شانِ صحابہ رضی اللہ عنہم

کتاب
:
شانِ صحابہ رضی اللہ عنہم
مصنف
ً:
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
مرتب
:
مولانا عبدالرحیم چترالی ؒ
صفحات
:
200 قیمت: 350 روپے
ناشر
:
ادارہ معارفِ اسلامی، منصورہ،
ملتان روڈ لاہور 54790
فون
:
042-35252475-76
042-35419520-24
ای میل
:
imislami1979@gmail.com
تقسیم کنندہ
:
مکتبہ معارف اسلامی منصورہ
ملتان روڈ لاہور 54790
فون
:
042-35252419
042-35419520-4

مولانا عبدالرحیم چترالیؒ نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریروں سے اقتباس کرکے یہ قیمتی کتاب مرتب کی تھی۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1997ء میں شائع ہوا۔ اب 2021ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن منصۂ شہود پر آیا ہے۔ ڈائریکٹر ادارۂ معارفِ اسلامی لاہور ڈاکٹر حافظ ساجد انور صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’نبی اکرمؐ کی تعلیمات ابدی ہیں۔ آپؐ کو قیامت تک کے لیے نبی کی حیثیت سے مبعوث کیا گیا۔ آپؐ کی دعوت آفاقی ہے۔ آپؐ کے لیے صالح اجتماعیت کا انتخاب من جانب اللہ کیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں:
(ترجمہ) ’’جو شخص کسی کی راہ پر چلنا چاہے تو اُسے اُن لوگوں کی پیروی کرنی چاہیے، جو فوت ہوچکے ہیں، کیونکہ زندہ فتنے سے محفوظ نہیں، اور وہ (قابلِ اتباع فوت شدہ لوگ) حضرت محمدؐ کے صحابہؓ ہیں۔ وہ امت میں سب سے افضل تھے، ان کے دل بہت نیک تھے، ان کا علم نہایت عمیق تھا، اور ان میں تکلفات بہت کم تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبیؐ کی رفاقت اور دین کی اقامت کے لیے پسند فرمایا تھا۔ پس تم ان کی فضیلت کو سمجھو اور پہچانو۔ ان کے آثار کی پیروی کرو، اور جہاں تک ہوسکے ان کی عادات اور اخلاق کو مضبوطی سے پکڑو، وہ یقیناً راہِ مستقیم پر تھے‘‘۔ (ابو محمدالحسین بن مسعود، شرح السنۃ، کتاب الایمان، باب ردالبلدع والاہوا، ج 1، 214)
اللہ تعالیٰ کو اپنے اس دین کو چونکہ رہتی دنیا تک قائم و دائم رکھنا تھا اس لیے اس کی بنیاد مضبوط درکار تھی۔ شریعتِ مطہرہ میں صحابہ کرامؓ کی حیثیت بنیاد کے پتھر کی مانند ہے، اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جتنی مضبوط عمارت درکار ہوتی ہے اُس کے لیے بنیاد بھی اتنی ہی مضبوط و مستحکم ہونی چاہیے۔ چنانچہ صحابہ کرامؓ انبیائے کرام کے بعد افضل البشر تھے۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے میرے صحابہ کو انبیا اور مرسلین کے سوا تمام جہانوں پر منتخب فرمایا ہے‘‘۔(مجمع الزوائد، 18/10)
امام بخاریؒ فرماتے ہیں:
’’مسلمانوں میں سے جو آپؐ کے ساتھ رہا ہو، یا آپؐ کو دیکھا ہو وہ صحابہ میں سے ہے‘‘۔
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے صحابی کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے ہوئے آپؐ سے ملاقات کی اور اسلام پر فوت ہوا۔
(الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، 7/1، نزہۃ النظر، ص 57)
مقام صحابہؓ، سید مودودیؒ کی نظر میں
سید مودودیؒ اپنے عہد کی عبقری شخصیت تھے۔ انہوں نے قرآن و سنت، اسلامی و مغربی تہذیب، عقائد، فقہ، اسلام کا تصورِ سیاست و ریاست، معیشت اور جہاد جیسے اہم موضوعات پر قلم اٹھایا تو اس کا حق ادا کردیا۔ سید مودودیؒ اور اقبالؒ نے مغربی استعمار کی بالادستی کے دور میں بھی دینِ کامل کا تصور دیا۔ سید مودودیؒ کا لٹریچر آج بھی چہار دانگ عالم اپنی خوش بو بکھیر رہا ہے اور مسلمانانِ عالم کے لیے حوصلے، امید اور ولولے کا بہترین پیغام دیتا ہے۔ سید مودودیؒ کے عظیم لٹریچر سے استفادہ عرب و عجم سب نے ہی کیا ہے اور ہر جگہ اس کے اثرات ہمیں نظر آتے ہیں۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی مخالفت بھی کی گئی۔ اس میں روایتی علما کا طبقہ بھی شامل تھا اور جدید پڑھے لکھے مغرب زدہ متجددین بھی تھے۔ روایتی علما کے طبقے نے دیگر اعتراضات کے ساتھ ساتھ ایک اعتراض یہ بھی کیا تھا کہ سید مودودیؒ نے صحابہ کرامؓ کی شان میں گستاخی کی ہے، اور سید مودودیؒ کی بعض عبارات پیش کرکے یہ بات باور کرانے کی کوشش بھی کی گئی۔ سید مودودیؒ پر اعتراضات کا علمی تجزیہ حضرت مولانا محمد یوسف بونیریؒ نے دو جلدوں پر محیط علمی کتاب کے ذریعے بھی کیا ہے۔ جناب ملک غلام علی، مولانا عامر عثمانی و دیگر اہلِ علم نے بھی اس حوالے سے اعتراضات کے جوابات دیئے ہیں۔
زیر نظر کتاب ’’شانِ صحابہؓ‘‘ سید مودودیؒ کی تحریروں میں صحابہ کرامؓ کے تذکرے پر مشتمل عبارتوں کا مجموعہ ہے، جسے مولانا عبدالرحیم چترالی سابق ممبر قومی اسمبلی نے مرتب کیا ہے۔ مولانا عبدالرحیم چترالی مرحوم گولدہ چترال میں ایک علمی و دینی گھرانے میں 1942ء میں پیدا ہوئے، نومبر 1996ء میں 54 سال کی عمر میں رحلت فرماگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
مولانا نے ابتدائی تعلیم اپنے چچا محمد موسیٰ خان سے حاصل کی۔ اس کے بعد صوبہ خیبرپختون خوا کی مشہور علمی درس گاہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں چند سال تعلیم حاصل کی۔ بعدازاں سوات کے ایک مقام چکسپر کی جانب علمی سفر کیا اور مولانا عنایت اللہ سے منطق اور علم المعانی کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد پنج پیر صوابی میں بھی کچھ عرصہ رہے، اور آخر میں دارالعلوم تعلیم القرآن، راجا بازار راولپنڈی میں شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان کے ادارے سے دورۂ حدیث کی تکمیل کی۔
جماعت اسلامی سے تعلق کا ذریعہ حضرت مولانا محمد یوسف بونیریؒ رہے، اور ستائیس سال کی عمر میں 1969ء میں جماعت کے متفق کا فارم پُر کیا، اور 1971ء میں جماعت اسلامی کے رکن بنے۔ 1994ء میں پشاور سے مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے اور اپنی وفات تک اس ذمہ داری کو نبھاتے رہے۔
مولانا مرحوم عملی سیاست میں بھرپور حصہ لیتے تھے۔ 1977ء اور 1985ء میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا لیکن پہلی مرتبہ 1993ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ مولانا نے کبھی مداہنت سے کام نہیں لیا، وہ ڈنکے کی چوٹ پر بات کرنے اور کھری بات کہنے کے عادی تھے۔ شجاعت اور دلیری ان کے رگ و پے میں تھی۔
مولانا کی مادری زبان چترالی تھی، مگر پشتو کے بھی بہترین مدرس اور خطیب تھے۔ اردو اور عربی پر بھی انہیں کمال کی گرفت تھی۔ ساری زندگی تعلیم و تعلم اور تبلیغ و جہاد میں گزاری۔ مولانا نے جہادِ افغانستان میں بھی شرکت کی اور مجاہد لیڈروں کے درمیان مصالحتی کردار بھی ادا کیا۔ مولانا کے کئی شاگرد بعد میں افغان جہاد کے بڑے کمانڈر بن کر ابھرے‘‘۔
مولانا عبدالرحیم چترالیؒ کے شاگرد مولانا عبدالاکبر چترالی ممبر قومی اسمبلی پاکستان اور مہتمم جامعہ عربیہ حدیقۃ العلوم، پشاور تحریر فرماتے ہیں:
’’اصحابِ رسولؐ اپنی گوناگوں صفات کے باعث تاریخِ انسانی کے وہ عظیم کردار ہیں جن پر انسانیت قیامت تک فخر کرتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور قرآنی تعلیمات نے اصحابِ رسولؐ میں اتنی مومنانہ بصیرت پیدا کردی تھی کہ جس کے عملی مظاہر نے انہیں ستاروں کی طرح منور کردیا۔ ان کے اخلاق و کردار میں ایسی دل کشی اور حسن پیدا کردیا کہ بعد کے زمانوں کے عظیم حکمرانوں، ولیوں، علما اور برگزیدہ ہستیوں نے اس سے کسبِ فیض کیا۔
صحابہ کرامؓ کی زندگیاں قرآن و سنت کی تعلیمات کا عملی نمونہ ہیں۔ قرآنی احکام کی مجسم صورت ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کا کامل نمونہ ہیں۔ ان کے کردار و اخلاقِ حسنہ کے واسطے سے صدیوں تک بنی نوع انسان اپنی زندگیوں کو سنوارتی رہی اور قیامت تک سنوارتی رہے گی۔ دنیوی زندگی کا ہر شعبہ ان کے حسین کارناموں کی کرنوں سے منور ہے۔
اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اس کے نظائر حیاتِ صحابہؓ سے ہی ملیں گے۔ قرآن و سنت پر عمل پیرا اصحابِ رسولؐ نے ہی دینِ اسلام کی وہ صورت قائم رکھی جسے اللہ تعالیٰ کے ان نیک بندوں نے اپنی زندگیوں کا حصہ بنایا اور یہی عملی تصویر تواتر کے ساتھ صدیوں تک چلتی ہوئی آج ہم تک پہنچی ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ صحابہ کرامؓ نے دینِ اسلام کو ہم تک اپنی صحیح حالت میں پہنچایا ہے۔ صحابہ کرامؓ کے کردار کی یہ حقیقت قرآن مجید کی حفاظت کرنے سے ظاہر ہوگئی ہے۔ جس طرح وحیِ الٰہی قرآن مجید کی شکل میں ہم تک پہنچی، اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی محفوظ طریقے سے اصحابِ رسولؐ ہی کی معرفت ہم تک پہنچی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجے بلند کرے۔
زیر نظر کتاب میں صحابہ کرامؓ کے انہی کارناموں کا تذکرہ ملے گا۔ یہ تذکرہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے قلم سے ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ عصرِ حاضر کے عظیم انقلابی داعی اور مفکرِ اسلام تھے۔ انہوں نے قرآن، حدیث، سیرت، سنت، فقہی احکام اور عقائد جیسے موضوعات پر سیر حاصل لٹریچر مرتب فرمایا۔ اس کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب کے مفاسد کو بھی طشت ازبام کیا، اور اس کے مقابلے کے لیے تحریکِ اسلامی برپا کی۔ سید مودودیؒ کی جملہ نگارشات سے اصحابِ رسولؐ سے متعلق مواد تلاش کرکے مولانا عبدالرحیم چترالیؒ نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے۔ اب ہمیں صحابہ کرامؓ کے متعلق سید مودودیؒ کی تمام تحریریں یکجا مل جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ مولانا عبدالرحیم چترالیؒ کی یہ کاوش قبول فرمائے‘‘۔
جناب ڈاکٹر مفکر احمد لکھتے ہیں:
’’زیر نظر کتاب دراصل سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی اُن تحریروں کا مجموعہ ہے جو ان کی شہرۂ آفاق تفسیر تفہیم القرآن اور ان کی دیگر کتب میں مختلف جگہوں پر بکھری ہوئی ہیں۔ شیخ التفسیر والحدیث، باعمل اور مجاہد عالمِ دین بلکہ استاد المجاہدین اور سابق ممبر قومی اسمبلی جناب مولانا عبدالرحیم چترالیؒ نے بڑی عرق ریزی سے سید مودودیؒ کے لٹریچر سے اسلام کے گل ہائے سرسبد کا انتخاب کیا، ان کی ترتیب و تدوین کی، ان کے عنوانات و ابواب بنائے اور اسے ایک خوب صورت جلوۂ صد رنگ کے طور پر پیش کیا۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ جہاں ایک بڑے مفسر، مصنف، مفکر اور مسلم رہنما تھے، وہاں وہ ایک بہت بڑے محقق اور مجتہد بھی تھے۔ بعض افراد نے کم علمی یا غلط فہمی کی بنیاد پر، اور بعض نے حسد و بغض کی بنا پر یا کچھ دیگر محرکات کے سبب مولانا محترم کے بارے میں صحابہ کرامؓ کے حوالے سے بے بنیاد باتوں اور افواہوں کو پھیلایا ہے اور ان پر بے سروپا اعتراضات کیے ہیں۔ اس کتاب سے یہ حقیقت واشگاف ہوجائے گی کہ سید مودودیؒ کی اصحابِ رسولؐ سے عقیدت و محبت کن بلندیوں کو چھو رہی ہے اور انہوں نے اصحابِ رسولؐ کے مقام و مرتبے اور کارناموں کو جس خوب صورت اور پُرخلوص انداز اور پیرائے میں بیان کیا ہے وہ ان کے اصحابِ رسولؐ سے والہانہ عشق و عقیدت کا غماز ہے‘‘۔
ملک غلام علی رقم طراز ہیں:
’’میں پوری دیانت داری سے یہ سمجھتا ہوں، خواہ معترضین مانیں یا نہ مانیں، مولانا محترم (سید مودودیؒ) نے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مسلمانوں کے دل و دماغ میں کتاب و سنت کی عظمت اور صحابہ کرامؓ و سلف صالحین کی سچی محبت کا نقش ثبت کیا ہے اور انہیں کتاب و سنت اور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ پر مبنی نظام کے احیا کے جذبے سے سرشار اور اس مقصد کے لیے سرگرمِ کار کیا ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی جرم نہیں ہوسکتا کہ ایسے شخص پر توہینِ صحابہؓ، مسلک اہلِ سنت سے انحراف اور رافضیت کی حمایت جیسے الزامات عائد کیے جائیں اور خلقِ خدا کو برگشتہ و گمراہ کرنے کی کوشش کی جائے‘‘۔
(’’خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا تجزیہ‘‘، ص22، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، اکتوبر 2001ء)
کتاب دو حصوں اور پانچ ابواب پر منقسم ہے:
باب اوّل: صحابہ کرامؓ کی قوت اور صداقتِ ایمانی، دوسرا باب: صحابہ کرامؓ بطور آیات اللہ، باب سوم: صحابہ کرامؓ کی امتیازی شان، باب چہارم: صحابہ کرامؓ کا دین کی خاطر مصائب جھیلنا، باب پنجم: صحابہ کرامؓ کا جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت
اپنے موبائل پر میں نے ایک متعصب فرقہ پرست مولوی کی تقریر سنی جس میں اُس نے نام لے کر حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ پر لعنت کی اور حضرت عائشہ صدیقہؓ پر جس بے حیائی سے تبرا پڑھا اس کو سن کر سخت اذیت ہوئی۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی اس کتاب میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا ایک واقعہ تحریر کیا ہے وہ ہم یہاں درج کرتے ہیں:
حضرت ابوبکرؓ پر ظلمِ عظیم
ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ دارارقم سے نکل کر مسجد حرام تشریف لے گئے۔ وہاں یکایک حضرت ابوبکرؓ نے اٹھ کر تقریر شروع کردی اور لوگوں کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف دعوت دی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اس طرح کسی نے حرم میں علی الاعلان دعوتِ اسلام دی ہو۔ مشرکین یہ تقریر سنتے ہی حضرت ابوبکرؓ پر ٹوٹ پڑے اور ان کو گرا کر پائوں سے روندا اور عتبہ بن ربیعہ نے ان کے منہ پر اتنے جوتے مارے کہ سارا منہ سوج گیا اور ناک اس میں چھپ گئی۔ یہ حال دیکھ کر ان کے قبیلے والے (بنوتیم) آگے بڑھے اور کفار سے ان کو چھڑا کر ان کے گھر لے گئے۔ انہیں اس امر میں کوئی شک نہ رہا تھا کہ یہ اب مر جائیں گے، اس لیے وہ پلٹ کر پھر مسجد میں گئے اور کہاکہ خدا کی قسم، اگر ابوبکرؓ مر گئے تو ہم عتبہ کو جیتا نہ چھوڑیں گے۔ شام تک حضرت ابوبکرؓ بے سدھ پڑے رہے۔ جب ہوش آیا تو ان کا پہلا سوال یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اس پر بنوتیم نے ان کو برا بھلا کہا، ملامت کی، اٹھ کر چلے گئے اور ان کی والدہ اُم الخیر سے کہہ گئے کہ انہیں کچھ کھلائو پلائو۔ ماں بیٹے جب تنہا رہ گئے تو حضرت ابوبکرؓ نے اپنی والدہ سے پھر سوال کیا۔ انہوں نے کہا: بخدا مجھے تمہارے دوست کا کچھ حال معلوم نہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: جاکر اُم جمیل بنتِ خطاب (یعنی فاطمہ بنتِ خطاب، حضرت عمرؓ کی بہن) سے پوچھو۔ وہ اس وقت مسلمان ہوچکی تھیں مگر انہوں نے اپنا اسلام چھپا رکھا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ کی والدہ نے جب جاکر ان سے کہا کہ ابوبکرؓ محمدؐ بن عبداللہ کا حال پوچھ رہے ہیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نہ محمدؐ بن عبداللہ کو جانتی ہوں، نہ ابوبکرؓ کو، البتہ آپ چاہیں تو میں ابوبکرؓ کے پاس چلتی ہوں۔ انہوں نے کہا ہاں، چلو۔ وہ آئیں تو حضرت ابوبکرؓ کو بدحال پڑے دیکھ کر چیخ اٹھیں کہ خدا کی قسم، جن لوگوں نے تمہارے ساتھ یہ سلوک کیا ہے، وہ کافر اور فاسق ہیں، اور میں امید رکھتی ہوں کہ اللہ ان سے تمہارا انتقام لے گا۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: ’’رسول اللہ کا کیا حال ہے؟
انہوں چپکے سے کہا: آپ کی ماں سن رہی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: ان کی فکر نہ کرو، ان سے کوئی خوف نہیں ہے۔ تب ام جمیلؓ نے کہا: حضورؐ بالکل خیریت سے ہیں۔ پوچھا: کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا: دارارقم میں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: واللہ، میں نہ کچھ کھائوں گا نہ پیوں گا جب تک ان کے پاس نہ جائوں۔ اُم جمیل نے کہا: ذرا ٹھیر جایئے۔ پھر جب شہر میں سکون ہوگیا تو وہ اور اُم الخیر اُن کو سہارا دے کر دارارقم لے گئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کا حال دیکھ کر رقت طاری ہوگئی۔ آپؐ ان پر جھکے اور ان کو چوم لیا۔ دوسرے مسلمان بھی جو وہاں موجود تھے ان پر جھکے اور ان کی حالت دیکھی۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، مجھے کوئی خاص تکلیف نہیں ہے، سوائے اُس تکلیف کے جو اس فاسق نے میرے منہ پر جوتے برسا کر پہنچائی۔ یہ میری ماں اپنے بیٹے کے ساتھ حاضر ہے۔ ان کو اللہ کی طرف دعوت دیجیے اور دعا فرمایئے کہ اللہ ان کو آگ سے بچالے۔ چنانچہ حضورؐ نے ان کے لیے دعا کی اور انہیں اللہ کی طرف دعوت دی اور وہ مسلمان ہوگئیں۔ یہ واقعہ حافظ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں حافظ ابوالحسن خیثمہ بن سلیمان الطرابلسی کی کتاب فضائل الصحابہ سے بہ تفصیل نقل کیا ہے، اور حافظ ابن حجر نے اصابہ میں اسے مختصراً اُم الخیر کے حالات میں بیان کیا ہے‘‘۔
ایسے شخص پر لعنت کرنے والے روزِ حساب اہلِ بیت کو کیا جواب دیں گے؟
کتاب سفی