کسی انسان کے غم کا اندازہ اُس کے ظرف سے لگایا جاتا ہے۔ کم ظرف آدمی دوسروں کو خوش دیکھ کر ہی غم زدہ ہوجاتا ہے۔ وہ یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ لوگ خوش رہیں۔ وہ ان کی خوشیوں کر برباد کرنے پر تل جاتا ہے۔ اس کی خوشی یہ ہے کہ لوگ خوشی سے محروم ہوجائیں۔ وہ اپنے لیے جنت کو وقف سمجھتا ہے اور دوسروں کو دوزخ سے ڈراتا ہے۔ ایک بخیل انسان نہ خوش رہ سکتا ہے، نہ خوش کرسکتا ہے۔ سخی سدا بہار رہتا ہے ۔ سخی ضروری نہیں کہ امیر ہی ہو۔ ایک غریب آدمی بھی سخی ہوسکتا ہے، اگر وہ دوسروں کے مال کی تمنا چھوڑ دے۔ اسی طرح جن لوگوں کا ایمان ہے کہ اللہ کا رحم اُس کے غضب سے وسیع ہے وہ کبھی مغموم نہیں ہوتے۔ وہ جانتے ہیں کہ غربت کدے میں پلنے والا غم اس کے فضل سے ایک دن چراغِ مسرت بن کر دلوں کے اندھیرے دور کرسکتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ پیغمبر بھی تکالیف سے گزارے گئے۔ لیکن پیغمبر کا غم امت کی فلاح کے لیے ہے۔ غم سزا نہیں، غم انعام بھی ہے۔ یوسفؑ کنویں میں گرائے گئے۔ ان پر الزام لگا، انہیں قید خانے سے گزرنا پڑا، لیکن ان کے تقرب اور ان کے حسن میں کمی نہ ہوئی ۔ ان کا بیان احسن القصص ہے۔ دراصل قریب کردینے والا غم دور کردینے والی خوشیوں سے بدرجہا بہتر ہے۔ منزل نصیب ہوجائے تو سفر کی صعوبتیں کامیابی کا حصہ کہلائیں گی، اور اگر انجام محرومیِ منزل ہے تو راستے کے جشن ناعاقبت اندیشی کے سوا کیا ہوسکتے ہیں! انسان اگر باشعور ہوجائے تو وہ پہچان لیتا ہے کہ ایک غم اور دوسرے غم میں کوئی فرق نہیں۔ کل کے آنسو اور آج کے آنسو ایک جیسے ہیں۔ باشعور انسان غور کرتا ہے کہ کوئی خوشی، زندگی کے چراغ کو فنا کی آندھی سے نہیں بچا سکتی۔ زندگی کا انجام اگر موت ہی ہے تو غم کیا اور خوشی کیا! کچھ لوگ غصے کو غم سمجھتے ہیں۔ وہ زندگی بھر ناراض رہتے ہیں، کبھی دوسروں پر، کبھی اپنے آپ پر۔ انہیں ماضی کا غم ہوتا ہے، حال کا غم ہوتا ہے اور مستقبل کی تاریکیوں کا غم… یہ غم آشنا لوگ دراصل کم آشنا ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ گزرے ہوئے زمانے کا غم دل میں رکھنے والا کبھی آنے والی خوشی کا استقبال کرنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا۔ ان کا غم امر بیل کی طر ح ان کی زندگی کو ویران کردیتا ہے۔ یہ غم غم نہیں، یہ غصہ ہے یا نفرت ہے۔ غم تو دعوتِ مژگاں ساتھ لاتا ہے اور چشمِ نم آلود ہی چشمِ بینا بنائی جاتی ہے۔ غم کمزور فطرتوں کا راکب ہے اور طاقتور انسان کا مرکب۔
یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کچھ لوگ افسوس اور حسرت کو غم سمجھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ افسوس کوتاہیِ عمل کا نام ہے، غلط روی کے احساس کا نام ہے۔ افسوس سے نکلنے کا راستہ ’’توبہ اور معافی‘‘ کا راستہ ہے۔ حسرت، ناتمام آرزو کا نام ہے۔ یہ ایک الگ مقام ہے۔ آرزو اور استعداد کے فرق سے حسرت پیدا ہوتی ہے۔ آرزو جب استعداد سے بڑھ جائے، تو حسرت شروع ہوجاتی ہے۔ باعزم انسان حسرت سے محفوظ رہتے ہیں۔ انسان اپنی پسند کو حاصل کرلے، یا اپنے حاصل کو پسند کرلے، تو حسرت نہیں رہتی۔
بہتر انسان وہی ہے جو دوسروں کے غم میں شامل ہوکر اسے کم کرے اور دوسروں کی خوشی میں شریک ہوکر اس میں اضافہ کرے۔ اپنی صلاحیتوں کو محروم لوگوں کی خدمت کے لیے وقف کرنے والاغم سے نڈھال نہیں ہوسکتا۔ اگر یہ بات مان لی جائے کہ غم شخصیت ساز ہے اور غم اسی کی عطا ہے جس نے خوشی دی تھی، تو انسان کی زندگی آسان سی ہوجاتی ہے۔ اندیشوں کو بھی غم نہیں کہنا چاہیے۔ اندیشہ آنے والے زمانے سے ہوتا ہے۔ اگر حال پر نظر رکھی جائے تو مستقبل کے اندیشے کم ہوجاتے ہیں۔ اندیشہ ایک ’’ناسمجھی‘‘ کا نام ہے۔ اندیشہ امید سے ٹلتا ہے۔ امید، رحمت پر ایمان سے حاصل ہوتی۔ اور رحمت خالق کا عمل ہے، بلکہ خالق کا دعویٰ ہے کہ اس کی رحمت اس کے غضب سے وسیع ہے۔ وہ خالق جو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت اللعالمین بناکر بھیجتا ہے، مخلوق پر غضب نہیں کرتا۔ لہٰذا ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ خالق کی طرف سے مخلوق پر ظلم کا اندیشہ محض وسوسہ ہے۔ خالق نے ہدایت بھیجی، پیغمبر بھیجے، سلامتی کے پیغامات بھیجے، رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائیں، مبارک صحیفے اور مقدس کتابیں نازل فرمائیں، اور سب سے بڑی بات اپنی رحمتوں کو رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں مجتمع فرماکر مخلوق کے لیے آسرا بناکر بھیجا۔ سرکش و باغی انسان ہی اندیشوں میں مبتلا ہوکر غم زدہ اور افسردہ رہتا ہے۔ جو لوگ اپنے نفس کے شر اور ظلم سے بچ گئے، وہ غم سے بچ گئے۔ ان کے لیے بشارت ہے، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شاداب و سرسبز جنت کی۔ اندیشہ دوری ہے اور امید خواہشِ تقرب ہے۔ جس انسان نے استقامت اختیار کی، حقیقت کی راہ میں وہ مایوس نہیں کیا جاتا۔
(’’دل دریا سمندر‘‘… واصف علی واصفؔ)
مجلس اقبال
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
مرا عشق، میری نظر بخش دے
یہ شعر امت کے نوجوانوں کے لیے خصوصی دعا بیان کرتا ہے کہ ’’اے اللہ، جس درد سے میرے قلب و جگر کو تُو نے بھر دیا ہے، یہ جذبہ، شوق اور حرارت ان نوجوانوں کے سینوں میں بھی بھردے، عشق کی جس تپش سے مجھے نوازا ہے اور میری نگاہوں میں جو ایمانی بصیرت بھری ہے، ان نوجوانوں کو بھی منتقل کردے۔ امت کے یہ نوجوان ہی تو ہماری امیدوں کا مرکز ہیں، اس لیے انھیں جذبوں اور فکر و عمل کی دولت سے مالا مال فرمادے‘‘۔