حق دو کراچی جماعت اسلامی کے تحت ’’ری بلڈ کراچی کانفرنس ‘‘کا انعقاد

شہری امور،صنعت وتجارت،صحت،تعلیم اورآرٹس سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ ماہرین کی شرکت

کراچی دنیا کا منفرد اور پاکستان کا سب سے اہم شہر ہے۔ اس کی سیاسی، سماجی اور معاشی اہمیت مسلمہ ہے۔ قدرتی بندرگاہ ہونے کی حیثیت سے عالمی تجارتی سمندری راہداری پر واقع ہے۔ اس کی ایک اہمیت یہ ہے کہ یہ جنوبی ایشیا، وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے سنگم پر واقع ہے۔ لیکن اس کی یہ اہمیت اس کی بدقسمتی بن گئی اور اسے ایک منظم منصوبے کے تحت تباہ کیا گیا، اور یہ تباہی کوئی ایک یا دو سال میں نہیں ہوئی، کراچی کو تباہی کے دہانے تک لانے میں کئی سال لگے ہیں۔ پہلے کراچی امن کا شہر تھا، روشنیوں کا شہر تھا، علم کا شہر تھا، تحریکوں کا شہر ہونے کے ساتھ بہترین انفرا اسٹرکچر اور انتظامی لحاظ سے بہت بہتر شہر تھا، جو اب ماضی کی باتیں ہیں۔ ملک کو سب سے زیادہ وسائل دینے والا شہر اس وقت سب سے زیادہ مسائل کا شکار ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت اور تاریخ کا حصہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اگر کراچی کو کسی نے اپنا سمجھ کر اس کے لیے جدوجہد اور کوشش کی ہے اور اپنا تن، من، دھن لگایا ہے تو وہ صرف جماعت اسلامی ہے۔ کراچی کا کوئی بھی مسئلہ اور غم ہو، جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنوں نے ہمیشہ فرنٹ لائن کا کردار ادا کیا ہے، اور کسی جماعت نے کراچی کو ”اون“ کیا ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے۔ اس وقت رنگ و نسل سے بالاتر ہوکر کراچی کے شہریوں کی خدمت کی اعلیٰ مثالیں قائم کرتے ہوئے جماعت اسلامی کی ”حق دو کراچی“ مہم جاری ہے، اور اسی جدوجہد کے تسلسل میں جہاں جماعت اسلامی گھر گھر لوگوں کے پاس جاکر ان کے مسائل سن رہی ہے، کے الیکٹرک، واٹر بورڈ، کے ایم سی، اور سندھ حکومت کے خلاف دھرنا دے رہی ہے، مظاہرے کررہی ہے، وہیں وہ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے ماہرین کے ساتھ مشاورت، سیمینار، فورم، اور کانفرنسیں بھی کررہی ہے، اور مسائل کا حل بھی بتارہی ہے۔
اسی سلسلے میں جماعت اسلامی کے تحت ہفتہ 9 اکتوبر کے روز مقامی ہوٹل میں کراچی میں پانی، بجلی، ٹرانسپورٹ سمیت دیگر شہری مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے Rebuild karachi Conference کا انعقاد کیا گیا۔ یہ اپنی نوعیت کی اہم، منفرد اور بھرپور کانفرنس تھی جو چھے سے سات گھنٹے جاری رہی۔ اس میں صنعت و تجارت، صحت، تعلیم اور آرٹس سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ ماہرین موجود تھے، جن میں  سابق وفاقی وزیر جاوید جبار، معروف شہری منصوبہ ساز عارف حسن، سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی فہیم الزمان صدیقی، معروف ڈرامہ نویس انور مقصود، ایڈیٹر روزنامہ جسارت شاہ نواز فاروقی، معروف بزنس مین بشیر جان محمد، معروف صنعت کار جاوید بلوانی، آرٹس کونسل کے صدر احمدشاہ، ماہرِ اقتصادیات عاصم بشیر خان، ماہرِ ماحولیات ڈاکٹر ظفر فاطمی،ماہرِ تعلیم،وائس چانسلر ضیاء الدین یونیورسٹی ڈاکٹر عرفان حیدر، ماہرِ صحت ڈاکٹر اقبال آفریدی، ماہرِ ٹرانسپورٹ محمد توحید، ماہر آئی ٹی عمارہ مسعود، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے عادل گیلانی،سی پی ایل سی کے سابق چیف ناظم ایف حاجی، ماہر حقوقِ خواتین حمیرا قریشی، کھیلوں سے وابستہ معروف اینکر یحییٰ حسینی و دیگر شامل تھے۔ اس پروگرام کے تین سیشن تھے جس میں نظامت کے فرائض نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی، معروف اینکر ڈاکٹر بلند اقبال، الخدمت کے ڈائریکٹر نوید علی بیگ نے انجام دیے۔
پروگرام کے میزبان مقرر امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن تھے، جنہوں نے شرکاء کے سامنے کراچی کا مقدمہ اپنے مخصوص انداز میں دلائل کے ساتھ رکھا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ کراچی منی پاکستان اور معاشی حب ہے جو پورے ملک کو چلا رہا ہے، جماعت اسلامی کے تحت پورے پاکستان کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ ماہرین کو ری بلڈ کراچی کانفرنس میں کراچی کی تعمیرنو کے حوالے سے جمع کیا گیا ہے، تمام ہی ماہرین نے کراچی کو ازسرنو تعمیر کرنے کے لیے کراچی میں بااختیار شہری حکومت قائم کرنے کی تجویز پر اتفاق کیا ہے۔ آج کی ری بلڈ کراچی کانفرنس کا مقصد یہی ہے کہ آئینی طور پر کراچی میں بااختیار شہری حکومت قائم کی جائے، فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں۔ جب جعلی مردم شماری پر قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوسکتے ہیں تو بلدیاتی انتخابات کیوں نہیں کروائے جاتے؟ پی ٹی آئی نے پنجاب اور پیپلز پارٹی نے سندھ میں شہری انتخابات نہ کروانے پر اتفاق کیا ہوا ہے، بدقسمتی سے کراچی میں وسائل، نمائندگی اور شہر کو فتح کرنے کی جنگ ہے، کراچی کو کوئی بھی سیاسی پارٹی اون کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ بدترین حالات کے باوجود بھی کراچی پورے ملک کو 41 فیصد انکم ٹیکس دیتا ہے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے گرین بس منصوبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تین کروڑ سے زائد عوام کے لیے 100 بسوں کی خیرات نہیں بلکہ باقاعدہ ماس ٹرانزٹ کی ضرورت ہے، موجودہ حکومت نے کے سی آر کا دو بار افتتاح کرکے کراچی کے عوام کے ساتھ سنگین مذاق کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے دکھ ہوتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے بچے، اسکول کے طلبہ و طالبات بسوں کی چھتوں اور چنگ چی رکشوں پر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے شہر کراچی میں کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن پروجیکٹ قائم کیا جسے بعد میں آنے والی حکومتوں نے تباہ و برباد کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب 11ماہ میں لاہور میں،8ماہ میں راولپنڈی میں، اور پشاور میں میٹرو پروجیکٹ بن سکتا ہے تو پھر کراچی میں 6سال گزرنے کے باوجود گرین لائن پروجیکٹ کیوں مکمل نہیں کیا جاسکا؟ ڈھائی سال مسلم لیگ (ن) اور تین سال پی ٹی آئی کی حکومت کو گزرگئے، لیکن کراچی کے تین کروڑ شہریوں کے لیے گرین لائن کا منصوبہ آج تک مکمل نہیں کیا گیا۔ تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان کراچی کو فتح کرنے کی جنگ ہے، کسی جماعت کو بھی کراچی کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز کے مظالم اور بددیانتی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سیکڑوں کی تعداد میں کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹیز موجود ہیں جہاں کراچی کے عوام نے اپنی جمع پونجی لگادی، لیکن آج بلڈر مافیاوں نے انہیں بے گھر کردیا جن کی کہیں بھی شنوائی نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے عوام کے لیے پانی کی فراہمی دیرینہ مسئلہ بنا ہوا ہے، سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے K3 منصوبہ مکمل کرنے کے بعد K4 منصوبہ پیش کیا جو کہ 16سال گزرنے کے باوجود آج تک مکمل نہیں ہوسکا۔ تعلیم کے شعبے میں تین کروڑ سے زائد عوام کے لیے صرف دو سرکاری یونیورسٹیاں موجود ہیں،95فیصد شہری اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلوانے سے قاصر ہیں، میڈیکل کالجوں میں پی ایم ڈی سی مافیا مسلط کردیا گیا ہے جہاں بھاری بھاری فیسیں وصول کرکے ایم ڈی کیٹ کے ذریعے طلبہ کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جو شہر کو ازسرنو تعمیر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے عوام کے حقوق کے لیے تحریک چلارہی ہے، کراچی میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد جماعت اسلامی کی ’’حق دو کراچی تحریک‘‘ کا حصہ بنیں اور جماعت اسلامی کے بازو مضبوط کریں، تاکہ ایک بار پھر سے کراچی چمکتا دمکتا شہر بن سکے۔
اس اہم پروگرام میں شرکت کے لیے سابق سینیٹر جاوید جبار پی آئی اے کی فلائٹ لیٹ ہونے کی وجہ سے براہِ راست میریٹ ہوٹل پہنچے۔ انہوں نے اپنی گفتگو کے آغاز میں کہا کہ جماعت اسلامی واحد جمہوری جماعت ہے، حافظ نعیم الرحمٰن کو کراچی کے مسائل کے حل کی جدوجہد پر مبارک باد پیش کرتا ہوں، ہم ماضی کا کراچی تو واپس نہیں لاسکتے لیکن کراچی کے ماضی کو یاد کرتے ہوئے شہر کی ازسرنو تعمیر کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں ترمیم کے بغیر کراچی کی ترقی ممکن نہیں، المیہ یہ ہے کہ لوکل گورنمنٹ کے حوالے سے آئین میں ذکر ہی موجود نہیں ہے، جو لوگ کراچی کی ترقی نہیں چاہتے وہ کیسے آئین میں ترمیم کرسکتے ہیں! عین ممکن ہے کہ جدوجہد کے نتیجے میں کراچی میں لوکل گورنمنٹ قائم ہو اور مجبوراً آئین میں ترامیم کرکے کراچی کو اس کا حق دیا جاسکے۔
شہری منصوبہ بندی کے ماہر عارف حسن اسلام آباد میں اپنی مصروفیت کی وجہ سے شدید خواہش رکھنے کے باوجود شریک نہیں ہوسکے لیکن اُن کا ویڈیو پیغام سنایا گیا جس میں انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی اور میرے درمیان نظریاتی اختلافات رہے ہیں مگر اس کے باوجود میں ری بلڈ کراچی کانفرنس کو سپورٹ کرتا ہوں، جماعت اسلامی کی حق دو کراچی مہم کی حمایت کرتا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے حالات اتنے خراب ہوگئے ہیں اور حل کی صورت نظر نہیں آرہی۔ جتنے بھی لوگ ہیں چاہے ان میں کتنے ہی اختلافات ہوں، انہیں مل بیٹھنے کی ضرورت ہے، کراچی کی تعمیر وترقی کےلیے سب کو نکلنا ہوگا۔کراچی بہت دولت مند شہر ہے، رسمی اور غیر رسمی طور پر بہت ریونیو اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔تعلیمی اداروںکا اہم مرکز ہے،تجارتی مرکز ہے،میڈیا کا مرکز ہے، پاکستان کی پچیس فیصد جی ڈی پی کراچی جنریٹ کرتا ہے، اس لیے ایک طرح سے مختلف سیاسی جماعتوں کا کراچی کو قبضے میں رکھنا مقصد ہوگیا، اس تقسیم میں کراچی کو بہت نقصان پہنچا ہے اور اب بھی پہنچ رہا ہے۔ جو لوگ کراچی کی بھلائی چاہتے ہیں وہ اپنے نظریے کو فی الحال الگ رکھ کر اکٹھے ہوکر ایک نکتے پر کام کریں، اور وہ نکتہ یہ ہے کہ کراچی میں لوکل گورنمنٹ کا نظام قائم ہونا چاہیے۔ یہ بیوروکریٹک نظام ہم نے دیکھ لیا، یہ ڈیلیور نہیں کرسکتا۔ کرچی کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں اور ہمیں بااختیار لوکل گورنمنٹ چاہیے، نمائندہ لوکل گورنمنٹ چاہیے، اور کراچی کی منصوبہ بندی اور مینجمنٹ اس لوکل گورنمنٹ کے حوالے ہو، اور اس لوکل گورنمنٹ کا سربراہ کراچی کا ناظم یا میئر ہو جو براہِ راست منتخب ہوا کرے، بجائے اس کے کہ کونسلرز کے ذریعے منتخب کیا جائے، کیونکہ اس میں ہیرا پھیری کی گنجائش ہوتی ہے۔ کراچی کا جو انفرااسٹرکچر بن رہا ہے میں اس کا مخالف نہیں ہوں، مگر دیکھنا یہ ہے کہ یہ شہر کے مسائل حل کرسکے گا یا نہیں؟ یہ بی آرٹیز اور سرکلر ریلوے اگر پوری طرح مکمل بھی ہوجائیں تو جو کراچی کے 2.4ملین سفر (trips) ہیں اس کا یہ دس فیصد سے بھی زیادہ پورا نہیں کرسکتے، تو باقی لوگوں کا کیا ہوگا؟ گرین لائن کے کوریڈور پر رہنے والوں اور استعمال کرنے والوں کو بہت فائدہ ہوگا لیکن بقیہ لوگوں کا کیا ہوگا؟ سرکلر ریلوے چلے گی بھی یا نہیں؟ پھر مینج کون کرے گا؟ چلائے گا کون؟ مختصر یہ کہ ان کا کراچی کو خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ کراچی کو بسوں کی ضرورت ہے، جب تک وہ نہیں آئیں گی مسئلے حل نہیں ہوں گے، اور اگر آپ بسیں نہیں دے سکتے تو چنگ چی کی اجازت دے دیں تاکہ لوگوں کو کم از کم افورڈ ایبل سواری تو مل سکے، یہ جو ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل نے کراچی نمبر نکالا ہے اس میں کراچی کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے، میرا خیال ہے یہ شمارہ کراچی کے شہریوں کے لیے بہت اہم ہے، اور امید ہے اس میں جو معلومات ہیں اُن پر گفتگو رہے گی اور دوسرے شماروں میں وہ شامل کی جائے گی۔
کانفرنس سے معروف دانشور اور مدیر روزنامہ جسارت شاہنواز فاروقی نے خطاب، اور کانفرنس کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ کراچی صحافت کا مرکز ہے، قائداعظم نے فرمایا تھا کہ قومیں اور صحافت ایک ساتھ عروج و زوال کی جانب جاتی ہیں، قوموں کا عروج وزوال ان کے نظریہ حیات سے وابستہ ہوتا ہے۔ مغربی دنیا میں تصور نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی صحافت ان کے نظریہ حیات کے خلاف کام کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں 35 سال میں 92 ہزار لاشیں گر گئیں، ڈھائی تین لاکھ سے زیادہ لوگ زخمی ہوگئے، کھربوں کا بھتہ لے لیا گیا، شہر میں بوری بند لاشوں کا ’’کلچر‘‘ عام ہوگیا، لسانی تعصبات شہر کی روح کو کھا گئے۔ شہر پانی، ٹرانسپورٹ اور نکاسیِ آب کی سہولتوں سے محروم ہے۔ یہاں تک کہ شہر ’’کچرا کنڈی‘‘ بن کر رہ گیا ہے، مگر قومی صحافت میں کراچی گزشتہ 35 سال سے کہیں زیر بحث نہیں۔ ہمیں یاد ہے ممتاز صحافی ارشاد احمد حقانی سے برادرِ عزیز یحییٰ بن زکریا نے لاہور میں پوچھا کہ آپ ہر موضوع پر لکھتے ہیں مگر کراچی کے مسئلے پر نہیں لکھتے؟ یہ سن کر حقانی صاحب نے فرمایا ’’بھائی میں نے سنا ہے کہ الطاف حسین تنقید کرنے والوں کو مروا دیتا ہے۔‘‘
شاہنواز فاروقی نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان کی انگریزی صحافت یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے کہ قائداعظم ایک سیکولر لیڈر تھے اور پاکستان ایک سیکولر ریاست ہے، ہمارے ذرائع ابلاغ کا کوئی مشن نہیں، صحافت پہلے مشن تھی اب کاروبار ہے، دو قومی نظریے کے حوالے سے ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے حالانکہ قائداعظم نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہوگا۔ اب این جی اوز طے کرتی ہیں کہ ڈرامہ کس نوعیت کا ہوگا۔ ڈراموں کے اندر عورت کے صرف دو کردار دکھائے جارہے ہیں، عورت یا لبرل ہوگی یا وہ روتی ہوئی نظر آئے گی۔ صحافت کا نظریہ نہ ہونا ریاست کے خلاف بغاوت کے مترادف ہے۔ آپ نے کانفرنس ہال کے باہر کراچی کانفرنس سے متعلق گفتگو میں کہا کہ کراچی نے صرف جنرل ایوب کی آمریت کی مزاحمت نہیں کی بلکہ اس نے پوری قوت کے ساتھ بھٹو کی سول آمریت کو بھی چیلنج کیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے کراچی پر سب سے بڑا ظلم الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو مسلط کرکے کیا۔ مہاجروں کو سندھیوں اور پٹھانوں سے لڑانے کے لیے ایسے ایسے فتنے کھڑے کیے گئے جن کی مثال نہیں ملتی۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی کی آبادی تین کروڑ ہے، اور اس آبادی میں ایک کروڑ20لاکھ لوگ کچی آبادیوں میں رہتے ہیں۔ کراچی کو روزانہ ایک کروڑ 20 لاکھ گیلن پانی کی ضرورت ہے، مگر اسے بمشکل 65 لاکھ گیلن یومیہ پانی فراہم ہورہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے ہر بڑے شہر میں ٹریفک کے مسئلے کو سرکلر ریلوے، زیرزمین ریل کے نظام اور بڑی بسوں کے بڑے بیڑے کے ذریعے قابو میں لایا جارہا ہے، مگر کراچی میں نہ سرکلر ریلوے موجود ہے، نہ ریل کا زیرِ زمین نظام موجود ہے، یہاں تک کہ اب شہر میں بڑی بسوں کا بیڑا بھی موجود نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کو کسی قومی جماعت نے اون نہیں کیا اور نہ اون کرنے کے لیے تیار ہیں، جماعت اسلامی اپنی بساط کے مطابق اس کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔
معروف بزنس مین بشیر جان محمد نے کہا کہ آج معیشت کی صورت حال دگرگوں ہے، جو لوگ کاروبار کرنا چاہتے ہیں اُن کے پاس وسائل نہیں، حکومت نے کراچی کو نظرانداز کردیا ہے۔ جماعت اسلامی شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے جو کرسکتی ہے وہ سب کچھ کررہی ہے، جس پر وہ مبارک باد کی مستحق ہے۔ آج اصل مسئلہ گڈ گورننس کا ہے۔ لوگوں میں عزم بھی ہے، حوصلہ بھی اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ بھی۔
آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ نے کہا کہ ساحلی شہروں کا کلچر دوسرے شہروں سے مختلف ہوتا ہے۔ کراچی مختلف ثقافتوں پر مشتمل شہر ہے، کراچی کو سب سے زیادہ نقصان زبان اور کلچر کی بنیاد پر پہنچایا گیا اور اسے تباہ و برباد کیا گیا۔ کراچی میں روایتی و مذہبی اقدار ختم ہوچکی ہیں، اور ان کی جگہ زر نے لے لی ہے، اور اب زر باعثِ عزت بن گیا ہے۔
جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال آفریدی نے کانفرنس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ صحت ذہنی، جسمانی اور معاشرتی آسودگی کا نام ہے، پاکستان میں قدرتی آفات سے اتنے لوگ نہیں مرے جتنے معاشرتی مسائل سے متاثر ہوکر مرے ہیں۔ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ اداروں میں کرپشن کی وجہ سے ہی ہمارا صحت کا پورا نظام تباہ و برباد ہے۔ کراچی سمیت پاکستان بھر میں سب کو مل کر صحت کے مسائل کو حل کرنا ہوگا۔
معروف مزاح و ڈرامہ نگار انور مقصود نے کہا کہ جماعت اسلامی کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے جان ہتھیلی پہ لیے رہتی ہے۔ وزیراعظم پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانا چاہتے ہیں اور یہ کام صرف جماعت اسلامی کرسکتی ہے۔ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے سب کو نکلنا ہوگا۔
سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی فہیم الزماں صدیقی نے عظیم الشان کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ اربابِ اقتدار کراچی کو ایک شہر کی طرح ٹریٹ کریں، اس کو ایک اکائی کے طور پر دیکھیں۔ کراچی کو ایک شہر تسلیم کیا جانا چاہیے۔ یہ شہر اپنے ہی وسائل سے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کراچی جو اپنے آپ کرسکتا ہے اسے کرنے دیں۔ 2016ء میں 25.5 ارب روہے کراچی کے لیے پانی کی مد میں رکھے گئے۔ 16 ارب روپے خرچ کیے گئے لیکن آج تک کراچی کے لیے ایک بوند بھی پانی کا اضافہ نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی سرکلر ریلوے کا افتتاح شہریوں کے ساتھ دھوکا ہے۔ کراچی سرکلر ریلوے کا جو اصل روٹ ہے اس پر تو ٹرین چل ہی نہیں سکتی۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے عادل گیلانی نے کہا کہ کراچی جب سے صوبے کے ماتحت ہوا ہے، فراہمی آب کا نظام درہم برہم ہوگیا ہے، K4 کا منصوبہ سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے پیش کیا جو کہ آج تک مکمل نہ ہوسکا، کراچی میں فراہمی آب کے منصوبوں پر صرف نعمت اللہ خان کے دور میں کام ہوا۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں واپڈا سے بڑا کوئی کرپٹ ادارہ نہیں ہے، پانی اور بجلی کے بحران کا ذمہ دار یہی ادارہ ہے۔
ماہر اقتصادیات اور شہری امور پر گہری نظر رکھنے والے عاصم بشیر خان نے ثابت کیا اور بتایا کہ کیسے مردم شماری ایک فراڈ کے سوا کچھ نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ تین سال گزرنے کے بعد 2017ء کی مردم شماری کی منظوری دی گئی ہے، جب فروری 2018ء میں مردم شماری کے عبوری نتائج شائع ہوئے تو ان نتائج کے تجزیے سے مردم شماری میں کئی خامیاں سامنے آئیں جس سے مردم شماری کے نتائج متنازع ہوگئے، تمام سیاسی جماعتوں نے مردم شماری خاص طور پر کراچی کی مردم شماری پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور عدالتِ عظمیٰ سے بھی رجوع کیا۔ مردم شماری کے حوالے سے ایک جامع تجزیے کی اشد ضرورت ہے۔ مردم شماری کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد بلاکس کے تحقیقی جائزے پر پہلا تجزیہ میں نے پیش کیا جسے خاصی پذیرائی ملی۔ اس تجزیے کے مطابق کراچی اور اندرون سندھ میں غیر معمولی آبادی والے بہت سے بلاکس ہیں۔ ایک گھر میں 175افراد ہیں۔ کہیں بے شمار بلاکس میں صفر گھرانے اور صفر آبادی ہے جب کہ وہاں اچھی خاصی تعداد میں ووٹرز ہیں۔ آرام باغ، صدر ٹاؤن اور منوڑہ کی آبادی میں منفی نمو ظاہر کی گئی ہے۔ پورے پاکستان میں بالعموم اور سندھ میں بالخصوص شہری آبادی بڑھی ہے، جب کہ کراچی میں دیہی آبادی کی شرح نمو شہری آبادی کی شرح نمو سے زیادہ ہے۔عاصم بشیر خان نے اگلی مردم شماری کے حوالے سے اس امر پر زور دیا کہ نئی مردم شماری میں حیثیت یعنی مستقل پتے والی رہائش کا ڈیٹا بھی پبلک کیا جائے تا کہ نئی مردم شماری میں کراچی کے حوالے سے دھاندلی کی گنجائش باقی نہ رہے۔ میانمر جیسے ملک کے آئین میں مقامی بلدیاتی حکومتوں کا باب ہے، جب کہ پاکستان کے آئین میں فقط دو آرٹیکل ہیں جن میں اٹھارہویں ترمیم میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
جماعت اسلامی کراچی کی یہ ری بلڈ کراچی کانفرنس شہر کراچی کے مسائل کے حل کی کوششوں میں سے ایک اہم ایونٹ تھا۔ یہ کانفرنس یقیناً کراچی کے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوگی۔ اس کانفرنس کا اعلامیہ پیر کو امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے نائب امراء کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی، مسلم پرویز، راجا عارف سلطان، سیکریٹری کراچی منعم ظفر خان، امیر ضلع قائدین و صدر پبلک ایڈ کمیٹی جماعت اسلامی سیف الدین ایڈووکیٹ اور ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات صہیب احمد کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں جاری کیا، اور اعلامیے کے ساتھ اپنا آئندہ کا لائحہ عمل بتاتے ہوئے کہا کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا فوری انعقاد کروایا جائے اور بااختیار شہری حکومت قائم کی جائے، میئر کا انتخاب براہِ راست ووٹ کے ذریعے کیا جائے، کوٹہ سسٹم فوری طور پر ختم کیا جائے اور میرٹ کی بنیاد پر کراچی کے نوجوانوں کو نوکریاں دی جائیں، حکومت فوری طور پر کے فور منصوبے پر خرچ ہونے والے اربوں روپے کا فرانزک آڈٹ کرائے، حکومت ہنگامی بنیادوں پر کراچی کی سڑکوں، بجلی، پانی اور سیوریج کے نظام کی بحالی کے لیے اقدامات کرے، کراچی کی صنعت اور تجارت کے فروغ کے لیے سہولتیں فراہم کرے، انفرااسٹرکچر بالخصوص سڑکیں فوری طور پر تعمیر کی جائیں۔ کراچی کو جب تک اس کا حق نہیں ملے گا، ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔