ابلاغیات کا جہنم

پتا چلا کہ پچھلا کالم پڑھ کر ایک بہت بڑے دانشور بہت تڑپے۔ تڑپ کر انھوں نے ایک ’بن دانش‘ بات بن سوچے لکھ بھیجی۔ فرمایا:
’’آپ کہاں تعقیدِ لفظی وغیرہ کے عیب میں پڑ گئے؟ ذرائع ابلاغ کا کام ابلاغ ہے، لوگوں کو زبان سکھانا نہیں۔ دیکھیے دنیا کہاں سے کہاں پہنچی جارہی ہے اور آپ نہ جانے یہ کیا بلا لوگوں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
یہ ’بلا مسلط کرنے‘ والی بات اتنے بڑے دانشور نے کہی ہے کہ یہاں ہمیں ان کا نام بتانا بھی خود اپنی ایک ’بن دانش‘ حرکت محسوس ہورہی ہے۔ خیر چلیے پہلے ’بن دانش‘ کا ایک لطیفہ سن لیجیے، باقی باتیں بعد میں۔
مشہور شاعر، بلکہ مزدور شاعر جناب احسان دانشؔ، جیسا کہ سب جانتے ہیں زبان پر سند تھے۔ محترم مختار مسعود جیسا خوش زبان بھی احسان دانشؔ صاحب سے اردو الفاظ کی سند لیتا تھا۔ پرانے قارئین کو معلوم ہوگا کہ احسان دانش صاحب پہلے ’احسان بن دانش‘ کے نام سے لکھا کرتے تھے۔ ان کے والد کا نام دانش تھا۔ شاعری بھی اسی نام سے شائع ہوتی تھی۔ حضرتِ جوشؔ ملیح آبادی نے اپنی ’یادوں کی برات‘ میں ان کا جو ذکر کیا ہے، وہ بھی ’احسان بن دانش‘ ہی کے نام سے کیا ہے۔ ایک بار لیاقت آباد (کراچی) کی ایک شعری نشست میں ان سے سوال کرلیا: ’’حضرت!آپ نے اپنا نام احسان بن دانش لکھنا کیوں چھوڑ دیا؟ یہ تو آپ کی انفرادیت تھی‘‘۔
سوال سن کر احسان صاحب مسکرائے۔ پھر انھوں نے اس کا سبب بننے والا یہ دلچسپ قصہ سنایا۔ کہنے لگے:
’’ایک مشاعرے کے بعد ایک نوجوان میرے پاس آیا۔ اُس نے میرے بعض اشعار کی ایسی عمدہ فنی تعریف کی کہ میں اُس کی سمجھ بوجھ اور قابلیت سے بہت متاثر ہوا۔ جب وہ رخصت ہونے لگا تو میں نے اُس سے پوچھا: ’’آپ کا نام کیا ہے؟‘‘ میرا سوال سن کر نوجوان مُسکرایا اور بولا: ’’نام تو میرا بھی احسان ہی ہے، لیکن میں ’بن دانش‘ نہیں ہوں‘‘۔
تو اے صاحبو! اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کہیں سے کہیں پہنچی جارہی ہے۔ مادّی پیش قدمی کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہے۔ مگر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ زبان اور تہذیب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کوئی شخص خواہ لوہار ہو، طبیب ہو، ہوا باز ہو یا سرکاری اہل کار… اُس کی زبان ہی اس کی شخصیت کے ’اندر‘ کا اظہار ہوتی ہے۔ پیشے تو بنتے اور ختم ہوتے رہتے ہیں۔ پیشہ ورانہ اعتبار سے دیکھیے تو آج سے فقط آٹھ دس برس بعد ہمارے بچے جس دنیا میں قدم رکھیں گے، وہ دنیا پیشوں کے لحاظ سے آج کی دنیا سے بہت مختلف ہوگی۔ روزگار کے نئے نئے مشاغل ہماری نئی نسل کے سامنے ہوں گے۔ ان نئے مشاغل میں وہ مہارت بھی حاصل کرچکے ہوں گے۔ موجودہ مشاغلِ روزگار میں سے کتنے ہی مشاغل ایسے ہوں گے جو کل ’ ازکار رفتہ‘ ہوجائیں گے۔ (از کا مطلب ہے ’سے‘۔ کار کا مطلب ہے ’کام‘۔ رفتہ کا مطلب ہے ’گیا‘ یا ’گئے‘۔ بامحاورہ ترجمہ اس محاورے کا یہ ہوگا کہ ’کام سے گیا‘ یا ’کام سے گئے‘۔)
ابھی وہ زمانہ بہت زیادہ دُور نہیں چلا گیا جب اخبارات و جرائد کے تمام صفحات، ان کے دفاتر میں اُکڑوں بیٹھے ہوئے کاتب تحریر کیا کرتے تھے۔ اب کسی اخبار یا کسی جریدے کے دفتر میں کاتبوں کی فوج بیٹھی ’می نویس و می نویس و می نویس‘ کرتی نظر نہیں آتی۔ لیکن کاتب صاحبان محض مادی تبدیلی کے باعث بطور پیشہ ور طبقہ ’از کار رفتہ‘ یا ناکارہ نہیں ہوگئے۔ شاید کچھ ’خطاط‘باقی رہ گئے ہوں جو اپنے موقلم سے خوش خط سرخیاں تحریر کرتے ہوں۔ مگر قلم اور دوات سے کتابت کرنے والے لوگوں نے اب اردو زبان کی خودکار کتابت سیکھ لی ہے۔ اس خودکار کتابت سے یکساں اور متوازن حروف کا جو حسن پیدا ہوا ہے، اس کے علاوہ بھی کاتب حضرات کو کئی سہولتیں مل گئی ہیں۔ اغلاط کی تصحیح آسان ہوگئی ہے۔ قلمی کتابت میں اگر کتابت کے دوران میں غلطی سے شذرات یا پَیروں کی ترتیب بدل جاتی تو بیش تر صورتوں میں، ترتیب درست کرنے کے لیے، ازسرنو کتابت کا کشٹ اُٹھانا پڑتا۔ مگر اب پورا صفحہ ایک جگہ سے اُٹھاکر دوسری جگہ چسپاں کردیجیے۔ گھنٹے بھر کاکام چند ثانیوں میں ہوجاتا ہے۔ اس جدیدیت کے باوجود ’کتابت‘ کے لیے زبان جاننا ضروری ہے۔ یہ کوئی بلا نہیں۔
مشاغلِ روزگار کے ’ازکار رفتہ‘ ہوجانے کی ایک اور مثال لے لیجیے۔ دیکھیے کہ ہماری نسل کے دیکھتے ہی دیکھتے شہروں میں لالٹین بنانے اور بیچنے والوں کا روزگار جاتا رہا۔ اب یہاں ضمناً ایک اور بات سن لیجیے۔ جو لوگ اردو میں فقط انگریزی الفاظ کی بھرمارکے لیے مرے جاتے ہیں، اُن پر اُردو کا احسان دھرنے کو بتاتے چلیں کہ اُردو کا ’لالٹین‘ انگریزی لفظ Lantern کی ’تارید‘ ہے۔ ’تارید‘ کسی غیر زبان کے لفظ کو ’اردو کا جامہ پہنا دینے‘ کو کہتے ہیں۔ انگریزی الفاظ کی ’تارید‘ کی بہت سی مثالیں ہماری زبان میں موجود ہیں، مگر ہمارے ’مجددین‘ کی تمنا تو یہ ہے کہ پوری کی پوری انگریزی Dictionay اُٹھاکر اُردو لغت میں داخل کردی جائے۔ خیر، چند ’تاریدی مثالیں‘ ہم آپ کی خدمت میں پیش کیے دیتے ہیں۔ اصل انگریزی الفاظ آپ خود تلاش کرلیجیے: لاٹ صاحب۔ میم صاحب (دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری بچیاں اپنی معلمات کے لیے آج بھی ’میم‘ استعمال کررہی ہیں)۔ بوتل، پلاس، فروری، اپریل، مئی، ستمبر، (میز کی) دراز، المونیم کا بَکَس یا بکسہ۔ سوئٹر، بُشرٹ اور پتلون وغیرہ وغیرہ۔
اب خود ’ لالٹین‘ ہی کا استعمال عام نہیں رہا، مگر یہ لفظ آج بھی نہ صرف کہانیوں اور افسانوں میں مل جاتا ہے، بلکہ قارئین و سامعین کی سمجھ میں بھی آجاتا ہے، اور اگرچہ اب لالٹین بنانے والے رہے نہ بیچنے والے، مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کاروبار سے وابستہ سارے لوگ بھوک سے فوت ہوکر اِس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی کاروبار ختم ہوجانے سے کاروباری ہی نیست و نابود ہوجائیں۔ زندگی اپنی بقا کے لیے نئے نئے طریقے تلاش کرلیتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کس طرح نرم ملائم کونپل، کھردرے سخت تنے چیر کے رکھ دیتی ہے۔ زندگی کرنے کا حسن صرف مادی ترقی سے نہیں آتا۔ تہذیب و تمدن ہی سے معاشرہ جنت بنتا ہے۔
غیر ملکی زبان میں تعلیم دینے کے باوجود ہماری نئی نسل غیر ملکی زبان سے ناواقف ہے۔ تاہم غیر ملکی تہذیب ہمارے گھر آنگن میں در آئی ہے۔ نئی نسل کی تمام تربیت نئے ذرائع ابلاغ کے ہاتھ میں ہے۔ بچے ہوں یا بچیاں، اپنے بزرگوں کی پیروی میں وہ ہمہ وقت اپنے جدید ترین ذرائع ابلاغ پر مصروف رہتے ہیں۔ ان کے بڑوں کو مطالعۂ کتب کا ذوق نہیں، سو انھیں بھی نہیں۔ ان کے اساتذہ اور والدین کو ہر موصول ہونے والی چیز بے تحقیق آگے بڑھادینے کا شوق ہے، سو انھیں بھی ہے۔ عمیق مطالعہ کرنا یا تحقیق کی عادت اختیار کرنا ان کے لیے دشوار ہے کہ ان کے اردگرد ایسی مثالیں موجود نہیں۔ حتیٰ کہ اب اخبارات یا رسائل کا مطالعہ کرنے کا ذوق بھی نہیں رہا۔ انھیں اپنے گھر یا اپنے تعلیمی ادارے میں اس طرح کی ’تضیع اوقات‘ کرتا کوئی نظر نہیں آتا۔ آج کے نوجوان کو اپنے موبائل پر اتنی مختلف، متنوع اور متضاد چیزیں گھر بیٹھے مل جاتی ہیں کہ اسے کسی تعلیمی ادارے اور کسی تربیتی نشست سے استفادے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ سماجی ذرائع ابلاغ پر نوجوان طلبہ و طالبات کی بہت سی سرگرمیاں پیش کی جاتی ہیں۔ خود تعلیمی ادارے بھی ان سرگرمیوں کی باتصویر رُوداد شائع کرتے ہیں۔ ہمیں تو ان بچوں اور بچیوں کی صورتیں دیکھ دیکھ کر ان پر رحم آتا ہے کہ ہم انھیں ’’ابلاغیات‘‘ کے کس جہنم میں جھونک رہے ہیں۔ اصل بلا تو یہ ہے۔