ایک صاحب بتاتے ہیں کہ مجھے مالی مشکلات کا سامنا تھا۔ کسی نے میرا اس طرح ساتھ دیا کہ میرا اعتماد بھی مجروح نہ ہونے دیا اور احترام بھی ملحوظِ خاطر رکھا۔ اس کے مقابلے میں ایک بھائی نے اوٹ پٹانگ سوالات کے ذریعے میری دیانت داری کو مشکوک قرار دیا۔ اس سے مجھے جو تکلیف ہوئی، اسے میں بیان نہیں کرسکتا۔ اس شخص نے میری مدد تو کی، لیکن اس انداز میں کہ میں اپنی نظروں میں خود کو گھٹیا محسوس کرنے لگا۔ اس کی زبان اور رویّے سے یہ پیغام ملتا تھا کہ وہ مجھے حقیر سمجھ رہا ہے۔ اگر مجھے رقم کی اشد ضرورت نہ ہوتی تو میں اس سے کبھی نہ کہتا: جب میں کسی سے کوئی بات پوچھتا ہوں تو کسی کے جواب کا انداز اور لب و لہجہ صاف صاف یہ کہہ رہا ہوتا ہے ’’میں تمہیں غبی اور بے وقوف سمجھتا ہوں‘‘۔
اُسے غالباً اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ وہ میرا کس قدر دل دُکھا رہا ہے۔ اس کے برعکس مجھے ایسے پائے کے اسکالر ملتے ہیں جو میرے سادہ سے سوال کے باوجود اتنی توجہ سے جواب دیتے ہیں کہ میں اپنی نظروں میں خود کو بہت اہم اور قیمتی انسان سمجھنے لگتا ہوں۔ مجھے حال ہی میں ایک پرانے مہربان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ انہوں نے فرمایا ’’مجھے یاد ہے کہ تم کس قدر احساسِ کمتری میں مبتلا تھے۔ یہ تمہاری خوش قسمتی ہے کہ تمہاری مجھ سے ملاقات ہوگئی۔ تم آج جو ہو، وہ میں نے تمہیں بنایا ہے‘‘۔ انہیں اس بات سے دلچسپی لگتی تھی کہ وہ مجھے ذلیل کرکے خود کو اپنی نظروں میں برتر محسوس کریں۔
آپ جس کی مدد کریں، اُس کے لیے دل میں احترام کے گہرے جذبات رکھیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو آپ کو اپنی زندگی کے مشن کی تکمیل میں مدد دیتے ہیں۔ اس لیے آپ کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ منہ سے کوئی ایسا لفظ نہ نکالیں، نہ اس طرح کا رویہ اختیار کریں جس سے ان کی انا مجروح ہو، یا اس میں آپ کی برتری یا بالاتری جھلکتی ہو، نہ دوسروں کو یہ احساس ہونے دیں کہ آپ ان پر احسان چڑھا رہے ہیں۔ یہ اپنی نیکی پر پانی پھیرنے والا طرزعمل ہے، اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔
(ماہنامہ چشم بیدار۔ جنوری 2019ء)