مہاتیر محمد کی قیادت میں ملائشیا کا نقشہ بدلنا شروع ہوا تو جلد ہی مہاتیر مسلم دنیا کے مقبول ترین حکمران بن گئے، ترک صدر رجب طیب ایردوان نے ڈوبتی ترک معیشت کو سہارا دیا تو مشرق و مغرب ہر جگہ’ترک ماڈل‘ کا چرچا ہونے لگا، ذرا پہلے جائیں تو ہر طرف انقلابِ ایران کا چرچا تھا، لوگ کہتے نظر آتے کہ پاکستان کو بھی ایک خمینی کی ضرورت ہے۔ ملک میں بدامنی کے واقعات میں اضافہ ہوا تو بعض احباب ملاعمر کے ’پرامن افغانستان‘کی مثالیں دیتے نظر آتے۔ وزیراعظم عمران خان کبھی چینی، تو کبھی سعودی ماڈل یا سنگاپور کی مثال دیتے نظر آتے ہیں۔ مہاتیر، ایردوان، ملاعمر اور خمینی… ان شخصیات اور ان کے زیر سایہ پروان چڑھنے والے نظام نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ کیا لازم ہے کہ ہم کبھی امریکہ اور یورپ کی طرف دیکھیں، اورکبھی مہاتیر اور ایردوان کی مثالیں دیں؟ کیا پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں ہم کسی بھی سطح پر ایک بھی ایسا وزیراعظم، وزیراعلیٰ یا میئر نہیں منتخب کرسکے جس کی اصلاحات یا ماڈل کی دنیا کے دیگر ممالک نہ سہی کم ازکم پاکستان کی سیاسی جماعتیں ہی تقلید کرسکیں؟
اس سوال کے جواب کے لیے ہم نے تاریخ کے اوراق پلٹے تو ایوب خان کی معاشی اصلاحات، ذوالفقار علی بھٹو کا اسلامی سوشلزم، ضیاء الحق کا اسلامی نظام، میاں صاحب اور بی بی صاحبہ کے 2، 2 مختصر جمہوری ادوار، پرویز مشرف کی روشن خیالی اور زرداری صاحب کی مفاہمت کے ماڈل سامنے آئے۔ ہم نے ان ماڈلز پر غور کیا تو ایوب خان کی معاشی اصلاحات سے بنگلہ دیش، ذوالفقار علی بھٹو کے اسلامی سوشلزم سے صنعتی تباہی، ضیاء الحق کے اسلامی نظام سے فرقہ واریت اور لسانی تفریق، بی بی صاحبہ اور میاں صاحب کے جمہور ی ادوار سے پرویزمشرف، اور پرویزمشرف کی روشن خیالی سے دہشت گردی برآمد ہوتی دکھائی دی۔
ہم نے شہبازشریف کی بحیثیت وزیراعلیٰ پنجاب کارکردگی پربھی نظر ڈالی۔ پنجاب کے لیے ان کی خدمات دیکھیں تو خیال آیاکہ وفاق اور دیگر صوبوں کو ان کی تقلید کرنی چاہیے، مگر جب دیکھا کہ شہبازشریف ایک وقت میں صرف وزیراعلیٰ پنجاب نہیں بلکہ وزیر داخلہ، وزیر اطلاعات اور جانے کیا کیا تھے تو ہم نے نہ صرف اسے جمہوری اقدار کے منافی پایا بلکہ شخصی حکمرانی کی بو بھی آئی۔ اسی دوران جب ہمیں خادم اعلیٰ کے امپورٹڈ ماہر تعلیم مائیکل باربر صوبے میں تعلیم جیسے اہم ترین شعبے کی کمان سنبھالے نظر آئے تو سمجھ آیا کہ کیوں قومی زبان اردو کی جگہ سابقہ آقاؤں کی زبان انگریزی کو پہلی کلاس سے دسویں کلاس تک ذریعہ تعلیم قرار دیا گیا ہے؟ ہم نے پنجاب پولیس کی کارکردگی پر نظر ڈالی تو حیرت ہوئی کہ تین مرتبہ تختِ پنجاب پر براجمان ہونے والے شہبازشریف تمام تر اختیارات کے باوجود پولیس جیسے اہم ترین شعبے کی اصلاح ہی نہ کرپائے!
مایوسی کے اسی عالم میں ہماری نظر سابق صدر پرویزمشرف کے اس بیان پر پڑی کہ ’’کراچی میں حیرت انگیز ترقیاتی کاموں کا کریڈٹ ناظم شہر نعمت اللہ خان کو جاتا ہے، اصل ہیرو وہی ہیں،کراچی پیکیج کا بنیادی آئیڈیا انہوں نے ہی پیش کیا، میں نے ناظم کراچی کی تعریف نہیں کی بلکہ حقیقت بیان کی ہے، یہ سٹی ناظم کا کریڈٹ ہے جو انہیں ملنا چاہیے‘‘(قومی اخبارات، 18دسمبر 2004ء)۔ پھر ہم نے قومی تعمیرنو بیورو کے سابق چیئرمین دانیال عزیز کو نعمت اللہ خان پر دادو تحسین کے ڈونگرے برساتے دیکھا۔ سابق صدر پرویزمشرف اور دانیال عزیز کے یہ اعترافی بیانات ہمارے لیے اس وجہ سے حیران کن تھے کہ جماعت اسلامی اور پرویزمشرف کے درمیان شدید اختلافات کسی سے پوشید ہ نہ تھے۔ ہم سوچ میں پڑ گئے کہ کیا وجہ ہے کہ نظریاتی اور سیاسی مخالفین بھی اس بزرگ کی خدمات کا اعتراف کرتے تھے۔
اس حقیقت کو جاننے کے لیے ہم 2001ء میں جاپہنچے اور دیکھا کہ نعمت اللہ خان ناظم شہر کی حیثیت سے حلف اٹھا رہے ہیں، آنکھوں سے آنسو رواں ہیں جیسے ضعیف کندھوں پر بارِ گراں رکھ دیا ہو۔ تقریبِ حلف برداری کے بعد ہی نومنتخب ناظمِ شہر شکست خوردہ امیدوار تاج حیدر کے گھر جاپہنچے اور انہیں گلے سے لگایا۔
نعمت اللہ خان نے جب شہر کا نظم و نسق سنبھالا تو انہیں ایک جانب تباہ حال اور تاریک شہر کو دوبارسجانا اور سنوارنا تھا، تو دوسری جانب نیا نظام اس قدر پیچیدہ تھا کہ کئی ماہ تو یہی سمجھنے میں لگ گئے کہ ناظم کے اختیارات کیا ہیں؟کون سے ادارے صوبائی حکومت کے ماتحت ہوں گے اور کون سے شہری حکومت کے؟ مسائل کا ایک پہاڑ کھڑا تھا، شہر کراچی بلامبالغہ کچراکنڈی میں تبدیل ہوچکا تھا، شاہراہیں تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھیں، سڑکیں تباہ حال تھیں، تعلیمی ادارے ویران اور شہری سہمے ہوئے تھے۔ ناظم شہر نے چارج سنبھالتے ہی صفائی مہم کا اعلان کیا تو معلوم ہوا کہ کچرا اٹھانے کے لیے گاڑیاں ہیں نہ جمعدار۔ دوکروڑ آبادی کے شہر کا کُل بجٹ فقط 6 ارب روپے تھا۔ ناظم شہر کوسب سے پہلے شہر کی بحالی اور پھر تعمیرنو کا چیلنج درپیش تھا۔
لیکن ہمیں نظر آیا کہ نعمت اللہ خان کا ماڈل ایمان داری اور شفافیت کا ماڈل تھا۔ اسی لیے دیانت داری اوربہترین منصوبہ بندی کے نتیجے میں شہری حکومت، کراچی کا بجٹ صرف ابتدائی چار سال میں 6 ارب روپے سے بڑھ کر 42 ارب روپے تک جاپہنچا۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے تعاون سے پروکیورمنٹ مینوئل تشکیل دے کر اسے نافذ کیا گیا۔ صرف پیٹرول اور ڈیزل کی مد میں ہونے والی سالانہ 8کروڑ روپے کی کرپشن کا خاتمہ ہوا۔ شارع فیصل فلائی اوور کا تخمینہ 26کروڑ روپے لگایاگیا تھا، مگر اسے 18 کروڑ روپے میں مکمل کیا گیا۔
ہم نے دیکھا کہ یہ تعلیم کا ماڈل ہے، پہلے ہی بجٹ کی ریکارڈ31 فیصد رقم تعلیم کے لیے مختص کی گئی، شہر میں 32 نئے کالج تعمیر ہوئے، کالجوں میں محض 500 روپے سالانہ کی بنیاد پر بی سی ایس کی کلاسیں شروع کرائی گئیں، ہزاروں طلبہ جو مہنگے اداروں سے یہ ڈگریاں حاصل نہیں کرپاتے تھے، اب صرف چند ہزار روپے خرچ کرکے آئی ٹی کے ماہر بننے لگے۔ طالبات کو تعلیم کی جانب راغب کرنے کے لیے چھٹی تا آٹھویں جماعت کی تمام طالبات کو ماہانہ 100 روپے اسکالر شپ دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ غریب طالبات کو 1500 اور 1000 روپے فی طالبہ کے حساب سے اسکالرشپس دی گئیں۔ محکمہ تعلیم میں ایسی بے مثال منصوبہ بندی کے ساتھ کام کیا گیا کہ محض چار سال قبل شہر بھر کے سرکاری اسکولوں میں گنتی کے 200 طلبہ و طالبات میٹرک کے امتحانات میں اے ون یا اے گریڈ میں پاس ہوئے تھے، اور چار سال بعد یہ تعداد 2000 طلبہ تک جاپہنچی۔
ہم نے دیکھا کہ یہ انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کا ماڈل ہے۔ تمام بڑی شاہراہوں مثلاً راشد منہاس روڈ، جہانگیرروڈ، ڈالیما روڈ، ماری پور روڈ وغیرہ کو ازسرنو تعمیر کیا گیا۔ لیاری ایکسپریس وے اور ناردرن بائی پاس جیسے بڑے منصوبوں پر کام کا آغاز ہوا۔ ٹریفک کے مسائل پر قابو پانے کے لیے نئے فلائی اوورز جیسے ایف ٹی سی فلائی اوور، شاہراہ قائدین فلائی اوور، شارع فیصل فلائی اوور، سہراب گوٹھ فلائی اوور، غریب آباد انڈر پاس،کارساز وحسن اسکوائر فلائی اوور، شاہ فیصل تا کورنگی ملیر ریور برج… غرض پورے شہر میں ترقیاتی کاموں کا جال پھیلا دیا۔
ٹرانسپورٹ کے شعبے میں اربن ٹرانسپورٹ اسکیم کا آغاز کیا گیا۔ پہلی بار شہر میں سینکڑوں کی تعداد میں بڑی سی این جی بسیں چلائی گئیں، باقاعدہ سروے کے بعد بالائی گزرگاہیں اور شہریوں کی سہولت کے لیے بس شیلٹر کی تنصیب کا سلسلہ شروع ہوا، انٹر سٹی بس ٹرمینلز کی تعمیر کا آغاز ہوا، کراچی سرکلر ریلوے کو دوبارہ فعال کیا گیا۔ اس مطالعے کے دوران ہمیں معلوم ہوا کہ اگر ناظم شہر کو صوبائی اور وفاقی حکومت کا تعاون حاصل ہوتا تو لائٹ ٹرین کے منصوے پر بھی کا م کا آغاز ہوجاتا۔
شہرکی تمام شاہراہیں اور اندرونی گلیاں و محلے تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے، شہری حکومت نے چار سال کے عرصے میں تمام شاہراہوں، چورنگیوں اور گلی محلوں تک کو اسٹریٹ لائٹس سے روشن کردیا۔ 300 پارکس کی تعمیر کی گئی یا انہیں اصلی حالت میں بحال کیا گیا، ہر ٹاؤن میں ماڈل پارکس بنائے گئے۔ سفاری پارک کا سفاری ایریا34 سال بعد کھولا گیا تو لاکھوں افراد نے پارک کا رخ کیا۔ صحت کے شعبے میں امراضِ قلب کے عظیم منصوبے کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا گیا جو شہریوں کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ثابت ہوا۔
نعمت اللہ خان نے کراچی کے لیے 29ارب روپے کا تعمیر کراچی پروگرام منظور کرایا، جس کے ساتھ ہی جہاں کئی نئے منصوبوں کا آغاز ہوا وہیں مستقبل کے لیے متعدد منصوبوں کی نشاندہی اور رقم کے حصول کا ذریعہ بھی میسر آگیا۔ شہر کی تمام یونین کونسلوں کو بلاتفریق سالانہ لاکھوں روپے فنڈ کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا، جس کے نتیجے میں ترقیاتی کام گلی محلے تک کی سطح پر نظر آنے لگے۔
غرض نعمت اللہ ماڈل کا مطالعہ کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ اس بزرگ کے پاس یا تو جادو کا چراغ تھا یا پھر اسے کوئی غیبی مدد حاصل تھی کہ چار سال کے مختصر عرصے میں شہر کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب 2005ء میں ورلڈ میئرز ڈاٹ کام نے ’بہترین میئر کون‘ کا مقابلہ کرایا تو پورے جنوبی ایشیا سے صرف نعمت صاحب کا انتخاب ہوا۔ پیپلزپارٹی کے ایک رہنما نے بھری محفل میں کہا کہ نعمت صاحب نے شہر کے لیے اس قدر کام کیا ہے کہ ڈیفنس کے سارے شرابی بھی انہی کو ووٹ دیں گے۔
ہم اس نتیجے پر بھی پہنچے کہ نعمت صاحب کا اصل کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے کراچی کو اُس وقت سنبھالا دیا جب کوئی تاریکیوں میں ڈوبے اس شہر کو سنبھالنے کے لیے تیار نہ تھا۔ شہر کی دعویدار جماعت نے مشکل حالات میں کھنڈرات کا منظر پیش کرتے شہر کو’اون‘کرنے سے انکار کردیا تھا، مگر نعمت صاحب آگے بڑھے اور کراچی کو پھر روشنیوں کا شہر بنادیا۔
ہم نے دیکھا کہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے اس مہاجر کا احترام پنجابی، پٹھان، سندھی اور بلوچ اس طرح کرتے جیسے یہ ان کی پنچایت، جرگے یا قبیلے کا سربراہ ہو۔ مختلف مسالک اور فرقوںکے افراد اپنے تنازعات کے حل کے لیے اسی بزرگ پر بھروسا کرتے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی، نعمت اللہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ جب وہ اقتدار میں تھے تو 16گھنٹے کام کرتے، عوام کے درمیان رہتے۔ اور جب اقتدار سے الگ ہوئے تو جدہ، لندن یا دبئی کے بجائے کراچی میں مقیم رہے، کبھی صحرائے تھر کی تپتی دھوپ میں مکینوں کو سائبان فراہم کرتے نظر آتے تو کبھی سیلابی پانی میں کھڑے متاثرین کی امداد کرتے دکھائی دیتے، کبھی زلزلے کے نتیجے میں بے گھر ہوجانے والے متاثرین کو چھت فراہم کرتے، توکبھی یتیم بچوں کی کفالت کا پروگرام شروع کررہے ہوتے، اورکبھی شفاف پانی کی فراہمی کے منصوبوں کا افتتاح کرتے۔
نعمت اللہ خان آج اس دنیا میں نہیں رہے مگر پاکستان کو نعمت اللہ خان ماڈل کی ضرورت ہے، جو امانت، دیانت، اعتدال، خدمت اورعلم و حکمت کا ماڈل ہے۔ اگر پاکستانی سیاست دان ملائشین، کورین، ترک اورسنگاپور ماڈل کو چھوڑ کر صرف نعمت اللہ ماڈل کی تقلید کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ جس طرح چار سال کے مختصر عرصے میں برسوں سے تباہ حال شہر کی حالت بدل گئی تھی اگلے چار سال میں پورے ملک کی حالت تبدیل ہوجائے۔