کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہی نہیں بلکہ وطن ِعزیز کا پہلا دارالحکومت بھی ہے۔ کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت کسی اور نے نہیں بلکہ بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے خود بنایا تھا اور یہ ابتدائی 11 سال تک دارالحکومت رہا۔ کراچی کی یہ حیثیت ایک ڈکٹیٹر ایوب خان نے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر 1958ء میں چھینی۔ یہ شاید دنیا کی تاریخ میں منفرد واقعہ ہے کہ جس شہر کو بانیِ مملکت نے خود دارالحکومت بنایا تھا اسے اس اعزاز سے اُس شخص نے محروم کیا جس کا تحریکِ پاکستان میں کوئی کردار نہیں رہا۔ تقسیم برصغیر کے بعد پورے ہندوستان سے ہر شعبے کے ماہرین کراچی آئے اور اس شہر کی دینی، علمی و ثقافتی زندگی کو ثروت مند کیا۔ ان آنے والوں میں علمائے کرام بھی تھے، شاعر و ادیب بھی، خطاط بھی، ماہرینِ فنون بھی اور ہر شعبے کے ماہرین۔ ان کی آمد کے بعد کراچی میں ہر شعبے کے اتنے ماہرین جمع ہوگئے کہ یہ کہا جاتا تھا: پورا ہندوستان اُجڑا تو کراچی بسا۔ لیکن یہ حقیقت قابلِ افسوس ہے کہ مخصوص حالات کی بنا پر یہ صورتِ حال باقی نہ رہی، اور بقول ڈاکٹر جمیل جالبی: جس شہر کی سڑکوں پر 1947ء سے 1980ء تک ہر شعبے کے ماہرین نظر آتے تھے وہ 1980ء کے بعد سے اُجڑنا شروع ہوا۔ یہ بات انھوں نے پاکستان نیشنل سینٹر کراچی میں منعقدہ ایک تقریب میں کہی تھی جس میں راقم بھی موجود تھا۔ اس اجڑنے کی کہانی افسوس ناک ہی نہیں دردناک بھی ہے، جس کا یہ مختصر مضمون متحمل نہیں ہوسکتا۔ کراچی میں مدفون انہی علمائے کرام اور ماہرین کے بارے میں رئیس امروہوی نے ایک موقع پر بڑا عمدہ قطعہ لکھا تھا جو درج ذیل ہے:
مدفون ہوئے آخر آغوشِ کراچی میں
ملّت کے بزرگانِ ذی قدر و فلک پایہ
تُو کچھ بھی نہ تھا پہلے اب تجھ میں سبھی کچھ ہے
اے شہرِ تہی دامن اے خاکِ گراں مایہ
جیسا کہ ذکر کیا گیا، کراچی میں تقسیم کے بعد ہر شعبے کے ماہرین آئے اور دنیاوی زندگی گزار کر اس شہر کی خاک میں مدفون ہوئے۔ انہی میں نامور علمائے کرام بھی شامل تھے۔ پیش نظر مضمون میں ہم ان میں سے 15علماء کے مختصر حالات بیان کریں گے جنہوں نے ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہجرت کی اور جن کا جائے مدفن کراچی بنا۔
مولانا شبیر احمد عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی برصغیر کے نامور عالمِ دین، مفسرِ قرآن اور محدث تھے۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمد حسنؒ کے ترجمہ قرآن پر آپ کے تفسیری حواشی تفاسیر اردو کے ذخیرے میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں، اور گو اس میں ترجمہ ان کے استادِ محترم کا ہے لیکن یہ مولانا کی نسبت سے ’’تفسیرِ عثمانی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوتے ہیں۔ جب سعودی حکومت نے دنیا بھر کے تراجم و تفاسیر کی اشاعت کا پروگرام بنایا تو پہلے تفسیرِ عثمانی ہی کو اردو تفاسیر کے ذخیرے سے منتخب کرکے شائع کیا تھا۔ مولانا کے دیگر علمی و دینی کاموں میں صحیح مسلم کی شرح بھی شامل ہے۔ آپ تحریک پاکستان کے قائدین میں شامل تھے اور قائداعظم کا جنازہ آپ ہی نے پڑھایا تھا۔ مولانا 28 ستمبر 1887ء کو بجنور میں پیدا ہوئے اور 13 دسمبر 1949ء کو بہاولپور میں وفات پائی۔ مولانا کی تدفین اسلامیہ کالج کراچی کی احاطے میں ہوئی۔
مولانا سیّد سلیمان ندویؒ
مولانا سید سلیمان ندویؒ نامور عالمِ دین، سیرت نگار، مصنف و مورخ تھے۔ انہوں نے کئی بلند پایہ تصنیفات یادگار چھوڑیں۔ لیکن ان کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ ”سیرت النبیؐ“ کی تکمیل ہے۔ اس منصوبے کا آغاز ان کے استادِ محترم مولانا شبلی نعمانی نے کیا تھا اور ابتدائی دو جلدیں لکھی تھیں۔ بقیہ پانچ جلدیں مولانا سید سلیمان ندوی نے لکھیں اور سیرتِ طیبہ پر وہ کتاب مکمل کی جس کی نظیر اردو تو کیا کسی دوسری زبان میں بھی نہ ملے گی۔ مولانا کے دیگر کارناموں میں اپنے استاد کے قائم کردہ ادارے دارالمصنفین اعظم گڑھ اور اس کے ماہنامہ ”معارف“ کی ادارت کے علاوہ ارض القرآن، رحمتِ عالمؐ، خطباتِ مدارس، حیاتِ شبلی، خیام اور کئی کتب شامل ہیں۔ مولانا سید سلیمان ندوی 12 ستمبر 1884ء کو دیسنہ (بہار) میں پیدا ہوئے، اور 22 نومبر 1953ء کو کراچی میں انتقال ہوا۔ تدفین احاطہ اسلامیہ کالج میں مولانا شبیر احمد عثمانی کے پہلو میں ہوئی۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ احاطہ اسلامیہ کالج کراچی میں اگر ایک عظیم مفسر قرآن محوِ خواب ہے تو اسی کے پہلو میں ایک عظیم سیرت نگار۔
مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒ
مولانا مفتی محمد شفیع نامور عالمِ دین، مفسرِقرآن اور بانی دارالعلوم کراچی تھے۔ آپ دارالعلوم دیوبند کے استاد اور مولانا اشرف علی تھانوی کے اجازت یافتگان میں شامل تھے۔ مولانا کی تفسیر ”معارف القرآن“ کے نام سے معروف ہے۔ اس کے علاوہ آپ کی کتب میں سیرت خاتم النبیینؐ، کشکول و کئی کتب شامل ہیں۔ مولانا جنوری 1897ء میں دیوبند میں پیدا ہوئے اور وفات 6 اکتوبر 1976ء کو کراچی میں ہوئی۔ تدفین احاطہ دارالعلوم کراچی میں ہوئی۔ مولانا محمد تقی عثمانی اور مفتی محمد رفیع عثمانی مولانا کے صاحبزادے ہیں۔
مولانا محمد یوسف بنوری
مولانا محمد یوسف بنوری نامور عالمِ دین، شیخ الحدیث و تفسیر تلمیذ مولانا انور شاہ کشمیری اور بانی جامعتہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹائون کراچی تھے۔ آپ کی معروف کتب میں معارف السنن (عربی شرح ترمذی6جلدوں میں) کے علاوہ ختم ِنبوت، تسخیرِ کائنات اور اسلام شامل ہیں۔ مولانا 7 مئی 1908ء کو بنور نزد پشاور میں پیدا ہوئے اور 17 اکتوبر 1977ء کو راولپنڈی میں انتقال ہوا۔ تدفین جامعتہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹائون کراچی کے احاطے میں ہوئی۔
مولانا ظفر احمد عثمانی
مولانا ظفر احمد عثمانی ممتاز عالمِ دین، محدث، مفسر اور عربی زبان کے شاعر تھے۔ آپ مولانا اشرف علی تھانوی کے بھانجے، ہم زلف اور شاگرد بھی تھے۔ آپ کی معروف کتب میں اعلاء السنن (20جلدیں)، احکام القرآن (5جلدیں)، حقیقت معرفت، امدادالاحکام و دیگر شامل ہیں۔ مولانا 5 اکتوبر 1892ء کو دیوبند میں پیدا ہوئے اور 8 دسمبر 1974ء کو کراچی میں وفات پائی۔ تدفین پاپوش نگر قبرستان کراچی میں ہوئی۔
مولانا احتشام الحق تھانوی
مولانا احتشام الحق تھانوی معروف عالمِ دین، خطیب اور بانی دارالعلوم الاسلامیہ ٹنڈوالٰہ یار تھے۔ آپ چیئرمین رویتِ ہلال کمیٹی اور صدر جمعیت علمائے اسلام بھی رہے۔ مولانا 1917ء میں اٹاوہ (یوپی) میں پیدا ہوئے اور 11اپریل 1980ء کو مدراس میں وفات پائی۔ تدفین احاطہ جامع مسجد جیکب لائن کراچی میں ہوئی۔ آپ مولانا اشرف علی تھانوی کے حقیقی بھانجے تھے۔
مولانا ڈاکٹر عبدالحئی عارفی
مولانا ڈاکٹر عبدالحئی عارفی معروف روحانی بزرگ، مصنف، مجاز بیعت مولانا اشرف علی تھانوی اور سرپرست دارالعلوم کراچی تھے۔ آپ کی معروف کتب میں اسوئہ رسول اکرم ﷺ، مآثر حکیم الامت، بصائر حکیم الامت، احکام میّت، اصلاح المسلمین و دیگر شامل ہیں۔ مولانا ڈاکٹر عبدالحئی شاعری سے بھی شغف رکھتے تھے اور آپ کا مجموعہ کلام اصہبائے سخن، مطبوعہ ہے۔ مولانا 30مئی 1898ء کو ضلع جھانسی میں پیدا ہوئے اور 26 مارچ 1986ء کو کراچی میں وفات پائی۔ تدفین احاطہ دارالعلوم کراچی میں ہوئی۔
مولانا سیّد طلحہ حسنی
مولانا سید طلحہ حسنی عالم دین، عربی زبان اور تاریخِ اسلام کے ماہر اور سابق پروفیسر اورینٹل کالج لاہور تھے۔ آپ کا نسبتی تعلق حضرت سیّداحمد شہیدؒ سے تھا اور آپ نامور عالم ِدین مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی کے حقیقی پھوپھا تھے۔ مولانا سیّد طلحہ حسنی 1890ء میں ٹونک میں پیدا ہوئے اور 25 ستمبر 1970ء کو کراچی میں وفات پائی۔ آپ کی تدفین دارالتصنیف (مجاہد آباد، حب ریور روڈکراچی) کے احاطے میں ہوئی۔
مولانا عبدالرشید نعمانی
مولانا عبدالرشید نعمانی نامور عالمِ دین، شیخ الحدیث اور کئی بلند پایہ کتب کے مصنف تھے۔ آپ نے ابتدائی و اعلیٰ تعلیم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں حاصل کی تھی۔ آپ نے طویل عرصے تک بحیثیت استاد حدیث اور شیخ الحدیث جامعتہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹائون کراچی میں خدمات انجام دیں۔ مولانا کی کتب میں لغات القرآن (4 جلدیں)، شرح سنن ابن ماجہ، ابن ماجہ اور علم حدیث، یزید کی شخصیت اہلِ سنت کی نظر میں، ناصبیت تحقیق کے بھیس میں معروف ہیں۔ مولانا عبدالرشید نعمانی 29 ستمبر 1915ء کو جے پور میں پیدا ہوئے اور 22 اگست 1999ء کو کراچی میں وفات پائی۔ تدفین کراچی یونیورسٹی قبرستان میں ہوئی۔
مولانا ابوالجلال ندوی
مولانا ابوالجلال ندوی ممتاز عالمِ دین، ماہرِ لسانیات اور قدیم زبانوں اور قدیم رسم الخطوط کے ماہر تھے۔ آپ کو یہ بھی اعزاز حاصل رہا ہے کہ آپ نے پہلی مرتبہ موہن جودڑو سے برآمد ہونے والی مہروں کے رسم الخط کی وضاحت کی۔ مولانا نے ابتدائی و اعلیٰ تعلیم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں حاصل کی۔ آپ نے برصغیر کے معروف علمی و تحقیقی ادارے دارالمصنفین اعظم گڑھ میں خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ جمالیہ کالج مدراس میں طویل عرصے تک بطور مدرس بھی خدمات انجام دیں۔ مولانا ابوالجلال ندوی 22 اپریل 1894ء کو محی الدین پور (اعظم گڑھ) میں پیدا ہوئے اور 14 اکتوبر 1984ء کو کراچی میں انتقال ہوا۔ تدفین ماڈل کالونی قبرستان میں ہوئی۔
مولانا جعفر شاہ پھلواری
مولانا جعفر شاہ پھلواری معروف عالم دین، استاد اور کئی معروف کتب کے مصنف تھے۔ آپ کا نسبتی تعلق برصغیر کے ایک اہم روحانی و دینی خانوادے یعنی خانوادہ پھلواری شریف (بہار) سے تھا۔ آپ ایک نامور خطیب بھی تھے۔ مولانا کی تصانیف میں پیغمبر انسانیتﷺ، مقامِ سنت، اسلام اور موسیقی و دیگر شامل ہیں۔ مولانا طویل عرصے تک ادارئہ ثقافتِ اسلامیہ لاہور سے وابستہ رہے۔ مولانا جعفر شاہ 1901ء میں پھلواری شریف (بہار) میں پیدا ہوئے اور مورخہ 31 مارچ 1982ء کو کراچی میں انتقال ہوا۔ تدفین گلشن اقبال قبرستان میں ہوئی۔
مولانامسعود عالم ندوی
مولانا مسعود عالم ندوی معروف عالم دین، عربی زبان و ادب کے ماہر اور عربی کے بے مثل انشا پردار اور مصنف تھے۔ انہوں نے ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں حاصل کی، پھر خدا بخش لائبریری میں کیٹلاگر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ 1946ء میں جالندھر میں جماعت اسلامی کا عربی شعبہ دارالعروبہ للدعوۃ الاسلامیہ قائم کیا اور کئی نوجوانوں کو عربی میں تربیت دینے کے علاوہ مولانا مودودی کی کئی کتب کے اردو سے عربی تراجم کیے۔ یہ کتب آج بھی عالمِ عرب سے شائع ہوتی ہیں۔ مولانا مسعود عالم ندوی کی معروف کتب میں محمد بن عبدالوہاب، ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک، اشتراکیت اور اسلام، دیارِ عرب میں چند روز، مولانا عبیداللہ سندھی کے افکار و خیالات پر ایک نظر شامل ہیں۔ مولانا مسعود عالم ندوی 11 فروری 1910ء کو اوگائوں (بہار) میں پیدا ہوئے، اور 16 مارچ 1954ء کو کراچی میں انتقال ہوا۔ تدفین یوسف پورہ قبرستان کراچی میں ہوئی۔
مولانا محمد ناظم ندوی
مولانا محمد ناظم ندوی ممتاز عالمِ دین، عربی زبان و ادب کے ماہر، مصنف، شاعر اور استاد تھے۔ آپ طویل عرصے تک جامعہ عباسیہ بہاولپور کے شیخ الجامعہ رہے۔ اس کے علاوہ آپ نے دو سال تک جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں بھی بطور استاد خدمات انجام دیں۔ مولانا محمد ناظم ندوی کی تصنیفات و تراجم میں الرسالتہ المحمدیہ (ترجمہ خطبات مدراس)، باقتہ الازھار، اسلام کا اقتصادی نظام، عورت مرد کے برابر کیوں نہیں و دیگر شامل ہیں۔ مولانا محمد ناظم ندوی دسمبر 1913ء میں علی نگر (بہار) میں پیدا ہوئے اور 9 جون 2000ء کو کراچی میں وفات پائی۔ تدفین ماڈل کالونی قبرستان کراچی میں ہوئی۔
مولانا سیّد سیفی ندوی
مولانا سید سیفی ندوی ممتاز عالمِ دین، شاعر اور صحافی تھے۔ آپ روزنامہ خلافت بمبئی اور ماہنامہ امام کراچی کے ایڈیٹر رہے۔ مولانا سیفی ندوی 1905ء میں سکندر پور (یوپی) میں پیدا ہوئے اور 2 مارچ 1990ء کو کراچی میں وفات پائی۔ تدفین گزری قبرستان میں ہوئی۔
درج بالا فہرست نامکمل ہے۔ اگر کراچی میں مدفون تمام علمائے کرام کے حالات لکھے جائیں تو یہ مختصر مضمون اس کا متحمل نہ ہوسکے گا، البتہ ان مختصر سوانحی اشارات سے بخوبی اندازہ ہوگا کہ کراچی میں کیسے کیسے بلند پایہ علمائے کرام تشریف لائے اور زندگی کا سفر طے کرکے خاکِ کراچی میں مدفون ہوگئے۔ ان بزرگانِ دین کے علاوہ چند اور قابلِ ذکر علمائے کرام درج ذیل ہیں: مولانا محمد ایوب دہلوی، مولانا سیّد حسن مثنّیٰ ندوی، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا ظفر علی نعمانی، مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری، مولانا افتخار احمد بلخی، مفتی انتظام اللہ شہابی، مولانا قاری شریف احمد، مولانا خالد میاں فاخری، علامہ خلیل عرب، مولانا خیر محمد ندوی، مولانا راغب احسن، مولانا محمد یوسف لدھیانوی، مولانا سلیم اللہ خان، مولانا سلیم الدین شمسی، قاری رضا المصطفیٰ اعظمی، مولانا سید زوار حسین نقشبندی، شمس العلماء مولوی عبدالرحمٰن، مولانا عبدالغفار سلفی، مولانا عبدالقدوس ہاشمی، مولانا فضل الرحمٰن انصاری، مفتی ولی حسن ٹونکی علامہ رشید ترابی، علامہ سید رضی مجتہد، علامہ نصیر الاجتہادی، علامہ عقیل ترابی، علامہ طالب جوہری کا نام ضرور شامل ہوگا جو آئے تو ہندوستان کے مختلف علاقوں سے، لیکن جن کا قیام کراچی ہی میں رہا اور یہیں ان کی تدفین ہوئی۔