جون 1975ء میں بھارت کی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی نے پورے ملک میں ہنگامی حالت (Emergency) نافذ کردی تھی اور تمام سیاسی جماعتوں کو خلافِ قانون قرار دے کر ان کے رہنمائوں اور کارکنوں کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا تھا۔ ان سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں میں راشٹریہ سیوک سنگھ (R.S.S) اور جماعت اسلامی کے رہنما، ارکان اور کارکن بھی شامل تھے۔ انتخابات سے قبل اندرا گاندھی نے ایمرجنسی ختم کردی تھی اور سیاسی جماعتوں کو بحال اور کارکنوں کو رہا کردیا تھا۔
ایک سابق رکنِ پارلیمنٹ کی تشویش
شانتی بھوشن نے دہلی میں اپنے ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا تھا کہ راشٹریہ سیوک سنگھ (R.S.S) اور جماعت اسلامی کے درمیان دوستی کی فضا پیدا ہورہی ہے۔ موصوف کے نزدیک یہ بات قومی مفاد کے خلاف تھی کہ جماعت اسلامی اور راشٹریہ سیوک سنگھ کے درمیان غلط فہمیاں دور ہوں۔
یہ تشویش صرف مریضانہ ذہن رکھنے والے نام نہاد کمیونسٹوں، سوشلسٹوں اور سیکولرازم پر اعتقاد رکھنے والوں ہی کو لاحق نہیں ہورہی تھی بلکہ اس میں بعض مسلمان بھی شریک تھے جو اس کا اظہار نجی مجلسوں اور پبلک جلسوں میں کرتے تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ان دونوں تنظیموں کے درمیان کوئی سیاسی مصالحت کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ چونکہ جماعت اسلامی کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی مستند بیان سامنے نہیں آیا، اس لیے ہم اپنی جانب سے اس سلسلے میں جو بھی علم رکھتے ہیں اس کی وضاحت میں پیش کرتے ہیں۔ (یوسف صدیقی، مدیر ریڈینس)
اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کی مہربانی
اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری مہربانی اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کی تھی، جب ایمرجنسی کے تحت جون 1975ء میں تمام سیاسی جماعتوں کو خلافِ قانون قرار دے کر ان کے رہنمائوں اور کارکنوں کو حوالۂ زنداں کیا گیا تو وہاں پر پارٹی کے لوگوں کو ایک دوسرے کو قریب سے دیکھنے اور باہمی تعارف کا موقع میسر آیا۔ مختلف سیاسی پارٹیوں کے بارے میں جو غلط فہمیاں تھیں وہ بتدریج جھڑنا شروع ہوگئیں۔ ہر روز کی ملاقات اور مشاہدے نے ایک کو دوسرے کے قریب کردیا۔ جو پہلے ایک دوسرے کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے، وہ ایک دوسرے کی جانب دیکھ کر مسکرانے لگے۔ پھر سلام کلام شروع ہوا، یہاں تک کہ وہ سب ایک دوسرے کے دکھ سُکھ کے ساتھی بن گئے، یہ عین فطری انسانی عمل تھا۔
جماعت اسلامی کے ارکان کے حقیقی کردار کا اظہار
اسی عمل کے دوران راشٹریہ سیوک سنگھ کے نوجوانوں نے دیکھا کہ جماعت اسلامی کے لوگ بڑے باوقار، مہذب، شائستہ اور صفائی پسند ہیں، وہ نہ تو کسی بات پر برہم ہوکر چیختے چلّاتے ہیں اور نعرے لگاتے ہیں اور نہ احتجاجی ہڑتالیں اور مرن بھرت رکھتے ہیں۔ وہ کوئی غیرقانونی کام نہیں کرتے تھے، اس لیے انہیں کسی معاملے میں معذرت طلب کرنے کی نوبت بھی نہیں آتی تھی۔ راشٹریہ سیوک سنگھ کے لوگوں نے مشاہدہ کیا کہ جماعت اسلامی کے لوگ بہترین انسان تھے اور وہ کسی بھی تکلیف پر اظہارِ رنج نہیں کرتے تھے، بلکہ ان پر جو بھی ابتلاء آتی تھی، اُسے صبر شکر کرکے برداشت کرتے تھے۔ انہوں نے کبھی راشن قبول کرنے سے انکار نہیں کیا خواہ وہ کتنا ہی ناقص کیوں نہ ہوتا، نہ وہ دودھ کا مطالبہ کرتے اور نہ اُن کمبلوں کے لیے جھگڑا یا چھینا جھپٹی کرتے جو سردی سے بچائو کے لیے جیل میں دیے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جیل کے حکام انہیں جو بھی چیز دیتے وہ خاموشی سے لے لیتے اور ان سے کسی بات کا مطالبہ یا تقاضا نہ کرتے۔
جماعت اسلامی کے لوگوں کی عبادت و ریاضت
جیل میں وقت کاٹنے کے لیے شطرنج و تاش اکثر کھیلے جاتے ہیں، لیکن جماعت اسلامی کے کارکن کبھی تاش یا شطرنج کے قریب بھی نہیں گئے، انہیں جب بھی اپنے معمولات سے فراغت ہوتی تو وہ یا تو خاموشی سے بیٹھ رہتے، یا پھر اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہوجاتے۔ انہوں نے نہ تو کسی غرض کے لیے دھمکی سے کام لیا، نہ توڑ پھوڑ اور تخریبی عزائم کا اظہار کیا، اس کے بجائے وہ پانچوں وقت باجماعت نماز ادا کرتے، پھر نماز کے بعد دروس ہائے قرآن و حدیث ہوتے جن میں دوسری پارٹیوں کے لوگوں کو شرکت کی دعوت بھی دی جاتی۔ ایسے ہی دروس ہائے قرآن و حدیث تھے جن میں راشٹریہ سیوک سنگھ کے بعض کارکنوں کو شریک ہونے کا موقع ملا۔ قرآن و حدیث کے یہ درس ان کے لیے ایک بالکل نئی دنیا کا نظارہ تھا۔
نفرت اور تعصب کی آگ کا خاتمہ
جب وہ ان دروس سے فارغ ہوکر الگ بیٹھتے تو جماعت اسلامی کے بارے میں اپنے سابقہ تاثرات پر انہیں حیرت ہوتی۔ یہ جماعت اسلامی وہ تو نہیں جس کا قابلِ نفرت نقشہ ان کے تصور میں جما ہوا تھا۔ فطری بات تھی کہ جماعت اسلامی کے بارے میں ان کے پرانے خیالات، تاثرات اور تعصبات بتدریج پگھلنا شروع ہوگئے۔ پھر جماعت اسلامی والے جیل میں مذاکرے بھی کرتے تھے، ان مذاکروں میں بعض اوقات قومی اضطرابات اور فرقہ وارانہ فسادات کے اسباب بھی زیربحث آتے۔ ہر پارٹی اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کرتی، لیکن جماعت اسلامی والے اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجائے قرآن کا نقطۂ نظر پیش کرتے، جس سے اسلام کے بارے میں شبہات بھی زائل ہوجاتے۔ اس باہمی میل جول اور قرب کا نتیجہ یہ نکلا کہ راشٹریہ سیوک سنگھ کے سرکردہ ارکان یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ جماعت اسلامی کے بارے میں ان کے سابقہ تاثرات مبنی برحقیقت نہ تھے۔
آر ایس ایس کے مشاہدے اور تجربات کے بعد
جماعت اسلامی والے نہ تو آگ لگانے والے تھے، نہ آگ سے کھیلنے والے… بلکہ اس کے بجائے وہ سنجیدہ، متین، باوقار، مہذب، معقول اور راست باز لوگ تھے۔ وہ فرقہ پرست نہیں تھے بلکہ عالمگیر انسانی برادری پر یقین رکھنے والے لوگ تھے۔ راشٹریہ سیوک سنگھ کا یہی مشاہدہ اور تجربہ حقیقت میں اسے جماعت اسلامی کے قریب لایا۔ جب رہائی عمل میں آئی تو جیل کے یہ تعلقات ٹوٹ نہیں گئے، جیل کے دوست ایک دوسرے سے باہر بھی ملاقاتیں کرتے رہے۔ (ریڈینس، نئی دہلی، 19 جون 1977ء)
(ریڈینس دہلی اور ایشیا لاہور کے شکریے کے ساتھ)