مدافعتی ٹیکوں کے باوجود کورونا کی لہر جاری ہے

گزشتہ سال کے اختتام پر کورونا کے مدافعتی ٹیکوں کی تیاری کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ گویا یہ عذاب جلد ہی قصہِ پارینہ بن جائے گا۔ ان ٹیکوں کی دنیا بھر میں تقسیم پر اربوں ڈالرخرچ کیے گئے۔ امریکہ نے ایک ارب ٹیکے دنیا کے غریب ملکوں کو مفت فراہم کیے۔ چند ماہ پہلے بچوں کی جدرین کاری (Vaccination) مہم شروع ہوئی۔ امریکی دواساز اداروں مرک(Merck) اور فائزر کے علاوہ چین نے کورونا کے علاج کے لیے دوا تیار کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے، لیکن یہ نامراد وائرس اہلِ ایمان کی طرح اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے، اِدھر نکلے کی عملی تفسیر بنا ہوا ہے۔ ہر کچھ عرصے بعد یہ نت نئی قسموں یاVariantکی شکل میٓں نمودار ہورہا ہے۔ کسی ایک جگہ اس کا زور ٹوٹتا ہے تو یہ موذی کہیں اور سر اٹھا لیتا ہے۔
ابھی چند ہی دن پہلے امریکہ نے چین اور بھارت سمیت بہت سارے ممالک کے شہریوں پر سے سفری پابندیاں ہٹانے کا اعلان کیا ہے۔ قصرِ مرمریں (وہائٹ ہائوس) کے اعلان میں کہا گیا ہے کہ کورونا کے نتیجے میں جو سفری پابندیاں لگائی گئی تھیں، انھیں مرحلہ وار ہٹایا جارہا ہے۔ اس حکم کے تحت ایسے غیر ملکی جو جدرین کاری کی مصدقہ دستاویز فراہم کردیں انھیں امریکہ میں خوش آمدید کہا جائے گا۔ تاہم جہازراں ادارے امریکہ آنے والی پروازوں پر صرف انھی مسافروں کو بیٹھنے کی اجازت دیں گے جو مصدقہ دستاویز سے یہ ثابت کردیں کہ انھیں آخری حفاظتی ٹیکہ آغازِ سفر سے کم از کم دو ہفتے قبل لگ چکا ہے۔ اس کے علاوہ تمام مسافروں کوکورونا کے منفی ٹیسٹ کا ثبوت بھی فراہم کرنا ہوگا۔ حکم میں 18 سال سے کم عمر بچوں اور کچھ طبی مسائل کے حامل افراد کو لازمی جدرین کاری سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔تاہم ایسے ممالک جہاں جدرین کاری کی قومی شرح دس فیصد سے کم ہے اُن ملکوں کے شہریوں پر سفری پابندیاں برقرار رہیں گی، جن میں نائیجیریا، مصر، الجزائر، برما، عراق، لیبیا، یمن وغیرہ شامل ہیں۔
امریکہ کی جانب سے سفری پابندیوں میں نرمی کی خبر ابھی نشر ہی ہوئی تھی کہ مغربی یورپ میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہوگئیں اور گزشتہ ہفتے آسٹریا نے ملک گیر لاک ڈائون کا اعلان کردیا۔ کچھ ایسی ہی خبریں جرمنی اور فرانس سے بھی آرہی ہیں۔ سوئیڈن اور ناروے کے حالات پہلے ہی مشکوک ہیں۔ آسٹریا کے چانسلر الیگزینڈر شلنبرگ نے اعلان کیا کہ ”ہم کورونا کی پانچویں، چھٹی اور ساتویں لہر نہیں چاہتے“۔ آسٹرین رہنما کا کہنا تھا کہ ان کا ملک موسم سرما میں لاک ڈائون اور لازمی جدرین کاری کی ”اذیت“ برداشت کرکے اپنے موسم گرما کو حسین و خوشگوار بنانا چاہتا ہے۔
اب تک یہ خوفناک وائرس دنیا بھر میں 52 لاکھ کے قریب انسانی جانوں کو نگل چکا ہے، جن میں امریکہ پہلے نمبر پر ہے جہاں 8 لاکھ کے قریب افراد اپنی جان سے گئے۔ 6 لاکھ 12 ہزار اموات کے ساتھ برازیل بدنصیب ممالک کی اس فہرست میں دوسرے نمبر ہے، جبکہ ہندوستان میں 4 لاکھ 65 ہزار قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، اور اس موذی نے 2لاکھ 64 ہزار روسیوں کو موت کی نیند سلایا۔ اگر مسلم اکثریتی ممالک کا جائزہ لیا جائے تو ایران میں ایک لاکھ 29 ہزار، انڈونیشیا میں 143739اور ترکی میں 75 ہزار افراد اس موذی سے لڑتے ہوئے زندگی کی بازی ہارگئے۔
انسانی معاشرے کو اس قیامت خیر ہلاکت سے جو معاشرتی و سماجی نقصان پہنچا ہے اس کا اب تک اندازہ نہیں لگایا جاسکا، تاہم امریکہ میں معالجینِ اطفال کے جریدے Pediatric Journal of Medicine کے ایک جائزے کے مطابق اس موذی وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں نے امریکی یتیموں کی تعداد میں 15 فیصد کا اضافہ کردیا ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس مطالعے میں اُن بچوں کو بھی یتیم شمار کیا گیا ہے جن کے سرپرست یعنی دادا، نانا، چچا، بڑے بھائی وغیرہ اس مرض سے ہلاک ہوئے۔ امریکہ میں ہزاروں گھرانے ایسے ہیں جہاں ماں اور باپ کی شفقت سے محروم بچے دوسرے سرپرستوں کے زیرسایہ پرورش پارہے ہیں۔ سہارے سے محروم ہونے والے ان بچوں میں سے نصف کے قریب سیاہ فام اور ہسپانوی ہیں۔ امریکی آبادی میں سیاہ فاموں اور ہسپانویوں کا تناسب بالترتیب 14.2 اور 19.5فیصد ہے، یعنی آبادی کے لحاظ سے تو رنگ دار امریکی ایک تہائی ہیں لیکن کورونا سے متاثرین میں ان کا تناسب 50 فیصد سے زیادہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نسلی مساوات اور سماجی انصاف کے بلند و بانگ دعووں کے باوجود امریکی اقلیتیں ضروری طبی سہولتوں سے محروم ہیں۔
یہ تجزیہ سطحی نہیں بلکہ اس کی تصدیق ٹرمپ انتظامیہ کے سرجن جنرل جیروم آدم، امریکی صدر کے سامنے کرچکے ہیں۔ گزشتہ سال کورونا وائرس کی ایک بریفنگ میں جناب آدم نے کہا کہ ”کورونا سے بچائو کے لیے ماہرین بار بار ہاتھ دھونے کی ہدایت کررہے ہیں، جو یقیناً ایک صائب مشورہ ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاہ فام آبادیوں کے تیس فیصد گھروں میں running water کی سہولت ہی موجود نہیں۔ سرجن جنرل صاحب نے یہ بات قومی ٹیلی ویژن پر کہی جب اسٹیج پر سابق صدر ٹرمپ، ان کے نائب مائیک پینس اور کورونا ٹاسک فورس کے روحِ رواں ڈاکٹر فائوچی بھی موجود تھے، اور کسی نے سرجن جنرل کے انکشاف سے اختلاف نہیں کیا۔
امریکہ کے اس ذکر کے بعد ہم یورپ کی طرف واپس آتے ہیں۔ نفسیات کے علما، طبی ماہرین اور سماجی رہنمائوں کا خیال ہے کہ کورونا پر مکمل قابو نہ پانے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک لوگوں کا حفاظتی اقدامات پر عدم اعتماد ہے۔ یورپ اور امریکہ سمیت دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کا خیال ہے کہ کورونا کے حفاظتی ٹیکے اور احتیاط کے باب میں ماہرین کی سفارشات جامع تحقیق اور ریسرچ کے بجائے مبہم مفروضات بلکہ اندھیرے میں چلائےہوئے تیر سے زیادہ کچھ نہیں۔ بار بار کے لاک ڈائون اور پابندیوں کے غیر محدود دورانیے سے لوگ بیزار ہوگئے ہیں۔
ان پابندیوں کی بنا پر دنیا بھر کی معیشتیں شدید دبائو میں ہیں۔ کئی چھوٹے کاروباری کنگال ہوگئے۔ ہزاروں چائے خانوں، ریستورانوں، آرائش گیسو اور مراکز افزائشِ حسن، میکدوں اور رقص گاہوں پر تالے پڑگئے۔ احتیاطی تدابیر نے دنیا کی مصروف ترین بندرگاہوں کو ویران کردیا جس کی وجہ سے فراہی کی عالمی زنجیر یا Supply Chain درہم برہم ہوچکی ہے اور عین موسمِ میلادِ مسیح علیہ السلام یا کرسمس میں دکانوں کے شیلف خالی پڑے ہیں۔ مغربی دنیا میں نومبر کے وسط سے خریداری عروج پر ہوتی ہے لیکن اِس بار لوگوں کو اپنے پیاروں کے لیے تحائف خریدنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ قلت کی وجہ سے مطلوبہ اشیاء دستیاب نہیں، اور اگر مل جائیں تو قیمتیں آسمان پر۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کورونا سے بچائو کے ہونکے میں بے سمجھے بوجھے جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں، حالیہ مصیبت اسی کا نتیجہ ہے۔ ان پابندیوں اور قواعد و ضوابط کے خلاف ہالینڈ، آسٹریا، اٹلی، شمالی آئرلینڈ، کروشیا، فرانس، سوئٹزرلینڈ اور یورپ کے دوسرے شہروں میں زبردست احتجاج ہورہا ہے۔ کئی جگہ مظاہرین سخت مشتعل ہیں۔ ہالینڈ کے شہروں ہیگ اور روٹرڈیم میں مظاہرہ کرنے والے نوجوانوں نے پولیس پر شدید پتھرائو کیا، دکانوں اور دفتروں پر آتش گیر مادہ پھینکا گیا۔ پولیس اور مظاہرین کی جھڑپوں میں دونوں طرف کے درجنوں افراد زخمی ہیں اور سیکڑوں مظاہرین جیل کی ہوا کھا رہے ہیں۔ ہالینڈ کے کئی شہروں میں کھیل کے دوران ”تن دوری“ کی پابندیوں کو نظرانداز کرکے سیکڑوں تماشائی میدان میں گھس گئے جہاں پولیس سے تصادم ہوا۔ اس موقع پر پولیس نے کم عمر بچوں سمیت 51 مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔
آسٹریا میں پیر (22 نومبر) سے نافذ ہونے والے لاک ڈاؤن کے خلاف سارے ملک میں زبردست مظاہرے ہورہے ہیں۔ بعض یورپی حکومتیں اپنے اقدامات کو اخلاقی و آئینی جواز دینے کے لیے ریفرنڈم کروا رہی ہیں۔ ایسے ہی ایک ریفرنڈم کے خلاف سوئٹزر لینڈ میں طلبہ سڑکوں پر نکل آئے، ان کا کہنا تھا کہ شہری آزادیوں کو سلب کرنے والے قانون کے لیے ریفرنڈم روحِ جمہوریت کے خلاف ہے۔
اٹلی میں حکومت نے کسرت کدوں (Gyms)، کھیل کے میدانوں، سنیما، ریستوران، دفاتر، پبلک ٹرانسپورٹ اور عوامی مقامات پر جانے والوں کے لیے منفی کورونا ٹیسٹ اور ویکسین دستاویز پر مشتمل ”گرین پاس“ رکھنا لازم کردیا ہے۔ اس ضابطے کے خلاف روم میں زبردست مظاہرہ ہوا اور لوگوں نے اطالوی وزیراعظم کے پتلے پر جوتے برسائے۔ مظاہرین نے احتجاجاً اپنے ماسک بھی جلا ڈالے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تن دوری کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے فلک شگاف نعرے لگاتے رہے کہ ”ہماری طرح کے لوگ کبھی ہار نہیں مانتے“۔
شمالی آئرلینڈ میں ویکسین پاسپورٹس کے خلاف شدید احتجاج ہورہا ہے۔ مشتعل فرانسیسیوں نے اطالوی نوعیت کے کورونا وائرس ہیلتھ پاس اور لازمی جدرین کاری کو شہری آزادیوں پر حملہ قرار دیا۔ اس قانون کے خلاف سارس ملک احتجاج کی لپیٹ میں ہے۔ اور تو اور مرنجاں مرنج جاپانیوں نے بھی کورونا کی حفاظتی پابندیوں کے خلاف احتجاج شروع کردیا ہے۔ عوامی بے چینی ہی کا نتیجہ تھا کہ چھے ہفتے پہلے وزیراعظم یوشی ہیدے سوگا کو استعفیٰ دینا پڑا۔
آسٹریا میں کورونا کی جدرین کاری لازمی قرار دیے جانے کے باوجود اب تک صرف 66 فیصد عوام نے دونوں ٹیکے لگوائے ہیں۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ تفصیلی تحقیق اور آزمائش کے بغیر محض دواساز کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے عوام کو سوئی بھونکی جارہی ہے۔ دوسری طرف حکومت پُرعزم ہے کہ ٹیکہ نہ لگوانے والے 12 سال اور اس سے زیادہ عمر کے افراد کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگادی جائے گی۔ بارہ سال سے چھوٹے بچوں کے لیے پولیو کے انداز میں کورونا سے حفاظت کے قطرے پلانے کی ایک آزمائشی مہم کا آغاز کیا جارہاہے۔
دوسری جانب ویکسین کے خلاف سوشل میڈیا پر شکوک و شبہات کا سیلاب امڈ آیا ہے۔ مختلف جائزوں کا حوالہ دے کر ”ثابت“ کیا جارہا ہے کہ کورونا ویکسین نہ صرف غیر موثر بلکہ انتہائی خطرناک ہے۔ دلچسپ بات کہ کورونا کے ساتھ کئی دہائیوں سے استعمال ہونے والے حفاظتی ٹیکوں کے بارے میں بھی منفی تاثر پھیلایا جارہا ہے۔ جیسے زکام (فلو)کی ویکسین سے بانجھ پن کا خدشہ ہے، یا خسرہ سے بچائو کے ٹیکے یادداشت میں کمی کا سبب بن سکتے ہیں۔
اسی کے ساتھ امریکہ میں جعلی ویکسین کارڈ کی فروخت ایک نفع بخش دھندا بن گیا ہے۔ بہت سی جامعات نے کلاس میں شرکت کے لیے جدرین کاری کے صداقت نامے یاVaccination Certificateکو لازم قرار دے دیا ہے، چنانچہ ٹیکوں کے مخالف طلبہ، اساتذہ اور غیر تدریسی عملے میں ان صداقت ناموں کی بڑی مانگ ہے۔ یہ سلسلہ شروع تو ہوا تھا اُن قدامت پسند مسیحی، یہودی اور کچھ قدیم امریکی باشندوں کے لیے جن کے یہاں جسم میں سوئی چبھونا گناہ ہے، لیکن اب انٹرنیٹ پر جعلی ویکسین کارڈ کی فراہمی ایک صنعت بن چکی ہے۔ یہ کارڈ 25 سے 200 ڈالر میں فروخت ہورہے ہیں۔ یہاں استعمال ہونے والی دوسری مصنوعات کی طرح اب میڈ اِن چائنا ویکسین کارڈ کی درآمد بھی شروع ہوگئی ہے۔ امریکہ میں ویکسی نیشن کارڈ جاری کرنے کا اختیار صرف امراض کی روک تھام اور احتیاط کے مرکز CDC کو ہے، اور ان جعلی دستاویزات پر CDCکی مہر اتنی صفائی سے لگائی جارہی ہے کہ کسی کو ذرہ برابر شک نہیں ہوتا۔
جعلی ویکسین کا کاروبار اب اس قدر عروج پر ہے کہ امریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (FBI) اور امریکی وزارتِ صحت (HHS) نے ایک مشترکہ بیان میں عوام کو متنبہ کیا ہے کہ CDCیا کسی بھی وفاقی ادارے کی جعلی مہر یا اس کا لوگو (Logo) بنانا اور چھاپنا سنگین جرم ہے جس پر پانچ برس تک کی قید ہوسکتی ہے۔ جعل سازی کا یہ کاروبار یورپ میں بھی زوروں پر ہے اور وہاں ہیلتھ پاسپورٹ 400 یورو میں فروخت ہورہے ہیں۔
کورونا سے متعلق پابندیوں پر سیاست کا رنگ بھی خاصا گہرا ہے۔ امریکہ کی وہ تمام ریاستیں جہاں سابق صدر ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی برسرِ اقتدار ہے، وہاں ماسک، تن دوری اور جدرین کاری کو لازمی نہیں قرار دیا گیا۔ کم ازکم 13 ریاستوں کی سرکاری جامعات کو کلاس میں شرکت کے لیے منفی کورونا ٹیسٹ اور حفاظتی ٹیکوں کی شرط عائد کرنے کی اجازت نہیں۔ ریپبلکن قیادت کا خیال ہے کہ اس قسم کی پابندیاں انفرادی حقوق اور شہری آزادی محدود کردینے کے مترادف ہیں۔
پے در پے لاک ڈائون نے یورپی عوام میں مایوسی اور جھنجھلاہٹ پیدا کردی ہے۔ تفریح اور ہلّے گُلّے کے عادی نوجوان دوسال سے گھروں میں بند ہیں۔ پابندی اٹھنے کے کچھ ہی عرصے بعد نئی قدغنیں عائد کردی جاتی ہیں جو اب ناقابلِ برداشت ہوتی جارہی ہیں۔ ماسک، تن دوری اور جدرین کاری کے خلاف ابھرتی ہوئی ناگواری اسی نئے رجحان کو ظاہرکرتی ہے۔