سندھ حکومت کا کراچی دشمن سیاہ بلدیاتی قانون

جماعت اسلامی نے متنازع بلدیاتی قانون کے خلاف احتجاجی تحریک کا اعلان کردیا

شہر کراچی پورے ملک کی معیشت کا پہیہ چلاتا ہے۔ یہ ایک گلدستہ اور منی پاکستان ہے۔ یہ شہر ملک کے ماتھے کا جھومر ہے، لیکن حکمرانوں نے اس شہر کو لاوارث اور تنہا کیا ہوا ہے، اور یہاں روزانہ ایک نیا تماشا ہوتا ہے۔ اس وقت کراچی بدحال ہے، اور پیپلز پارٹی کراچی کے تمام اداروں اور وسائل پر قبضہ کرنے کے ایجنڈے پر گامزن ہے، اور اس نے اسی ہدف کے مطابق بلدیاتی قانون میں ترامیم کے بعد جو بل سندھ اسمبلی سے منظور کرایا ہے اُس میں کئی محکمے بلدیاتی اداروں سے لے کر سندھ حکومت نے اپنے ماتحت کرلیے ہیں۔ اس نئے قانون کے تحت ضلع کونسل ختم کرکے ٹائون میونسپل کارپوریشن قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسی طرح میونسپل ٹائون کی آبادی ایک لاکھ 25ہزار تک ہوگی۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشن کی حدود میں کوئی دیہی علاقہ نہیں ہوگا۔ یونین کمیٹیوں کے وائس چیئرمین ٹاؤن میونسپل کونسل کے رکن ہوں گے۔ نئے بل میں میٹروپولیٹن سسٹم میں اضلاع ختم کرکے ٹاؤن نظام متعارف کرایا گیا ہے۔ میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب شو آف ہینڈ کے بجائے خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوگا۔ ٹاؤن میونسپل کونسل کے ارکان اپنے میں سے میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب کرسکیں گے۔ بلدیاتی اداروں کی مدت حلف اٹھانے سے لے کر 4 سال تک ہوگی، میٹروپولیٹن کارپوریشن کی آبادی 50 لاکھ ہوگی۔ کراچی سے ڈسٹرکٹ کونسل کو ختم کردیا گیا۔ ڈسٹرکٹ کونسل کی جگہ ٹاؤن میونسپل ہوں گی۔ کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے ایم سی سے لے کر سندھ حکومت کے حوالے کردیا گیا۔ عباسی شہید، سوبھراج اسپتال، لیپروسی سینٹر، سرفراز رفیقی سینٹر کے ایم سی سے سندھ حکومت کے حوالے ہوگیا ہے۔ پیدائش اور اموات کے رجسٹریشن سرٹیفکیٹ کا کام بلدیاتی اداروں سے واپس لے لیا گیا ہے۔ انفیکشن ڈیزیز کا شعبہ بلدیاتی اداروں سے واپس ہوگیا ہے۔ پبلک ٹوائلٹس بلدیاتی اداروں کے زیر انتظام رہیں گے۔ نئے قانون کے تحت بلدیاتی ادارے صحت اور تعلیم کے شعبے میں کوئی کام انجام نہیں دے سکیں گے۔ پبلک ہیلتھ، پرائمری ہیلتھ کا شعبہ بلدیاتی اداروں سے واپس لے لیا گیا۔ تمام اسپتال، ڈسپنسریز، میڈیکل ایجوکیشن بلدیاتی اداروں سے واپس لے لیے گئے ہیں، فرسٹ ایڈ کا شعبہ بھی بلدیاتی اداروں کے پاس نہیں ہوگا۔ فوڈ اینڈ ڈرنک کے قوانین بنانا، ایسے اداروں کی رجسٹریشن کرنا بلدیاتی اداروں سے واپس لے لیا گیا ہے۔ بلدیاتی اداروں میں کام کرنے والا طبی عملہ سندھ حکومت کے ماتحت ہوگا۔
اس قانون پر فرائیڈے اسپیشل نے ماہر شہری و بلدیاتی امور عاصم بشیر خان سے بات کی تو اُن کا کہنا تھا:
”2013ء کے ایکٹ میں کراچی میٹروپولیٹن اور سندھ کے دیگر بلدیاتی اداروں کو دئیے گئے اختیارات کو سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2021ء میں مزید کم یا بالکل ختم کردیا ہے۔ مثلاً تعلیم، صحت کا شعبہ، وبائی امراض سے بچاؤ کے حفاظتی اقدامات.. سب کے سب اس ایکٹ کے ذریعے ختم کردیے گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی صرف صوبے کے اختیارات کی حد تک اٹھارہویں ترمیم کی حامی ہے، جہاں مقامی بلدیات کی بات آتی ہے وہ 2010ء سے مسلسل اختیارات سلب کرتی جارہی ہے، اور بچے کھچے اختیارات بھی سلب کرلیے گئے ہیں۔ پاکستان کے آئین کے مطابق پاکستان میں تین انتظامی مدارج ہیں لیکن صرف کاغذ پر، حقیقتاً یہ صرف دو رہ گئے ہیں۔ دوسرا بڑا مسئلہ یونین کونسل کے سائز کا ہے۔ کراچی میں یونین کمیٹی 45 سے 75 ہزار آبادی پر مشتمل ہے، جبکہ سندھ کے دیگر اضلاع میں دس سے پندرہ ہزار پر۔ لہٰذا اندرونِ سندھ کونسل بہت زیادہ بنیں گی اور وسائل کی تقسیم آبادی نہیں بلکہ کونسل کی تعداد پر ہے“۔
ماہرین کے ساتھ سیاسی جماعتوں اور کراچی کے عوام کے نزدیک نیا بلدیاتی نظام پیپلز پارٹی کی اہلِ کراچی کی نسل کُشی کی بدترین سازش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی اس وقت حکومت کے مزے لے رہی ہیں۔ اور کراچی کے عوام کے ساتھ کھیل مشترکہ لگتا ہے، جس کی وجہ اپنے اپنے مفادات ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی حقیقی معنوں میں اپنا نہیں ہے اور یہ شہر اور اس کے لوگ لاوارث ہیں۔ لیکن اس شہر کی یہ سب سے بڑی سچائی ہے کہ جماعت اسلامی اپنی اصولوں کی سیاست اور خدمات کے ساتھ کراچی کے لوگوں کے ساتھ ہمیشہ کھڑی رہی ہے، اور اس نے کراچی کے خلاف پیپلز پارٹی کے ہر ہر اقدام پر آواز اٹھائی ہے، اور اب جماعت اسلامی ایک بار پھر سندھ لوکل گورنمنٹ بل2021ءکو مسترد کرتے ہوئے کراچی کے شہریوں کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہے۔
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے متنازع ترمیمی بل کو کراچی دشمن کالا قانون قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ترمیمی بل آئین کے آرٹیکل 32اور 140-Aکے خلاف ہے۔ بل کو سندھ اسمبلی سے جس طرح منظور کروایا گیا وہ نہ صرف انتہائی شرمناک، غیر جمہوری و آمرانہ رویہ اور طرزِعمل ہے بلکہ یہ پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کی جاگیردارانہ اور وڈیرہ شاہی سوچ کا بھی اظہار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بل سندھ کے شہریوں بالخصوص کراچی کے تین کروڑ سے زائد عوام کو غلام بنانے کا بل اور بدترین فسطائیت ہے۔ حافظ نعیم نے صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کی میڈیا سے گفتگو جس میں صوبائی وزیر نے کہا ہے کہ ترمیمی بل میں جماعت اسلامی کی تجاویز کو مدنظر رکھا گیا ہے، کو بھی سختی سے مسترد کردیا اور کہا کہ ہم نے تجویز دی تھی کہ کراچی پاکستان کا بڑا شہر ہے، آئین کے مطابق یہاں کارپوریشن نہیں بلکہ بااختیار شہری حکومت کا نظام ہونا چاہیے، اس شہر کو میگا سٹی اسٹیٹس ملنا چاہیے، لیکن پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے پہلے سے موجود بے اختیار ایکٹ کو مزید بگاڑ کر اسمبلی میں لولا، لنگڑا بل پیش کردیا ہے جس کے ذریعے وہ شہری محکمے اپنے کنٹرول میں کرنا چاہتی ہے، جب کہ ایسے 25بلدیاتی ادارے جو 2001ء کے بلدیاتی نظام کے تحت سٹی گورنمنٹ کے ماتحت ہوتے تھے یا ان میں شہری حکومت کا عمل دخل ہوتا تھا، ان کے علاوہ ایم ڈی اے، ایل ڈی اے، کے ڈی اے اور کے بی سی اے کو ایس بی سی اے بناکر سندھ حکومت پہلے ہی اپنے قبضے میں کرچکی ہے۔ کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ابتدا سے سٹی گورنمنٹ کے ماتحت تھا، گزشتہ 10 برسوں میں اس کا بیڑہ غرق کردیااور اب اس کو بھی اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عباسی شہید اسپتال، سرفراز رفیقی شہیداسپتال، سوبھراج اسپتال، لیپرو سی اسپتال اور کے ایم سی کے ماتحت چلنے والی جتنی ڈسپنسریاں تھیں انہیں اپنے کنٹرول میں لینے کا پروگرام بنالیا ہے، اور اسی پر بس نہیں کیا بلکہ غیر منقولہ جائداد کا ٹیکس، پیدائش اور اموات سرٹیفکیٹ بنانے کے اختیارات، تعلیم، بنیادی مراکزِ صحت، فوڈ سے متعلق قانون سازی کے اختیارات سب اپنے قبضے میں لینے کی تیاری کر لی ہے، حالانکہ صوبے کی 98فیصد معیشت کراچی سے چلتی ہے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے شہری اور دیہی آبادیوں میں یونین کمیٹیاں بنانے کے پیمانے الگ الگ رکھے ہیں تاکہ شہروں بالخصوص کراچی میں یونین کمیٹیوں کی تعداد کم ہو۔ اس طرح نفرتوں میں اضافے کے سوا کیا ہوگا؟ پیپلز پارٹی کی اس پالیسی کا مقصد یہ ہے کہ منافرت پھیلتی رہے اور ان کی سیاست چلتی رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی کی آبادی کو آدھا شمار کیا گیا ہے، بلدیاتی انتخابات کروانے کے بجائے ٹال مٹول کرتے ہوئے سوا سال کا عرصہ گزار دیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم کالجوں میں داخلے کے لیے ڈومیسائل کی شرط کی شدید مذمت کرتے ہیں، کیونکہ اس پابندی کی وجہ سے نہ صرف طلبہ بلکہ والدین بھی شدید پریشانی سے دوچار ہیں، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ہم شہر میں ہر قسم کی غیر قانونی تعمیرات کی نہ صرف مذمت کرتے ہیں بلکہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اس میں ملوث تمام ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی نے کہا کہ شاعر، ادیب، انجینئرز، ڈاکٹرز، وکلاء، اساتذہ اور علماء سمیت تمام شہری جماعت اسلامی کی تحریک میں شامل ہوں، کیوں کہ عوام کی طاقت سے ہی مسائل حل ہوں گے۔ جماعت اسلامی اس شب خون کے خلاف جمہوری اور قانونی جدوجہد کررہی ہے، تین کروڑ عوام کو باہر نکل کر اپنا شہر اور مستقبل بچانا ہوگا۔
جماعت اسلامی کی نئے بلدیاتی قانون کے خلاف احتجاجی تحریک اوردھرنوں و مظاہروں کاآغاز ہوچکا ہے،اب شیڈول کے مطابق 12دسمبر کو کراچی بچاؤ مارچ کیا جائے گا۔ جماعت اسلامی نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر بل واپس نہ لیا گیا تو سندھ اسمبلی کا گھیراؤ بھی کریں گے۔