ہمارے بڑے ایک اصطلاح استعمال کیا کرتے تھے: ہند اسلامی تہذیب۔ اس کا مطلب ہوتا تھا اسلام کا وہ ادب جو برصغیر پاک و ہند کا تہذیبی سرمایہ ہے۔ اور یہ تہذیبی سرمایہ پورے برصغیر میں اس تحریک کی جان بنا جسے ہم نے بعد میں نظریہ پاکستان کا نام دیا۔ کراچی کو عام طور پر منی پاکستان کہا جاتا ہے۔ میں اسے منی برصغیر کہا کرتا ہوں۔ صرف اس لیے نہیں کہ یہاں خیبر سے لے کر راس کماری تک اور بنگال سے لے کر بلوچستان تک ہر خطے سے آئے ہوئے لوگ آباد ہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ یہ اس تہذیبی سرمائے کا امانت دار ہے جسے ہم نے نظریۂ پاکستان کا نام دیا ہے، یا جو اس اسلامی تہذیب کی علامت ہے جو برصغیر میں پروان چڑھی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جو شہر پاکستان کا صنعتی اور تجارتی مرکز بنا، وہ اس لحاظ سے بھی بہت نمایاں تھا کہ اس نے پاکستان کی نظریاتی جنگ ہراول دستے کے طور پر لڑی۔
زیادہ ماضی میں نہ جایئے، ایوب خان کی آمریت کے خلاف جب پورا مغربی پاکستان ایک طرف تھا تو کراچی واحد شہر تھا جس نے مادرِ ملت کا ساتھ دیا۔ اس سے پہلے بھی اس کے مزاج میں مسلم لیگ سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ ہماری اسلامی تہذیب کی روح اس محبت میں کار فرما تھی، اس حد تک کہ جب بلدیاتی نظام کا آغاز ہوا تو کراچی نے اپنے اسلامی مزاج کے مطابق ہر قسم کی پارٹی وابستگی سے بلند ہوکر ایک نئی جماعت کو اپنا نمائندہ منتخب کیا۔ یہ جماعت جس پر تحریکِ پاکستان کے حوالے سے خاموش رہنے کے الزامات تھے، مگر یہی ایک ایسی جماعت نظر آتی تھی جو اسلامی روح سے سرشار تھی۔ یوں لگتا تھا کراچی جماعت اسلامی کا شہر ہے۔ کراچی کی جماعت اسلامی اسی اسلامی تشخص اور تہذیب کی علامت تھی۔
کراچی کے لوگ اس بات پر بہت چڑتے تھے جب اندرونِ سندھ کے قوم پرست بے تکی ہانکتے تھے، یا خود کراچی کے نوجوان سرخ انقلاب کی بات کرتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں طالب علموں کے حقوق کے لیے سب سے پہلی تحریک کراچی میں چلی۔ بہت سے انقلابی طالب علم شہر بدر بھی ہوئے۔ مگر ان کی یہ سب جدوجہد، یا چلیں قربانیاں کہہ لیں، کراچی کے تشخص کو بدل نہ سکیں۔ میں کہا کرتا ہوں شہر اینٹ اور گارے کی دیواروں کا نام نہیں ہوتے، یہ اس خون سے عبارت ہوتے ہیں جو ان کی رگوں میں بہہ رہا ہوتا ہے۔ کراچی بہت کمرشل تھا، مگر اس کی رگوں میں اسلامی تشخص کا خون موجزن تھا۔ یہی اس کی پہچان تھا۔
مادر ملت کے انتخابات میں کراچی نے اپنے اس ورثے کی حفاظت کرتے ہوئے جو رنگ دکھایا اس کی اسے بہت قیمت چکانا پڑی۔ سب سے بڑی قیمت یہ تھی کہ یہاں لسانی تقسیم کا بیج بو دیا گیا۔ قومی اتحاد کی تحریک میں اہلِ کراچی نے ایک بار پھر کمال دکھا دیا۔ اس سے پہلے 1970ء میں وہ پیپلز پارٹی کو رد کرچکے تھے۔ انہیں بھٹو کا سوشلزم اپنے اسلامی مزاج کے خلاف معلوم ہوتا، حتیٰ کہ علماء کا وہ گروہ جس نے اپنے ساتھیوں سے الگ ہوکر سوشلزم کے خلاف دھڑا بنا لیا، اپنی جمعیت کو منقسم کرلیا، مگر اس سرخ انقلاب کو قبول نہ کیا، اس کا تعلق کراچی سے تھا۔ قومی اسمبلی میں اُس وقت کراچی کی شاید 7 نشستیں تھیں جن میں سے پیپلزپارٹی کو صرف 2 نشستیں ملیں اور وہ بھی ایسے علاقوں سے جو نئے، اور کراچی سے الگ تھلگ تھے۔ نظریاتی طور پر کراچی والے اس نظریے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے جو پیپلزپارٹی کی شکل میں ایک بار پھر ابھر کر سامنے آرہا تھا۔ طلبہ تحریک میں اس گروہ نے جو کردار ادا کیا تھا اور جگہ جگہ اپنی موجودگی کو صنعتی علاقوں میں مضبوط کیا تھا، عام انتخابات نے اسے مسترد کردیا تھا۔ کراچی منفرد تھا، وہ تنہا ہوگیا تھا، اگرچہ حق پر تھا۔ پیپلزپارٹی مین اسٹریم کی پارٹی بن کر ابھری، مگر کراچی نے اپنا تشخص قائم رکھا۔
یہیں سے کراچی کے اصل مسائل کا آغاز ہوا۔ کراچی کو ٹارگٹ کرلیا گیا۔ جلد ہی کراچی کے تشخص کو نظریاتی سے لسانی تشخص میںتبدیل کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ پہلے تو کراچی بمقابلہ اندرون سندھ کی تقسیم کو ابھارا گیا۔ سندھ کے قوم پرست ضیاء الحق کے خلاف اپنی جدوجہد میں بہت آگے بڑھ گئے۔ پیپلزپارٹی تو صرف بھٹو کی پھانسی کے خلاف یہ سمجھتی رہی کہ یہ اس گروہ کا کام ہے جو نظریاتی طور پر خود کوایک خاص مزاج کا سمجھتا ہے۔ گویا نظریۂ پاکستان والوں نے ان کے لیڈر کی جان لے لی ہے، اور یہ کراچی کا کام ہے۔ پنجاب تو خیر نشانہ بنتا ہی ہے، اُس وقت کراچی خاص طور پر اندرون سندھ کے غصے اور نفرت کا نشانہ بنا۔ پھر پیپلزپارٹی تو رہ گئی ایک طرف، قوم پرستوں نے طاقت پکڑنا شروع کی۔ اس وقت کسی کے ذہن میں یہ انوکھا خیال آیا کہ کراچی کو لسانی بنیادوں پر سندھی آبادی کے خلاف کھڑا کیا جائے۔ تقسیم کرو اور حکومت کرو کا پرانا فارمولا یہاں کام آیا۔
پیپلزپارٹی کی مجرمانہ غفلت یہ ہے کہ اس نے کراچی کو اپنا حریف سمجھ لیا، اور آج تک سمجھ رہی ہے۔ دوسری جماعت مسلم لیگ تھی۔ اس کی نظریاتی پہچان تو باقی نہ رہی تھی، جب کہ ان کی میراث کو جماعت اسلامی نے اپنی جھولی میں ڈال لیا تھا۔ پھر اس کے ساتھ جے یو پی بھی شامل ہوگئی۔ میں جب کراچی آیا تو کہا کرتا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد پنجاب میں جس طرح پانچویں عشرے میں مسلم لیگ ایک خاص مزاج اور تشخص کا نام تھا، کراچی میں وہ تشخص مذہبی جماعتوں کی جھولی میں چلا گیا۔ پہلے جماعت اسلامی اور صرف جماعت اسلامی تھی۔ پھر اس میں جے یو پی نے اپنا حصہ الگ کرلیا۔ مسلم لیگ صرف ایک سیاسی جماعت کے طور پر باقی رہ گئی۔ یہ نہیں کہ اس کے لیے کوئی گنجائش نہ تھی، بلکہ اس نے اپنا مقام بنانا شروع کیا۔ کراچی سے اس کے امیدوار منتخب بھی ہوئے۔ کیپٹن حلیم صدیقی، اعجاز شفیع وغیرہ۔ ان دنوں لسانیت کو ابھارنے والی طاقتیں اپنی کوششوں میں کامیاب ہوئیں اور ایم کیو ایم کی شکل میں کراچی کی ساری نظریاتی میراث لسانی شکل میں بدل گئی۔ مسلم لیگ کے ساتھ دوسری زیادتی یہ ہوئی کہ اندرونِ سندھ بھی مسلم لیگ نے اپنا تشخص الگ کرلیا۔ یہ پیر صاحب پگارا کی مسلم لیگ، فنکشنل لیگ دراصل سندھی مسلم لیگ بن کر رہ گئی، اور اس لسانی تصادم میں وہ کراچی میں مزید بے معنی ہوگئی۔
دوسری طرف جانے کوئی ڈیل تھی یا کیا تھا کہ نوازشریف نے اپنے عروج میں کراچی سمیت پورے سندھ سے دست برداری اختیار کرلی۔ اُس وقت مسلم لیگ ایک نظریاتی تحریک نہ رہی تھی، صرف ایک سیاسی جماعت بن گئی تھی۔ اور سیاست کی اپنی مصلحتیں اور تقاضے ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم لیگ کراچی سے غائب ہوگئی، پیپلزپارٹی ایک عجیب محبت و نفرت کے رشتے کے ساتھ اس شہر کا مقدر بنی رہی، اور شہر کی ساری میراث ایم کیو ایم لے اڑی۔ جس کسی نے بھی منصوبہ بندی کی تھی اس نے پاکستان میں نظریہ پاکستان کے سب سے بڑے تہذیبی اور جمہوری مرکز کو تباہ کردیا۔ ایسے میں دونوں قومی جماعتیں کراچی سے ایک طرح سے غافل ہوگئیں۔
پھر آیا نیا دور۔ اس دور میں ایک نئی جماعت ابھری۔ ایم کیو ایم تباہ تو نہ ہوسکی مگر اسے تباہ کرنے کی مصنوعی کوشش کی گئی۔ ایسے میں جو جماعت ابھر کر سامنے آئی اس نے وفاق میں حکومت بنانے کے ساتھ کراچی میں معقول حد تک نشستیں حاصل کیں۔ تحریک انصاف کراچی سے جیت تو گئی، مگر لگتا ہے کہ اس کے منتخب ارکان کو بھی پتا ہے کہ وہ کراچی کے حقیقی نمائندے نہیں ہیں۔ اورکراچی والوں نے بھی اس وضع کی تبدیلی کو تسلیم نہ کیا۔ اب اسے کچھ بھی کہیے پاکستان کی تینوں مین اسٹریم جماعتیں مسلم لیگ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کراچی کے درد کا درماں کرنے سے قاصر ہیں۔ جس کو اقتدار میں آنا ہوتا ہے کراچی اس کی جھولی میں ڈال دیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح کبھی قبائلی علاقے کو اقتدار میں بیٹھے ٹولے کو بخش دیا جاتا تھا۔ خیروہ تو اب بھی ہونا ہےمگر پاکستان کے واحد کاسموپولیٹن شہر کے ساتھ یہ حشر گویا پاکستان کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ خوش قسمتی سے اس کی ’’وال اسٹریٹ‘‘ اب تک قدرے بچی ہوئی ہے مگر اس کے تمام اہم ادارے تباہ کردیے گئے ہیں۔ پی آئی اے، اسٹیل مل اور کراچی پورٹ ٹرسٹ بھی وہ کردار ادا نہیں کر پا رہے جو انہیں کرنا چاہیے۔
ایم کیو ایم کا تو خیر جتنا قصور ہے، وہ تو ہے ہی، مگر ہماری یہ تینوں وفاقی اور مرکزی پارٹیاں ان اداروں کی تباہی کی ذمہ دار ہیں۔ اس سارے عمل نے کراچی ہی کو تباہ نہیں کیا، ملکی معیشت اور ہمارے نظریاتی تشخص کو ایسی ضرب لگائی ہے جس کا کوئی اپائے دکھائی نہیں دیتا۔