بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم) کے 17نومبر2021ء کے جلسے کی تیاریاں بہت دن پہلے شروع ہوچکی تھیں۔ تحریک میں شامل مسلم لیگ نواز کی مرکزی قیادت مریم نواز یا میاں شہبازشریف کی آمد کی توقع کی جارہی تھی جو شریک نہ ہوئے۔ میاں شہبازشریف اُس روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مصروف تھے ۔ مریم نواز شریک ہوتیں تو اس بڑے اجتماع کو مزید چار چاند لگ جاتے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان16نومبر کو کوئٹہ پہنچ گئے تھے ۔ انہوں نے شام کو رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالواسع کی رہائش گاہ پر میڈیا سے گفتگو کی، جہاں پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی اور دوسرے رہنما موجود تھے۔ محمود خان اچکزئی پی ڈی ایم کے انتہائی فعال رہنما ہیں، چنانچہ 17نومبر کو صبح سے ہی بھرپور ماحول بنارہا۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے کارکن ایوب اسٹیڈیم میں جمع ہوتے رہے۔ شہر کی شاہراہوں پر رنگ برنگی جھنڈیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ ایوب اسٹیڈیم سے ریلی برآمد ہوئی۔ میر جعفر خان جمالی روڈ، زرغون روڈ، جناح روڈ سے ہوتے ہوئے کارکن واپس زرغون روڈ پر عبدالستار ایدھی چوک پہنچے۔ یہ مقام جلسے کے لیے مختص تھا۔ قائدین کے لیے اسٹیج بنایا گیا تھا۔ بلوچستان میں پی ڈی ایم واضح طاقت کی حامل ہے، اس میں جمعیت علمائے اسلام، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی شامل ہیں، البتہ بڑی افرادی قوت اس اتحاد کوجمعیت علمائے اسلام اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی سے ملی ہے۔ بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل اس جلسے میں شریک نہ تھے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اس دن کے احتجاج کی قیادت کی۔ گویا جس روز شہر کوئٹہ میں وفاقی حکومت کے خلاف سیاسی کارکن اُمنڈ آئے تھے، عین اُس دن پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی منعقد ہوا تھا۔ پیش ازیں طلب کیا جانے والا مشترکہ اجلاس نہ ہوسکا تھا۔ شاید حکمران اتحاد کو بلز منظور نہ ہونے کا خدشہ تھا۔ یوں اُس روز پورے اعتماد اور تیاری کے ساتھ اجلاس طلب کیا گیا۔ ادھر پی ڈی ایم کے کارکن حکومت کی مخالفت میں نعرہ زن تھے، رہنما گرج برس رہے تھے، عین اُن لمحوں میں حکمران اتحاد نے متحدہ حزبِ اختلاف کو مات دیتے ہوئے انتخابی اصلاحات اور بھارتی جاسوس کلبھوش یادیو کو اپیل کے حق سمیت 33بل اکثریتِ رائے سے منظور کرائے۔ حزبِ اختلاف کے کئی ارکان پارلیمنٹ کے اس اہم اجلاس میں شریک نہ ہوئے۔ سردار اختر مینگل بھی غیر حاضر تھے۔ ویسے مارچ 2018ء میں بلوچستان میں مسلم لیگ نواز، نیشنل پارٹی اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے خلاف دیدہ و نادیدہ لوگوں کی سازش میں سردار اختر مینگل بڑے فعال تھے، وہ اپنی مصروفیات ترک کرکے کوئٹہ میں ہی رہے، اور حکومت گراکر سکون سے چلے گئے۔
17نومبر کی پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان نے بھی جام کی حکومت گرانے کی یہ توجیہہ پیش کی کہ ’’بلوچستان کی مخصوص صورت ِحال کے پیش نظر حکومت کی تبدیلی میں ساتھ دیا‘‘۔ مطلب یہ ہوا کہ اُن کے نزدیک کہیں اداروں کی مداخلت جائز اور کہیں ناجائز ہے۔ ظاہر ہے مارچ 2018ء میں صوبے کے اندر مسلم لیگ نواز، پشتون خوا میپ اور نیشنل پارٹی کی حکومت کے خلاف سازش و کردار ذرا بھی پوشیدہ نہ تھا، اور جمعیت علمائے اسلام، اے این پی، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور پیپلز پارٹی نے اس کھیل کا حصہ بن کر حکومت کا دھڑن تختہ کردیا۔ صوبے کی تین جماعتیں حزبِ اختلاف میں ہوتے ہوئے بالواسطہ مقتدرہ کی حکومت کا حصہ بنیں۔ بعینہٖ یہ کھیل جے یوآئی اور بی این پی نے جام کمال کے خلاف کھیلا۔ اب کی بار اضافہ پشتون خوا میپ کا ہوا ہے۔ اصول اور جمہوری اقدار روندی گئیں، صوبے پر عبدالقدوس بزنجو مسلط کیے گئے، اور اسی بی اے پی کے تمام سینیٹرز اور اراکینِ قومی اسمبلی نے پوری تابعداری کے ساتھ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شریک ہوکر متحدہ حزبِ اختلاف کو شکست سے دوچار کیا۔ ظاہر ہے کہ ان تضادات کے ساتھ تحریکیں کیسے کامیاب ہوں گی!
یہاںتحریک کے لیے موسم دیکھے جاتے ہیں۔ گرمیوں اور دھند کے موسم میں بیانات، پریس کانفرنسوں اور تقاریر کے ذریعے تحاریک چلائی جاتی ہیں، اور انتظار بہار کے موسم کا رہتا ہے۔ حالات اور موسم راست تحریکات کے آڑے نہیں (باقی صفحہ 41پر)
آیا کرتے۔ تحریک لبیک پاکستان کی تازہ مثال سامنے ہے جس کے کارکن موسم کے سرد و گرم سے بے نیاز سڑکوں پر ڈیرے ڈالے ہوئے تھے، اور اطمینان بخش مذاکرات کے نتیجے میں احتجاج ختم کیا۔ 18نومبر کو پارٹی قائد سعد رضوی کوٹ لکھپت جیل سے رہا کردیے گئے، نیز سیکڑوں کارکن بھی رہا ہوگئے۔ چار سو سے زائد کارکنوں و رہنمائوں کے نام فورتھ شیڈول سے نکال دیے گئے۔ یقیناً پُرتشدد احتجاج کی حمایت نہیں کی جاسکتی، اور اس دوران پیش آنے والے واقعات پر دل رنجیدہ ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پی ڈی ایم بشمول پیپلز پارٹی تضادات و مفادات سے نکلیں گی تو شاید مقصد و ہدف حاصل ہو۔ اور یہ کہاں کا سچ و دیانت ہے کہ جمہوری شائستگی اور سیاست میں عدم مداخلت کے نعرے لگانے والے بلوچستان کو بد سے بدتر میں دھکیل دیں، اور وفاق میں ہنوز سیاست میں اداروں کی عدم مداخلت، آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے خوش کن یا پُرفریب نعرے بلند کریں! اہلِ سیاست کے تضادات اور اقتدار کی رسّاکشی نے ملک میں مارشل لائوں کے لیے راستہ صاف کیا ہے، بلکہ کئی سیاسی جماعتیں براہِ راست و عملاً آمریتوں کی سہولت کار رہی ہیں۔ بلوچستان ان ہی رویوں اور تضادات کی وجہ سے پستی و ذلت میں دھنسا ہوا ہے۔ دراصل موجودہ حکمران ٹولہ سیاسی جماعتوں اور سیاسی بڑوں کے شخصی و گروہی مناقشات کی بدولت ہی صوبے پر مسلط ہے۔