کشمیر میں فوجی طاقت کا ٹائی ٹینک

چین نے گزشتہ برس لداخ میں بھارتی فوج کی درگت کی ایک نئی تصویر جاری کی ہے، جس میں بھارتی فوجی تھکے ہارے اور مارپیٹ کے بعد ایک مقام پر کان پکڑے بیٹھے ہیں۔ غالباً پی ایل اے کے جوان انہیں پہلے کیے پر توبہ کروانے کے ساتھ ساتھ دوبارہ اس طرح کی حرکت نہ کرنے کا وعدہ لے رہے ہیں۔ بھارت اس تصویر پر خاموش ہے۔ پلٹن میدان کی تصویر کو طنز و استہزا کے طور پر استعمال کرنے والے شاید ’’ذلت‘‘ ڈرامے کے قسط وار اجرا کی صورت میں مکافاتِ عمل کا شکار ہیں۔ خدا جانے 56 انچ چھاتی کو اس قسط وار بے عزتی پروگرام سے جنبش کیوں نہیں ہوتی، اور مودی ٹارزن بن کر ایک دو سرجیکل اسٹرائیک اس جانب کیوں نہیں کرتے؟ طاقت کے سر میں تکبر کا سودا سما جائے تو پھر انجام شاید یہی ہوتا ہے۔ چین کے ساتھ مذاکرات کے 12 ادوار بے نتیجہ ختم ہوتے رہے، وجہ یہ ہے کہ چین بھارت کے نقطہ نظر کو پرِکاہ برابر اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ بھارت چین کو واپس پرانی پوزیشنوں پر لے جانا چاہتا ہے، اور چین اپنی نظریں آگے کی سمت بہت دور تک جمائے ہوئے ہے۔ لے دے کر بھارت کا سارا زور کشمیریوں پر چلتا ہے، اور وہ انہیں تختۂ مشق بنائے ہوئے ہے۔ پاکستان کا علاج کرنے کے لیے ابھی نندن کو بھیجا تھا، مگر وہ خود اپنا علاج کروانے کے بعد اور چائے کی چسکیاں لے کر واپس گیا، اور یہ تصویریں بھی مکافاتِ عمل ہیں۔
کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ فوجی جمائو کا حامل علاقہ ہے۔ دنیا میں شاید ہی اس قدر کم آبادی اور محدود رقبے کے حامل علاقے میں فوج کی اتنی بڑی تعداد مسلط ہو۔ اب بھارت نے کشمیر کے حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے پانچ ہزار پیراملٹری فورس پر مشتمل پچاس مزید کمپنیاں اتاری ہیں۔ یہ تازہ دم فوجی دستے سری نگر کے وسط میں تعینات کیے گئے ہیں۔ شہر میں مزید فوجیوں کی رہائش اور تعیناتی کے لیے کوئی خالی جگہ باقی نہیں رہی، اس لیے ان فوجیوں کو کمیونٹی سینٹر میں گنجان آباد علاقے میں رکھا گیا ہے۔ مقامی آبادی اس صورتِ حال پر شدید احتجاج کررہی ہے، ان کا کہنا ہے کہ غم اور خوشی کے مواقع پر گنجان آباد علاقے کے عوام کے لیے کمیونٹی سینٹر ہی ایک اہم سہولت ہیں مگر یہ سہولت بھی بھارت کے ملٹری بلڈ اپ کے شوق نے چھین لی۔ عمرعبداللہ نے بھی اس صورتِ حال پر طنزیہ ٹوئٹ کیا ہے کہ اپنے دور میں انہوں نے مقامی افراد کی خواہش پر کمیونٹی سینٹر تعمیر کیے تھے جنہیں اب فوجی بیرکوں میں بدل دیا گیا ہے۔ محبوبہ مفتی نے بھی اس صورتِ حال کو موضوع بناتے ہوئے کہا ہے کہ ہر مسئلے کا حل ظالمانہ قوانین کے نفاذ میں ڈھونڈ لیا گیا ہے۔ ایک طرف پانچ ہزار فوجیوں کا اضافہ، تو دوسری طرف مزید فوجی چھائونیوں کے لیے ساڑھے پانچ سو کنال اراضی فوج کو الاٹ کردی گئی ہے۔
فوجی تیاریوں کا جواز وادی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ ہے جس میں درجنوں افراد مارے گئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے حالات بدسے بدتر ہورہے ہیں۔ مقبوضہ پونچھ کے علاقے میں بھارتی فوج کئی ماہ سے ایک آپریشن میں پھنسی ہوئی ہے۔ حریت پسند ایک جنگل میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور بھارتی فوج کے 9 افراد اس آپریشن میں مارے جا چکے ہیں اور تین زخمی ہوئے۔ بھارتی فوج اس آپریشن میں ایک بھی حریت پسند کو مارنے میں کامیاب نہ ہوسکی تو بیس سال سے جیل میں قید آزاد کشمیر راولاکوٹ کے ایک نوجوان کو اس مقام پر لے جاکر گولیوں سے بھون دیا، اور یوں اپنی آتشِ انتقام کو سرد کیا۔ طاقت کی بے بسی سی بے بسی ہے۔ بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت اور آرمی چیف نروانے بھی اس مقام پر آئے، مگر معاملے پر بدستور پراسراریت کی دھند چھائی ہوئی ہے۔ تھک ہار کر بھارتی فوج نے آپریشن کی کہانی کو ہی ادھورا چھوڑ دیا۔
بھارت نے کبوتر کی طرح ریت میں سر دینے کے انداز میں اس کا ایک حل ڈھونڈ رکھا ہے، یعنی فوجی قوت میں اضافہ، نئی ایجنسیوں کو معاملے میں دخیل کرنا، اور نئے ظالمانہ قوانین لاگو کرنا۔ احتجاج اور فریاد کی ہر آواز کا جواب اسے دبانے میں تلاش کیا جاتا ہے۔ ہر آواز کو خاموش کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ گرفتار کرکے جیل میں ڈال دو، گھر میں نظربند کردو۔ ہر گھر کے باہر فوجی پہرہ بٹھاکر، گلی کے ہر نکڑ پر چوکی قائم کرکے، اور ہزاروں افراد کو جیلوں میں ٹھونس کر دنیا بھر میں پوری ڈھٹائی کے ساتھ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ کشمیر میں امن ہے، حالات مکمل کنٹرول میں ہیں۔ حقیقت میں بھارت یہ اٹکھیلیاں کشمیرکے عوام اور حالات سے نہیں کرتا بلکہ اپنے مستقبل سے بھی کرتا ہے۔کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسے فوجی قوت بڑھانے سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ فوجی قوت بڑھانے کی ایک حد ہوتی ہے، یہ حد پار ہوجائے تو طاقت کا ٹائی ٹینک ایک معمولی سے آئس برگ یعنی برفانی تودے کی مار ہوتا ہے۔ چین اور پاکستان سے بچاتے بچاتے بھارت خود کشمیر پر اتنا بوجھ ڈال چکا ہے کہ اب اس کی فوجی قوت اس دلدل میں دھنستی جارہی ہے۔ جب کسی طاقت کی ہوا اکھڑ جائے تو فوج کی بھاری تعداد کچھ نہیں کرسکتی۔ افغانستان میں نائن الیون کے بعد مغرب کا فوجی جمائو ایک طوفان سے کم نہیں تھا۔ امریکہ، نیٹو، ایساف سمیت رنگ برنگے اور دنیا کے بڑے فوجی اتحاد مزاحمت کو کچلنے کے لیے آدھمکے تھے۔ ان کے انتظامات، تیاری، دبدبہ اور نخوت سب اوسان خطا کرنے والے تھے، مگر آج بگرام ائربیس کی سرد اور اُداس شامیں طاقت کی دُرگت بننے کی داستان سنارہی ہیں۔