نماز باجماعت کی اہمیت:
نماز [گویا] دن میں پانچ وقت بگل بجاتی ہے تاکہ اللہ کے سپاہی اس کو سن کر ہر طرف سے دوڑے چلے آئیں اور ثابت کریں کہ وہ اللہ کے احکام کو ماننے کے لیے مستعد ہیں۔ جو مسلمان اس بگل کو سن کر بھی بیٹھا رہتا ہے اور اپنی جگہ سے نہیں ہلتا، وہ دراصل یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ یا تو فرض کو پہچانتا ہی نہیں، یا اگر پہچانتا ہے تو وہ اتنا نالائق اور ناکارہ ہے کہ خدا کی فوج میں رہنے کے قابل نہیں۔
اسی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لوگ اذان کی آواز سن کر اپنے گھروں سے نہیں نکلتے، میرا جی چاہتا ہے کہ جاکر ان کے گھروں میں آگ لگادوں۔ اور یہی وجہ ہے کہ حدیث میں نماز کو کفر اور اسلام کے درمیان وجہِ تمیز قرار دیا گیا ہے۔ عہدِ رسالتؐ اور عہدِ صحابہؓ میں کوئی ایسا شخص مسلمان ہی نہ سمجھا جاتا تھا جو نماز کے لیے جماعت میں حاضر نہ ہوتا ہو۔ حتیٰ کہ منافقین بھی جنھیں اس امرکی ضرورت ہوتی تھی کہ ان کو مسلمان سمجھا جائے، اس امر پر مجبور ہوتے تھے کہ نماز باجماعت میں شریک ہوں۔ چنانچہ قرآن میں جس چیز پر منافقین کو ملامت کی گئی ہے، وہ یہ نہیں ہے کہ وہ نماز نہیں پڑھتے، بلکہ یہ ہے کہ بادلِ نخواستہ نہایت بددلی کے ساتھ نماز کے لیے اٹھتے ہیں: جب یہ نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اٹھتے ہیں۔ (النساء 142-4)
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں کسی ایسے شخص کے مسلمان سمجھے جانے کی گنجائش نہیں ہے جو نماز نہ پڑھتا ہو۔ اس لیے کہ اسلام محض ایک اعتقادی چیز نہیں ہے، بلکہ عملی چیز ہے، اور عملی چیز بھی ایسی کہ زندگی میں ہر وقت، ہر لمحے ایک مسلمان کو اسلام پر عمل کرنے اور کفر و فسق سے لڑنے کی ضرورت ہے۔ ایسی زبردست عملی زندگی کے لیے لازم ہے کہ مسلمان خدا کے احکام کو بجا لانے کے لیے ہر وقت مستعد ہو۔ جو شخص اس قسم کی مستعدی نہیں رکھتا وہ اسلام کے لیے قطعاً ناکارہ ہے۔ اسی لیے دن میں پانچ وقت نماز فرض کی گئی تاکہ جو لوگ مسلمان ہونے کے مدعی ہیں ان کا بار بار امتحان لیا جاتا رہے، کہ وہ فی الواقع مسلمان ہیں یا نہیں، اور فی الواقع اس عملی زندگی میں خدا کے احکام بجا لانے کے لیے مستعد ہیں یا نہیں۔ اگر وہ خدائی پیریڈ کا بگل سن کر جنبش نہیں کرتے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ اسلام کی عملی زندگی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس کے بعد ان کا خداکو ماننا اور رسولؐ کو ماننا محض بے معنی ہے۔ اسی بنا پر قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ: بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے، مگر فرماں بردار بندوں کے لیے مشکل نہیںہے۔ (البقرہ: 45-2)
یعنی جو لوگ خدا کی اطاعت و بندگی کے لیے تیار نہیں ہیں صرف انہی پر نماز گراں گزرتی ہے، اور جس پر نماز گراں گزرے وہ خود اس بات کا ثبوت پیش کرتا ہے کہ وہ خدا کی بندگی و اطاعت کے لیے تیار نہیں ہے۔
(خطبات۔ ستمبر 2003ء۔ ص 142۔144)
نماز کے بارے میں شرعی حکم یہی ہے کہ جہاں تک اذان کی آواز پہنچتی ہو وہاں کے لوگوں کو مسجد میں حاضر ہونا چاہیے۔ اِلاّ یہ کہ کوئی عذرِ شرعی مانع ہو۔ عذرِ شرعی یہ ہے کہ آدمی بیمار ہو، یا اسے کوئی خطرہ لاحق ہو، یا کوئی ایسی چیز مانع ہو جس کا شریعت میں اعتبارکیا گیا ہو۔ بارش اور کیچڑ، پانی ایسے ہی موانع میں سے ہیں۔ چنانچہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ اس حالت میں اذان کے ساتھ الَا صلوفی رحالکم کی آواز لگا دیتے تھے تاکہ لوگ اذان سن کر اپنی اپنی جگہ ہی نماز پڑھ لیں۔
(رسائل ومسائل، چہارم۔ اپریل 1981ء، ص 343۔349)
حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب نماز کھڑی ہو تو اس کی طرف سکون و وقار کے ساتھ چل کر آئو۔ بھاگتے ہوئے نہ آئو۔ پھر جتنی نماز بھی مل جائے، اس میں شامل ہوجائو اور جتنی چھوٹ جائے اسے بعد میں پورا کرلو۔ (صحاح ستہ)
حضرت ابوقتادہ انصاریؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضورؐ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے کہ یکایک لوگوں کے بھاگ بھاگ کر چلنے کی آواز آئی۔ نماز ختم کرنے کے بعد حضورؐ نے ان لوگوں سے پوچھا: یہ کیسی آواز تھی؟ ان لوگوں نے عرض کیا: ہم نماز میں شامل ہونے کے لیے بھاگ کر آرہے تھے۔ فرمایا: ایسا نہ کرو۔ نماز کے لیے جب بھی آئو، پورے سکون کے ساتھ آئو، جتنی مل جائے اس کو امام کے ساتھ پڑھ لو، جتنی چھوٹ جائے وہ بعد میں پوری کرلو۔ (بخاری، مسلم)
(تفہیم القرآن، پنجم۔ ص 96، الجمعتہ، حاشیہ15)