نومنتخب صدر کوئٹہ ٹائون کو آپریٹیو ہائوسنگ سوسائٹی کے نذیر اللہ محسود ایڈووکیٹ سے بات چیت
کے ڈی اے اسکیم 33 وہ رہائشی منصوبہ ہے جو 1980ء کی دہائی میں سامنے آیا، جہاں سرکاری پروجیکٹس اور سوساٹیز درجنوں کی تعداد میں موجود ہیں، لیکن یہ علاقہ جتنا پرانا ہے اتنا ہی خستہ حال اور بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ پانی، سیوریج، بجلی، گیس آج بھی کئی علاقوں میں موجود نہیں ہیں، سڑکیں تباہ ہیں۔ یہاں کے مکین وقتاً فوقتاً مسائل پر آواز بھی اٹھاتے اور احتجاج بھی کرتے رہے ہیں۔ اسی پس منظر میں عدلیہ اور پبلک ایڈ کمیٹی جماعت اسلامی بھی یہاں کے معاملات میں سرگرم ہوئی تو یہاں چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی الیکشن کا ایک سلسلہ شروع ہوا، اور ٹیچر سوسائٹی، انچولی سوسائٹی وغیرہ سمیت کوئٹہ ٹاون سوسائٹی میں بھی الیکشن ہوئے جس میں یہاں کے مکینوں اور ویلفیئر ایسوسی ایشن کا اہم کردار ہے۔ اس سے پہلے یہاں عالم بیگ صاحب 14 فروری 2014ء سے ایڈمنسٹریٹر رہے، 4 مارچ 2021ء کو سندھ ہائی کورٹ نے کیس میں کوئٹہ ٹائون میں انتخاب کرانے کا فیصلہ دیا، اور 4جولائی 2021ء کی تاریخ مقرر ہوئی، اس تاریخ پر انتخاب نہیں ہوا تو یہاں کے رہائشی ہدایت اللہ میمن ایک بار پھر کورٹ گئے اور سندھ ہائی کورٹ نے اپنے 24ستمبر 2021ء کے فیصلے میں لازماً 24 نومبر 2021ء سے پہلے الیکشن کرانے کا حکم دیا۔ اور اس طرح انتخاب ممکن ہوا جس کے نتیجے میں نذیر اللہ محسود ایڈووکیٹ صدر کے لیے اور باقی راشد قدوس، ابراہیم پٹیل، ڈاکٹر محمد شاہنواز منامی، سید خرم ممتاز، محمد سلیم، عبدالسلیم، ثاقب صدیقی، احمر سمیع، منصور علی خان و دیگر نئی انتظامیہ کے لیے منتخب ہوئے۔ اس ضمن میں یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ اسکیم 33 اور اس سے متعلقہ سوسائٹیز میں مسائل کی بھرمار ہے۔ یہ اس سلسلے کی پہلی کوشش ہے، اور آئندہ بھی مختلف سوسائٹیز کے مسائل پر ان صفحات پر وقتاً فوقتاً رپورٹس اور انٹرویوز شائع ہوتے رہیں گے۔
کوئٹہ ٹائون کوآپریٹو سوسائٹی، اسکیم 33 میں ایک بڑی سوسائٹی ہے جس کے سیکٹرز ہائی وے کے دونوں طرف ہیں۔ سردست ہم نے نومنتخب صدر کوئٹہ ٹائون نذیر اللہ محسود ایڈووکیٹ سے کوئٹہ ٹائون کے مسائل اور ان کے یہاں کے لیے مستقبل کے منصوبوں پر تفصیلی بات چیت کی، جو نذرِ قارئین ہیں۔
سوال :آپ کے نزدیک کوئٹہ ٹائون کے بنیادی مسائل کیا ہیں؟
نذیر اللہ محسود:میں خود بھی 2018ء سے کوئٹہ ٹائون کا رہائشی ہوں۔ یہاں مسائل اتنے ہیں کہ گننا شروع کروں تو خاصا وقت درکار ہوگا، لیکن اس کے بنیادی مسائل میں سب سے پہلے سیکورٹی کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کے حل پر میری اِن شاء اللہ پوری توجہ ہوگی۔ اس کے لیے ہم چیکنگ کے نظام کو سخت کریں گے، گیٹس کی تعمیر ہوگی، ہر گارڈ کو ٹیلی فون فراہم کریں گے، لوگ ایک ہی نمبر پر رابطہ کرسکیں گے وغیرہ۔ اسی طرح بعض سیکٹرز میں گیس، بجلی، سیوریج کے مسائل موجود ہیں، میری کوشش ہوگی کہ پہلی فرصت میں ایسے سیکٹرز میں لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔
سوال:انفرااسٹرکچر سمیت سوسائٹی میں بہتری کے لیے کیا ترجیحات ہوں گی؟
نذیر اللہ محسود: میں چونکہ وکیل ہوں لہٰذا قانونی لحاظ سے اگر بات کی جائے تو بنیادی ضروریات سے بھی پہلے یہاں کی لیزنگ کا مسئلہ اہم ہے۔ اگر مکان لیز نہیں ہورہا تو کروڑوں کی پراپرٹی بھی بے کار ہے۔ لیز پر پابندی ہے، وہ اس وجہ سے کہ نیب اور ایف آئی اے میں مقدمات چل رہے ہیں۔ سوسائٹی واٹر بورڈ سمیت کئی اداروں کی ڈیفالٹر ہے جس کی وجہ سے لیز پر پابندی لگی ہے۔ سب سے پہلے میری کوشش ہوگی کہ ان کیسز کو جلد از جلد ختم کیا جائے تاکہ لوگوں کی پراپرٹی لیز ہوسکے۔ اس کے بعد اہم ترین مسئلہ سیوریج کے نظام کا ہے۔ ہماری گلیوں اور سڑکوں پر کسی قسم کا کوئی کام نہیں ہوا، بلکہ بالکل گوٹھ ، گائوں کی طرز پر گلیاں ہیں۔ ہماری کوشش یہ بھی ہوگی کہ جیسے جیسے ڈویلپمنٹ ہوتی رہے اس کے ساتھ ساتھ سڑکوں اور گلیوں میں بھی کام کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہم سارے نظام کو کمپیوٹرائز کرنے کی کوشش کریں گے اور اس کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔
سوال: یہاں پر پارکوں اور اسکولوں کے لیے بہت سے پلاٹ موجود ہیں، ان کی کیا صورتِ حال ہے؟
نذیر اللہ محسود: سیکٹر تھری میں تقریباً 27 رفاہی پلاٹ موجود ہیں جس میں پارکوں، اسکولوں، ہیلتھ سیکٹر سمیت کمیونٹی سینٹر کے پلاٹ ہیں مگر کسی پر بھی کام نہیں ہوا۔ ایک دو جگہ پر تو اپنی مدد آپ کے تحت ویلفیئر ایسوسی ایشن نے کام کیا، صفائی کروائی، بائونڈری وال بنادی، لیکن ہمارے پاس اتنے وسائل نہ تھے کہ مکمل کام کرتے۔ یقیناً یہاں پر پارکوں کا قیام علاقے اور یہاں کے بچوں خصوصاً خواتین کی ضرورت ہے۔ ان شاء اللہ ہماری کوشش ہوگی کہ ہر سیکٹر میں ایک فیملی پارک جو پردہ پارک کہلائے گا، بنائیں۔ طویل مدتی منصوبے میں ایک ٹائون ہال بھی شامل ہے۔ انتظامی دفتر کی مرکزی عمارت ہوگی۔ درخت بڑی تعداد میں لگانا ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ مکینوں کو بھی ترغیب دلائیں گے کہ وہ درخت لگائیں، اس میں سوسائٹی انتظامیہ مدد کرے گی تاکہ یہاں کے مکانوں اور کوئٹہ ٹائون کی خوبصورتی میں اضافہ ہوسکے۔
سوال: بزرگوں اور نوجوانوں کے لیے کیا منصوبہ رکھتے ہیں؟
نذیر اللہ محسود: بزرگوں کی عزت اور تکریم ہمارا سماجی اور دینی فریضہ ہے۔ ہم نے جیسا کہ منشور میں بھی بتایا تھا کہ سیکٹر 18اے اور 3 اے میں ایک بڑی بیٹھک قائم کریں گے جہاں وقت گزارنے کا اچھا ماحول ہوگا۔ کتابیں، اخبارات اور ٹی وی ہوگا۔ اس کے علاوہ نوجوان ہمارا سرمایہ ہیں، ہم نوجوانوں کا اکٹھا کرکے ان کو فعال کریں گے، انہیں ذمے داریوں میں شامل کریں گے۔ کھیلوں کی ٹیمیں بنائیں گے اور ان کی مالی ضروریات پوری کریں گے۔
سوال: آپ نے اپنے انتخابی منشور میں صحت کے شعبوں سے متعلق بھی بات کی تھی، اس پر کیا منصوبہ ہے؟
نذیر اللہ محسود: جی، کوئٹہ ٹائون کے لیے نئی ایمبولینس اور میت گاڑی لیں گے، کم از کم دو ڈسپنسریاں قائم کریں گے، اور جیسے جیسے مالی حالات اجازت دیں گے لوگوں کو سہولت فراہم کریں گے۔
سوال: یہاں پر بعض پلاٹوں پر قبضوں کا سلسلہ رہا جس کی وجہ سے کوئٹہ ٹائون بدنام بھی رہا ہے، جبکہ دیگر سوسائٹیز کے مقابلے میں یہاں کی سڑکیں بھی کشادہ ہیں، اس حوالے سے آپ کیا قدم اٹھائیں گے؟
نذیر اللہ محسود:جس طرح آپ نے کہا کہ بہترین سوسائٹی ہے۔ لوگ تو اسکیم 33 کی بات کرتے ہیں، میں پورے کراچی کی بات کروں گا کہ اس سے بہترین سوسائٹی دوسری کوئی نہیں ہوسکتی۔ یہاں سے موٹر وے بھی قریب ہے، تیس سیکنڈ کے فاصلے پر۔ لیکن یہاں بعض جگہوں پر آج بھی قبضہ مافیا کے حوالے سے مسائل موجود ہیں جس کے باعث لوگ یہاں آنے سے ڈرتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا سوسائٹی کی لیز بند ہے، اگر لیز کھل جائے تو یہ مسائل خودبخود ختم ہوجائیں گے۔ چیک اینڈ بیلنس تب ہوتا ہے جب کے ڈی اے یا کسی دوسرے سرکاری محکمے میں آپ کے کاغذات جمع ہوجاتے ہیں اور رجسٹریشن ہوجاتی ہے تو ہر طرح کے مسائل ختم ہوجاتے ہیں۔
سوال: کوئٹہ ٹائون کے کئی سیکٹر ہیں۔ جن کے مسائل آپ کیا سمجھتے ہیں کتنے مختلف ہیں؟
نذیر اللہ محسود: یہ ایک ہی سوسائٹی ہے، کوئٹہ ٹائون کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی کے نام سے اس کے جتنے بھی سیکٹر ہیں، تھری ہے، اٹھارہ اے، اٹھارہ بی اور فور اے سیکٹر ہے جو مکمل انکروچمنٹ میں تبدیل ہوچکا ہے، اور 54اے الگ ہے جس میں کچھ پلاٹ اب بھی موجود ہیں، اس کے بڑے حصے پر قبضہ ہوچکا ہے۔ باقی یہاں جتنے بھی مسائل ہیں وہ سب کے یکساں ہیں۔ ایڈمنسٹریٹر بھی ایک ہی ہے۔ اب میں چونکہ صدر منتخب ہوگیا ہوں اور پورے کوئٹہ ٹائون کے لوگوں نے مجھ پر اعتماد کیا ہے، لہٰذا میری ترجیح سب کے مسائل کو حل کرانا ہوگی۔
سوال: ایک بہت بڑا مسئلہ یہاں پر پورشنز کا بننا ہے، جس کے خلاف آپ لوگوں نے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر پوری ایک تحریک چلائی ہے، لیکن پورشنز کی تعمیر آج بھی جاری ہے، بلکہ بعض بلڈرز کمرشل پلاٹوں پر مزید غیر قانونی فلور بنانے کے لیے لوگوں کو مجبور کرکے ان سے حلف نامے پر دستخط کروا رہےہیں تاکہ وہ مستقبل میں سوال نہ اٹھائیں، اور وہ دستخط کرنے پر مجبور ہیں۔ اس طرح کی چیزوں کو روکنے اور ان کے خاتمے کے لیے آپ کیا اقدام کریں گے؟
نذیر اللہ محسود: میں تو یہی کہوں گا کہ اللہ مجھے ہمت اور طاقت عطا فرمائے۔ یہاں جتنے بھی ممبرز ہیں جن کی تعداد چار ہزار سے زائد بنتی ہے مجھے اُن سب کا تعاون درکار ہوگا۔ ان کے تعاون سے ہی تمام غیر قانونی کاموں کی روک تھام کی جائے گی۔ اور قانون جس کی اجازت دے گا اس کام کی اجازت ہوگی۔
سوال:اگر کوئی پورشن بن رہا ہوگا تو کوئٹہ ٹائون انتظامیہ حرکت میں آئے گی؟
نذیر اللہ محسود: بالکل حرکت میں آئے گی، اور ساتھ یہ بھی بتاتا چلوں کہ کوئٹہ ٹائون کسی علاقہ غیر میں نہیں ہے، یہاں قانون کی عمل داری ہے، اگر پورشنز بن رہے ہیں تو قانونی ادارے موجود ہیں، اس کے خلاف جو بھی قانونی چارہ جوئی ہوگی وہ ضرور کی جائے گی، بلکہ جو بھی غیر قانونی کام ہورہے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ یہاں پر بہت سے رہائشی پلاٹس پر کاروباری سرگرمیاں جاری ہیں جن میں پورشنز کی تعمیر بھی شامل ہے، گودام بنے ہوئے ہیں۔ کسی بھی قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے کہ آپ رہائشی پلاٹ کو کاروباری سرگرمیوں میں استعمال کریں۔ میری پوری کوشش ہوگی کہ جو بھی غیر قانونی اقدام ہیں ان کی روک تھام کی جائے۔
سوال: آپ خود وکیل ہیں، ایک ایسے گروپ سے آئے ہیں جو شاید مستقبل میں بلڈرز کے بہت زیادہ قریب نہیں ہوگا، دوسری طرف بلڈرز اپنا کاروبار بھی کررہے ہیں، اور سوسائٹی میں اچھا کام بھی ہوا ہے، لیکن ان میں تشویش ہے اور وہ خوف کا بھی شکار ہیں۔ انہیں آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے جو ٹھیک اور قانون کے مطابق کام کررہے ہیں؟
نذیر اللہ محسود: جو بھی ہمارے بلڈرز یا دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے حضرات ہیں میں سب سے یہ توقع بھی رکھتا ہوں اور انہیں پیغام بھی دیتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ آئیں اور مل کر کوئٹہ ٹائون کی تعمیر و ترقی کا بیڑا اٹھائیں۔ میں بہت جلد ایک مشاورتی کمیٹی بھی بنانے جارہا ہوں جس میں ہر شعبے کے ماہرین موجود ہوں گے جن میں بلڈر حضرات کو بھی شامل رکھا جائے گا، کیونکہ کسی بھی علاقے کی تعمیر و ترقی، تزئین و آرائش اور انفرااسٹرکچر کی بہتری میں ان کا انتہائی اہم کردار ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم سب مل کر کوئٹہ ٹائون کی بہتری کے لیے آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر اقدام کریں گے۔
سوال: ان سارے کاموں کو کرنے کے لیے آپ کے پاس وسائل ہونے چاہئیں، وسائل کے حصول کے لیے کیا منصوبہ ہے؟
نذیر اللہ محسود: وسائل کے بارے میں تو یہ کہوں گا کہ ہماری کوشش ہوگی کہ ہمیں باہر سے کسی قسم کی مدد کی ضرورت نہ پڑے۔ یہ میری دعا ہے، لیکن امید ہے کہ ہمارے خزانے میں کچھ بھی نہیں ہوگا۔ جہاں تک ڈیولپمنٹ کے کام ہیں وہ بغیر سرمائے اور وسائل کے ممکن ہی نہیں ہیں، لیکن یہ بتاتا چلوں کہ تین سال کے تجربے میں یہ بات ہے کہ لوگوں کو اعتماد دیں وہ وسائل دیں گے۔ جب اتنا بڑا گھر بناتے ہیں تو یقیناً کاروبار بھی ہوتا ہے، وسائل بھی ہوتے ہیں، انہیں صرف اعتماد دلانے کی ضرورت ہے کہ میرا پیسہ ٹھیک جگہ پر لگ رہا ہے۔ لوگ تعاون کرنے والے ہیں اور ڈیولپمنٹ کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔ ہمارے بلڈرز حضرات، کنٹریکٹر اور دیگر ماہرین سے ضرور مشاورت کی جائے گی اور اس کی روشنی میں تعمیراتی کام کیے جائیں گے۔ جہاں لوگوں کا اعتماد خراب ہوا اور لوگوں کو یقین ہوگیا کہ ہمارے پیسے ٹھیک جگہ خرچ نہیں کیے جارہے تو لوگ سو روپے دینے کو بھی تیار نہیں ہوں گے۔ مجھے امید ہے کہ تمام ممبرز تعاون کریں گے اور میں یقین دلاتا ہوں کہ ان کا پیسہ درست جگہ پر لگے گا۔