ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی(تمغائے امتیاز)
راقم ستّر کی دہائی میں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں لیکچرر تھا۔ غالباً ۱۹۷۴ء میں شعبۂ تعلیم میں ایک نئے استاد تشریف لائے۔ نام تھا ملک محمد حسین (۲ جون ۱۹۴۲ء – ۲۹ اکتوبر ۲۰۲۱ء)۔ چند ہی دنوں میں اندازہ ہوگیا کہ بہت قابل اور متحرک شخصیت ہیں۔ وہ کالج کے ایک سینئر اُستاد اور ریاضی کے پروفیسر چودھری عبدالحمید صاحب کے بہت قریب تھے۔ چودھری صاحب نے ملک صاحب کو بعض ذمے داریاں سونپیں، جنھیں وہ بڑی مستعدی سے انجام دینے لگے۔ بعض اوقات کسی کام کے لیے وہ اُنھیں لاہور، لائل پور (فیصل آباد) یا سیالکوٹ بھی بھیجتے۔ بعض احباب اور رفقائے کار کی تجویز پر چودھری صاحب نے اُنھی دنوں پنجاب یونی ورسٹی کی سینیٹ کی رکنیت کے انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ملک محمد حسین صاحب الیکشن کی مہم میں بڑی استقامت کے ساتھ چودھری صاحب کے دست و بازو بنے رہے۔ اُس زمانے میں اُنھوں نے صوبے کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے کالج اساتذہ کے ووٹروں کو چودھری صاحب کے حق میں ہموار کرنے کے لیے شب و روز ایک کردیے۔ چودھری عبدالحمید صاحب بھاری اکثریت سے رکن منتخب ہوگئے۔ اگلی میقات میں چودھری صاحب نے سنڈیکیٹ کا الیکشن لڑنے کا ارادہ کیا اور ملک صاحب نے اُسی طرح اُن کا ساتھ دیا، چنانچہ وہ سنڈیکیٹ کے رکن منتخب ہوگئے۔ ملک صاحب نے اپنے ایک مضمون میں چودھری صاحب کی بے حد تعریف کی ہے۔ عبدالحمید صاحب اگست ۱۹۶۹ء میں ملک محمد حسین صاحب کو تنظیمِ اساتذۂ پاکستان میں لائے۔ اُنھوں نے تنظیم کے لیے بھی بڑی مستعدی سے کام کیا۔
۱۹۷۲ء سے ۱۹۷۴ء تک وہ امریکن یونی ورسٹی آف بیروت (AUB) میں زیرِ تعلیم رہے۔
راقم ۱۹۸۰ء میں لاہور آگیا۔ اسّی کی دہائی میں ملک صاحب بھی لاہور آگئے۔ کچھ عرصہ گورنمنٹ اسلامیہ کالج لاہور کینٹ میں پڑھایا۔ پھر پنجاب یونی ورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (I.E.R)سے منسلک ہوگئے۔ ۱۹۸۳ء میں یونیسکو ریسرچ فیلو شپ پر موناش یونی ورسٹی (میلبورن، آسٹریلیا) چلے گئے اور وہاں ایک یا دو سال گزارے۔ واپسی پر چند کرم فرماؤں کی عنایات سے اُنھوں نے آئی ای آر کو چھوڑ دیا اور واپس کالج میں آگئے۔ یہیں سے وہ ریٹائر ہوئے۔
ادارۂ آفاق کے لیے اُنھیں مختلف مضامین کی نصابی کتابیں مرتّب کرنے کا کام سونپا گیا، جسے اُنھوں نے بڑی مستعدی کے ساتھ بہت کم وقت میں مکمل کردیا۔ اُنھوں نے اُردو کی نصابی کتابیں مرتّب کرتے ہوئے راقم کو بھی اپنے ساتھ شامل کرلیا۔ کئی روز تک شب و روز اُن کے ساتھ کام کرتے ہوئے اُنھیں اور قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اُن کے اخلاص اور شگفتہ طبعی کا اندازہ ہوا۔
ایک بار چند دوستوں سے مل کر انھوں نے نصابی کتابیں تیار کرنے کا اپنا ادارہ قائم کیا۔ اس کے تحت کتابیں خود تیار کیں اور بعض دوستوں سے بھی تیار کرائیں۔ برادرم ڈاکٹر عبداللہ شاہ ہاشمی نے بتایا کہ اُنھوں نے مجھ سے بھی چوتھی جماعت سے آٹھویں جماعت تک کی اردو قواعد و انشا کی کتابیں تیار کروائیں۔ پھر اُن کی ترویج کے لیے مجھے اٹک (سابق کیمبل پور) بھیجا۔ میں اٹک اور ملحقہ علاقوں کے بہت سے اساتذہ سے ملا، اُنھیں کتابیں پیش کیں۔ ملک صاحب نے اپنے طور پر بھی، اساتذہ سے ذاتی تعلقات کے حوالے سے کتابیں پھیلائیں۔ لیکن ادارہ چل نہیں سکا۔ دوستوں نے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔ ادارہ ختم کردیا گیا۔
پھر وہ اپنے آبائی علاقے جوہر آباد، ضلع خوشاب چلے گئے اور وہاں جاکر اُنھوں نے ایک اسکول قائم کیا جسے اُنھوں نے ڈگری کالج کے درجے تک پہنچایا، اور اِسی میراث کو چھوڑ کر وہ ۲۹ اکتوبر ۲۰۲۱ء کو آخرت کے سفر پر روانہ ہوگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ہاں اکثر و بیشتر معلّمین کی معلّمی فقط کلاس روم میں لیکچر دینے تک محدود رہتی ہے۔ ملک صاحب ایک معلّم ہونے کے ساتھ ایک قلم کار بھی تھے۔ انھوں نے تعلیم (Education)کے موضوع پر بہت کچھ پڑھا، ڈگریاں بھی حاصل کیں، مگر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ لکھا بھی۔ غالباً کالج کے زمانے میں مضمون نگاری کا آغاز کیا اور رفتہ رفتہ تیزرو (go fast)ہوتے گئے۔ تنظیم اساتذہ پاکستان کے رسالے ”افکارِ معلّم“ میں مضمون نویسی رسالے کے اجرا کے ساتھ ہی شروع کردی۔ ہر دو چار ماہ کے بعد تعلیم سے متعلق کسی نہ کسی موضوع پر قلم اُٹھاتے اور بڑے رواں دواں اسلوب میں مضمون لکھ ڈالتے۔ افکارِ معلّم کے مختلف شماروں میں ان کے چند مضامین کے عنوانات دیکھیے:
۱۔ معلّم اور عملِ ابلاغ۔ جون ۱۹۸۹ء
۲۔ پاکستان میں پرائمری تعلیم: ایک تجزیہ۔ مئی ۱۹۹۰ء
۳۔تنظیمِ اساتذہ پاکستان کی تاریخی جدوجہد اور بہبودِ اساتذہ۔ جون ۱۹۹۰ء
۴۔تنظیمِ اساتذہ پاکستان : ایک نظریہ، ایک تحریک۔ ستمبر ۱۹۹۰ء
۵۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے منشور کی روشنی میں تعلیم کا مجوزہ ایکشن پلان۔ دسمبر ۱۹۹۰ء
۶۔تنظیم اساتذہ ہی کیوں؟۔مارچ ۱۹۹۱ء
۷۔ امتحان کے تقدس اور افادیت کی بحالی۔ جولائی ۱۹۹۱ء
۸۔ مجوزہ قومی تعلیمی پالیسی کا معروضی جائزہ۔ اگست ۱۹۹۱ء
۹۔ نصابِ تعلیم و تربیت برائے ابتدائی اندراج۔ اکتوبر ۱۹۹۱ء
۱۰۔ نظامِ تعلیم کی اسلامی تشکیل۔ دسمبر ۱۹۹۱ء
۱۱۔ اعلیٰ معیارِ تعلیم۔ دسمبر ۱۹۹۱ء
۱۲۔ پنجاب میں لازمی تعلیم کا نفاذ: مضمرات اور تجاویز۔ مارچ ۱۹۹۵ء
۱۳۔ سیّد مودودی کے تعلیمی نظریات۔ جنوری ۱۹۹۶ء
۱۴۔ فروغِ تعلیم کے دلچسپ منصوبے۔ فروری ۱۹۹۶ء
۱۵۔آشوبِ تعلیم۔ مئی ۱۹۹۶ء
۱۶۔ پرائمری اساتذہ کا ملازمتی ڈھانچا:چند تجاویز۔ اگست ۱۹۹۶ء
۱۷۔تعلیمی ترقی۔۔ مگر کیسے؟۔ستمبر ۱۹۹۶ء
ملک صاحب کے یہ چند مضامین ”مُشتےنمونہ از خروارے“ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ ۲۰۱۰ء تک کے افکارِ معلّم کے شمارے دیکھیں، تقریباً ہر شمارے میں یا ایک دو مہینوں کے وقفے سے، ملک صاحب کے مضامین ملیں گے۔
تقریباً دس برس قبل ڈاکٹر محمد امین صاحب نے ایک رسالہ ماہ نامہ ”برہان“ جاری کیا اور ملک محمد حسین صاحب کو نائب مدیر مقرر کیا۔ ملک صاحب برہان میں لکھنے لگے۔ وہ ہر ماہ کچھ نہ کچھ لکھتے رہے۔ یوں اُنھوں نے بیسیوں مضامین لکھے۔ تعلیم اور شعبۂ تعلیم سے ہماری حکومتوں نے جس طرح سوتیلے پن کا مظاہرہ کیا ہے، ملک صاحب نے اُسے تنقید کا نشانہ بنایا۔ تنظیمِ اساتذۂ پاکستان نے تعلیم کی اصلاحِ احوال کے لیے جو منظّم جدوجہد کی، ملک صاحب اس میں شامل رہے ہیں۔ اُنھوں نے تعلیم میں تنظیم کی عطا (Contribution) کو نمایاں اور واضح کیا۔۱۹۹۱ء میں لکھا:
”تنظیمِ اساتذہ پاکستان کے ۲۱سالوں کو دو ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ حسنِ اتفاق سے یہ دونوں دور دس دس سالوں پر مشتمل ہیں۔
پہلا دور ۱۹۶۹ء سے ۱۹۷۸ء تک تشکیلی دور کہا جا سکتا ہے۔
دوسرا دور ۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۸ء تک تعمیری دور کہا جاسکتا ہے۔
اور تیسرا دور جو ۱۹۸۹ء سے آغاز پذیر ہوا اِن شاء اللہ توسیعی دور ہوگا۔
دورِ اوّــل میں تنظیمِ اساتذہ پاکستان کئی ایک نشیب و فراز کا شکار رہی۔“ (افکارِ معلم لاہور۔ جنوری ۱۹۹۱ء۔ ص ۴۸)
پھر وہ کہتے ہیں:
”اس دور کے پکارنے والی عظیم ہستیوں کا ذکر نہ کرنا تنظیم اساتذہ کی تاریخ سے ناانصافی ہوگی۔ ڈاکٹر محمد اسلم قریشی مرحوم تنظیم کے اُن عظیم محسنوں میں سے ہیں جنھوں نے اوّلین قیادت مہیا کی۔ ان کی بے لوث کاوش اور سنجیدہ قیادت نے تنظیم اساتذہ کے ابتدائی تشکیلی دور میں اہم کردار ادا کیا۔ پروفیسر سیّد محمد سلیم جو آج ریٹائر ہوکر بھی تنظیمِ اساتذہ کی روح ہیں، تنظیم کے اوّلین محسنوں میں سے ہیں۔ تنظیم اساتذہ میں سیّد موصوف کا تنہا رول باقی تمام ارکان پر بھاری ہے۔ پروفیسر گوہر صدیقی کی خاموش قیادت اور ولولہ انگیز خطابات نے تنظیم کے تشکیلی اور تعمیری دور میں اہم کردار ادا کیا۔“ (ایضاً)
ایک مضمون میں اُنھوں نے تنظیم کی بین الاقوامی کانفرنس کا ذکر اس طرح کیا ہے: ”۱۹۷۸ء کی قومی تعلیمی کانفرنس تنظیمِ اساتذہ کے اولین دور کا عروج تھا۔ جامعہ پنجاب کا وسیع و عریض کیمپس اپنی تنگ دامانی کی شکایت کررہا تھا۔ فیصل آڈیٹوریم کی اَن گنت نشستیں نصف مندوبین کو بھی اپنے اندر نہ سما سکیں۔ غالباً ملک میں پہلی مرتبہ کسی کانفرنس میں مندوبین کو پروگرام میں شریک کرنے کے لیے کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن کا استعمال کیا گیا۔ دیر اور چترال کے بلند و بالا پہاڑوں سے لے کر کراچی کی چکاچوند انسانی بستیوں تک، اور کشمیر کے دلفریب دیہاتوں سے لے کر بلوچستان کے سنگلاخ ویرانوں تک ہرجگہ سے قوم کے معماران کے قافلے قطار اندر قطار جامعہ پنجاب میں اترے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح کے منتخب ماہرین اور محققین نے اپنی شرکت سے کانفرنس کو چار چاند لگائے۔ قومی عمائدین اور حکومتی اشراف کانفرنس میں جلوہ افروز ہوئے اور روح پرور فضا کی سعادتیں لوٹیں۔ یہ کانفرنس پاکستان میں تعلیم کی قومی تاریخ میں ایک سنگِ میل ثابت ہوئی۔ “(افکارِ معلم لاہور۔ جنوری ۱۹۹۱ء۔ ص ۵۰)
ایک اور مضمون میں ملک صاحب نے معلّم کے مقام و مرتبے اور کردار پر قلم اُٹھایا۔ کہتے ہیں: ”اصطلاحی معنوں کے لحاظ سے معلّم کی ذمہ داری بڑی نازک اور قیامت کے روز جوابدہی کے احساس کی وجہ سے بڑی کٹھن ہے۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہر مسلمان کی ذمے داری ہے۔ معلّم کے لیے یہ فرض دوگونہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس فرض کی بجا آوری کے لیے قوم معلّم کی تنخواہ کی شکل میں اس کا اجر بھی ادا کرتی ہے۔ لہٰذا معلّم کی طرف سے اس فرض کی بجا آوری میں ذرا سی کوتاہی بھی اس کی دنیا و آخرت کو تاریک بنا سکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ معلّم اپنے آپ کو ابلاغ کی بہترین صلاحیتوں سے مسلح کرے اور مؤثر ابلاغ کے راستے میں حائل تمام ذاتی، معاشرتی، فکری اور طبعی رکاوٹیں دور کرنے کی بھرپور سعی کرے۔ تبھی وہ اپنے ابنائے جنس کے سامنے اور خالقِ کائنات کے سامنے سرخرو ہوسکے گا۔ “(افکارِ معلّم لاہور۔ جون ۱۹۸۹ء، ص ۲۲-۲۳)
ملک صاحب نے اپنے اساتذہ کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے نومبر ۲۰۰۶ء میں ”میرے محبوب اساتذہ“ کے عنوان سے ایک مضمون قلم بند کیا۔ اِس میں وہ کہتے ہیں:
”استاد اگر اپنے فرائضِ منصبی محنت اور خلوص سے ادا کرے تو اُس کے طلبہ پر اُس کی شخصیت کا بڑا گہرا اثر ہوتا ہے۔ میں خود اپنے کئی اساتذہ کی عظیم شخصیتوں کا نقش اپنے ذہن میں بسائے ہوئے ہوں اور اُن اساتذہ نے میری اپنی معلّمانہ زندگی کے لیے ایک روشن اور راہ نما مینار کا کام کیا ہے۔“ (ایضاً، ص ۱۰۲)
اس زمانے میں اُنھوں نے اپنے بہت سے اساتذہ (چودھری محمد بشیر احمد، حافظ عبدالرحیم، پروفیسر قاری محمد صادق، پروفیسر نور محمد کمال، پروفیسر چودھری عبدالحمید، ملک محمد یوسف، محمد نواز بکھر، پروفیسر ملک عبدالغنی، پروفیسر عبدالعلی خان، مولانا عبدالقدوس ہاشمی، ڈاکٹر دین محمد ملک، ڈاکٹر افتخار این حسن، ڈاکٹر محمد الیاس، پروفیسر اے ایچ سیّد، پروفیسر ڈاکٹر میکلاریس، ڈاکٹر وکٹر بلے، ڈاکٹر پیٹر فینشم، پروفیسر ڈاکٹر گن سٹن (Gunstone)کی تعریف و تحسین کی ہے۔ لکھتے ہیں:
”ڈاکٹر وکٹر بلے (Victor Billeh)میرے محبوب ترین اُستاد تھے۔ اُن سے میں نے دو کورس پڑھے۔ میرے مقالے(Thesis)کے ایڈوائزر بھی وہی تھے۔ اپنے شاگردوں کے ساتھ پیار کرنے والا، اُن کی ہر ممکن مدد کرنے والا اور رات دن کے اوقات کی قید کے بغیر، شاگردوں کی راہ نمائی کے لیے ہمہ وقت مستعد رہنے والا عظیم استاد۔ میں نے مطلوبہ کورس ورک وقت سے پہلے مکمل کرلیا تھا اور تھیسس بھی تقریباً مکمل تھا لیکن ابھی میرے اسکالر شپ کے دو ماہ باقی تھے۔ میں نے کچھ go slow۔[آہستہ رو]کارویہ اختیار کیا تو ڈاکٹر بلے نے ایک دن مجھے بلا کر کہا:
Mr. Malik, I feel you have become somewhat lazy and perhaps you want to delay your stay here at AUB. I will not allow you to do this. Complete your degree immediately and go back to serve your nation. You were not sent here to enjoy but to work hard and go back to serve your nation.
آخری اطلاعات تک ڈاکٹر وکٹر بلے اردن کی یرموک یونی ورسٹی میں پڑھا رہے تھے۔ یاد رہے ڈاکٹر بلے فلسطینی عیسائی تھے اور پاکستان سے محبت کرتے تھے۔“
”۱۹۸۳ءمیں جب میں موناش یونی ورسٹی میلبورن آسٹریلیا میں یونیسکو ریسرچ فیلو شپ کررہا تھا تو وہاں فیکلٹی آف ایجوکیشن میں فیکلٹی کے ڈین ڈاکٹر پیٹر فینشم سے قریبی رابطہ رہا۔ پروفیسر ڈاکٹر گن سٹن (Gunstone) کا دفتر میرے دفتر کے ساتھ تھا۔ دونوں حضرات اپنے معلمانہ کردار اور مشفقانہ رویوں میں ہمارے ملک کے آج سے ستّر اسّی سال پہلے کے اساتذہ جیسے تھے۔ بے لوث، مخلص اور اپنے شاگردوں کی راہنمائی کے لیے ہمہ وقت تیار۔“ (ایضاً، ص ۱۰۵)
ملک صاحب نے یہاں اِس ناکارہ راقم الحروف کا بھی ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
(باقی صفحہ 00 پر)
”یہ ایک طرح کی بے انصافی ہوگی اگر میں اُن رفیق اساتذہ کا تذکرہ نہ کروں جن کے ساتھ تنظیم اساتذہ میں مجھے کام کرنے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر رفیع الدّین ہاشمی اس بات کے سب سے زیادہ مستحق ہیں کہ ان کا ذکرِ خیر کیا جائے۔ ہاشمی صاحب گورنمنٹ کالج سرگودھا میں میرے رفیق کار تھے۔ بعد میں وہ لاہور آگئے اور گورنمنٹ کالج سے ہوتے ہوئے پنجاب یونی ورسٹی کے اورینٹل کالج سے منسلک ہوکر ریٹائر ہوئے۔ ہاشمی صاحب کا زندگی بھر کا معمول رہا ہے کہ صبح سویرے اپنے ادارے میں آجاتے اور اوقاتِ کار کے آخر تک ادارے میں موجود رہتے۔ موصوف اپنے تدریسی پیریڈز کے بعد بھی اپنے دفتر میں طلبہ کے ساتھ مصروف رہتے۔ طلبہ کی راہنمائی، ان کو ذاتی لائبریری سے کتب دینے اور پھر کتب پر تبادلہ خیال ان کا معمول تھا جو اَب بھی قائم ہے۔ اِس طرح وہ بعض لائق اور اچھے طلبہ کو اپنے قریب کرنے میں کامیاب رہتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اُن کا یہ معمول قائم ہے۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ اُن کی رہائش گاہ واقع منصورہ میں پھیرے لگاتے رہتے ہیں اور علم کے اس سمندر سے اپنی اپنی بساط کے مطابق پیاس بجھاتے رہتے ہیں۔“ (ایضاً، ص ۱۰۵-۱۰۶)
اِسی مضمون کے آخر میں اُنھوں نے اپنے بعض شاگردوں اور رفقا(پروفیسر رانا اصغر علی، رانا عبدالحئی مرحوم، پروفیسر عبدالحمید ڈار، ملک سجادالرحمٰن طارق، ملک غلام شبیر، پروفیسر محمد امیر ملک، پروفیسر عبداللہ ذاکر، ڈاکٹر محمد اقبال ظفر، ڈاکٹر مشتاق الرحمٰن صدیقی، محمد انور رومان، حافظ وحید اللہ خان، پروفیسر محمد حسین سومرو، محمد حسن بلیدی، اختر علی خان، ماسٹر بسم اللہ صاحب) کا توصیفی تذکرہ کرتے ہوئے مضمون کو یوں ختم کیا ہے:
”میں نے عصرِ حاضر کے اساتذہ کی آنکھیں چندھیا دینے والی کہکشاں سے صرف چند ستاروں کا ذکر کیا ہے۔ اس کہکشاں میں ہزاروں ستارے اور چاند ہیں جن کا ذکر کیا جائے تو ایک عظیم انسائیکلو پیڈیاآف ٹیچرز ترتیب پا جائے۔“(ایضاً، ص ۱۰۸)
برادرم پروفیسر سلیم منصور خالد صاحب نے سطور بالا دیکھ کر توجہ دلائی کہ ایک نکتہ رہ گیا، اور وہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جس قدر تعلیمی پالیسیاں آتی رہی ہیں، حکومت کی طرف سے، کریکولم ونگ کی طرف سے، وزارتِ تعلیم کی طرف سے، یا ہائر ایجوکیشن کی طرف سے… ان پالیسیوں پر کسی بھی ادارے، تنظیم یا شخصیت سے پہلے وہ ڈاکیومنٹ حاصل کرکے، اس کا مطالعہ کرکے بہت گہرے طریقے سے اور بہت concise اور ٹو دی پوائنٹ hit کرتے تھے۔ خاص طور پر اسلامی، پاکستانی اور پروفیشنل بیس کو بنیاد بناکر تجزیہ کرتے تھے اور ساتھ ہی اس کے تضادات کو بہت خوبی سے واضح کرتے تھے۔ یہ خوبی پورے پاکستان میں کسی اور میں نہیں تھی۔ اس اعتبار سے ان کی رحلت تعلیم کے شعبے کےلیے بہت بڑا نقصان ہے۔ جو کام انھوں نے کیے، یہ ان کا بہت بڑا contribution ہے۔ اب آئندہ کون کرے گا؟ بہت سے پالیسی ساز ملک صاحب سے خائف بھی رہتے تھے۔قومی سطح پر ملک صاحب کی خدمات کااعتراف اگرچہ کچھ نہ کچھ ہوا،مگر خاطر خواہ طریقے سے نہیں ہوسکا۔
ایک اور پہلو یہ ہے کہ ملک صاحب نے پاکستان کے علما،ماہرینِ تعلیم اور پالیسی سازوں کو ایک دو نہیں، درجنوں مواقع پر بریف کیا اور متعین طور پر سائنٹفک طریقے سے دلیل سے،اور متن کے الفاظ کے استعمال کو بنیاد بناکر، بے شمار لوگوں کومختلف اداروں میں جاکرمثلاً جامعہ اشرفیہ ، ملی مجلس اور پنجاب یونی ورسٹی میں تعلیم کے تجزیہ کا بے پناہ کام کیا ۔