَادُ الْمُشْتَاق، ص: 19-20)‘‘۔
شیخ الہند شیخ محمودالحسن دیوبندی،مفتی رشیداحمد گنگوہی کے مرثیے میں لکھتے ہیں:
جنید وشبلی،وثانیِ ابومسعود انصاری
رشیدِ ملّت ودیں،غوثِ اعظم، قطبِ ربانی
(مرثیہ از قلم مولوی محمود الحسن،ص:4،مطبوعہ کتب خانہ اعزازیہ،دیوبند،ضلع سہارنپور)
مفتی شیخ رشید احمد گنگوہی دیوبندی کے متعلق شیخ عاشق الٰہی بلند شہری لکھتے ہیں:
’’قُطْبُ الْعَالَم،قُدْوَۃُ الْعُلَمَآء،غَوْثُ الْاَعْظَم،اُسْوَۃُ الْفُقَہَآء،جَامِعُ الْفَضَائِلِ وَالْفَوَاضِلِ الْعِلِّیَّۃ،مُسْتَجْمَعُ الصِّفَاتِ وَالْخَصَآئِلِ الْبَہِیَّۃِ السَّنِیَّۃ،حَامِیِ دِیْنِ مُبِیْن، مُجَدِّدِ زَمَان،وَسِیْلَتُنَا اِلَی اللّٰہِ الصَّمَدِ، اَلَّذِیْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ،شَیْخُ الْمَشَایِخ،مَوْلَانَا الْحَافِظُ الْمَوْلَوِیُّ رشید احمد صاحب مُحَدِّثْ گنگوہی قُدِّسَ سِرُّہٗ‘‘۔
(تذکرۃ الرشید،ص:2،مطبوعہ:ناظم کتب خانہ،اشاعت العلوم،محلہ مفتی، سہارنپور)
اہلسنّت کے ممتاز عالم علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں:
’’رسول اللہ ﷺ کی تعلیم اور تلقین کے پیشِ نظر مسلمانوں کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے سوال کریں اور اُسی سے مدد چاہیں اور دعا میں مستحسن طریقہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے وسیلے سے دعا مانگیں، زیادہ محفوظ اور زیادہ سلامتی اسی میں ہے کہ وہ دعائیں مانگی جائیں جو قرآنِ مجید اور احادیث میں مذکور ہیں تاکہ دعائوں میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت اور رسول اللہ ﷺ کی سنّت سایہ افگن رہے، اگر کسی خاص حاجت میں دعا مانگنی ہو تو رسول اللہ ﷺ کے وسیلے سے مانگنی چاہیے،(تبیان القرآن،ج:1،ص:217)‘‘۔
اہلسنّت کے ممتاز عالم علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادری لکھتے ہیں:’’البتہ یہ ظاہر ہے کہ جب حقیقی حاجت روا، مشکل کشا اور کارساز اللہ تعالیٰ کی ذات ہے تو اَحسن اور اَولیٰ یہی ہے کہ اُسی سے مانگا جائے اور اُسی سے درخواست کی جائے اور انبیاء واولیاء کا وسیلہ اس کی بارگاہ میں پیش کیا جائے، کیونکہ حقیقت، حقیقت ہے اور مَجاز، مَجاز۔ یابارگاہِ انبیاء واولیاء سے درخواست کی جائے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کریں کہ ہماری مشکلیں آسان فرمادے اور حاجتیں بر لائے، اس طرح کسی کو غلط فہمی بھی پیدا نہیں ہوگی اور اختلافات کی خلیج بھی زیادہ وسیع نہیں ہوگی،(ندائے یارسول اللہ،ص:12)‘‘۔
الغرض ہمارے نزدیک افضل اور مطلوب ومقصود یہی ہے کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے استغاثہ کیا جائے اور استعانت کی جائے، انبیائے کرام علیہم السلام یا اولیائے کرام رحمہم اللہ اجمعین کا وسیلہ پیش کیا جائے اوراعتقادِ مذکور کے ساتھ اگر کوئی براہِ راست استمداد کرے تو اس کی اصل بھی موجود ہے،اس پر کفر وشرک یا بدعت کا حکم لگانا درست نہیں ہے۔