اقبال حسین قریشی 1932ء میں موضوع سونٹا، تحصیل راج پورہ، ریاست پٹیالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباو اجداد کا تعلق مشائخ و علما کے خاندان سے تھا جو کئی صدی پہلے تبلیغِ اسلام کے لیے ہندوستان آئے تھے۔ اقبال حسین قریشی کے مورثِ اعلیٰ عبدالوہاب نامی بزرگ برصغیر میں آکر قیام پذیر ہوئے۔
علماو مشائخ کے خاندان سے وابستہ ہونے کے ناتے اور تبلیغِ دین اور اسلامی خدمات کے پیش نظر برصغیر کے مسلمان سلاطین اور مغل حکمرانوں نے اس خاندان کو ریاست پٹیالہ میں کئی سو ایکڑ اراضی بطور عطیہ و معافی دینی خدمات کے سلسلے میں الاٹ کی تھی۔ رفتہ رفتہ اس خاندان سے تبلیغ دین اور اشاعتِ علمِ دین کا رواج اٹھ گیا اور یہ خاندان صرف نماز روزے کی ادائیگی تک محدود رہتے ہوئے زمینداری، کاشت کاری،اور زمینوں کی آبادکاری کے بکھیڑوں میں الجھتے ہوئے علمِ دین کے حصول اور تبلیغ دین سے تقریباً کنارہ کش ہی ہوکر رہ گیا۔ لیکن آباو اجداد کی دینی خدمات اور تربیت کے بچے کھچے آثار اس صورت میں باقی رہ گئے کہ نماز روزہ کی ادائیگی اور پابندی اس خاندان میں موجود رہی۔
خوش قسمتی سے شہرۂ آفاق سیرت نگار شبلی نعمانیؒ کی کتاب ’’سیرت النبیؐ‘‘ کے بعد اردو میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ’’رحمت للعالمینؐ‘‘ کے مصنف اور قبولیتِ عام حاصل کرنے والی انتہائی معروف شخصیت قاضی محمد سلیمان منصور پوری (وفات 1930ء) کا تعلق بھی ریاست پٹیالہ سے تھا۔
اقبال حسین قریشی صاحب بتایا کرتے تھے کہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری ریاست پٹیالہ کے مسلمانوں کو دین سے وابستہ رکھنے کے لیے مسلسل سعی و جہد میں مصروف رہتے، اور ریاست پٹیالہ کے صدر مقام کے علاوہ وعظ و تبلیغ کے سلسلے میں دوردراز کے دیہات میں بھی لگاتار آمدورفت رکھتے، اسی ضمن میں سال میں ایک بار ہمارے گائوں موضع سونٹا میں تشریف لاتے اور سالانہ جلسے میں تقریر کے بعد نہ صرف ہمارے گائوں بلکہ اردگرد کے بیسیوں دیہات سے آئے ہوئے مسلمانوں کی دینی تربیت کا فریضہ انجام دیتے۔
1947ء میں قیام پاکستان کے وقت ریاست پٹیالہ میں سکھ مہاراجا اور اس کی خالصہ فوج کے ہاتھوں مسلمانوں کا بے پناہ قتلِ عام ہوا، لیکن خوش قسمتی سے اقبال حسین قریشی کا خاندان اس قتل و غارت سے محفوظ رہا، اور انتہائی مشکلات و مصائب برداشت کرتے ہوئے جگہ جگہ سکھوں، ہندوئوں کے مسلح جتھوں کے پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمان قافلوں پر حملوں کے باوجود بچتے بچاتے کسی نہ کسی طرح پاکستان پہنچ گیا۔
آغاز میں گوجرانوالہ شہر میں رہائش اختیار کی، اور بعد میں بھارت سے آنے والے زمینداری، اراضی کے دفتری ریکارڈ اور پٹوار خانہ کی دستاویزات کے تبادلے کے بعد جب ہجرت کرنے والے خاندانوں کو آبائی ملکیت کے مطابق زرعی زمینوں کی ملکیت اور الاٹمنٹ کا سلسلہ شروع ہوا تو اقبال حسین قریشی کے خاندان کو نسل در نسل زمین کی تقسیم کے بعد ضلع گوجرانوالہ کے شمال میں واقع انتہائی دور افتادہ گائوں موضع سوہیاں میں چالیس ((40) ایکڑ زمین الاٹ ہوئی۔
واضح رہے کہ موضع سوہیاں ضلع گوجرانوالہ کی شمال مشرقی سرحد پر گوجرانوالہ کا آخری گائوں ہے۔ اس سے آگے ضلع سیالکوٹ کی حدود شروع ہوجاتی ہیں۔ موضع سوہیاں گوجرانوالہ شہر سے شمال کی طرف 25 کلومیٹر، معروف قصبہ آروپ سے تقریباً 10 کلومیٹر شمال مشرق اور سیالکوٹ روڈ پر واقع نندی پور پاور ہائوس سے 7 کلومیٹر شمال مغرب کی طرف واقع ہے۔
بھارت اور ریاست پٹیالہ سے پاکستان ہجرت اور موضع سوہیاں میں آمد اور آبادکاری کے ایام میں اقبال حسین قریشی چھٹی جماعت کے طالب علم تھے۔ تعلیم کا سلسلہ مکمل کرنے کے لیے گورنمنٹ نارمل ہائی اسکول گکھڑ ضلع گوجرانوالہ میں داخل ہوئے اور میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج گوجرانوالہ سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ اس کالج میں حصولِ تعلیم کے دوران معروف ماہر تعلیم، مثالی استاد پروفیسر عبدالحمید صدیقی (وفات اپریل 1978ء) سابقہ ایڈیٹر ماہ نامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ لاہور کے علاوہ شہرۂ آفاق نومسلم استاد صوفی محبوب الٰہی (وفات 1974ء) اور برصغیر کے نامور ادبی نقاد، محقق اور استاد ڈاکٹر وحید قریشی (وفات 25 اکتوبر 2009ء) سے کسبِ فیض کا موقع ملا۔
اسلامیہ کالج گوجرانوالہ میں ہاسٹل کی سہولت نہ ہونے کے سبب بیرون کھیالی دروازہ گوجرانوالہ میں واقع معروف عالم دین، جمعیت اتحاد العلماء پاکستان کے بانی، استاد الاساتذہ مولانا محمد چراغ (پیدائش 1896ء۔ وفات 21 اپریل 1989ء) کی قائم کردہ درس گاہ جامعہ عربیہ کے اقامتی کمروں میں رہائش اختیار کی۔ یعنی تعلیم کے حصول کا سلسلہ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ اور اقامت جامعہ عربیہ میں رہی۔ جامعہ عربیہ کے دینی ماحول کے مثبت اثرات، کالج کے نوجوان طالب علم اقبال حسین قریشی پر اس صورت میں اثر پذیر ہوئے کہ دینِ اسلام اور اسلامی نظام کے نفاذ اور اس کے غلبے کی لگن ان کے ذہن و دل میں راسخ ہوگئی۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت کرنے کے بجائے اپنی زمینداری اور کاشت کاری کے انتظامات میں مصروف ہونے کے ساتھ گوجرانوالہ شہر اور اس کے نواح میں جماعت اسلامی کے دینی اجتماعات اور پروگراموں میں ضرور شرکت کرتے۔
چنانچہ اکتوبر 1963ء میں بیرون ٹکسالی دروازہ اور بیرون بھاٹی گیٹ باغ پارک لاہور میں جماعت اسلامی کے کُل پاکستان (بشمول مشرقی پاکستان، موجودہ بنگلہ دیش) منعقد ہونے والے جس اجتماع میں فیلڈ مارشل صدر جنرل ایوب خان اور گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان نواب آف کالا باغ کی سفاکی اور غنڈہ گردی کے نتیجے میں فائرنگ کی گئی اور اس میں گوجرہ ضلع لائل پور (حال فیصل آباد) کے رکن جماعت اسلامی اللہ بخش شہید ہوئے، اقبال حسین قریشی صاحب کا کہنا ہے کہ اس اجتماع میں مَیں بھی موجود تھا۔
دسمبر 1970ء کے عام انتخابات میں چودھری محمد اسلم، امیر جماعت اسلامی ضلع گوجرانوالہ… شہر اور اس کے شمال میں واقع دیہاتی علاقے سے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ واضح رہے کہ اُن دنوں قومی اسمبلی کا یہ حلقہ گوجرانوالہ شہر اور معروف قصبہ آروپ کے علاوہ نندی پور، نظام پور، ترگڑی، موضع بلّے والا، تلونڈی کھجور والی، راہوالی (موجودہ گوجرانوالہ کینٹ)، لمبانوالی، موضع جلال یلگن، کوٹ سعد اللہ، کوٹلی باکھا وغیرہ وغیرہ کے علاوہ ضلع گوجرانوالہ کے آخری دور افتادہ گائوں موضع سوہیاں اور دیگر بیسیوں وسیع و عریض دیہاتی علاقوں پر مشتمل تھا۔
اقبال حسین قریشی نے جماعت اسلامی کے امیدوارِ قومی اسمبلی چودھری محمد اسلم (حال مقیم کینال سوسائٹی لاہور، پیدائش 1920ء… الحمدللہ ان سطور کی تحریر (18 ستمبر 2021ء) کے وقت 101 سال کی عمر میں بقید حیات ہیں) کی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا اور اپنے گائوں موضع سوہیاں اور اس کے اردگرد کے نواحی دیہات میں چودھری محمد اسلم کی حمایت میں دن رات ایک کردیے، اور موضع سوہیاں میں جماعت اسلامی کے پولنگ ایجنٹ کی ذمہ داریاں انجام دیں۔
گائوں کے سب سے بڑے اور متمول زمیندار ہونے کی حیثیت سے موضع سوہیاں کے سربراہ اور نمبردار کا منصب بھی اقبال حسین قریشی کے پاس تھا۔ اس قدر اثر رسوخ ہونے کے باوجود روایتی چودھریوں کے تکبر اور رعونت وغیرہ سے آپ بالکل پاک تھے، اس کے بجائے خوش اخلاقی اور عاجزی کے جوہر سے آراستہ تھے۔ ان صفات کی بنا پر اپنے پورے علاقے میں بااثر اور ہر دل عزیز شخصیت تھے۔
1970ء کے لگ بھگ جماعت اسلامی کی رکنیت اختیار کی۔ 1981ء میں جماعت اسلامی ضلع گوجرانوالہ کے قیم (جنرل سیکریٹری) کی ذمہ داری آپ کو سونپی گئی جسے بہت باقاعدگی، جاں فشانی، قلبی لگن اور خوش دلی سے انجام دیا۔ روزانہ صبح موٹر سائیکل پر موضع سوہیاں سے دفتر جماعت اسلامی گوجرانوالہ تشریف لاتے اور دفتری امور انجام دینے کے ساتھ ضلع گوجرانوالہ میں واقع جماعت اسلامی کے نظم سے وابستہ تمام قصبات اور دیہات منڈی کامونکی، ضلع گوجرانوالہ کے انتہائی مشرق میں واقع آخری قصبہ موضع کالی صوبہ کے علاوہ واہنڈو، منڈیالہ تیگہ وغیرہ کے علاوہ وزیر آباد، علی پور چٹھہ، احمد نگر، تحصیل حافظ آباد (واضح رہے کہ اُن دنوں حافظ آباد، ابھی ضلع نہیں بنا تھا بلکہ یہ گوجرانوالہ کی تحصیل تھی)، جلال پور بھٹیاں، قلعہ دیدار سنگھ وغیرہ وغیرہ اور نوشہرہ ورکاں کے دور دراز دیہات کے تنظیمی، تبلیغی اور توسیعِ دعوت کے دورہ جات میں ہمہ تن مشغول رہتے، اور اکثر اوقات شام کے بعد اپنے گائوں موضع سوہیاں واپس آتے۔ البتہ رات کے وقت ہونے والے تبلیغی پروگراموں اور انتخابی مہم کے ایام میں جلسوں، جلوسوں میں شمولیت کے بعد گوجرانوالہ دفتر جماعت یا مذکورہ مقامات پر ہی رات کو ٹھیر جاتے۔1981ء سے 2011ء تک آپ نے انتہائی جاں فشانی اور خوش دلی سے یہ ذمہ داریاں انجام دیں۔ آخری برسوں میں جماعت اسلامی ضلع گوجرانوالہ کے ضلعی نظم نے ایک موٹر کار اور ڈرائیور کا اہتمام کردیا تھا۔ لیکن مذکورہ بالا تیس برسوں میں زیادہ عرصہ اقبال صاحب نے موٹر سائیکل پر ہی ضلع گوجرانوالہ کے قصبات اور دیہات میں تبلیغ دین اور توسیعِ دعوت کے لیے آمدورفت اور کوچہ نوردی کی۔
زمینداری کی مصروفیت کے ساتھ جماعت اسلامی کے ضلعی قیم اور اکثر اوقات نائب امیر ضلع کی ذمہ داری کے باوجود دینی، تاریخی، علمی اور ادبی کتابوں اور رسائل و جرائد کے مطالعے کا گہرا شغف رکھتے تھے اور موضع سوہیاں جیسے دور افتادہ گائوں میں ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘، ہفت روزہ ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ کراچی جیسے رسائل و جرائد بذریعہ ڈاک منگواتے۔ چنانچہ ان کی ذاتی لائبریری میں تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘، سیرتِ نبویؐ پر معروف کتاب ’’رحمۃ للعالمینؐ‘‘ کے علاوہ ادبی کتابوں میں مختار مسعود کی ’’آوازِ دوست‘‘، ’’لوحِ ایام‘‘، ’’حرفِ شوق وغیرہ جیسی بیسیوں کتابیں اور رسائل و جرائد ہیں۔ چراغِ راہ کراچی، ماہر القادریؒ کا ماہ نامہ فاران کراچی، مجلہ نقوش (شخصیات نمبر)، ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی وغیرہ کے اکثر و بیشتر سارے مجلے فائلوں کی صورت میں موجود اور اب ان کے سب سے چھوٹے صاحبزادے عمر فاروق قریشی کی تحویل میں ہیں۔
ضلع گوجرانوالہ کے دور دراز قصبات و دیہات کے تبلیغی اور توسیعِ دعوت پر مبنی مسلسل دورہ جات اور ضلعی دفتر، جماعت اسلامی گوجرانوالہ میں تنظیمی ذمہ داریوں، زمینداری کے جھمیلوں اور بکھیڑوں کی بے پناہ اور جاں توڑ مصروفیات کے باوجود خشکی اور یبوست سے کوسوں دور تھے، بلکہ ہر وقت اپنے متبسم اور مشفق چہرے کے ساتھ اپنے ہر ملاقاتی اور نووارد کو خوش آمدید کہتے۔ کارکنانِ جماعت ہی نہیں بلکہ اپنے ہر ملنے والے سے بہت محبت، خوش اخلاقی اور لگائو سے پیش آتے۔ یہ عطیۂ خاص اقبال صاحب کو بارگاہِ ایزدی سے خصوصی طور پر عطا ہوا تھا۔ بقول اقبال:
نگہ بلند سخن دل نواز، جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
گستاخی معاف! ورنہ اکثر و بیشتر ذمہ داران اپنی خشکی اور بے توجہی سے عام کارکنانِ جماعت کو ہی نہیں بلکہ عامۃ المسلمین کو بھی جماعت اسلامی کی دعوت اور دینی پیغام سے ہمیشہ کے لیے بددل اور دور کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ اسی صورتِ حال کا نوحہ علامہ اقبالؒ نے اس شعر میں کیا ہے:
کوئی کارواں سے ٹوٹا، کوئی بدگماں حرم سے
کہ امیرِ کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی
الحمدللہ! اقبال حسین قریشی کا ہر ملنے والا شرحِ صدر سے اس بات کی گواہی دے گا کہ وہ اپنی پوری تحریکی اور جماعتی زندگی میں اپنی خوئے دل نوازی سے عام لوگوں کے لیے دینی جدوجہد اور تحریک میں شمولیت کا سرچشمہ اور صدقۂ جاریہ بنے رہے۔ اقبال صاحب کی اس صفت کے پیش نظر یہاں بے اختیار الطاف حسین حالی کا یہ شعر یاد آرہا ہے:
بہت جی لگتا ہے، محفل میں اُس کی
وہ اپنی ذات میں اک انجمن ہے
چنانچہ ان کی مقناطیسی شخصیت کے ناتے جماعت اسلامی کے مرکزی قائدین سید منور حسنؒ (وفات 26 جون 2020ء) نے اپنے قیم (جنرل سیکریٹری شپ) جماعت اسلامی پاکستان کی ذمہ داریوں کے دوران متعدد بار، اور سابق رکن قومی اسمبلی و نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان فرید احمد پراچہ نے ان کی دعوت پر موضع سوہیاں جیسے دور افتادہ گائوں کی جامع مسجد میں خطبہ ہائے جمعتہ المبارک کی صورت میں عوام الناس سے خطاب کیا۔
اپنے گائوں موضع سوہیاں میں اپنے وسائل سے تعمیر کردہ جامع مسجد میں خطبہ جمعۃ المبارک کی ذمہ داری کئی سال تک خود نبھائی۔ حالیہ برسوں میں دینی مدرسے سے فارغ التحصیل ایک مستند عالمِ دین کو یہاں متعین کرتے ہوئے سبک دوش ہوگئے۔
موضع سوہیاں سے متصل اور گوجرانوالہ شہر تک پھیلے ہوئے نواحی دیہات، قصبات نندی پور، نظام پور، موضع بلے والا، موضع ترگڑی، موضع ٹھٹھہ داد، کوٹ سعد اللہ، تلونڈی کھجور والی، راہوالی (حال گوجرانوالہ چھائونی کینٹ)، موضع آروپ (راقم کا آبائی اور اس دیہاتی علاقے میں سب سے بڑا قصبہ۔ آبادی 2017ء کی مردم شماری کے مطابق پینتالیس ہزار) اور موضع بٹرانوالی وغیرہ کے مکینوں کو ماضیِ قریب میں روزانہ کا جو منظر بھولتا نہیں، وہ اقبال حسین قریشی صاحب کا مختلف دنوں میں راستے بدل کر موٹر سائیکل پر مذکورہ بالا دیہات سے گزرتے ہوئے دعوتی ملاقاتیں اور سلام دعا کرتے ہوئے روزانہ اپنے گائوں موضع سوہیاں سے دفتر جماعت اسلامی گوجرانوالہ شہر تک پہنچنے کا منظر ہے۔ مذکورہ بالا دیہات کی راہیں اداس ہیں کہ دعوتِ دین کے داعی اور اسلامی انقلاب کی منزل کے راہی اقبال حسین قریشی اب یہاں سے نہیں گزریں گے۔ یہاں معروف ادیب، افسانہ نگار انتظار حسین (وفات 2015ء) کے افسانوی مجموعہ ’’گلی کوچے‘‘ کے انتسابی الفاظ بے اختیار بہ ادنیٰ تصرف یاد آرہے ہیں: ’’شہر‘‘ کی راہیں ماتم کرتی ہیں کہ ’’یاتری‘‘ کے قدم اب اس کی خاک کو نہیں چومتے۔
گوجرانوالہ ضلعی دفتر جماعت اسلامی میں تنظیمی امور کو نپٹانے کے بعد ضلعی نظم کے ساتھ نوشہرہ ورکاں، کامونکی، موضع واہنڈو جیسے دور دراز قصبات و دیہات کے ساتھ واقع گوجرانوالہ، نارووال، شیخوپورہ اور ضلع سیالکوٹ کی مشرقی سرحد پر واقع آخری گائوں موضع کالی صوبہ اور موضع دھرنگ تک ہی نہیں بلکہ جب تک حافظ آباد الگ ضلعی صدر مقام نہیں بنا تھا، حافظ آباد میں شامل موضع جلال پور بھٹیاں، معروف قصبہ پنڈی بھٹیاں (گوجرانوالہ شہر سے نوّے کلو میٹر کے فاصلے پر واقع) کے قصبات اور نواحی دیہات میں کبھی موٹر سائیکل اور کبھی بسوں، لاریوں وغیرہ کے ذریعے گوجرانوالہ کے ضلعی نظم کے تحت دعوتِ دین کی توسیع اور تبلیغ کی ذمہ داری کو خوش دلی، خوش اسلوبی سے انجام دینا اقبال حسین قریشی کی تیس سالہ تحریکی زندگی کا معمول رہا۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد، خدائے بخشندہ
یہ سب بانی جماعت اور قائدِ تحریکِ اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (وفات 22 ستمبر 1979ء) کی قائم کردہ تربیتی روایات، دور اندیشی پر مبنی طریقِ تربیت کا فیضان ہے کہ غلبہ اسلام کی جدوجہد کے عظیم فریضے کو جماعت اسلامی کے قائدین اور ذمہ داران سے لے کر گمنام کارکنان تک اپنی بساط اور صلاحیت کے مطابق انجام دے رہے ہیں۔ ورنہ جلسے جلوسوں میں تقریریں کرنے اور نعرے بازی کے بعد سامعین کو مسحور کرتے ہوئے زندہ باد اور واہ! واہ! کی آوازوں کے بعد گھر آکر آرام سے سو جانا بہت آسان ہے، لیکن سال کے تین سو پینسٹھ دن ہی نہیں بلکہ زندگی کی آخری سانس تک دعوتِ دین کا فریضہ انجام دینا… یہ صرف جماعت اسلامی کے وابستگان کی ہی خصوصیت ہے۔ بقول شاعر
یہ رتبہ بلند ملا، جس کو مل گیا
اقبال حسین قریشی جماعت اسلامی سے وابستگی کے بعد اسلامی انقلاب برپا کرنے کی جہدِ مسلسل میں تادم آخر ہمہ تن مصروف رہے۔ حالیہ برسوں میں زمینداری کے انتظامات کا سلسلہ اپنے منجھلے بیٹے طارق حسین قریشی کے سپرد کردیا تھا۔
نوّے سال کے لگ بھگ عمر ہونے کے باوجود مستعد، ہشاش بشاش اور جماعت اسلامی کے ہر پروگرام، جلسہ، جلوس، درسِ قرآن اور کارنر میٹنگ وغیرہ میں شرکت کرتے رہے۔
دسمبر 2020ء کے ایام میں قریشی صاحب نے راقم کو فون کیا کہ میری صحت ان دنوں کچھ ٹھیک نہیں رہتی، لہٰذا آکر مل جائو۔ چنانچہ میں اُن کے گائوں سوہیاں حاضر ہوا۔ ہشاش بشاش اور چہرے پر وہی رونق اور روایتی مشفقانہ تبسم… میرے پوچھنے پر بتایا کہ گردے کی تکلیف کا مسئلہ ہے۔ میری دو تین گھنٹے کی نشست کے دوران اپنے روایتی متبسم چہرے کے ساتھ گفتگو کرتے رہے۔ دوپہر کو پُرتکلف کھانا کھلایا اور ساتھ ہی مجھ سے وعدہ لیا کہ 18 دسمبر کا خطبہ جمعۃ المبارک ادا کرنے کی ذمہ داری مجھے (راقم السطور ہذا) کو انجام دینی ہے۔ میں نے وعدہ کرلیا۔
18 دسمبر کے خطبہ جمعۃ المبارک کے بعد راقم کے لیے پُرتکلف ضیافت پر اپنے متبسم چہرے کے ساتھ گفتگو کرتے رہے۔ میں نے مختصر گفتگو کے بعد ان سے اجازت لی کہ سالِ گزشتہ 2020ء کے اواخر میں امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم سراج الحق رابطۂ عوام کے سلسلے میں گوجرانوالہ میں پہلا جلسہ عام 25 دسمبر 2020ء کو منعقد کرتے ہوئے اپنی مہم کا آغاز اس شہر سے کرنے والے تھے۔ اس سلسلے میں پیش آمدہ انتظامات کے ضمن میں گوجرانوالہ شہر اور ضلع کے امرائے یونین کونسل سے لے کر صوبائی اسمبلیوں کے 14 حلقہ جات کے ذمہ داران کی میٹنگ 18 دسمبر کی سہ پہر کو گوجرانوالہ میں طے شدہ تھی۔ چنانچہ راقم بھی اقبال قریشی صاحب رخصت ہوکر گوجرانوالہ آگیا۔
اپریل، مئی 2021ء کے ایام میں موبائل فون پر بتایا کہ طبیعت ناساز ہے، لہٰذا آکر ملو۔ چنانچہ میں ایک دو دوستوں کے ہمراہ گائوں میں حاضر ہوا۔ ناسازیِ طبع کے باوجود اپنے روایتی متبسم اور مشفق چہرے سے گائوں کی برفی اور پُرتکلف چائے سے ہماری ضیافت فرمائی۔ یہ ان کے ضبط کا کمال تھا کہ اپنی بیماری کی کیفیت کو ہم پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ 17 جون کو ان کے بڑے صاحبزادے منور حسین قریشی ایڈووکیٹ کی اہلیہ محترمہ وفات پاگئیں۔ تعزیت کے لیے ان کے گائوں جانا ہوا۔ اپنی ناسازیِ طبع کے باوجود تعزیت کرنے والوں کے ساتھ روایتی اور طویل مشفقانہ گفتگو میں مصروف نظر آئے۔ اس طویل نشست اور گفتگو کے دوران ان کی صحت کے بارے میں حسب ِ سابق مطمئن تھا کہ صحت کا یہ نشیب و فراز انسانی زندگی کا حصہ ہے۔
افسوس کہ مورخہ 29 اگست بروز اتوار موبائل فون پر اقبال حسین قریشی کی رحلت کی خبر نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
اے ہوس! خوں رو کہ ہے یہ زندگی بے اعتبار
ان کے دور افتادہ گائوں، موضع سوہیاں میں تاحدِّ نگاہ موٹر سائیکلوں، کاروں اور دیگر سواریوں کی آمد مسلسل جاری تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے پورا ضلع گوجرانوالہ ہی امنڈ آیا ہو۔
شام پانچ بجے میاں مقصود احمد سابق امیر جماعت اسلامی پنجاب نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور موضع سوہیاں کے جنوب میں گائوں سے متصل قبرستان میں مرحوم کو سپردِ خاک کردیا گیا۔ اقبال حسین قریشی ہزاروں من مٹی کے نیچے محوِ خواب ہیں، لیکن مجھے ان کی موت کا یقین نہیں آتا۔ بقول شاعر:
تمہاری خوبیاں زندہ، تمہاری نیکیاں باقی
اور بقول پنجابی شاعر وارث شاہ (وفات 1773ء)
وارثؔ شاہ! اوہ سدا ای جیوندے نی! جنہاں کیتیاں نیک کمائیاں نی
(اے وارث شاہ! اپنی ساری زندگی نیکی اور اعمالِ صالحہ کے لیے جدوجہد میں وقف کردینے والے مرتے نہیں ہیں بلکہ وہ ہمیشہ ہی زندہ رہتے ہیں، انہیں حیاتِ دوام کا شرف حاصل ہوجاتا ہے)
(ترجمہ)’’اے نفس مطمئن، چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تُو (اپنے انجامِ نیک سے) خوش (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ شامل ہوجا میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہوجا میری جنت میں۔‘‘ (سورۃ الفجر، آیت نمبر27 تا 30)