اردو رسم الخط

کتاب
:
اردو رسم الخط
مصنف
:
پروفیسر سید محمد سلیمؒ
صفحات
:
98 قیمت:270 روپے
ناشر
:
ڈاکٹر رئوف پاریکھ، ڈائریکٹر جنرل ادارۂ فروغِ قومی زبان، قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن، ایوانِ اردو، پطرس بخاری روڈ، ایچ 4/8، اسلام آباد، پاکستان
فون
:
051-9269760-61-62
فیکس
:
051-9269759
برقی ڈاک
:
matboaatnlpdisd@gmail.com

پروفیسر سید محمد سلیمؒ علمِ مستحضر کے مالک عظیم محقق، عالم، دانش ور اور استاد تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ پابندِ صوم و صلوٰۃ عالم دین۔ ہم انہیں زندہ جنتی سمجھتے تھے۔ انہوں نے بہت سی کتب لکھیں جن میں سے زیر بحث کتاب ’اردو رسم الخط‘ بھی ہے۔ ڈاکٹر رئوف پاریکھ تحریر فرماتے ہیں:
’’رسم الخط کسی بھی زبان کی شناخت ہوتا ہے، اور اس زبان کے تہذیبی، سماجی اور تاریخی عوامل کے زیراثر، اور اس کی لسانیاتی اور صوتیاتی ضروریات کے مطابق صدیوں میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ کسی زبان کے الفاظ کا درست اور کامل تلفظ اسی رسم الخط میں ادا ہوسکتا ہے، کسی غیر زبان کے رسم الخط میں تلفظ کی ادائی ناممکن ہی نہیں کبھی کبھی مضحکہ خیز بھی ہوجاتی ہے، جیسا کہ اردو کو رومن حروف میں لکھنے کی صورت میں اکثر ہوتا ہے۔ اسی لیے رسم الخط کسی زبان کی جان اور روح ہے، اور کسی زبان کو اس کے رسم الخط سے محروم کرنا اس کو بے روح کرنے کے مترادف ہے۔
زندہ قومیں اپنی زبان اور اس کے رسم الخط کی حفاظت کرتی ہیں۔ اردو رسم الخط کے تحفظ اور فروغ کے لیے اس کی تاریخ، نوعیت اور ماہیت کو سمجھنا ضروری ہے، اور پروفیسر سید محمد سلیم کی یہ مختصر کتاب یہ کام بہت جامع انداز میں کرتی ہے۔
پروفیسر محمد سلیم صاحب نہایت عالم فاضل انسان تھے۔ اردو کے علاوہ عربی، فارسی اور انگریزی پر دست رس رکھتے تھے۔ اسلامی تاریخ و علوم کا گہرا مطالعہ تھا، لہٰذا اردو اور عربی کے رسم الخط پر اپنے علم کا ماحصل اس کتاب میں پیش کیا ہے۔
پروفیسر سید محمد سلیم تجارہ (ریاست الور، راجستھان) میں 15 دسمبر 1923ء کو پیدا ہوئے۔ عربک کالج (دہلی) سے بی اے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے عربی میں ایم اے کیا، جہاں علامہ عبدالعزیز میمن جیسے جید عالم اُن کے اساتذہ میں شامل تھے۔ 1947ء میں ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور حیدرآباد، شکارپور، میرپورخاص، جیکب آباد اور نواب شاہ میں مختلف کالجوں میں تدریس سے وابستہ رہے۔ شاہ ولی اللہ کالج (حیدرآباد) کے پرنسپل بھی رہے۔ 27 اکتوبر 2000ء کو اسلام آباد میں انتقال کیا اور کراچی میں آسودۂ خاک ہیں۔
(یہ معلومات ماہنامہ تعمیر افکار (کراچی) کی مارچ تا مئی 2003ء کی خصوصی اشاعت (بیاد پروفیسر سید محمد سلیم) سے ماخوذ ہیں۔)
علمی، دینی، تاریخی، تدریسی موضوعات پر بڑی تعداد میں مضامین لکھے۔ کئی غیر مطبوعہ رہے۔ پچاس کے قریب کتابیں لکھیں۔ کئی کتابیں بھی غیر مطبوعہ رہیں۔ شاعری بھی کی اور تقاریر اور خطبات کے ذریعے بھی اپنا پیغام اوروں تک پہنچایا۔ ان کا ایک اہم کام تدریس و تعلیم کے موضوع پر ’افکارِ معلم‘ نامی رسالہ جاری کرنا ہے۔
پروفیسر سید محمد سلیم کی مطبوعہ کتابوں میں زیر نظر کتاب بھی شامل ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1981ء میں مقتدرہ قومی زبان سے شائع ہوا تھا، اور اس کے بعد طلبہ، اساتذہ اور محققین کے علاوہ عام قاری بھی اس کے متلاشی رہے، کیونکہ یہ علمی انداز میں اہم معلومات فراہم کرتی ہے اور بعض جامعات میں اردو زبان و لسانیات کے نصاب کا بھی حصہ ہے۔ لہٰذا اس کی تازہ اشاعت سے محققین اور عام قارئین کے ساتھ طالب علم بھی مستفید ہوں گے‘‘۔
استاد الاساتذہ ڈاکٹر غلام مصطفیٰؒ سابق صدر شعبہ اردو جامعہ سندھ کی وقیع رائے ہے:
’’محترم پروفیسر سید محمد سلیم صاحب عالمی اور اسلامی تاریخ میں بڑا درک رکھتے ہیں اور ان کے تبحر کا عالم یہ ہے کہ بہ کثرت حالات اور واقعات کی جزئیات مع سنین انہیں ازبر ہیں، جو بلاتکلف بتاتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی یہ غیر معمولی ذہانت اور فطانت بڑے بڑے اہلِ علم کے لیے باعثِ رشک ہے۔ بحمداللہ، یہ رسالہ بھی ان کی بالغ نظری اور اعلیٰ علمی بصیرت کی شہادت دیتا ہے، اور وہ ایسی معلومات پر محیط ہے جو اردو دانوں کے لیے بے حد مفید ہیں۔
آں محترم نے حروف ہجّا کی تاریخ، عربی خط اور اس کا اعرابی نظام، اعداد و مخفّفات، اردو خط پر عربی خط کے اثرات، اس کی طباعت وغیرہ کے ابواب باندھے ہیں، اور ان کا تجزیہ بڑی تفصیل سے کیا ہے۔ آخر میں اردو خط کی اصلاح کے لیے بعض تجاویز پیش کی ہیں جو قابلِ غور ہیں۔ کتاب مجموعی طور پر بہت بلندپایہ ہے اور اس کا مطالعہ دوسرے حضرات کے لیے بہت سے موضوعات کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ دعا ہے اللہ پاک مصنف کی سعی کو مشکور فرمائے اور ان کے فیوض و برکات کو جاری و ساری فرمائے، آمین‘‘۔
مصنف کتاب پروفیسر سید محمد سلیمؒ لکھتے ہیں:
’’اردو زبان کا رسم الخط درحقیقت عربی رسم الخط ہے۔ چند تبدیلیاں عمل میں لانے کے بعد عربی خط کو اردو زبان کے لیے موزوں بنالیا گیا ہے۔ عربی خط میں کچھ ایسی لچک اور وسعت پذیری موجود ہے کہ ذرا سی تبدیلیوں کے بعد یہ مختلف زبانوں کے لکھنے کے لیے جامۂ موزوں ثابت ہوتا ہے۔ اس خط کی قلمرو وسیع و عریض خطۂ ارضی ہے۔ بحر اوقیانوس سے لے کر بحرالکاہل تک مختلف مسلمان اقوام اپنی اپنی زبانیں عربی خط میں لکھتی ہیں۔
نبطیوں سے ایک سپاٹ سا خط عربوں کو ورثے میں ملا تھا۔ اسلام کی دولت سے بہرہ ور ہونے کے بعد تین چار صدیوں کے اندر انہوں نے اس خط کو ایسی ترقی دی اور ایسا عروج بخشا جو ماضی کے ڈھائی ہزار سال میں اس کو نصیب نہیں ہوا تھا۔ قلم کاروں اور فن کاروں نے اس خط میں وہ حسن اور زیبائی پیدا کردی اور وہ کلکاریاں دکھائیں کہ عربی خط کی تحریریں مصوری اور فن کا اعلیٰ مرقع قرار پائیں۔ خطِ کوفی ہو، خطِ نسخ ہو یا خطِ نستعلیق… سب کی تحریریں انتہائی دلکش اور جاذبِ نظر ہوتی ہیں۔ قدردان ان فن پاروں کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ طباعت کی قبولیت اور ہمہ گیری کے باوجود ان کی قدر و قیمت میںکمی نہیں آئی۔
اردوداں طبقے کو اس خط کے حسن و جمال کا تو کسی قدر اندازہ ہے، لیکن نہ تو وہ اس کے حسب نسب سے واقفیت رکھتا ہے اور نہ اس کی وسیع ترین قلمرو سے باخبر ہے، نہ اس کو اُن ارتقائی مراحل کا اندازہ ہے جن سے گزر کر یہ خط موجودہ مرتبے کو پہنچا ہے۔ اردو داں طبقے کو اس خط کی قدامت، وسعت اور اہمیت کی جانب توجہ دلانے کے لیے یہ رسالہ لکھا گیا ہے۔ آج کل بعض نادان دوست مشورہ دے رہے ہیںکہ اردو خط کو ترک کردیاجائے اور اس کی جگہ رومن خط اختیار کرلیا جائے۔ کتنی عظیم نعمت سے وہ قوم کو محروم کردینا چاہتے ہیں‘‘۔
جن مضامین پر یہ کتاب مشتمل ہے وہ درج ذیل ہیں:
’’عربی رسم الخط کی قدامت‘‘، ’’عربی رسم الخط کی وسعت… ایشیا میں، یورپ میں، افریقہ میں‘‘، ’’عربی خط کا تشکیلی دور‘‘، ’’عربی خط کا نظام اعراب‘‘، ’’اردو زبان عربی خط میں‘‘، ’’جُمل، ارقام، اعداد اور مخففات… جُمل، عربی ارقام، رموز برائے پیسہ وآنہ، رموز برائے اوزان، رموزِ تحریر، مخففات تحریر، اوقاف قرأت، عدد ہندسہ‘‘، ’’اردو رسم الخط کی جامعیت… اردو خط اور عربی خط، اردو خط اور فارسی خط، اردو خط اور ہندی خط (لیپی)، اردو خط اور رومن خط (انگریزی)‘‘، ’’اعتراضات‘‘، ’’اردو خط کی طباعت… قدیم طباعت، فنِ طباعت کی ترقی، عربی طباعت (عیسائیوں اور یہودیوں کی کوششیں)، عربی طباعت (مسلمانوں کی کوششیں)، طباعت ہندوستان میں، اردو طباعت‘‘، ’’چند تجاویز… اردو کا نظامِ اعراب، حروفِ صحیح، حروفِ اعرابی‘‘، ’’حروفِ تہجی کی ترتیب‘‘، ’’ماخذات‘‘
میجر آفتاب حسن صدر نشین مقتدرہ قومی زبان تحریر فرماتے ہیں:
’’ہمارا رسم الخط عربی رسم الخط ہے جو خفیف سی تبدیلیوں کے ساتھ تمام اسلامی ممالک میں رائج ہے۔ ابتدا کی سادگی نے اب حسن کاری کا روپ اختیار کرلیا ہے اور ہمارے عظیم خطاطوں نے اس فنِ لطیف کو اعلیٰ ترین مقامات تک پہنچادیا ہے۔ اس وقت تحریر کے دو مشہور طریقے ہیں: نسخ جو عربی دنیا میں رائج ہے، اور نستعلیق (جو نسخ اور تعلیق کے امتزاج سے وجود میں آیا ہے) عموماً غیر عرب ممالک میں استعمال ہوتا ہے۔ نستعلیق اپنی خوب صورتی کا جواب نہیں رکھتا اور اسلامی تہذیب نے اس کو وہی درجہ عطا کیا ہے جو مغربی ممالک میں سنگ تراشی، مجسمہ سازی اور مصوری کو حاصل ہے۔ یہ قیمتی ورثہ ہے جو ہمارے آباو اجداد سے ہم کو ملا ہے۔ اس کی حفاظت اور اس کی اصلاح و ترقی ہمارے فرائض میں داخل ہے۔
اس کتاب کی اشاعت کا فیصلہ مرحوم صدرنشیں، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے کیا تھا، لیکن افسوس ہے کہ آج جبکہ یہ کتاب شائع ہورہی ہے وہ ہم میں نہیں ہیں۔ اگر مرحوم کی حیاتِ مستعار کے چند دن اور باقی ہوتے تو وہ مقتدرہ کی اس اولین مطبوعہ کو دیکھ کر ضرور خوش ہوتے۔‘‘
کتاب سفید کاغذ پر طبع ہوئی ہے، مجلّد ہے۔