معروف کالم نگار نسیم بخاری نے 22 اکتوبر کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’عبرت‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر عوام کی زندگی اجیرن بنادینے والی شدید مہنگائی کی حالیہ لہر پر جو مضمون تحریر کیا ہے، اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔
’’عالمی رسالے ’دی اکنامسٹ‘ نے 43 ممالک کے مہنگائی کے بارے میں اعداد و شمار جاری کردیئے ہیں جس کے مطابق مہنگائی کے اعتبار سے پاکستان دنیا کے 43 ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں گزشتہ ماہ مہنگائی کی شرح 9 فیصد رہی ہے، اور بھارت کا اس فہرست میں سولہواں نمبر ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ مہنگائی ارجنٹینا میں ہے، جہاں مہنگائی کی شرح 51.4 فیصد ہے، مہنگائی کے حوالے سے ترکی دوسرے نمبر پر ہے، جہاں مہنگائی کی شرح 19.6 فیصد ہے، جبکہ برازیل میں مہنگائی کی شرح 10.2 فیصد ہے اور وہ دوسرے نمبر پر ہے۔ رسالے کے مطابق جاپان میں مہنگائی کی شرح 2.4 فیصد ہے۔
ملک میں مہنگائی کا طوفان اس قدر تیزی کے ساتھ آیا ہے کہ زیریں کلاس اور متوسط طبقے کی کمر اس نے دُہری کرڈالی ہے، اور اس طبقے کی زندگی گویا کہ ایک طرح سے اجیرن بن گئی ہے۔ جو لوگ اپنے گھر کے لیے روزمرہ استعمال کی اشیا مہینوں کے حساب سے ایک ساتھ لے کر رکھ لیا کرتے تھے وہ اب ہر دن کے حساب سے سامان خریدنے پر مجبور ہوگئے ہیں، اور یہ صورتِ حال بتاتی ہے کہ ان کی معاشی طاقت نہ صرف کمزور ہوگئی ہے بلکہ مستقبل کی قابلِ تشویش صورتِ حال کے امکانی منظرنامے کو بھی پیش کررہی ہے۔ ایک ہی ضرب سے ایک ہی وقت میں مہنگائی کے باعث بہت ساری اشیائے صَرف کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں اور لوگ ہکا بکا رہ جاتے ہیں کہ آخر وہ اس پریشان کن صورتِ حال کا سامنا کریں تو کس طرح سے کریں؟
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عالمی طور پر اشیا کی قیمتیں بڑھنے کے اثرات ہم پر بھی پڑتے ہیں اور پڑ بھی چکے ہیں۔ یہ معاملہ ناگزیر اور اٹل بھی ہے جس کا ہمیں بہرحال سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن دنیا میں جونہی قیمتوں میں کمی آتی ہے تو اسے عام لوگ محسوس بھی کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھلے سے حکمران یہ کہتے رہیں کہ عالمی مارکیٹ میں جب اشیا کی قیمتیں کم ہوں گی تو ہمارے ہاں بھی خودبخود یہ کمی واقع ہوجائے گی، لیکن سچ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کسی نے بھی اشیا کی قیمتوں میں یہ کمی واقع ہوتے ہوئے نہیں دیکھی ہے۔ بیوپاری (تاجر) طبقے کی ہٹ دھرمی، ڈھٹائی اور بالادستی اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ اگر حکمران کچھ کرنا بھی چاہیں تو وہ کر نہیں پاتے، کیوں کہ ہمارے ہاں حکمران اقتدار پر براجمان ہی تاجر افراد کے تعاون اور مدد سے ہیں۔ میڈیا کے مطابق ہمارے وزیراعظم عمران خان نے پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی دینے کے لیے ایک بڑا پلان بنانے کی ہدایت کی ہے، اور کم آمدنی کے حامل افراد کو ریلیف دینے کا کہا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ ریلیف نظر بھی آپائے گا، یا محض اعلان تک ہی محدود رہے گا؟ حکمران جماعت کے سینئر رہنمائوں کا معاشی اور سیاسی صورتِ حال کے جائزے کے لیے اجلاس بھی منعقد ہوچکا ہے، لیکن یہ اجلاس بھی صرف برائے نام اور خبروں کی حد تک ہی تھا۔ صرف یہ بات معلوم ہوسکی ہے کہ عوامی سواریوں (گاڑیوں) کو سستا پیٹرول فراہم کرنے کی حکمت عملی تشکیل دی گئی ہے جس کی جھلکیاں بھی آئندہ ہفتے دیکھنے کے آثار (نمایاں) ہونے کے امکانات بتائے جارہے ہیں۔ وزیراعظم کی زیرصدارت حکمران جماعت کاجو اجلاس ہوا ہے اُس میں طے یہ ہوسکا ہے کہ موٹر سائیکل، رکشہ اور دیگر عوامی سواریوں کو سستے نرخ پر پیٹرول مہیا کیا جائے گا، اور ساتھ ہی یہ بھی طے پایا ہے کہ مہنگائی کم کرنے کے لیے ضلعی سطح پر کمیٹیاں بنائی جائیں گی، نیز یہ کہ یوٹیلٹی اسٹورز کے توسط سے کم آمدنی والے افراد کو بھی ٹارگیٹڈ سبسڈی دی جائے گی۔ جبکہ دوسری جانب صورت حال یہ ہے کہ حال ہی میں یوٹیلٹی اسٹورز پر فروخت ہونے والے تیل، گھی اور دیگر کئی روزمرہ کی اشیائے صرف کی قیمتوں میں اچانک ہی سے حکومت کی جانب سے زبردست اور بے محابہ اضافہ کیا گیا ہے، تو اس طرح کی تلخ حقیقت کے ہوتے ہوئے آخر عوام حکومت کے دعووں اور وعدوں پر کیسے اعتبار کریں؟ اور عوام کی رسائی کس طرح سے ان یوٹیلٹی اسٹورز تک ممکن ہوسکے گی؟ یہ بھی ایک حل طلب معمے کی مانند سوال ہے۔ ایک عام دہاڑی دار اور محنت کش روزانہ کماتا اور خرچ کرتا ہے، تو اس کے پاس یہ گنجائش یا وسعت ہی نہیں ہوتی کہ وہ یوٹیلٹی اسٹور سے دو کلو چینی خرید سکے، کلو گھی خرید سکے، یا پھر چاول اور آٹے کے پانچ پانچ کلو کے تھیلوں کی خریداری کی جائے۔ وہ بے چارہ جو چائے کی پتی کا ایک چھوٹا پیکٹ تک خریدنے کی سکت نہیں رکھتا، پانچ یا دس روپے کی پتی کی ایک پڑیا عام دکان سے خرید کر اس کے گھر میںچائے بنائی جاتی ہے۔ اس لیے سوال یہ ہے کہ اگر کسی ایسی سبسڈی کا اعلان کر بھی دیا جاتا ہے تو اس سے ایک عام مزدور اور مسکین طبقہ آخر کیسے استفادہ کر پائے گا؟
یہ مہنگائی کا طوفان ہی ہے جس نے پی ڈی ایم اور پی پی پی کو حکومت کے خلاف متحرک کردیا ہے (اس موقع پرکالم نگار موصوف جماعت اسلامی کے مہنگائی کے خلاف بڑے بڑے منعقدہ احتجاجی مظاہروں کو دانستہ یا نادانستہ نظرانداز کرگئے ہیں۔ مترجم) کیوں کہ حزبِ مخالف بھی یہ سمجھتی ہے کہ اس موقع پر عوامی ایشوز پر سیاست اور احتجاج کرکے ہی عوامی حمایت کا حصول ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہبازشریف ہوں یا مریم نواز، مولانا فضل الرحمٰن ہوں یا بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ہوں یا پھر سراج الحق… مطلب یہ ہے کہ اس وقت سب کا ایجنڈا مہنگائی ہی ہے۔ اب یہ الگ بحث ہے کہ ان میں سے جو بھی اپنے ادوار میں برسراقتدار رہ چکے ہیں انہوں نے اپنے اپنے ادوارِ حکومت میں مہنگائی پر قابو پایا تھا، یا نہیں؟ میرا خیال ہے کہ موجودہ حکمران یا گزشتہ حکومتیں محض دو باتوں پر سختی سے عمل درآمد کراتیں تو آج ایک عام آدمی کی مہنگائی کے ہاتھوں یہ درگت نہ بنتی، اور اس کی حالت اتنی قابلِ رحم ہرگز نہ ہوتی۔ ایک تو جو عوامی سواریوں کے طے شدہ سرکاری کرائے ہیں وہی وصول کیے جاتے، اور دوسرا یہ کہ سبزیوں، پھلوں اور گوشت وغیرہ کے جو مارکیٹ کمیٹیوں کی جانب سے طے کردہ نرخ روزانہ کی بنیاد پر سامنے آتے رہتے ہیں اُن پر بھی پوری ایمان داری کے ساتھ عمل درآمد ہوتا رہتا۔ اگر یہ دونوں باتیں پوری نیک نیتی کے ساتھ پوری کی جاتی رہتیں تب بھی عام افراد اتنی پریشانی اور تکلیف سے دوچار نہ ہوتے جتنے کہ وہ آج مبتلائے آزار دکھائی دیتے ہیں۔
ہمارے ملک میں ایک غریب اگر بہ قدر اشد ضرورت بھی بجلی استعمال کرتا ہے تو اس کا بجلی کا ماہانہ بل 5-4 ہزار تک آجاتا ہے۔ لیکن بڑے لوگوں کے بنگلے، ہوٹل، شاپنگ سینٹر، کارخانے وغیرہ بغیر میٹر کے اور بغیر کسی بل کے ہی چلتے رہتے ہیں۔ ان کی بجلی کی فراہمی لائنیں بھی چار چار ہوتی ہیں۔ ایک اگر بند ہوتی ہے تو دوسری خودبخود ہی چلنے لگتی ہے (کام کرنے لگتی ہے۔ مترجم)۔ انہیں بجلی کا جھٹکا بھی محسوس نہیں ہوتا ہے اور بلاتعطل ان دولت مند بااثر افراد کے ہاں بجلی کا استعمال جاری و ساری رہتا ہے۔ کوئی پوچھ گچھ، کوئی روک ٹوک، کوئی حساب کتاب اور کوئی توازن اور احتساب وغیرہ کبھی روا ہی نہیں رکھا گیا ہے۔ اسی باعث تو ہمارا ملک موجودہ ابتر حالات سے دوچار ہوا ہے۔ ہماری معاشرتی اور سماجی روش بھی جرائم میں اضافے کا سبب بنی ہوئی ہے، کیوں کہ ہمارے ہاں کسی فرد کے ظاہری سماجی رتبے کی وجہ سے اسے عزت و احترام سے نوازا جاتا ہے۔ ایک فرد اگر بدکردار ہے لیکن دولت مند ہے تو اُسے ہر کوئی عزت دے گا، جب کہ اس کے برعکس ایک صاحبِ کردار فرد محض غریب ہونے کے سبب نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ غربت میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت کا اثر یا رٹ بالکل بھی نہیں ہے۔ ہمارے سماجی رویوں اور حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے امیر دن بہ دن امیر، اور غریب، غریب تر ہوتے جارہے ہیں۔ حالات سے جنم لینے والی بے انتہا مایوسیوں کی وجہ سے ہی عام افراد دل برداشتہ ہوکر خودکشی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں جو بلاشبہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ گزشتہ دس برس کے اعدادوشمار اٹھا کر دیکھ لیجیے، آپ کو 90 فیصد افراد کی خودکشی کے پس منظر میں معاشی بدحالی، غربت اور افلاس دکھائی دیں گے۔ دو چار دن قبل میڈیا میں یہ خبر نمایاں طور پر سامنے آئی تھی کہ دادو میں ایک سودخور کی جانب سے تنگ و ہراساں کیے جانے پر ایک ریٹائرڈ استاد نے ٹرین کے نیچے آکر خودکشی کر لی۔ ہم یہ خبریں ہر روز ہی پڑھتے ہیں جو بڑھتی ہوئی غربت، معاشی بدحالی اور حکومتی رٹ ختم ہوجانے پر دلالت اور صاد کرتی ہیں۔ اخبارات، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر سود کے بڑھتے ہوئے آزار کے سبب انسانی جانوں کے اتلاف پر حوالہ جات کے ساتھ بحث مباحثے بھی ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں (سندھی اخبارات اور ٹی وی چینل… میڈیا کی طرف اشارہ ہے۔ مترجم) لیکن یہ مرض بجائے کم ہونے کے بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ لوگ سود پر رقم بہ امرِ مجبوری لیتے ہیں، اور اگر کوئی فرد سود خوروں کے چنگل میں ایک بار پھنس جاتا ہے تو اُسے پھر اپنی جان چھڑوانی مشکل ہوجاتی ہے۔ (گزشتہ ہفتے ایس ایس پی ضلع جیکب آباد شمائل ریاض ملک نے درجنوں سود خوروں کی تصاویر مع اُن کے ناموں کے اہم چوراہوں پر بذریعہ پینا فلیکس مشتہر کروا کے بلاشبہ قابلِ تحسین کام کیا ہے۔ مترجم)
میں نے کچھ عرصہ پیشتر پڑھا تھا کہ سودی عرب میں شادی کے لیے بلاسود قرض دیا جاتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسی کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔ شادی بیاہ کی دعوتیں، جہیز وغیرہ کی رسومات کی ادائی ہمارے ہاں اتنے بڑے مسائل بن گئے ہیں جو بظاہر ختم ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ لوگ شادی اور غمی کے موقع پر غیر ضروری رسموں کو پورا کرنے اور اپنی ناک اونچی رکھنے کے چکر میں سود خوروں سے بھاری شرح سود پر قرضہ لیتے ہیں اور پھر ایک منحوس چکر میں گرفتار ہوجاتے ہیں، جس سے جان چھڑوانا ان کے لیے کارِدارد بن جاتا ہے۔ نہ صرف مذکورہ بے جا رسومات بلکہ بیماری، خوراک اور دیگر ضروریات کے لیے مجبوراً سود پر قرضہ لینے والے افراد بعد ازاں شدید تکلیف اور پریشانیوں سے دوچار ہوتے ہیں، اور سود خور ان کی زندگی کو بے حد محال بنادیتے ہیں۔ ہماری نااہل حکومتوں نے قدم قدم پر عوام کی زندگی کو ہر لحاظ سے ذلتوں اور محرومیوں سے معمور کرکے ان کے لیے زندگی گزارنا اتنا زیادہ دشوار کر ڈالا ہے جو ناقابلِ بیان ہے۔
مذکورہ صورتِ حال میں خوشگوار تبدیلیاں برپا کرکے عوام کی زندگی کو سہل بنانا سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کا فرض بنتا ہے، لیکن ہمارے ہاں ہر طرف ہی تاریکی دکھائی دیتی ہے، عوام حقیقی معنوں میں کسی کی بھی اوّلین ترجیح نہیں ہیں۔ اہلِ وطن کل بھی مبتلائے آزار تھے اور وہ آج بھی مصائب اور تکالیف سے دوچار ہیں، ان کا مستقبل بھی خدشات اور خطرات میں دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن ایک آس بہرحال یہ ضرور ہے کہ حالات تبدیل ہوں گے اور یہ ذلتیں ہمیشہ ہمارا مقدر نہیں بنی رہیں گی۔