سند نائب قاصدوں اور خاکروبوں کی

ایک بہت بڑے کالم نگار نے، جو شاعر بھی ہیں، ایک سوال داغا ہے۔ اس ’دغے ہوئے‘ سوال میں وہ پوچھتے ہیں:
’’ برخط بھی زبانِ غیر ہے اور آن لائن بھی زبانِ غیر۔ تو صرف برخط کیوں؟ آن لائن کیوں نہیں؟‘‘
شاید وہ آن لائن ہی رہنے پر مُصر ہیں برخط نہیں ہونا چاہتے۔ اُن کی دلیل یہ ہے کہ اداروں کے نائب قاصدوں اور خاکروبوں کو بھی پتا ہے کہ اس لفظ کا مطلب کیا ہے۔ بڑی دلچسپ دلیل ہے۔ اسی دلیل کو لے کر ذرا نائب قاصدوں اور خاکروبوں سے یہ پتا کیجیے کہ ’تلخ نوائی‘ کا کیا مطلب ہے؟کوئی پتا نہ دے سکیں تو مسترد کردیجیے اس عنوان کو، اور اُن ہی سے پتا کرکرکے وہ لفظ اپنا لیجیے جو وہ بولتے ہیں۔
مگر نائب قاصدوں اور خاکروبوں کو اتنی فرصت کہاں کہ محض الفاظ و اصطلاحات پر طولانی بحثوں میں اپنا وقت اور توانائی ضائع کریں، انھیں کہیں زیادہ مفیدکام سرانجام دینے ہوتے ہیں۔ یہ پاکھنڈ تو اہلِ قلم پالتے ہیں۔ نائب قاصدوں اور خاکروبوں کا مبدئِ علم یا تو ان کے افسران ہیں یا ذرائع ابلاغ۔ جو لفظ یا جو اصطلاح دفتر میں یا ذرائع ابلاغ سے چوبیس گھنٹے رٹی جائے گی، سب ہی کو ازبر ہوجائے گی۔ تہذیبِ لسان اور اصلاحِ زبان کا مضحکہ اُڑاکر یہ دلیل دینا کہ اب یہ لفظ لاکھوں کروڑوں لوگ استعمال کررہے ہیں، بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہا جائے کہ اس ملک میں لاکھوں کروڑوں لوگ سگریٹ پیتے ہیں، پس اے نادان دوستو! یہ نہ کہوکہ سگریٹ نوشی مضر صحت ہے۔
بات آگے بڑھانے سے قبل یہ بات بتاتے چلیں کہ ضروری نہیں ’آن لائن‘ کا متبادل ’برخط‘ ہی ہو۔ کسی اصطلاح کا لفظی ترجمہ کرنے کے بجائے اس کے مفہوم کو اپنی زبان میں منتقل کرنا چاہیے۔ وبائی دور میں تدریس، ملاقات، نشست یا اجلاس وغیرہ بالمشافہ کرنا ممکن نہیں رہا تو فاصلاتی اور بصریاتی طریقہ اختیار کرلیا گیا۔ ’فاصلاتی تدریس‘، ’بصریاتی تدریس‘، ’فاصلاتی نشست‘ یا ’فاصلاتی اجلاس‘ اور ’بصریاتی اجلاس‘ میں سے جس اصطلاح کو آپ موزوں سمجھیں اُسے تکرار کے ساتھ مطبوعہ اور برقی ذرائع ابلاغ سے دُہرانا شروع کردیجیے۔ دفاتر میں بار بار استعمال کیجیے، پھر جاکر نائب قاصدوں اور خاکروبوں سے اس لفظ کی مقبولیت کی سند حاصل کرلیجیے۔
اب ذرا ’زبانِ غیر‘ والے موضوع پر بھی بات ہوجائے۔
اردو کے ہر لفظ کو آپ ’زبانِ غیر‘ قرار دے سکتے ہیں۔ خود زبانِ غیر کو بھی، نائب قاصد کو بھی اور خاکروب کو بھی۔ ہم بار بار عرض کرچکے ہیں کہ اُردو نے عربی، فارسی، ترکی اور ہندی ہی سے نہیں، انگریزی سے بھی بڑی کثیر تعداد میں الفاظ قبول اور جذب کیے ہیں۔ پرتگالی، جرمن، جاپانی اور روسی زبانوں سے بھی الفاظ لیے ہیں۔آپ کا اصرار صرف انگریزی الفاظ غالب کرنے پر ہے، خواہ اس کے لیے اُردو کے مروجہ الفاظ اور اصطلاحات کو رَد اور مسترد ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ صدر، وزیراعظم، عدالتِ عظمیٰ، عدالتِ عالیہ وغیرہ سب کو آپ انگریزی الفاظ سے بدل چکے ہیں۔ فارسی اور عربی الفاظ کی مخالفت مگر انگریزی الفاظ کی حمایت کا کیا مطلب لیا جائے گا؟ بتانے کی ضرورت تو نہیں۔
برخط میں ’بر‘ اجنبی ہے نہ ’خط‘۔ اہلِ قلم ہی نہیں عوام کی بول چال میں بھی دونوں مانوس الفاظ ہیں۔ عام آدمی ’برخلاف‘ استعمال کرتا ہے، ’بروقت‘ استعمال کرتا ہے اور ’برمحل‘۔ خط اپنے تمام معنوں میں مستعمل ہے، خط لکھنے سے لے کر خط کھینچنے تک۔ ’بر‘ اور ’خط‘ دونوں ملا دیے جائیں تو کیا ناقابلِ فہم ہوجائیں گے؟ آن اور لائن قابلِ فہم قرار پائیں گے؟ جو چاہیں سو آپ کریں ہیں نائب قاصدوں اور خاکروبوں کو ناحق بدنام کریں ہیں۔
انگریزی الفاظ کا غلبہ شاید قبول کرلیا جاتا، مگر مسلمانانِ پاکستان اپنی زبان کو قرآن و حدیث سے قریب رکھنا چاہتے ہیں، کہ ہمارے بچے جب قرآنِ مجید کی تلاوت کریں یا کسی حدیثِ مبارکہ کے اصل الفاظ پڑھیں تو اجنبیت محسوس نہ کریں۔ سورۃ الفاتحہ کے تقریباً تمام الفاظ ہمارے اُردو روزمرہ کا حصہ ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو اُن مُسلم زبانوں سے بھی قریب رکھنا چاہتے ہیں جن کے ذریعے سے اسلامی ثقافت اور اسلامی تہذیب ہم تک پہنچی ہے۔ غالبؔ اور اقبالؔ کے کلام سمیت اپنے تمام ادبی اور تہذیبی ورثے سے تعلق برقرار رکھنے کی بھی یہی صورت ہے۔ ہماری اُردو اور بھارتی اُردو میں (جسے اب ہندی کہاجاتاہے) بہت فرق ہوگیا ہے۔ پاکستانی اُردوپر عربی اور فارسی الفاظ کا غلبہ ہے۔ ہمیں تو اس میں شیرینی محسوس ہوتی ہے۔ بھارتی عوام کی تو نہیں، البتہ ذرائع ابلاغ کی زبان سنیے تو محسوس ہوتا ہے کہ عربی، فارسی الفاظ کا تلفظ (تلفج میں) تبدیل کردینے اورسنسکرت کے ٹھیٹھ الفاظ بالجبر داخل کردینے سے شستگی اور شائستگی، کرختی اور اکھڑپن میں بدل گئی ہے۔مگر ہندی کے بہت سے دل کش الفاظ اُردو میں خوب استعمال ہورہے ہیں۔مثلاً: چاند،سورج، آکاش وغیرہ۔ عربی، فارسی اور اُردو کی طرح سندھی، بلوچی، پشتو اور پنجابی سمیت تمام پاکستانی زبانیں دائیں سے بائیں کو تحریر کی جاتی ہیں۔ان میں غیریت نہیں، اپنائیت ہے۔ ترکی زبان بھی جب تک خطِ چغتائی میں تحریر کی جاتی رہی دائیں سے بائیں ہی کو لکھی جاتی تھی۔ کاشغر میں بولی جانے والی ترکی اب بھی اسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ استنبول میں خطِ چغتائی میں لکھے ہوئے ترکی طغرے اور مخطوطے ہم نے خود دیکھے ہیں۔ انھیں ہم پڑھ تو سکتے تھے مگر مانوس الفاظ کے سوا کچھ سمجھ نہ سکتے تھے، کیوں کہ سمجھنے کے لیے ترکی زبان پر عبور ضروری تھا۔ ترکوں کی موجودہ نسل جو رومن حروف کے سائے میں پروان چڑھی ہے، اپنے اس تہذیبی ورثے کی زبان پڑھنے سے قاصر ہے۔ اللہ نہ کرے کہ کبھی پاکستان پر بھی ایسا وقت آجائے۔ کوشش تو یہاں بھی یہی کی جا رہی ہے کہ اُردو کو رومن حروف میں لکھنے کی وبا ہر طرف پھیلا دی جائے۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کی قومی زبان اُردو ہے۔ دستورِپاکستان کی رُو سے ہماری سرکاری زبان بھی اُردو ہے۔ لہٰذا اُردو کے تحفظ اور فروغ کا فریضہ تمام پاکستانیوں کو ادا کرنا ہے… پاکستان کی مقننہ کو، پاکستان کی انتظامیہ کو، پاکستان کی عدلیہ کو اور پاکستان کے تمام آئینی اداروں کو۔ یہی فریضہ پاکستان کے اہلِ قلم، اہلِ دانش، اہلِ ابلاغ اور اساتذہ پر بھی عائد ہوتا ہے۔ پاکستانی شہری ہونے کے ناتے سے یہ فریضہ تاجروں، دُکان داروں، نائب قاصدوں اور خاکروبوں پر بھی عائد ہوگا۔ دنیا کے متعدد ممالک میں اپنی قومی زبان کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے سرکاری ادارے قائم کیے گئے ہیں، جن کا کام نئے الفاظ و اصطلاحات فراہم کرنا اور اُن کو نافذ کرنا ہے، تاکہ ذرائع ابلاغ اور سرکاری اداروں سمیت ملک بھر میں یکساں زبان اور یکساں اصطلاحات رائج ہوں۔ ایسا ادارہ ہمارے ہاں بھی بنایا گیا، مگر اُس سے قوتِ نافذہ ہی سلب کرلی گئی۔ نتیجہ یہ کہ زبان و ادب کے ماہرین کی جگہ سند کی حیثیت نائب قاصدوں اور خاکروبوں کودے دی گئی۔
قومی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنانے پر دنیا کے تمام ماہرینِ تعلیم متفق ہیں۔ تعلیمی حکمتِ عملی کے تحت اپنے طلبہ و طالبات کو آپ جس تعلیمی مرحلے پر جتنی زبانیں سکھانا چاہیں، اس کا کوئی نقصان نہیں، فائدہ ہی ہے۔ لیکن ذریعۂ تعلیم سات سمندر پار کی زبان کو بنانے کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ قومی نظامِ تعلیم کا قوم سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ ہم امریکہ، برطانیہ، فرانس، کینیڈا، اور جرمنی تو کیا چین، جاپان اور کوریا سے بھی تعلیم و تحقیق کے میدان سمیت ہر میدان میں پیچھے ہیں۔ انگریزی ذریعۂ تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے والے ذہین ترین پاکستانی بچوں کا پاکستان اور پاکستانی قوم سے ناتا کٹ جاتا ہے۔ وہ ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ہمارے بہترین اذہان اپنی بہترین صلاحیتوں سے اُن ہی ممالک اور اقوام کو فائدہ پہنچاتے ہیں جن کی زبان میں وہ تعلیم پاتے ہیں۔ پھر عمر بھر اُن ہی کی خدمت کیے چلے جاتے ہیں، خواہ اُن کے نائب قاصد یا خاکروب بن کر ہی کیوں نہ کریں۔