کراچی ملک کا وہ شہر ہے جہاں سے وفاقی حکومت 60 سے 65 فیصد اور صوبائی حکومت 90فیصد ٹیکس وصول کررہی ہے۔ 30 جون 2020ء کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران’’ایف بی آر‘‘ کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے ایک بازار ’’صدر‘‘ سے حکومت کو 7 ارب 80کروڑ روپے کا ٹیکس وصول ہوا، لیکن اگر حکومتِ سندھ کا کوئی وزیر صدر سے گزر جائے تو اُس کو معلوم ہوجائے گا کہ اُس کی حکومت نے صدر بازار میں کیا ترقیاتی کام کیے ہیں۔ اس کے علاوہ شہر کے دیگر بازاروں، تجارتی مراکز، خریداری کے مراکز اور بڑے بڑے تجارتی مال اور موبائل کمپنیوں کی طرف سے حکومت کو اربوں روپے سیلزٹیکس کی مد میں ادا کیے جارہے ہیں… جس کی شرح 70 سے 75فیصد بنتی ہے۔
کراچی کی دو بندرگاہوں سے بھی حکومت کو مختلف ٹیکسوں کی مد میں اربوں روپے کی وصولیاں ماہانہ کی بنیاد پر ہوتی ہیں، لیکن اس کے باوجود کراچی روشنیوں کے شہر سے اندھیر نگری میں تبدیل ہوگیا ہے۔ کراچی ایک ایسا شہر ہے جہاں پاکستان کے ہر شہر اور گاؤں کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد بستی اور یہاں سے روزگار حاصل کر تی ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہونے کے باعث اسے بہت سے مسائل کا سامنا بھی رہتا ہے۔ کراچی میں آبادی میں بے تحاشا اضافہ، غربت، بے روزگاری، تشدّد، صفائی کا فقدان، زیادہ شرح اموات اور ناخواندگی شامل ہیں،مسائل کی یہ فہرست ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔ کراچی ملکی پیداوار کا45 فیصد اور مجموعی صنعتی پیداوار کا 60 فیصد دیتا ہے، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان کی معیشت میں اس اقتصادی مرکز کا بڑا حصہ شامل ہے۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ دنیا بھر میں بندرگاہوں کے حامل شہروں پر روزگار کی تلاش میں لوگوں کے آنے کی وجہ سے آبادی کا دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان شہروں کو ملک بھر سے زیادہ وسائل فراہم کیے جاتے ہیں۔ لیکن کراچی میں موجود پی پی پی کی صوبائی حکومت ہمیشہ اس شہر کو نظرانداز کرنے کی پالیسی پر پوری قوت سے سرگرم نظر آتی ہے۔ مختصر یہ کہ میگا سٹی کے مسائل کی جڑ بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی ہے، اور ان مصائب سے نمٹنے کے لیے آبادی میں اضافے کو روکنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ کراچی میں لوگ بے روزگاری اور ناقص شرح خواندگی جیسے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں، لیکن وفاقی حکومت بہتر اقدامات کرنے کے بجائے عارضی نوعیت کے کام کرنے میں مصروف نظر آتی ہے۔ کراچی ایسے فارغ التحصیل نوجوانوں سے بھرا پڑا ہے جو ملازمتیں نہ ہونے پر گھر میں بے کار بیٹھے ہیں۔ حکومت کو براہِ راست سرمایہ کاری اور صنعت کاری کو فروغ دینا چاہیے، اور مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنا چاہیے، لیکن حکومت کے پاس کراچی کے بے روزگاروں کے لیے کوئی ملازمت نہیں۔ غربت اور افراطِ زر کی وجہ سے جنم لینے والے مسائل صرف کراچی میں نہیں بلکہ سری لنکا، افغانستان، لائبیریا، لیبیا، ارجنٹائن، برازیل، نیپال، ملائشیا، نائیجیریا، بھارت، ترکی، عراق اور دیگر ترقی پذیر معیشتوں میں شہری آبادی کے پھیلاؤ سے متعلق مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں اور وہاں ان مسائل کو حل بھی کیا جاتا ہے۔
کراچی کے نوجوانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں کی راہ میں حائل ایک مسئلہ ’’کوٹہ سسٹم‘‘ بھی ہے۔ کراچی والوں کو محض چند ملازمتوں کا کوٹا دیا جاتا تھا، لیکن پی پی پی نے 12 سال سے کراچی کے نوجوانوں کو اس کوٹے سے بھی محروم کردیا ہے، اور اب کراچی کے نوجوان صوبائی اور وفاقی ملازمتوں سے یکسر محروم ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی کے نوجوانوں کو نجی اداروں میں روزگار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے سندھ حکومت کے وزرا ان اداروں کے مالکان پر دبائو ڈالے ہیں۔
قیامِ پاکستان کے موقع پر کراچی کو دارالحکومت بنادیا گیا، یوں بھارت سے مسلمان سرکاری افسران اور ملازمین ہزاروں کی تعداد میں نئے دارالحکومت میں آباد ہوئے۔ اُن کے ساتھ اُن کے عزیز رشتہ دار بھی اس شہر میں چلے آئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی روشنیوں کا شہر اور عروس البلاد کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اُس وقت کراچی پورے پاکستان کا سہارا بنا ہوا تھا۔ لیکن آج ’’منی پاکستان‘‘ میں سیاسی بحران، سماجی انحطاط اور زوال پذیری ہے۔ 50ء اور 60ء کی دہائیوں میں نسبتاً بہتر سیاسی، سماجی، تعلیمی اور اقتصادی صورت حال تھی۔ کراچی بندہ پرور شہر کے طور پر جانا جاتا تھا۔ آج کا منی پاکستان مسائل کا شکار اور بدامنی کا استعارہ ہے۔ اُس دور اور آج کے دور میں فرق یہ ہے کہ پچھلے حکمران اور نوکر شاہی کرپٹ نہیں تھی، انہیں اللہ کا خوف تھا، پاکستان سے محبت تھی، اور کراچی و ملک کے دیگر شہروں اور دیہات کی ترقی، خوشحالی اور قومی سلامتی سے خاص دلچسپی تھی۔ کراچی میں سیاسی رواداری فراواں تھی اور یہ اہلِِ وطن کے روزگار کا مرکز بن گیا۔ یہاں صنعتی ترقی ہوئی، روزگار کے وسیع مواقع ملے، جس کی وجہ سے مچھیروں کی بستی مائی کلاچی دنیا کے ایک عالی شان میگا سٹی کا روپ دھارتا چلا گیا۔ آج بھی کراچی ملک کا عظیم شہر اور روزگار کا بڑا مرکز بن سکتا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حکمران اور نوکر شاہی کرپٹ نہ ہوں، انہیں اللہ کا خوف، اور پاکستان کی قومی سلامتی سے محبت ہونی چاہیے۔
سیاسی اور انتظامی نااہلی نے کراچی کے مسائل میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔ دنیا کے ہر بڑے صنعتی شہر میں پسماندہ علاقوں سے بے روزگاروں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے، لیکن اگر حکمران طبقات ملک و قوم کے بہی خواہ اور عوام کے ہمدرد ہوتے ہیں تو پسماندہ علاقوں سے ترقی یافتہ شہروں کی طرف نقل مکانی کے حساس کام کو پوری منصوبہ بندی اور مؤثر حکمتِ عملی کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ باہر سے آنے والوں کی تعداد اور ان کے کردار و پیشوں کا خیال رکھتے ہیں۔ ان کے روزگار، رہائش، بنیادی ضروریات کا انتظام کرتے اور اس بات کا خاص طور پر خیال رکھتے ہیں کہ حصولِ روزگار کے نام پر جرائم پیشہ افراد اور گروہ شہروں کارخ نہ کریں۔ لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے کسی حکمران نے ان احتیاطوں کا بھی خیال نہیں کیا۔ ہمیشہ صرف اور صرف اپنے سیاسی مفادات کو پیشِ نظر رکھا۔ حکمرانوں نے ’’کراچی سب کا ہے‘‘ کا نعرہ لگایا، اور پہلے سے لسانی تضادات کا شکار یہ شہر لسانی سیاست کا مرکز بن گیا۔ ’’کراچی سب کا ہے‘‘ کے نعرے نے جہاں پسماندہ علاقوں کے بے روزگار عوام کو حصولِ روزگار کے لیے کراچی آنے کی راہ دکھائی، وہیں اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسرے صوبوں جرائم پیشہ افراد نے بھی یہاں کا رخ کیا، جن کا مقصد حصولِ روزگار نہ تھا اور یہ کوشش اب بھی جاری ہے ۔
اس سلسلے میں جماعت ِاسلامی کرا چی کے حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ کراچی کی آبادی تقریباً 3 کروڑ تک پہنچ گئی ہے، جسے ڈیڑھ کروڑ ظاہر کیا گیا ہے۔ امیرِ جماعتِ اسلامی کا کہنا ہے کراچی کا کوٹا 2فیصد ہے لیکن دفاتر میں جاکر دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر دفتر میں 4 سے 5 افراد ہی کراچی کے ملازم نظر آتے ہیں۔ ملک کے سالانہ منصوبے 21-2020ء کے مطابق پاکستان میں دنیا کی نویں بڑی لیبر فورس ہے جو ہر سال بڑھتی جارہی ہے۔کراچی میں اس طرح لیبر فورس میں اضافہ ملک بھر سے زیادہ ہے۔ ملازمت یافتہ افراد کی تعداد21-2020ء میں 6 کروڑ 92 لاکھ ہوجائے گی جو 20-2019ء میں 6 کروڑ 21 لاکھ رتھی۔ تجارتی اور صنعتی لیبر فورس سروے 18-2017ء کے مطابق آئندہ مالی سال (21-2020ء) کے لیے بے روزگاری کی شرح 9.56 فیصد بتائی گئی ہے۔ پاکستان میں تعلیم یافتہ بے روزگار افراد خصوصاً ڈگری رکھنے والے بے روزگار افراد کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور کراچی میں یہ اضافہ بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’پاکستان میں خصوصی تکنیکی، پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت کے شعبے میں داخلے بھی کم ہیں، دونوں صنفوں میں مہارت کی تربیت کی اعلیٰ طلب کے باوجود کمی برقرار ہے۔ لیکن خاص طور پر کراچی میں ڈاکٹروں اور فنی تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے بھی بہت کم سرکاری ملازمتیں میسر ہیں۔ سندھ میں سرکاری ملازمتیں 5 لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہیں، جس میں سے 13ہزار بلدیہ کراچی، 24ہزار ڈی ایم سیز،3 ہزار ایل ڈی اے میں اور 4 ہزار کے ڈی اے میں ملازم ہیں، اس کے علاوہ محکمہ تعلیم اور صحت میں سندھ میں 48 فیصد سے زائد لوگ روزگار حاصل کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ سندھ میں بہت بڑی تعداد ایسے ملازمین کی بھی ہے جو مختلف سیاسی جماعتوں کے دفاتر میں اپنی ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں اور تنخواہ حکومتِ سندھ سے حاصل کررہے ہیں۔ لیکن اس میں کراچی کے ڈومیسائل پر بہت کم یا اگر یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ آٹے میں نمک سے بھی کم ہیں، اور وہ بھی صرف کراچی میں ہیں۔ یہی صورت حال وفاقی اداروں میں بھی پائی جاتی ہے۔ ایک مسئلہ کراچی والوں کے لیے ’’شناختی کارڈ‘‘ اور ’’ڈومیسائل‘‘ کا بھی ہے۔ اب کراچی والوں سے بھی اپنا ’’شناختی کارڈ‘‘ اور ’’ڈومیسائل‘‘ بنواتے وقت یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ وہ کراچی کب آئے؟ اور یہ سوال وہ لوگ کررہے ہوتے ہیں جن کے پاس کراچی کا ’’شناختی کارڈ‘‘ اور ’’ڈومیسائل‘‘ نہیں ہوتا۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی والوں کو سرکاری ملازمتوں کے حصول میں کس قدر دشواریوں کا سامنا ہوگا۔