پہلی برسی (3ستمبر 2021)پر تحریر
گزشتہ سال کروناایک عالمی وباکی صورت ابھرکرسامناآیاجس نے ہرشعبہ زندگی کوبری طرح متاثر کیاہے لامحالہ اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑے اوردیکھتے ہی دیکھتے بہت کچھ ہاتھوں سے نکلتاچلاگیا۔ایک جاتاابھی اس کاغم غلط نہیں ہوتاکہ دوسری خبر سے دل دہل جاتے تھے۔ناموران ِملک کی ایک طویل فہرست تھی جسے کرونانے مختصر کردیا۔انھی شخصیات میں ایک نام محمدیوسف کاہے۔پروفیسر محمد یوسف شیخ کروناکے نتیجے میں مختصرعلالت کے بعد۳دسمبر ۲۰۲۰ء کوپی این ایس شفااسپتال کراچی میں انتقال کرگئے۔ موت العالِم موت العالَم۔ایک عالم کی موت ایک جہان کی موت ہے۔پروفیسر محمدیوسف شیخ بھی ایک عالم تھے۔
پروفیسر محمدیوسف شیخ ؒ10مئی 1946ء کولاڑکانہ میں پیداہوئے۔ معاشیات،انگریزی اور صحافت میں ایم اے تھے۔صحافتی میدان میں بھی انھوں نے شوقیہ کام کیا۔ روزنامہ’’ الوحید‘‘حیدرآباد،روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی اور روزنامہ ’’المسلم ‘‘اسلام آبادسے بحیثیت سب ایڈیٹروابستہ رہے۔ اردو، سندھی،انگریزی،پنجابی اورسرائیکی زبانوں پر عبور تھاجبکہ عربی اورفارسی کی بھی شدبد تھی۔اپنے کیریئر کی ابتدامعاشیات کے لیکچررکے طورپرغزالی کالج حیدرآباد سے کی تھی معروف بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر پروفیسر عنایت علی خان ٹونکی مرحوم بھی اسی کالج میں ان کے ساتھ تھے، (یادرہے کہ یہ کالج پروفیسر شفیع ملک صاحب نے قائم کیاتھا) اس کے بعد بری فوج کی ایجوکیشن کور سے وابستہ ہوئے اورجنرل اسٹاف آفیسر بریگیڈیئر اینڈڈویژن ہیڈکوارٹرز، انسٹرکٹر جنرل اسٹاف آفیسرکاکول ملٹری اکیڈمی ایبٹ آبادکی خدمات انجام دی اور بحیثیت میجر ریٹائر ڈ ہوئے۔پرنسپل پبلک اسکول سکھر،ڈائریکٹر امپلی مینٹیشن /سیکریٹری لٹریسی اینڈماس ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد،پرنسپل سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی،پرنسپل پبلک اسکول حیدرآباد،پرنسپل پبلک اسکول گڈاپ کراچی اور پرنسپل بختاور کیڈٹ کالج فار گرلز نواب شاہ رہے ہیں۔چنیوٹ اسلامیہ پبلک اسکول /کالج کراچی اورکیڈٹ کالج لاڑکانہ کے بانی اورپرنسپل تھے۔انتقال کے وقت بختاور کیڈٹ کالج کے پرنسپل تھے۔
یوسف شیخ ؒکی شخصیت علمی وادبی تھی وہ علامہ اقبالؒ،شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ ؒ،مولاناسیدابوالاعلیٰ مودویؒ،ڈاکٹر این اے بلوچ سے متاثرتھے۔اسلامی تاریخ اورمعاصر تاریخ سے زیادہ دلچسپی تھی،اس کااندازہ ان کی تصانیف وتالیفات سے بخوبی ہوتاہے۔ انھوںنے اردو،سندھی اورانگریزی زبان میں متعدتصا نیف وتالیفات کے ذریعے علمی ذخیرے میں ایک خوش کن اضافہ کیاہے۔ تصانیف وتالیفات میں ’’سندھ باب الاسلام‘‘، ’’ڈاھوڈات ڈٹی ‘‘عظیم صوفی شاعرشاہ عبداللطیف بھٹائی پر’’معارفِ لطیف‘‘،لاڑکانہ کی تاریخ پر’’ لاڑکانوتاریخ جی آئینے میں‘‘انگریزی میں قائداعظم پر’’ So said the Qauid‘‘ علامہ آئی آئی قاضی کی حیات ومنتخب تقاریر پر’’Allama I.I Kazi: Life and Slected Speeches‘‘طلبہ سے قائداعظم کے خطابات پر ’’Quaid Speaks to Students‘‘سندھی تراجم میں مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی مشہورومعروف تصنیف ’’سیرت سرور عالم ؐ ‘‘ کا ترجمہ’’سھڑیامتھے سچ ‘‘ کلام ِاقبال کے تراجم’’Gabriel’s Naighbour‘‘، ’’خودآگاہی ‘‘اور ’’پورب سندوسنیھو‘‘شامل ہیں۔
وقتاً فوقتاً وہ متعددانجمن اوراداروں کے چیئرمین،چیف ایگزیکٹیو،بانی رکن اوررکن رہے ہیں ان میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف افیئرز کراچی، آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی،سندھ گریجویٹ ایسوسی ایشن،ہلال ِاحمرسوسائٹی سندھ،لاڑکانہ ڈسٹرکٹ ہسٹاریکل سوسائٹی،Mission Unto Light International Karachi ،ڈاکٹراین اے بلوچ ریسرچ فائونڈیشن،سندھ مدرسہ بورڈکراچی،بورڈآف گورنرزبختاورکیڈٹ کالج فار گرلز نواب شاہ شامل ہیں۔
پروفیسر محمدیوسف شیخ صاحب میرے محسن تھے۔ یوسف شیخ صاحب جب پبلک اسکول حیدرآبادکے پرنسپل مقررہوئے توانھوں نے اس نامی گرامی ادارے کی عظمت ِرفتہ کی بحالی کے لیے کڑے معیار مقرر کیے۔بدانتظامی پر قابوپایااور اخراجات کوکنٹرول کیا۔نیااسٹاف میرٹ پر بھرتی کیا۔جب انھوں نے ٹیچنگ اورنان ٹیچنگ فیکلٹی کے لیے اشتہاردیاتوپہلے تحریری امتحان لیااورپھرپینل انٹرویولیا۔صرف چندہی افرادکامیاب ہوسکے انھی امیدواروں میں میرا نام بھی شامل تھامیں چونکہ پہلے ہی نجی تعلیمی اداروں میں بحیثیت وزیٹنگ فیکلٹی اچھی تنخواہ اورمراعات پاتاتھالہٰذامجھے یہاں ملازمت پر تردد ہواتوانھوں نے مجھے بہتر پیش کش کی۔وہ میرے انتخاب پر فخرضرور کرتے تھے لیکن مجھ سے کبھی انھوں نے اس کااظہارنہیں کیا۔دوایک بارعلمی معاملات پر گفتگوہوئی توبہت خوش ہوئے۔خودبھی معلم تھے،استادکی عزت کرتے تھے اس لیے سینئر اساتذہ کونظراندازنہیں کرتے تھے۔مجھے جب انھوں نے اضافی ذمہ داریاں دیناچاہیں تووہ پہلے ہی سینئر اساتذہ کے ذمے تھی لہٰذامجھے میگزین کااسسٹنٹ ایڈیٹر اوراسسٹنٹ پی آراومقررکیا۔ان کے بھرتی کردہ افرادکی اہلیت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ تمام ایک ایک کرکے یہاں سے مزیدبہتر ملازمت کے لیے منتخب ہوکر چلے گئے۔یہاں میری کل عرصۂ ملازمت محض سترہ ماہ ہوگی کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے شہری سندھ میں میرٹ پر پہلے نمبر پر منتخب ہوگیا۔کمیشن کے بعدیوسف شیخ صاحب کے ساتھ ٹیلی فون رابطہ رہتاتھا۔2018ء میں جب وہ جسٹس ریٹائرڈ ناصرالملک کی نگراں وفاقی کابینہ میں تعلیم،سائنس وٹیکنالوجی،صحت،مذہبی امور اور ماحولیات کے وزیر مقررہوئے توراقم نے انھیں مبارکبادکاپیغام واٹس اپ کیاجس کاانھوں نے دوسرے دن بہت خوب صورت اندازمیں جوا بی پیغام ارسال کیا۔ پھر گویا رابطوں میں ایک تسلسل آتاگیا۔ایک اچھے منتظم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے معلم بھی تھے،وہ جن اداروں میں رہے ان کی مصروفیات کااندازہ وہ لوگ بخوبی کرسکتے ہیں جنھیں اس کاتجربہ یامشاہد ہ ہو۔اس گوناگوں مصروفیات کے باوجودباقاعدگی سے کلاس لیتے تھے اورآخر تک یہی معمول رہا۔یہ میری خوش نصیبی ہے کہ اُن سے مختلف موضوعات پر ان سے تبادلۂ خیال ہوتاتھا انھوں نے بعض معاملات پر مجھ سے مشورہ بھی کیا۔
اللہ تعالیٰ نے انھیں بہت سی نعمتوں کے ساتھ سعادت مند اولادکی نعمت سے بھی نوازاہے۔جن میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ سب اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اپنے اپنے شعبوں میں ممتاز مقام پر ہیں۔ بڑے بیٹے محمدفاروق شیخ نیسپاک کے سربراہ ہیں دوسرے محمدعارف عرفان سلک بینک لاڑکانہ میں منیجر ہیں۔تیسرے نمبر پر بیٹی ڈاکٹر طاہرہ شیخ ہیں جو یونی ورسٹی آف البرٹاکینیڈامیں ریسرچ اسسٹنٹ ہیںان سے چھوٹے کموڈوراسامہ بن یوسف پاک بحریہ میں کمانڈرہیں اورسب سے چھوٹی بیٹی عابدہ یوسف خاتونِ خانہ ہیں۔ان کے جاری کردہ تعلیمی ادارے،علمی منصوبے،اہلیت پر مقررکردہ افرادِکار اور صالح اولادصدقہ جاریہ ہیں۔یوسف شیخ ؒ صاحب کی گراں قدرخدمات کے اعتراف پر انھیں2007ء میں تمغائے امتیاز(صدارتی ایوارڈ)اورلائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیاگیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلندفرمائے۔آمین