افغانستان کی سرزمین پر سامراجی حکومتوں نے شکست کھائی ہے اور یہی تاریخ کا حیرت انگیز فیصلہ ہے کہ جس سپر پاور نے اس کی سرزمین پر قبضہ کیا تو پھر چند سالوں کے بعد اس کو اسی سرزمین پر افغانوں کے ہاتھوں شکست ہوئی اور اس کا بھرم کھل کر رہ گیا۔ تاریخ کے حوالے سے میرا تجزیہ یہ ہے کہ افغانستان میں جب سپرپاور نے قبضہ کیا تو کچھ عرصہ کے بعد افغانستان کے لوگ اٹھے اور اس سپر پاور سے متصادم ہوگئے اور اسے بالآخر شکست سے دوچار کیا اور یہ بھی تاریخ کا حیرت انگیز فیصلہ ہے کہ جس نے بھی شکست کھائی اس کی سپر پاور کی حیثیت کو نقصان پہنچا اور بالآخر وہ اپنی قوت قاہرہ سے محروم ہوگیا اور تاریخ میں اس کے بکھرنے کا عمل شروع ہوگیا، اس کے بعد ہم نے سوویت یونین کو افغانستان میں جارحیت کا مرتکب پایا جس دن سوویت یونین نے افغانستان کی سرزمین پر جارحیت کی اور قبضہ کرلیا تو میری رائے اور تجزیہ تھا کہ سوویت یونین شکست کھائے گا اور اس کے بعد اس کے بکھرنے کا عمل شروع ہوجائے گا اور ہم سب نے یہ منظر دیکھا، مسلم ریاستیں آزاد ہوگئیں اور ماسکو میں لینن کے مجسمے کو توڑا اور گھسیٹا گیا اور اس پر لوگ تھوکتے رہے۔ 1917 کا انقلاب افغانستان میں شکست کھانے کے بعد معدوم ہوگیا، نہ سووویت یونین رہی نہ کمیونزم کا نظام رہا وہ دوبارہ 1917ء کے دور سے قبل میں لوٹ گیا اور روس بن گیا۔ یہ افغانستان میں شکست کے نتائج تھے جس کو تاریخ نے محفوظ کرلیا۔ یہ تاریخ کا عجیب اتفاق ہے کہ جب مجاہدین نے سوویت یوین کو شکست دی تو مجاہدین اقتدار میں آتے ہی تقسیم ہوگئے، پس پردہ اس کھیل میں نواز شریف کی حکومت اور آئی ایس آئی نے ایک منصوبہ کے تحت اقتدار مجاہدین کے اس حصہ کو نہیں دیا جو افغانستان میں اکثریت رکھتے تھے یعنی افغانوں کی بجائے تاجکوں اور ازبکوں کے حوالے کیا نتیجہ ہم سب نے دیکھا اس کے بعد مجاہدین کی حکومت ختم کرکے طالبان کے حوالے کیا گیا پھر طالبان کو ختم کرکے امریکہ، مغرب اور پاکستان نے مل کر حامد کرزئی اور اس کے بعد اشرف غنی کے حوالے کردیا، یہ امریکہ کا آخری مہرہ تھا جس کو استعمال کیا گیا اور پاکستان کو مجبور کیا گیا کہ اس کو تسلیم کرے اور سب نے امریکہ کے آگے سجدہ کرلیا طالبان نے امریکہ کے اس کھیل کو تسلیم نہیں کیا اور ایک طویل جنگ امریکہ اور نیٹو کے خلاف لڑی اور بالآخر طالبان نے دوبارہ اقتدار حاصل کرلیا اور امریکہ سمیت نیٹو کی فوجی قوت قاہرہ کو اس کی تمام فولادی قوت کو شکست فاش سے دوچار کیا۔
میرا تجزیہ ہے کہ افغانستان میں جس بھی سپر پاور نے شکست کھائی ہے تاریخ میں اس کے بکھرنے کا عمل ضرور ہوا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ تاریخ کے کس مرحلہ پر امریکہ اپنے اس انجام سے دوچار ہوتا ہے جس انجام سے برطانیہ اور سوویت یونین دوچار ہوئے تھے مجھے یقین ہے کہ امریکہ اپنے اس منطقی انجام سے ضرور دوچار ہوگا۔ تاریخ کب یہ فیصلہ کرتی ہے ہمیں اس کے لیے مستقبل میں دیکھنا ہوگا خود مسلم ایمپائر اس مرحلہ سے گزری ہے۔ ایران، ترکی اس مرحلہ سے گزرا ہے، شاید تاریخ اس کو ابھارتی ہے پھر اس کو زوال سے دوچار کرتی ہے۔ ماضی کی تاریخ ان تمام مناظر کو محفوظ کرچکی ہے۔
یہ تجزیہ افغانستان میں طالبان کی تاریخی کامیابی پرکررہا ہوں۔ امریکہ نے طالبان کے ہاتھوں بدترین شکست کھائی ہے، اس حوالے سے طالبان واحد فاتح بن کر نکلے ہیں۔
افغانستان کی سرزمین پر افغان عوام کے ساتھ دوسری قومیں بھی موجود ہے۔
یوں طالبان دوبارہ افغانستان پر قابض ہوگئے۔ عمران خان اور جنرل سمیت دیگر ممالک نے طالبان کو مشورہ دیا کہ ایک مخلوط حکومت قائم کریں یہ بھی تاریخ کا حیرت انگیز باب ہے کہ جب طالبان کابل میں داخل ہورہے تھے اور کابل اس کے قدموں میں ڈھیر ہورہا تھا تو اس دن شمالی اتحاد کے قائدین اسلام آباد میں قائدین کے ہمراہ داخل ہورہے تھے اور اپنا حصہ اقتدار میں مانگ رہے تھے حالانکہ شمالی اتحاد 20 سال سے اقتدار کے مزے لوٹ رہا تھا تو یہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ ان قائدین کو طالبان اپنے ساتھ حکومت میں شامل کرتے ہیں۔ اس مرحلہ پر ایران کے انقلابی قائد اور امام خمینی کے جانشین کا ایک بیان اخبارات میں شائع ہوا ہے اور صدر ایران نے بھی طالبان کو مشورہ دیا ہے کہ میری رائے میں ان کا مشورہ افغانستان کے مستقبل کو صحیح سمت میں گامزن کرے گا۔
افغانستان کے طالبان کے سامنے تین راستے ہیں ایک راستہ روس کے کمیونسٹ انقلاب کا ہے، دوسرا راستہ چین کے ماوزے تنگ کا ہے چونکہ وہاں کمیونسٹ پارٹیاں تھیں اس لیے کامیاب انقلاب کے بعد اقتدار ان کے ہاتھوںمیں آگیا اور حکومت بنالی، دونوں ممالک میں کمیونسٹ پارٹیاں تھیں اس لیے اس حکومت میں تمام قوموں کی نمائندگی ہوگئی اور اس کے علاوہ ایران کے انقلاب کا جدید راستہ ہمارے سامنے ہے، ایران میں اکثریت ایرانی قوم کے عقائد کے حوالے سے اہل تشیع ہیں اس لیے اکثریت حکومت اس عقیدہ کے حوالے سے ہے اور امام خمینی نے اپنی زندگی میں بہت ہی حیرت انگیز تجربہ کیا، میرے اس تجزیہ کا مقصد ہی یہ ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب کے اس تجربہ سے فائدہ اٹھایا جائے اور یہ تجریہ دنیا کو مجبور کردے گا کہ افغانستان کو تسلیم کرے اور اس کی مشکلات بھی ختم ہوجائیں گی۔
اقتدار صرف طالبان کے ہاتھ میںرہے تو طالبان کے لیے بہت زیادہ مشکلات آسکتی ہیں، جدید مغربی دنیا جمہوریت کو قبول کرتی ہے، اس لیے طالبان کو ا س طرف جانا ہوگا حالانکہ مغرب عرب ممالک میں بدترین شخصی آمریت کو قبول کرتا ہے یہ اس کی تاریخی منافقت ہے۔ طالبان ایران کے راستے پر چل کر ایک عبوری حکومت قائم کرنا ہوگی۔
امام خمینی نے ایران میں آتے ہی اپنی حکومت کا اعلان کردیا کچھ ایسا ہی طالبان نے کیا، لیکن امام نے بڑی ذہانت سے ایران کے شاہی دستور کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور قوم سے ووٹ کے ذریعے اسلامی دستور کا حق ریفرنڈم کے ذریعے حاصل کیا۔
طالبان اس راستہ کو اختیار کرسکتے ہیں۔ افغانستان کے موجودہ دستور میں جو ترامیم طالبان چاہتے ہیں، اس کو افغان عوام کے سامنے رکھتے اور ریفرنڈم کے ذریعہ تبدیلی لے آتے، پھر اس دستور کے تحت افغانستان میں لوئی جرگہ شکیل دیتے اور ایوان بالا کے انتخابات کراتے۔ اس انتخاب کے ذریعہ وہ قومیں جو حکومت میں اپنا حصہ چاہتی ہیں ان کو حاصل ہوجائے گا، یہ ایک عام انتخابات کے ذریعے حاصل ہوجائے گا اور افغان قوم کے علاوہ تاجک، ازبک، ہزارہ اور دیگر قومیت کو ایوان میں نمائندگی حاصل ہوجائے گی اور طالبان ان منتخب نمائندوں پر مشتمل ایک عبوری اسلامی افغانستان کی حکومت تشکیل دے دیں گے۔
آیئے ہم اس پہلو سے افغانستان میں مختلف قوموں کا تجزیہ کرتے ہیں جو انتخاب کے ذریعے ایوان میں آجائیں گی اور لوئی جرگہ میں بھی نئے انتخابات کے ذریعے نمائندگی حاصل ہوجائے گی۔ آج کے افغانستان میں ان قوموں کا تناسب محدود ہے، افغانستان لسانی حوالے سے یہ منظر پیش کرتا ہے یوں افغانستان کثیر القومی اور کثیر اللسانی ملک ہے۔
اس کے مشرق میں پشتوں ، جنوب مشرق میں بلوچ، وسط میں ہزارہ، شمال اور مغرب میں تاجک اور پھر کئی علاقوں میں ازبک، ایمک عرب ترکمن اور دیگر اقوام رہتی ہیں، موجودہ افغانستان میں قوموں کے تناسب سے پشتون48 سے 50فیصد کے ساتھ افغانستان کی سب سے بڑی نسلی اکائی بنتی ہے، اس کے علاوہ 30 سے 35 فیصد آبادی تاجک ہے ان کی زبان فارسی ہے اور وہ پشتو ہی بولتے ہیں جس طرح افغان قوم پشتو بولتی ہے اس طرح افغان فارسی زبان بولتے ہیں، امان اللہ خان کے دور سے ایک طویل عرصہ تک افغانستان کی سرکاری زبان فارسی تھی، سردار دائود کے دور میں پشتو کو سرکاری زبان کو پشتوں کا درجہ دیا گیا مگر فارسی ہی سرکاری زبان تھی۔ تاجک قوم شمال افغانستان، کابل شہر اور مغرب میں ہرات کی اکثر آبادی ایرانی نسل، فارسی زبان بولنے والوں کی ہے، اس کے علاوہ 8 سے 10فیصد ہزارہ شیعہ آبادی ہے، شیعہ عوام بھی فارسی زبان بولتی ہے، ہزارہ زبان کچھ کچھ فارسی زبان سے مختلف ہے۔ ہزارہ قوم وسط افغانستان کے صوبوں غور، غزنی اور بامیان کے اکثر لوگ ہزارہ ہیں۔ صوبہ بلخ میں بھی ہزارہ آباد ہیں۔ افغانستان کے حکمران عبدالرحمن نے ان ہزارہ علاقوں میں پشتونوں کو بھی آباد کیا تاکہ ان کا زور ٹوٹے۔ امیر عبدالرحمن کے دور حکومت میں ہزارہ پر فوج کشی کی گئی اور سینکڑوں ہزارہ قتل کیے گئے، اس دوران کوئی 50 ہزارہ ایران چلے گئے تھے اور کچھ موجودہ پاکستان کے حصہ کوئٹہ صوبہ بلوچستان آگئے تھے۔
جنرل موسیٰ کا تعلق ہزارہ قبیلہ سے تھا اور وہ ایوب خان کے بعد قوم کے کمانڈر انچیف بنے تھے ان کے چھوٹے بھائی سردار اسحاق صوبائی اسمبلی کے ممبر تھے اور ان کا تعلق مسلم لیگ کنونشن سے تھا۔ ہزارہ قبیلہ کو ایوب خان کے دور میں ایک آرڈیننس کے ذریعہ پاکستانی قومیت دی گئی۔ یہ بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے کبھی اس کا ذکر کروں گا۔ شمال میں ازبکستان اور ترکمانستان کی سرحد سے ملحق صوبوں فاریاب، جوزحان، بادغیس اور سربیل میں ازبکوں اور ترکمانوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ ترکمن 3 فیصد ہیں اس کے علاوہ بلوچ قبائل اور خانہ بدوش ایمک کل آبادی کا 2 فیصد اور 4 فیصد ہے، اس کے علاوہ افغانستان کے پہاڑوں میں آباد عرب بھی موجود ہیں، اب یہ افغانستان میں ضم ہوگئے ہیں۔اب یہ فارسی بان ہوگئے ہیں، ان کی تعداد 4 فیصد ہوگئی اس طبقے میں پشی، پامیری، نورستائی، اسماعیلی اور گوجر موجود ہیں۔
اس کے علاوہ پشتوں شہری ہیں پشتو زبان بولنے میں ان کی تعداد 5 فیصد، یہ پشوں آبادی کے 50فیصد کا حصہ ہے مگر کابل میں رہنے کی وجہ سے یہ تقریباً تین صدیوں سے فارسی زبان بولتے ہیں،یہ نسلی طور پر پشتون ہیں یہ افغانستان کے اولین زبان فارسی سے 50 فیصد سے زیادہ ان کی تعداد ہے یوں فارسی زبان رابطہ کی زبان بن گئی ہے۔
افغانستان کے اکثر لوگ فارسی کو دری زبان کہتے ہیں۔ ایران کی فارسی زبان پہلوی کہلاتی ہے اور افغانستان کی فارسی زبان دری کہلاتی ہے، علامہ اقبال کا کلام دری فارسی میں ہے۔ اس لئے کہ برصغیر کے حکمرانوں کی زبان دری فارسی ہی تھی۔
میرے اس تجزیہ کا مقصد یہ ہے کہ موجودہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو اس راستے کو اختیار کرنا چاہئے جو ایران نے کیا اگر طالبان اس راہ کو منتخب کرلیں تو لسانی مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔
اس فارمولے کے تحت جو قومی اسمبلی چلے گی وہ تعداد میں ہوگی۔
50 فیصد پشتوں ارکان منتخب ہوں گے، 30 سے 35فیصد ارکان تاجک ہوں گے اور اس فارمولے کے تحت ہزارہ 8 سے 10 فیصد ہوں گے۔ ازبک، ترکمن یہ افغانستان کی کل آبادی کا 7 فیصد ہوں گے، ترکمن کی تعداد 3فیصد ہوگی اور قبائل کی تعداد 2 سے 3فیصد ہوگی۔ یوں ایک ایسی پارلیمنٹ وجود میں آجائے گی جو افغانستان کی مستقل آبادی کی حقیقی نمائندہ ہوگی اور عام طبقوں کی ترجمان ہوگی۔میرے نزدیک اس کا یہ حل سب سے موزوں ہے اور عام طبقوں کی نمائندگی بھی ہوجائے گی۔