جماعت اسلامی حلقہ خواتین کراچی شہر میں کئی دہائیوں سے خواتین کی ایک منظم ، مربوط تنظیم ہے، نام کی مماثلت ضرور کہی جا سکتی ہے مگر خواتین جماعت کا اپنا الگ تنظیمی اسٹرکچر ہے۔نیچے سے اوپر تک تمام خواتین ہی اس کو چلاتی ہیں ۔ ایک الگ شوریٰ ہے، اضلاع ہیں ،کئی شعبہ جات ہیں جنہیں سب کے سب جماعت اسلامی کی خواتین ہی چلاتی ہیں۔کراچی کے تمام تر سیاسی ، سماجی مدو جزر کے حالات میں جماعت اسلامی کا حلقہ خواتین بدستور اپنے تمام تر نیٹ ورک و سرگرمیوں کے ساتھ متحرک رہا۔کراچی کی مستحق خواتین کی خدمت اور فلاح وبہبود کے لیے کئی منصوبوں پر کام کر رہا ہے ۔ جماعت اسلامی حلقہ خواتین کراچی کی ناظمہ اسما سفیر سے فرائیڈے اسپیشل نے خصوصی گفتگو کی جو قارئین کے لیے پیش ہے۔
سوال : کراچی شہر کے تناظر میں خواتین کے کردار کے حوالے سے جماعت اسلامی کیا سوچ رکھتی ہے ؟
اسما سفیر: کراچی ایک میگا سٹی کہلاتا ہے، معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہے اور آبادی کے لحاظ سے بھی مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ مگر افسوس کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اس شہر کو جان بوجھ کر اس کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے۔ یہاں کی خواتین تمام شعبہ ہائے زندگی میں نظر آتی ہیں۔ یہ شہر پورے پاکستان سے آنے والوں کو روزگار کے مواقع دیتا ہے، اسی طرح یہاں خواتین کو بھی گھر بیٹھے کام کے بے شمار مواقع ملتے ہیں۔ لیاقت آباد سے لے کر لیاری، کورنگی، لانڈھی، نئی کراچی تک بے شمار خواتین گھروں میں بیٹھ کر باعزت طریقے سے اپنے کنبے کی پرورش بھی کرتی ہیں اور ملکی صنعتی ترقی میں اپنا کردار بھی ادا کرتی ہیں۔ کراچی کی تیز ترین مادی ترقی اور ٹیکنالوجی کی آمد نے پوری معاشرتی اقدار کو بدل ڈالا ہے۔اس وقت تعلیم، طب، قانون، آئی ٹی، بینکس، دفاتر، انسٹی ٹیوٹس، چھوٹے بڑےکاروبار، صحافت، میڈیااور دیگر کئی دائروں میں خواتین متحرک نظر آتی ہیں۔ اگر ہم ترقی کو مادی پیمانوں پر جانچیں تو ٹیکنالوجی پر کام کرنے کے لیے مرد و عورت کی کوئی تفریق بظاہر موجود نہیں، لیکن اگر معاشرے کی حقیقی اخلاقی بنیادوں پر جانچیں تو کراچی کی ترقی بہترین اخلاق واقدار والی نسل سے جڑی ہوئی ہے، اور یہ کام صرف خواتین کے ہی کرنے کا ہے۔ یہ ہمارے لیے چیلنج کی صورت ہے، کیونکہ حلقہ خواتین جماعت اسلامی، خواتین میں دین کا بنیادی شعور و آگاہی پیدا کرنا چاہتا ہے، انہیں قرآن پاک کے ذریعے حقیقی مقصدِ زندگی کی جانب متوجہ کرکے منظم کرتا ہے، تاکہ عورت مستقبل کی نسل کی بہترین تربیت کر سکے۔جماعت اسلامی حلقہ خواتین کا دائرہ کار بنیادی طور پر تو گلی ، محلوں میں جاکر گھر گھر خواتین تک پہنچتا ہے۔ جماعت اسلامی سمجھتی ہے کہ خواتین اپنے فطری دائرے میں رہ کر اچھا کام کرسکتی ہیں، گھر ہی وہ بنیادی مرکز ہے جہاں خواتین پورے تحفظ کے ساتھ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکتی ہیں ۔ اس لیے کراچی کی ترقی میں بھی خواتین ہی کا اصل کردار کہا جائے گا،جو نئی نسل کو آنے والے چیلنجز اور اپنے نظریے کے مطابق تیار کریں گی ۔
سوال : خواتین کی سب سے منظم اور بڑی تنظیم ہونے کے طور پر کراچی میں جماعت اسلامی کس انداز سے کام کر رہی ہے ؟
اسما سفیر: حلقہ خواتین جماعت اسلامی طویل عرصہ سے کراچی شہر کی تعمیر وترقی کے لیے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ہماری تنظیم سے منسلک ہر خاتون چاہے وہ کارکن ہو یا ناظمہ جس جگہ رہتی ہیں وہاں دعوتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مثالی سوشل ورک کرتی ہےاور اپنے گلی محلوں میں گمنام رہ کر نہیں بلکہ شہر اور عوام کی خدمت کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔خواتین کے خوشی غمی کے موقع پر آگے بڑھ کر انکی مدد بھی کرتی ہیں ۔کورونا لاک ڈاؤن ایام میں خصوصی طور پر خود داری کو متاثر کئے بغیر گھروں میں جا کر ہماری خواتین نے خدمت خلق کی ہے۔جماعت اسلامی بنیادی طور پر تو اقامت ِدین کی تحریک ہے، جس کا بنیادی مقصد خواتین میں اسلام اور قرآن کی تعلیمات کو عام کرنا ہے۔ ہمارا نیٹ ورک پورے پاکستان میں قائم ہے۔کراچی شہر کو 11 اضلاع میں تقسیم کرکے فہم ِقرآن کی کلاسز،دعوتی دروس،خواتین کی دلچسپی کے موضوعات اور حالاتِ حاضرہ پرورک شاپس ہوتی ہیں جن سے ہزاروں خواتین مستفید ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے شعبہ جات نوجوانوں میں جے آئی یوتھ، جیلوں اور عدالتوں میں ویمن ایڈ ٹرسٹ اور ویمن لائرز فورم، الخدمت، گوشہ عافیت، کچی بستیوں میں بیٹھک اسکول، قرآن انسٹی ٹیوٹس قائم ہیں۔
سوال : جماعت اسلامی حلقہ خواتین، شہر میں خواتین کو درپیش بڑے مسائل دیکھ کر کیا مطالبات رکھتا ہے؟
اسما سفیر: جماعت اسلامی کے مطالبات وہی ہیں جو عوام کی بنیادی ضرورت ہیں۔ ان سب کا وعدہ حکومتیں عوام سے کرتی ہیں کہ وہ اپنا فرض سمجھ کر بلا معاوضہ تعلیم، صحت اور انصاف شہریوں کو فراہم کریں گی۔ کراچی سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے لیکن محرومی بھی یہاں سب سے زیادہ ہے۔ خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے مطابق ہمارا مطالبہ ہے کہ خواتین کے تعلیمی اداروں کو اس میگا سٹی میں اپ گریڈ کیا جائے، خواتین کی درسگاہوں کی تعداد چاہے وہ اسکول، کالج ہوں یا جامعات… ان میں اضافہ کیا جائے۔ تین کروڑ آبادی کے شہر میں کم از کم ہر ضلع کے لیے ایک خواتین یونیورسٹی ناگزیر ہے۔ کورونا لاک ڈاؤن کے باعث اکیلے گھر کو چلانے والی ہزاروں محنت کش خواتین کے روزگار پر جو زد پڑی ہے اُس کا مداوا کیا جائے۔ باعزت، حلال روزگار کے نئے مواقع فراہم کیے جائیں۔ شہر میں ٹوٹی سڑکوں کے ساتھ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جس کی وجہ سے خواتین کو پرائیویٹ گاڑیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے جن کے کرایوں میں ہی ان کی بڑی تنخواہ نکل جاتی ہے۔ ورکنگ وومنز کو ورک پلیس پر تحفظ فراہم کیا جائے۔ ہمارا ایجنڈا یہی ہے کہ خواتین کو ایسے حالات دیئے جائیں کہ وہ ذہنی اور معاشی سکون کے ساتھ اپنے اصل کام یعنی گھر و اولاد کی تعلیم و تربیت کی طرف بھرپور توجہ دے سکیں۔
سوال : شہر کی ترقی کے لیے خواتین کو کس دائرے میں کام کرنا چاہیے؟ جماعت اسلامی کو موقع ملے تو وہ کیا کرے گی؟
اسما سفیر: میں سمجھتی ہوں کہ خواتین کے اپنے دائرئہ کار ہیں جو فطرت کے مطابق ہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ایک وقت وہ بھی تھا جب مسلمان آدھی دنیا پر حکمرانی کرتے تھے، اُس وقت حقوق کی فراہمی کا یہ عالم تھا کہ شیر و بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔ اُس وقت بھی عورتیں ہوتی تھیں، مگر تاریخ کی کوئی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں، عورت کا کسی صورت کوئی استحصال نہیں کیا گیا۔ آج کہا جاتا ہے کہ دنیا جدید ہوگئی ہے، سب کے یکساں حقوق ہیں، اور برابری کی باتیں ہیں، تو ہم نے دیکھا کہ پولیس، فوج، سیاست، طب، تعلیم جیسے شعبہ جات میں جہاں جہاں خواتین کی ضرورت ہو، ان سے کام لینا شروع کردیا گیا۔ اسی طرح خواتین پر مظالم کی بھی خبریں بڑھتی جارہی ہیں۔ یہی نہیں، اگر اِس جدیدیت کو ترقی کی مثال بنا کر خواتین کو پیٹرول پمپس، چورنگیوں، اسٹورز میں کھڑا کردیں تو یہ بہرحال ظلم کہلائے گا۔ خواتین کے استحصال کی اس شکل کی حلقہ خواتین جماعت اسلامی شدید مذمت کرتا ہےاور عورت کو ایک پروڈکٹ کے طور پر پیش کرنے کی شدید مخالفت کرتا ہے۔میں سمجھتی ہوں کہ شہر کی تعمیر وترقی کے لیے تمام محکموں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔اس کے لیے کرپشن سے پاک نظام قائم کیا جانا چاہیے۔ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ شفاف انتخابات کے ذریعے صالح، دیانت دار قیادت کے ہاتھ میں شہر کا نظم و نسق دیا جائے۔نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے دورِ نظامت میں جماعت اسلامی کی خواتین کونسلرزنے خاصے مثالی کام کیے۔ تعلیم سے لے کر صحت کی کمیٹیوں تک جماعت اسلامی کی باصلاحیت خواتین نے تاریخ ساز کام کیے،کئی گرلز کالج شروع کرائے گئے۔اس کے علاوہ ایک وومن لائبریری کمپلیکس جیسا شاندار منصوبہ نعمت اللہ خان دور کی اہم مثال ہے، جسے بعدمیں آنے والی حکومتوں نے مکمل نہ ہونے دیا۔خواتین کے لیے سیرت کلاسز، ٹریننگ، ورکشاپس ایسی مثالیں ہیں جو باعزت طریقے سے خواتین کے شہر کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کرنے کے لیے سازگار تھیں۔ حلقہ خواتین کی اپنی دعوتی سرگرمیوں کے ساتھ ہر دائرہ زندگی میں ہماری باحجاب خواتین اپنی خدمات پیش کر رہی ہیں ۔
سوال : جماعت اسلامی حلقہ خواتین، شہر کی ترقی کے مشن میں دیگر خواتین کو شامل ہونے کی دعوت کیسے دینا چاہےگا۔؟
اسما سفیر: جماعت اسلامی ظلم پر مبنی موجودہ نظام کو بدل کر اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم کرنے کی تحریک ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو کام ہم محدود پیمانے پر گلی محلوں میں کررہے ہیں، نظام کے بدلنے سے وہ اقتدار کے ایوانوں سے ہوگا، منبر و محراب اس کی تبلیغ کریں گے، میڈیا اور ٹی وی چینلز معاشرے کی تعمیر میں حصہ لیں گے، اور عورت کو اس کے اصل کام یعنی نسل کی تربیت کا موقع و ماحول ملے گا۔ اس وقت ہم سب دُہری ذمہ داری ادا کررہے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہر شعبہ ہر ایک کے لیے نہیں ہوتا۔جن جگہوں پر خواتین زیادہ بہتر کردار ادا کر سکتی ہیں حکومت کو انہیں سپورٹ فراہم کرنی چاہیےاور وہ میدان جہاں مرد اپنی فطری صلاحیتوں کی وجہ سے کامیاب ہیں ان میں خواتین کو زبردستی نہیں گھسانا چاہیے۔دونوں صنفوں کی تعلیم اور معاشی مواقع اگر ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بنائے جائیں تو ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی بڑھ جائے گی۔اس لیے ہم گھر اور اہلِ خانہ کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بدلنے کی جدوجہد اور اقامتِ دین کا کام کررہے ہیں۔ اسلامی نظام میں اِن شاء اللہ ہم گھر بیٹھیں گے اور اپنی اصل ذمہ داری ادا کریں گے۔ لیکن جب تک یہ دن نہیں آتا، اُس وقت تک ہم عوام الناس کو جگانے کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ہم بھی خواتین کو یہی دعوت دیتے ہیں کہ ظلم کے نظام کو بدلے بغیر یہ تبدیل نہیں ہوگا، اس کے لیے اجتماعی جدوجہد کرنی ہوگی۔