کتاب
:
مناظرِ قیامت
قرآن کی زبان میں
تالیف
:
سید قطب شہیدؒ
مترجم
:
محمد نصر اللہ خان خازن
ضخامت
:
392 صفحات قیمت:480 روپے
ناشر
:
محمد سعید اللہ صدیق
مکتبۂ تعمیر انسانیت۔ غزنی اسٹریٹ
اردو بازار، لاہور
فون
:
042-37310530-37237500
سید قطب شہید بنیادی طور پر ایک استاد اور ماہر تعلیم تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ انہی صلاحیتوں کے پیش نظر انہیں وزارتِ تعلیم میں انسپکٹر آف اسکولز کی ذمہ داری دی گئی، اور پھر حکومت نے انہیں جدید طریقۂ تعلیم کے مطالعے اور اعلیٰ تربیت کے لیے امریکہ بھیج دیا، جہاں دو سال قیام کے دوران انہوں نے جدید نظام تعلیم کے مطالعے کے ساتھ ساتھ جدید امریکی معاشرے اور وہاں کی تہذیب کی چکاچوند کے پسِ پردہ موجود تاریک حیوانی زندگی کا بھی بغور مطالعہ کیا۔ اس کے کھوکھلے پن سے ان کے دل میں اسلامی تہذیب و تمدن کی عظمت اور اس کے احیاء کی تڑپ نے جنم لیا، چنانچہ امریکہ سے وطن واپسی پر وہ اُس وقت کی اہم اور متحرک اسلامی تحریک ’’الاخوان المسلمون‘‘ میں شامل ہوگئے۔ ان کا یہ فیصلہ ان کے گہرے دینی شعور اور عظمتِ کردار کا آئینہ دار تھا، کیونکہ مصر میں شاہ فاروق اور پھر جمال عبدالناصر کے ادوارِ اقتدار میں اخوان کے کارکنوں اور قیادت کو جس ظلم و جور کا نشانہ بنایا گیا، اور یہ سلسلہ آج جنرل سیسی کی فوجی آمریت میں بھی جاری ہے، ’’اخوان المسلمون‘‘ کے دیگر رہنمائوں کی طرح سید قطب شہید کو بھی ناقابلِ بیان اذیتوں اور ابتلا و آزمائش سے گزرنا پڑا۔ قید و بند کی ان عام صعوبتوں کو سید قطب اور ان کے ساتھیوں نے نہایت جرأت و پامردی سے برداشت کیا۔ سید قطب شہید ہی نہیں، ان کے پورے خاندان چھوٹے بھائی محمد قطب، تین بہنوں اور دیگر قریبی رشتے داروں کو آزمائش کی بھٹی سے گزرنا پڑا، مگر ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی، حالانکہ دورانِ قید سید قطب کو اعلیٰ عہدوں کی پیشکش کی گئی، دس گیارہ برس کی قیدِ بامشقت کے بعد اگست 1966ء میں کسی بھی قسم کا صفائی کا موقع دیئے بغیر ایک فوجی ٹریبونل نے سید قطبؒ اور ان کے دو ساتھیوں کو جرمِ بے گناہی پر سزائے موت سنا دی۔ دنیا بھر کے انصاف پسند رہنمائوں اور ذرائع ابلاغ کے زبردست احتجاج کے باوجود 25 اگست 1966ء کو اس سزا پر عمل درآمد کردیا گیا اور عالمِ اسلام کا یہ بطلِ جلیل، سید قطب شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہو گیا ؎
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
عمر کا ایک بڑا حصہ جیل کی کال کوٹھریوں میں بسر ہونے کے باوجود سید قطب نے حیران کن علمی و تحقیقی کارنامے انجام دیئے۔ ان کی کم و بیش آٹھ بلند پایہ کتب کو ممتاز اہلِ علم نے اردو زبان میں منتقل کیا، جن میں ’’اسلام میں عدلِ اجتماعی‘‘، ’’جادہ و منزل‘‘، ’’اسلام کا روشن مستقبل‘‘، ’’تفسیر فی ظلال القرآن‘‘، ’’قرآن کا تصویری اسلوبِ بیان‘‘، ’’امنِ عالم اور اسلام‘‘، ’’جدید تہذیبی مسائل اور اسلام‘‘ اور ’’مناظر قیامت، قرآن کی زبان میں‘‘ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ عربی زبان و ادب، امریکہ کا سفرنامہ اور دو شعری مجموعے بھی ان کے علمی ترکے میں شامل ہیں۔
سید قطب شہیدؒ کی آخر الذکر کتاب کا اردو ترجمہ محمد نصر اللہ خان خازن نے ’’مناظرِ قیامت… قرآن کی زبان میں‘‘ کے نام سے کیا جو اِس وقت پیش نظر ہے۔ اسے معیاری علمی و ادبی کتب کی اشاعت کی شہرت رکھنے والے ادارے مکتبۂ تعمیر انسانیت نے نہایت اہتمام سے شائع کیا ہے۔ کتاب کا پیش لفظ اردو زبان و ادب کے گرامی قدر استاد مرحوم ڈاکٹر سید عبداللہ نے تحریر کیا تھا جس میں وہ رقم طراز ہیں:
’’سید قطب شہیدؒ کی کتاب ’مشاہد القیامت فی القرآن دراصل قرآن مجید کی روشنی میں حیات بعدالموت کے ممکن و متوقع تجربات کا تجزیہ کرتی ہے، مصنف نے عالمِ ارواح کے علوم اور ادبِ عالم میں متماثل موضوعات کے حوالے سے یہ واضح کیا ہے کہ دنیا کی ہر قوم موجودہ کائنات کے خاتمے اور مابعد الموت کے واقعات کے بارے میں اپنا ایک خاص تصور رکھتی ہے۔ ہر کسی نے اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی ہے۔ مصریوں نے، یونانیوں نے، ہندوئوں نے اور فکریاتِ جدید نے، سب نے کچھ نہ کچھ سوچا ہے۔ سید صاحب شہیدؒ نے مقابلہ کرکے یہ بتایا ہے کہ قرآن مجید نے قیامت کے احوال و مقامات کو جس طرح پیش کیا ہے وہ طبعِ انسانی، شرفِ انسانی، ذوقِ انسانی اور نفسیات جزا و سزا کے لحاظ سے اقرب الی الصواب ہے۔ اس میں اصنامی اساطیری روایتوں کے اسلوب سے مختلف (کہ ان میں محض محیرالعقول اور عسیرالفہم تصورات و تصاویر سے کام لیا گیا ہے) قرآن مجید کا تصویری اسلوب عقل و فطرتِ انسانی کے قریب ہے۔‘‘
کتاب کے ترجمے سے متعلق ان کی رائے ہے کہ ’’ایک مترجم کی سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ اسے دو کشتیوں میں سوار ہوکر دونوں زبانوں میں عمق اور تبحر حاصل کرنا پڑتا ہے، جو مترجم ان اوصاف کا حامل نہیں، وہ ترجمے کا حق ادا کر ہی نہیں سکتا۔
محمد نصر اللہ خان نے دو کشتیوں میں سوار ہوکر دونوں پر اپنی یکساں کامل گرفت کا ثبوت مہیا کیا ہے، اس سے ترجمے میں توازن اور محکمی پیدا ہوئی ہے۔ کتاب کو پڑھیے، ترجمے کا احساس ہی نہیں ہوتا، اصل کا لطف حاصل ہوتا ہے۔ روانی، بے ساختگی، ادا اور بیان میں کسی جگہ رکاوٹ، جھول اور تردد محسوس نہیں ہوتا۔ میں نے زندگی میں بہت ترجمے دیکھے اور پڑھے ہیں، ایسا معنی خیز اور مکمل ترجمہ بہت کم دیکھا ہے‘‘۔
ترجمے کے دوران جن دشوار مراحل سے مترجم کو گزرنا پڑا، کتاب کے آغاز میں اپنے نقشِ اوّل میں اس کا تذکرہ محترم مترجم نے خود ان الفاظ میں کیا ہے:
’’عربی جیسی فصیح و بلیغ اور سید قطب شہیدؒ جیسے صاحبِ طرز انشاء پرداز کی تحریر کو اردو کا جامہ پہنانا جتنا کچھ مشکل ہوسکتا ہے وہ اہلِ علم سے مخفی نہیں ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ اپنی انتہائی کوشش کے باوجود کہیں کہیں عربی زبان کی فصاحت و بلاغت میں سموئے ہوئے احساسات و جذبات کو قاری کے قلب و روح میں اتارنے کے لیے مجھے ترجمے کے بجائے ترجمانی کا رنگ بھی اختیار کرنا پڑا ہے، ورنہ میرے خیال میں ترجمے کا اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا۔ اسی طرح کتاب کو اردو خواں طبقے کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے عنوانات اور ہر سورت کے آغاز میں ایک دو تمہیدی فقروں کا اضافہ کیا گیا ہے، نیز کتاب کے شروع میں مصنف شہید ؒ کا مختصر تعارف بھی شامل کیا گیا ہے۔‘‘
ندوۃ العلماء لکھنؤ (بھارت) اور جامعہ اسلامیہ بہاولپور کے سابق رئیس الجامعہ اور اسلامی یونیورسٹی مدینہ منورہ کے سابق استاد مولانا محمد ناظم تدرسی نے اپنے مختصر دیباچے میں مترجم کی صلاحیتوں کا اعتراف درج ذیل سطور میں کیا ہے:
’’محمد نصر اللہ خان صاحب ایک کامیاب مترجم ہیں، انہیں عربی زبان پر بڑی قدرت حاصل ہے، اس کتاب کو پڑھتے وقت کہیں سے ترجمہ پن معلوم نہیں ہوتا۔ ترجمے کی زبان نہایت سلیس، شستہ، ادبی اور بلیغ ہے۔ پڑھنے والے کو اگر معلوم نہ ہو کہ یہ عربی زبان میں ایک تصنیف کا ترجمہ ہے تو اسے بالکل محسوس نہیں ہوگا کہ یہ ترجمہ ہے۔ ترجمے کا اصل کمال بھی یہی ہے۔ پھر اصل کتاب کی روح باقی ہے۔ اس کا اندازِ بیان محفوظ ہے اور اصل مصنف جو اثر قائم کرنا چاہتا ہے اور جو مقصودِ تالیف ہے، اس کی اثر پذیری میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔ وہی تاثیر، وہی بلاغت، وہی دین کی تبلیغ۔‘‘
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کتاب میں قیامت کے روز ثواب و عذاب اور اہلِ ایمان کے شکر و سپاس اور اہلِ دوزخ کی چیخ و پکار اور حیلہ سازیوں کی منظر کشی قرآن حکیم کی آیات کی روشنی میں کی گئی ہے اور کم و بیش ساڑھے تین سو مناظر زیر بحث لائے گئے۔ کتاب فکرِ آخرت پیدا کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے، ضرورت ہے کہ اس کتاب کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے تاکہ آخرت کی فراموش شدہ فکر دلوں میں تازہ ہوسکے۔ معیاری کتب کی اشاعت کی شہرت رکھنے والے ادارے مکتبۂ تعمیر انسانیت نے اسے نہایت اہتمام سے شائع کیا۔ نیا ایڈیشن، کمپیوٹر کمپوزنگ، عمدہ کاغذ اور مضبوط جلد کے ساتھ تقریباً چار صد صفحات پر محیط اس کتاب کی قیمت صرف 480 روپے رکھی گئی ہے، جو مہنگائی اور کاغذ کی گرانی کے اس دور میں مناسب ہی نہیں بلکہ مارکیٹ سے بہت کم محسوس ہوتی ہے۔ امید ہے دینی موضوعات پر اچھی کتب کے مطالعے کے شائقین خصوصاً تبلیغی مقاصد کے لیے ’مناظر قیامت… قرآن کی زبان میں‘ کو دینی حلقوں میں خاطر خواہ پذیرائی حاصل ہو گی۔‘‘